۔۔۔۔۔۔۵دسمبر کو صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی ہم دونوں تیارہوکرتہجد کے وقت حرم شریف پہنچ گئے۔میں نے رکن یمانی کی سیدھ میں، مطاف سے باہر دیدارِ کعبہ کے لئے ایک نیا زاویہ تلاش کیا۔ یہاں سے رکن یمانی کے علاوہ بائیں طرف سے حطیم کاایک حصہ، رکن شامی اوردائیں طرف سے حجراسود کے کونے کے ساتھ مقام ابراہیم کی نامکمل جھلک یہ مناظر میرے سامنے تھے۔ میں نے اندازہ کیاکہ اگر میں چھ سات صفیں اسی سیدھ میں پیچھے چلاجاتاتو مقام ابراہیم پوری طرح سامنے ہوتااور حطیم بھی تھوڑا سا اور نمایاں ہوجاتا۔ رات وحدت اور کثرت کاجو خیال شدت کے ساتھ آیاتھا اب کچھ اور سمجھ میں آنے لگا تھا۔ فاصلے سے کثرت اور قربت سے وحدت آشکارہوتی ہے:
کثرت کی زبانی ہیں
کعبہ کی دیواریں
وحدت۔ کی۔ نشانی ہیں
۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کی چاروں دیواریں، ان سے منسلک تبرّکات، حتیٰ کہ خانہ کعبہ کی چھت اور بنیادیں بھی کثرت کی مظہر ہیں لیکن یہ کثرت ایک وحدت کی ترجمان ہے خانہ کعبہ کی وحدت مجھے یاد آیاایک بار میں خانہ کعبہ کی ایک دیوار سے لپٹاہواتھا۔ اس قربت کو وصال محبوب جیسی سمجھ لیں تو یہ وحدت کا جلوہ تھاکہ اُس لمحے میں میری اپنی نفی ہوگئی تھی۔میرے لئے دیوار کے اسی حصے میں سارا کعبہ سمٹ آیاتھا اور میرا وجود رہاہی نہیں تھا۔ قربت کے نتیجہ میں یہ وحدت کاایک نقشہ تھا۔ لیکن جیسے ہی میں دیوار سے الگ ہواقربت کی جگہ فاصلہ ابھرا۔ میراوجود ظاہر ہوا،اور پھر کثرت ظاہرہوتی گئی۔ میں اپنی دانست میں کعبہ سے لپٹاہوا تھا لیکن وہ تو کعبہ کی صرف ایک طرف کی دیوارکاایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ پھر باقی تین دیواریں، حطیم، میزاب الرحمت، ملتزم، حجر اسود، رکن عراقی، رکن شامی، رکن یمانی، مطاف گویا تھوڑے فاصلے سے کعبہ کے گرد چکر لگاکردیکھیں تو جلووں کی کثرت ہی کثرت ہے۔ لیکن یہ کثرت، وحدت کی علمبردار ہے
تیری وحدت سے سمجھ پائے تجھے
اور کثرت میں۔ نظارا کر لیا
۔۔۔۔۔نماز ظہر میں نے ”باب الفتح“ والے رستے کی قریب کی ایک صف میں اداکی۔ نماز عصر حرم شریف کے اندرونی حصہ میں اداکی، نمازِ مغرب بھی اسی طرح اداکی۔ نماز مغرب کے بعد میں اور مبارکہ پھر مسجد عائشہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ وہاں حسبِ معمول غسل کیا، نفل پڑھے، عمرہ کی نیت کی اور لبیک الہم لبیک کا ورد کرتے ہوئے حرم شریف واپس پہنچے۔ ہمارے پہنچنے تک نماز عشاءکے لئے جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ ہمیں حرم شریف کے باہر بے شمار لوگوں کی بنائی ہوئی صفوں میں جگہ ملی۔ آخری رکعت میں شمولیت سے باجماعت نماز میں شرکت بھی ہوگئی۔ فرض اداکرنے کے بعد ہم نے سیدھا حطیم کا رخ کیا۔وہاں سنتّیں اور نوافل اداکئے اورپھر طواف کعبہ سے عمرہ کاآغاز کیا۔ ویسے تو عمرہ کی نیت کرکے تلبیہ کے ورد سے ہی عمرہ کا آغاز ہوجاتاہے لیکن مجھے ہمیشہ ایسے لگتارہاہے کہ جب تک طواف شروع نہ ہو، عمرہ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ مبارکہ نے اس بار بہت سارے عزیز و اقارب کے لئے خصوصی دعاؤں کے طورپر یہ عمرہ کیاجبکہ میرایہ عمرہ اپنے داداجی کی طرف سے تھا۔
۔۔۔۔۔ میرے پردادا حضرت میاں میر محمد گڑھی اختیارخاں(خانپور) کے ایک اہم پیرتھے۔ ”آبائی پیشہ“ یہی سلسلہ تھا۔ میرے داداجی میاں ا للہ رکھا اس لحاظ سے انقلابی آدمی تھے کہ انہوں نے معصوم اور بے خبر لوگوں کے سامنے روحانیت کاڈھونگ رچاکر ان کے جذبوں کا استحصال کرنے کی بجائے یہ سلسلہ ہی ترک کردیا۔ گڑھی کو چھوڑ کر خانپور چلے آئے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی دادا جی فوت ہو گئے تھے۔ میں نے ان کی تصویر بھی نہیں دیکھی۔ لیکن میرے لہو میں اور میری سانسوں میں ان کی ایک تصویر ہے جو میری ہی طرح ہے میں اپنے ننھالی رشتہ داروں میں بعض ایسے کزنزکو جانتاہوں جنہیں اپنے دادا کی محبت اور شفقت ملی لیکن وہ اس بے بہادولت کی قدرنہ کرسکے۔اپنے داداجی سے میری محبت بے شک میرے اندر سے پھوٹی تھی لیکن اس کا بیج تو اباجی نے بویاتھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اپنے بزرگوں کی اس محبت کومیں اپنی اولاد کے اندر بھی اُگاسکاہوں۔ ”اللہ کو اسی طرح یاد کرو جیسے اپنے باپ دادوں کو یادکرتے ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ“ پر جو لوگ اپنے باپ دادوں تک کو بھلابیٹھے ہوں وہ اللہ کو بھی کیا یادکریں گے میں اللہ کو یاد کروں نہ کروں پر اپنے باپ دادوں کو ہمیشہ یاد رکھتاہوں۔ بہرحال آج کاعمرہ اس لحاظ سے پُر لطف رہاکہ میں ایک طرف اپنے داداجی کے لئے دعائیں کررہاتھا تو دوسری طرف اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہوئے خود دادابن جانے کی تمناکررہاتھا دادابننے کی دعانے مجھے جیسے جوان کردیاتھا۔ مجھے لگتاہے اندر ہی اندرمبارکہ پر بھی اس دعاکا اثر ہواہوگا کیونکہ ابھی تک ہر عمرہ کے بعد ہم ہمیشہ گرتے پڑتے اپنے کمرہ تک جایاکرتے تھے لیکن آج ہم دونوں ہی تازہ دَم تھے۔سو ہوٹل کی طرف جانے کی بجائے مارکیٹ کی طرف چلے گئے۔آج کی خریداری ملبوسات اور چھوٹے موٹے تحائف تک محدود رہی جس سے مجھے تھوڑا سا اطمینان ہوا۔ دراصل پچھلے دو تین دن کی شاپنگ کے انداز سے میں گھبراگیاتھا اور سوچنے لگاتھاکہ مردہ کے مقام پر قینچی لے کر نہ کھڑاہونا پڑجائے آج کی شاپنگ پر خداکاشکر اور مبارکہ کاشکریہ اداکرتے ہوئے میں نے واپس چلنے کی بات کی اور پھر ہم اپنے کمرہ میں آگئے۔ کھانا کھایا اور پھر خود پر خداکے بے شمار فضل و احسانات کا تذکر ہ کرتے کرتے ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
٭٭٭