پنڈت آنند نرائن ملا اردو کے ان بزرگ ترین ادیبوں میں ہیں جنہوں نے شعر کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ وہ اردو ادب میں بہ حیثیت شاعر ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں گزشتہ نصف صدی کے دوران انھوں نے اردو کے شعری سرمایے میں جو گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ ان کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ لیکن وہ اگر ’’جوئے شیر‘‘ نہ لکھتے اور ’’میری حدیث عمر گریزاں ‘‘ تخلیق نہ کرتے تب بھی ان کا یہ جملہ کہ ’’میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘، انھوں نے اردو دنیا میں حیات دوام بخشنے کے لیے کافی تھی۔ تقریباً ربع صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا یہ جملہ زبان رد خاص و عام ہے، ملا صاحب یہی بات اگر شعر میں کہتے تو سمجھا جاتا کہ وہ غلو یا حسن بیان سے کام لے رہے ہیں۔ بہت سے اہل نظر اسے خود کلامی پر محمول کرتے۔ ممکن ہے بعض ناقدان شعرا سے محض داخلی اور تاثراتی اظہار کا نام دے کر اس سے صرف نظر کر جاتے۔ لیکن نثر کے پیرایے میں کہی گئی بہ ظاہر یہ سادہ سی بات بہتوں کے دلوں کو چھو گئی۔ یہ ایک ایسی فکر تھی جس نے کتنوں کا چونکا دیا۔ اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا واقعی زبان کو عقیدے پر ترجیح دی جا سکتی ہے ممکن ہے مہ ایک مخصوص طرز فکر رکھنے والے طبقے کو ملا صاحب کے اس بیان سے اتفاق نہ ہوا اور وہ عقیدے ہی کو سب کچھ سمجھتا ہو، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملا صاحب کا یہ بیان اردو زبان سے ان کی گہری عقیدت، سچی محبت اور والہانہ لگاؤ کا غماز ہے۔ ملا صاحب کو اردو سے بے پناہ عشق ہے۔ وہ اردو کو ٹوٹ کر چاہنے والوں میں ہیں خواہ اس کے لیے انھیں مذہب اور عقیدے کو ہی کیوں نہ قربان کر دینا پڑے۔
مجھے ملا صاحب کی اس نُدرت فکر نے اس حد تک متاثر کیا کہ میں ان کی شخصیت، مزاج اور فکر کو بہت قریب سے مطالعہ کرنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ اگر چہ ملا صاحب کی شخصیت کی جھلک اور ان کے مزاج اور فکر کی عکاسی ان کی شاعری میں پائی جاتی ہے لیکن شاعری طبعاً تخلیقی ہونے کی وجہ سے بیش تر داخلی کیفیات اور جمالیاتی تجربات تک محدود رہتی ہے اور خارجی دنیا کے معاملات سے اس کا ساتھ بہت کم رہتا ہے۔ خارجی علل و عوامل کو سمجھنے کا نثر بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ ملا صاحب ایک کامیاب شاعر ہونے کے علاوہ ایک جہاں دیدہ انسان اور دانشور بھی ہیں انھوں نے اپنے بعض خیالات کی ترویج کے لیے نثر کا سہارا لیا ہے ملا صاحب کا نثری سرمایہ بہت قلیل ہے جو چند مضامین، خطبات اور ریڈیائی تقاریر پر مشتمل ہے۔ لیکن ان میں گہری لسانی فکر، دانشورانہ سوجھ بوجھ اور سماجی و تہذیبی شعور کی جھلک پائی جاتی ہے۔ بعض مضامین میں گہری تنقیدی بصیرت کا دیکھنے کو ملتی ہے۔
ملا صاحب کی نثر نگاری کا آغاز ایک ریڈیائی ٹاک سے ہوتا ہے جس کے محرک نیاز فتحپوری تھے۔ اس ٹاک کا عنوان تھا ’’غالب کے کلام میں تصوف‘‘ اور یہ ۱۹۳۸ء میں آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے نشر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان کی ریڈیائی ٹاکس کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور ۱۹۷۵ء تک بقول ملا صاحب ان کی ڈھائی تین سو ٹاکس نشر ہوئیں لیکن افسوس کہ ان میں سے بیشتر ٹاکس ضائع ہو گئیں اور جو محفوظ رہ گئیں وہ ان کے مجموعے ’’کچھ نثر میں بھی‘‘ میں شامل ہیں لیکن ان کی تعداد صرف دس ہے ریڈیائی ٹاکس کے بعد ملا صاحب کے خطبات کا نمبر آتا ہے، جن دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات، انجمن ترقی اردو (ہند) کی اردو کانفرنس اور جامعہ اردو، علی گڑھ کے جلسہ تقسیم اسناد کے صدارتی خطبات کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ملا صاحب کی ریڈیائی ٹاکس ہوں یا ان کے خطبات و مضامین یہ زیادہ تر قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں۔ کیوں کہ پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے ملا صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ پہلے سے انھیں لکھتے، صاف کرتے، ان پر نظر ثانی کرتے یا ان کی نقول کرتے، ملا صاحب بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں۔ اپنے مخصوص مزاج یا محض عدیم الفرصتی کی بنا پر انھوں نے نثر کی طرف وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ متقاضی تھی۔ انھیں خود بھی اس کا اعتراف ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’دراصل میں نے نثر نگاری کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں کی۔ شاید غیر شعوری طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے یہ صلاحیت مجھ میں نہیں۔ شاعری میں تو روایات کی بیساکھی مل جاتی ہے، آہنگ کے سہارے کام آئے ہیں لیکن نثر لکھنے والے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ساری مسافت اپنے ہی بل بوتے پر طے کرنا پڑتی ہے۔ نثر نگاری (سطحی افسانہ نویسی اور انشائے لطیف کی اور بات ہے) اچھی خاصی علمی واقفیت چاہتی ہے‘‘
ملا صاحب کے نثری افکار کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱-دانشورانہ افکار، ۲-انتقادی افکار اور ۳-لسانی افکار۔ دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات ملا صاحب کے دانشورانہ افکار کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ ان خطبات کے مطالعے سے ملا صاحب کی اپنی فکر کا پتا چلتا ہے وہ کسی موضوع پر اظہار خیال کے لیے موٹی موٹی کتابوں کی ’’چھان بین‘‘ اور ’’وسیع مطالعے‘‘ کی ضرورت پر زیادہ زور نہیں دیتے اور نہ اس کے لے وہ ’’علم کی گہرائیوں میں ڈوبنے‘‘ کے قائل ہیں بلکہ وہ اپنے ’’احساس اور شعور کی تربیت‘‘ سے ایک اپنا انداز فکر پیدا کرتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ملا صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’میں وسیع مطالعہ کا قائل ہوں لیکن اس سے کہیں زیادہ اس بات کا قائل ہوں کہ انسان خود ان موضوعات پر سوچے اور غور کرے جن کے بارے میں وہ دوسروں کے ذہن سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
دہلی یونیورسٹی کے نظام خطبات کے تحت ’’عالمی نظام میں انسان کے بنیادی حقوق‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے۔ انھوں نے اپنی جس عمیق فکر کا ثبوت دیا ہے اس سے نہ صرف موضوع پر ان کی مضبوط گرفت کا پتا چلتا ہے بلکہ دنیا کی تاریخ و تہذیب اور سیاسی نظام کی طرف ان کے دانشورانہ رویے کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور آزادی، مساوات اور اخوت کے بارے میں ان کی اپنی رائے کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس ضمن میں ان کا یہ فکر پارہ ملاحظہ ہو:
’’واقعہ یہ ہے کہ انسان نے جینا تو پیدائش کے روز ہی سیکھ لیا تھا، کیوں کہ جہد بقا اس کی فطرت کا تقاضا تھا، لیکن دوسروں کو جینے دینے کا گر وہ آج تک نہ سیکھ سکا۔ اور زندگی کے سارے غم اور پریشانیاں، سارے جبر اور خوں ریزیاں، ساری محرومیاں اور ناانصافیوں اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ‘‘۔
آج جب کہ تخریبی قوتیں ہر طرف اپنا سر اٹھا رہی ہیں اور تعمیری قوتوں کو پنپنے سے روک رہی ہیں ملا صاحب کا ذیل کا اقتباس کتنا معنی خیز بن جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ان کی نثر کا ایک خوب صورت نمونہ بھی ہے، ملاحظہ ہو:
’’تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ہی اندازسے اپنا کام نہیں کرتیں۔ بجلی زلزلے، آندھی، طوفان ایک صہیب شور اور گرج لے کر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر وقتی ہوتے ہیں۔ زندگی یا وجدان کی لائی ہوئی آفات کے آگے بڑھتی ہے اور یہ تعمیر ی قوتوں سے شکست کھا کر غائب ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے تعمیری قوتیں اتنی خاموشی سے کام کرتی ہیں کہ لوگوں کی نظر کافی دیر تک ان کی طرف نہیں جاتی۔ رات کس طرح دن بن جاتی ہے موسم کس طرح بدل جاتا ہے، کلی کس طرح پھول بن جاتی ہے، فضا کی نمی کس طرح شبنم کا قطرہ بن کر پھول کی پنکھڑی پر ستارہ جڑ دیتی ہے۔ یہ باتیں بجلی اور طوفان سے کہیں زیادہ اہم اور دیر پا رہیں ‘‘۔
اس قسم کے نمونے ان کی نثر میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔
ملا صاحب کے نثری افکار میں ان کے انتقادی افکار کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ملا صاحب اگر چہ پیشہ ور نقاد نہیں لیکن غالب، سرشار، چکبست، اثر و سراج نیز سردار جعفری کے مجموعہ کلام ’’پیراہن شرر‘‘ پران کی جو تحریریں ملتی ہیں۔ ان کی تنقیدی بصیرت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ملا صاحب کی تنقیدی تحریروں کو تاثراتی تنقید کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کسی فن پارے کو پڑھ کر جو تاثرات وہ اپنے ذہن پر مرقسم کرتے ہیں اور بعدہٗ قاری تک منتقل کرتے ہیں اس میں ان کے وجدان کو کافی دخل ہوتا ہے۔ اگر ملا صاحب کی تنقیدی تحریروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ ان کے جذباتی رد عمل کا نتیجہ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ملا صاحب کے تنقیدی رویے کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ محض فن پارے کی تحسین سے کام نہیں لیتے بلکہ ان کی خامیوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں صرف ایک اقتباس نقل کرنا کافی ہو گا۔ سرشارؔ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’لیکن فنی اعتبار سے ’’فسانہ آزاد‘‘ میں بے شمار خامیاں ہیں۔ افسانے کا نہ تو قصہ ہی کوئی خاص دلکش ہے اور نہ اس میں وہ سلسلہ اور ربط ہے جو ایک افسانے کے لیے لازمہ ہے۔ بہت سے باب ایسے ہیں جن میں محض فضول اور غیر متعلق باتوں کا ذکر ہے۔ کردار نگاری میں بھی نفسیات کے اعتبار سے سنگین خامیاں ہیں۔ سرشارؔ نہ تو مفکر تھے اور نہ ماہر نفسیات۔ انھوں نے انسان کے دل و دماغ کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی شوخی اور ظرافت سے روتوں کو تو ہنساتے تھے لیکن نرم دل سے نرم دل کو رلا نہ سکتے تھے۔ ان کے افسانوں میں درد…بالک معدوم ہے‘‘
ملا صاحب کی نثری تحریروں کا ایک خاص عنصر ان کی لسانی فکر ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے لسانی افکار کو ان کے دوسرے تمام نثری افکار پر اولیت حاصل ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اردو سے ان کے والہانہ عشق کا ذکر شروع میں آ چکا ہے، اور یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ملا صاحب کے لیے زبان مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آج سے ۲۷سال قبل انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیر اہتمام منعقدہ اردو کانفرنس کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ ’’میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ ان کے اس اعلان نے اردو تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی اور محبان اردو کے دلوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا۔
اردو کے بارے میں ملا صاحب کا موقف بالکل واضح ہے وہ اردو کو اسی ملک کی زبان سمجھتے ہیں ’’جو تقسیم ہند کے بعد بھی کروڑوں شہریوں کی مادری زبان ہے‘‘۔ ان کے نزدیک اردو قومی یکجہتی کا ایک نشان اور باہمی میل جول کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ ملا صاحب کی مادری زبان اردو ہے۔ وہ اردو لکھنا پڑھنا اور بولنا اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ انھوں ایک جگہ لکھا ہے:
’’اردو کا سوال میرے لیے اپنی مادری زبان کا سوال ہے جب تک اس دیس میں جمہوری حکومت قائم ہے اور میری دعا ہے کہ روز بروز یہ مضبوط ہو اس وقت تک مجھے آئین نے کچھ بنیادی حقوق دیے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں اپنی مادری زبان پڑھوں، لکھوں اور بولوں اور اسی زبان میں اپنے جذبات اور افکار کو پیش کروں ‘‘۔
ملا صاحب نے مادری زبان کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ ان کے خیال میں انسان اپنی مادری زبان ہی میں اپنے دل و دماغ کی نقاب کشائی تخلیقی حسن کے ساتھ صحیح اور پورے طور پر کر سکتا ہے… کوئی انسان جس سے اس کی مادری زبان چھین لی جائے وہ اپنا پورا قد نہیں پاتا اور وہ اس پودے کی مانند ہوتا ہے جو ناساز گار آب و ہوا کی وجہ سے ٹھٹھ کر رہ جائے‘‘۔ ان کے نزدیک مادری زبان محض ایک زبان ہی نہیں ہوئی۔ یہ صدیوں کی تاریخ، تہذیب، معاشرت اور انداز فکر کا ملاجلا نتیجہ ہوتی ہے‘‘۔ اور جہاں تک اردو کا تعلق ہے، یہ ملا صاحب کی ذات کا آئینہ ہے ان کی میراث ہے، ان کی تاریخ ہے اور ان کی زندگی ہے۔
ملا صاحب کی لسانی فکر کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ اردو تحریک کے ایک فعال قلم کار ہی نہیں بلکہ ایک نڈر سپاہی بھی ہیں۔ ملا صاحب نے ہر جگہ اور ہر موقع پر اردو کی وکالت بڑی بے باکی کی ساتھ کی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں انھوں نے جہاں حکومت کے جبر اور عوام کے تعصب کا ذکر کیا ہے وہیں حامیان اردو کے خون جگر کی کمی کا بھی شکوہ کیا ہے۔
ملا صاحب نے ایک طویل عرصے تک اردو تحریک کی علم برادری کی ہے وہ انجمن ترقی اردو ہند، کے صدر رہے۔ انجمن کی اتر پردیش کی ریاستی شاخ کے بھی صدر رہے جامعہ اردو علی گڑھ کے نائب امیر جامعہ رہے۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اردو کو اس کے جائز حقوق مل جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے تین قسم کے محاذ کے قیام پر زور دیا ہے۔ یعنی عوامی محاذ، تنظیم محاذ اور آئینی محاذ، عوامی محاذ کا مقصد کو محبان اردو کے نظریے کی صحت اور ان کی حق تلفی کی اہمیت کا اہمیت کا احساس دلانا تھا نیز اردو کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں یا جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی تھیں ان کی تردید کرنا تھا۔ اردو کے حقوق کے مطالبے کے لیے ملا صاحب نے تنظیمی محاذ کے قیام پر شدت کے ساتھ زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محبان اردو کو جوش اور جذبات سے کام لینے کے بجائے ایک منظم تحریک کی شکل میں اردو کے حقوق کا مطالبہ کرنا کرنا چاہیے۔ آئینی محاذ کے قیام کا مقصد مرکزی حکومت نیز ریاستی حکومتوں کی توجہ اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کی طرف برابر دلاتے رہنا تھا۔ ملا صاحب نے آج سے ۳۰ سال قبل جن تین محاذوں کے قیام کی اہمیت پر زور دیا تھا ان کی ضرورت آج بھی ہے کیوں کہ اردو کے مسائل جہاں تھے وہیں ہیں، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں سے اردو رخصت ہوتی جا رہی ہے اور نئی نئی نسل اردو سے بالکل نابلد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج اردو کے لیے ایک اور محاذ کھولا جائے اور وہ تعلیمی محاذ ہو۔ ملا صاحب نے تعلیمی سطح پر اردو کے نفاذ کی دشواریوں کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ انھوں نے اکتوبر ۱۹۶۳ء میں ریاستی لسانی کنونشن اتر پردیش کے انعقاد کے موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں اردو کے ساتھ حکومت اتر پردیش کے غیر منصفانہ رویے کی سخت تنقید کی تھی اور یہ بانگ دہل پر اعلان کیا تھا کہ ’’سہ لسانی فارمولے میں جو تیسری زبان انتخاب کرنے کا طریقہ رکھا گیا ہے وہ اردو کے لیے سم قاتل سے کم نہیں ‘‘۔
۱۹۶۱ء میں جب تمام ریاستوں کے وزرائے اعلا و مرکزی حکومت کے وزیر کی میٹنگ میں طلبہ کا تین زبانیں پڑھانے کا فیصلہ ہوا تھا تو فیصلہ ہوا تھا تو ملا صاحب نے اس فارمولہ نے کا دل سے خیر مقدم کیا تھا کیوں کہ ہر اس طالب علم کو جس کی مادری زبان اردو تھی یا جو اردو پڑھنا پسند کرتا تھا یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اردو بحیثیت تیسری زبان کے پڑھے۔ لیکن اتر پردیش کی حکومت نے سہ لسانی فارمولہ کے الفاظ کے کھلے مفہوم کے خلاف جو تاویل پیش کی تھی اس سے ملا صاحب کو سخت تکلیف پہنچی تھی وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ’’ہماری ریاستی حکومت نہ آئین کی پروا کرتی ہے اور نہ انصاف کی اور لسانی تعصب کا شکار ہو چکی ہے‘‘۔ حکومت اتر پردیش نے سہ لسانی فارمولہ کی دفعہ (ب) کے تحت کی زبانوں میں سنسکرت کو شامل کر کے اردو کے ساتھ سخت ناانصافی کی تھی۔ ملا صاحب کے خیال میں سنسکرت چوں کہ ایک کلاسیکی زبان ہے اس لیے ملک کی دوسری زندہ زبانوں میں سنسکرت کا شمار کرنا اصولاً تھا۔ اور یہ محض اس لیے کیا گیا تھا کہ ’’اس کو اردو پڑھانے کا ایک لغو بہانہ مل جائے‘‘۔
ملا صاحب کی لسانی تحریروں کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ لسانی مسائل پر ان کی نظر بہت گہری تھی اور وہ دو ٹوک بات کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے خواہ وہ حاکم وقت کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ملا صاحب نے گزشتہ نصف صدی کے دوران جس جرأت و بے باکی اور جس مجاہدانہ عزم کے ساتھ اردو کی لڑائی لڑی ہے اس کی مثال اردو تحریک کی تاریخ میں بہت کم ملے گی۔