۶۱۔ ولیم کوپر
یہ نظم ایک انگریز شاعر ولیم کوپر سے ماخوذ ہے۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
۶۲۔ بلبل کی اُداسی
پرندے اندھیرا ہونے سے پہلے اپنے گھونسلوں کی طرف چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ روشنی کے بغیر اُڑ نہیں سکتے۔ غور کریں کہ بلبل تنہا ہے۔ باقی پرندے گھونسلے کی طرف جا چکے ہیں۔ بلبل سے غفلت ہوئی ہے۔ اُس نے وقت گزرنے کا اندازہ نہیں رکھا۔
۶۳۔ پریشانی کی وجہ
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
۶۴۔ پرندہ
آپ نے باغ میں مکڑا، مکھی، گلہری، بکری اور گائے دیکھی تھی مگر یہ پہلا پرندہ ہے جو اِس باغ میں نظر آیا ہے۔ اس سے پہلے صرف چراگاہ میں پرندوں کی آوازیں درختوں سے سنائی دی تھیں اور وہ بھی دن کے وقت۔
بلبل کی پکار در اصل آپ کی وہی دُعا ہے جس میں آپ نے اندھیرا دُور ہونے کی تمنا کی تھی۔
۶۵۔ رُوح کی اندھیری رات
آپ کو یاد ہو گا کہ اِس نظم کا تعلق رُوح کی حکمت سے ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ بلبل کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور اُسے کہاں جانا ہے۔ یہ آپ کی رُوح ہے جو رہنمائی کے لیے ترس رہی ہے۔
۶۵۔ دُنیا کی زندگی
مکھی، بکری، گلہری، سب ویسی ہی ہیں جیسا انہیں خدا نے بنایا تھا۔ صرف انسان کو یہ اختیار ملا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بھی بنائے اور اپنے مطابق دُنیا کو بھی سنوارے۔ اِس کوشش میں وہ اپنے آپ کو بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔
جب تک وہ کامیاب نہیں ہوتا اندھیرا بھی دُور نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ اندھیری رات ہے جس میں بلبل آہ و زاری کر رہا ہے۔
۶۶۔ جگنو
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
۶۷۔ شمع جیسی زندگی
غور کریں کہ جگنو ’’ پاس ہی سے بولا‘‘ ہے۔ روشنی آپ کے دل سے آئی ہے۔ جگنو بھی آپ ہی ہیں۔ آپ نے دُعا مانگی تھی کہ آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو جائے۔ وہ دُعا قبول ہوئی۔
۶۸۔ روشنی کیسے ہوئی؟
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
۶۹۔ جگنو کا وطن
رات کے وقت باغ میں جگنو کی روشنی دیکھیں تو لگتا ہے جیسے چاند کے لباس کا تُکمہ گرا ہو یا پھر رات کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا ہو۔ چاند آپ کے دل و دماغ کی اُس روشنی کی نشانی ہے جو تلاش کے سفر میں آپ کو راستہ دکھاتی ہے۔ رات اُس اندھیرے کی نشانی ہے جو دنیا میں روح پر چھایا ہوا ہے۔
اِس اندھیرے میں جگنو کی روشنی آپ کے دل و دماغ میں ہے مگر یہ اِس دنیا سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آئی ہے۔
۷۰۔ اِمکانات
مشعل تو خدا نے پہلے ہی آپ کو دی تھی کیونکہ آپ کے دل میں اُس کی روشنی تھی۔ اب اُس نے آپ کو چمکا کے دِیا بنا دیا ہے کہ شمع کی طرح آپ کی روشنی بھی ظاہر ہو جائے۔
در اصل روح کی حکمت یہی ہے کہ چیزوں میں موجود اِمکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اِس نظم میں گویا آپ اپنے آپ میں موجود اِس امکان کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ بھی روشنی بن سکتے ہیں جس کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہو جائے۔ آپ کے اندر بھی اور دنیا میں بھی!
یہ خود بخود نہیں ہو گا۔ اس کے لیے کوشش کرنی پڑے گی اور اس کا طریقہ اگلے شعر میں بتایا گیا ہے۔
۷۱۔ کوشش
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دُوسروں کے
۷۲۔ دُوسروں کے کام آنا
باغ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اپنا آپ ہر طرف پھیلا ہوا دکھائی دے گا۔ مکھی بھی آپ ہیں، گلہری اور بکری بھی، بلبل بھی اور جگنو بھی۔ پھر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو سارا باغ اپنے اندر دکھائی دے گا۔
جب ہم دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں تو در اصل اپنے ساتھ بھلائی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُس کی وجہ سے ہم خود بہتر انسان بنتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی دنیا ہیں اور باہر پھیلی ہوئی بہت بڑی دنیا میں بھی وہی چیزیں ہیں جو ہمارے اندر ہیں۔
بلبل آپ خود بھی ہیں اور باہر کی دنیا بھی ہے۔ آپ کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہونا ہے۔
۷۳۔ وطن کی زینت
یہ ہمارے دیکھنے کا انداز ہے کہ ہم پھول میں خوشبو دیکھتے ہیں اور جگنو میں روشنی ورنہ کیا خبر کہ جو ہمیں روشنی نظر آتی ہے وہ در اصل جگنو کی خوشبو ہو اور جو ہمیں خوشبو محسوس ہوتی ہے وہ پھول کی روشنی ہو!
رات کے اندھیرے میں جگنو کے دم سے اُس کے وطن کی زینت اُسی طرح زینت ہو رہی ہے جس طرح پھول سے چمن کی زینت ہوتی ہے۔
۷۴۔ عمل
یہ پانچویں نظم تھی اور اس کا موضوع عمل تھا۔ سیار گاہ میں پانچواں سیارہ مشتری بھی عمل کا مقام تھا۔
۷۵۔ جنت بھی، جہنم بھی
انسان تو مٹی سے بنا ہے۔ یہ شیطان کی طرح آگ سے بنا ہے نہ فرشتوں کی طرح روشنی سے۔ یہ اپنے عمل سے اپنی زندگی اور اپنی دنیا کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی!