غریب باپ کو جس قدر دقت اس معاملہ میں اٹھانی پڑی تمام عمر کو کافی تھی۔ جب سے وہ جوان ہوا باپ کو شادی کی فکر ہوئی اور اپنے قبیلہ میں کئی لڑکیوں کی خواست گاری اُس نے کی۔ لیکن شیخ چلی کی باریک بینی اور موشگافی سے سب نشانے ہیچ گئے۔ جب کہیں بات چیت ہوئی بھی کوئی امر طے نہ ہونے پایا تھا کہ آپ سُسرال پہنچ جاتے اور اپنا استحقاق زوجیت اضمار قبل الذکر کی طرح جتانے لگتے۔ ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیش کی جاتی کہ ہماری منسوبہ جو عنقریب ہماری بی بی ہو گی، کیوں ابھی سے ہمارے ساتھ نہیں بھیج دی جاتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دانش مند شخص کو آج کل کے یورپ کے طریقۂ شادی کا موجد ہونا قدرت نے پہلے ہی مقدر کر دیا تھا یعنی اس درخواست سے اس کی غرض یہی تھی کہ جس عورت سے تمام عمر کا سابقہ ہے جو دنیا کی گاڑی کو میرے ساتھ کندھا دے کے ہمیشہ کھینچنے والی ہے، اُس کے اخلاق، عادات، تعلیم، تمیز، سلیقہ وغیرہ پر مجھے پہلے ہی سے مطلع ہو جانے کا ضرور حق ہے۔ دیکھ لو یہی طریقہ آج تمام دنیا میں جاری ہے اور نئی روشنی کے چشم و چراغ ایشیائی نوجوان جو یورپی تہذیب سے کامیاب ہو رہے ہیں اس طریقہ کو جاری کرنے میں کس قدر ساعی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شیخ چلی کی یہ جلد بازی سراسر حکمت اور دور اندیشی پر مبنی تھی۔ مگر واے ناکامی اس وقت کی جہالت اور خاندانی رسموں نے اس کی بات پیش نہ جانے دی اور تابڑتوڑ ناکامیوں کا شکار بننا پڑا۔ شیخ چلی جب بہت تنگ آ گیا سرے سے شادی کا انکار ہی کر دیا اور باپ سے صاف کہہ دیا کہ یوں صبر نہیں کر سکتا جب تک میری منسوبہ میرے گھر نہ آ جائے، شادی کیسی۔ اس ضد نے شیخ کے باپ کو بہت پریشان کیا۔ ایک تو یونہی کوئی لڑکی اُس کے جوڑ کی اپنے کفو میں نہ تھی، دوسرے اس حکیمانہ طلب نے سب کو چونکا دیا اور شیخ چلی کے انکار سے پہلے ہی سب جگہ سے انکار ہو گیا۔
باپ تھک کے بیٹھ رہا اور مجنون عامری کے باپ کی طرح بیٹے کی سرشوریوں نے اس کا دل پاش پاش کر دیا۔ اب شیخ کو ہمت بندھی بلکہ ہٹ آ پڑی کہ ہم خود ہی اپنی بی بی ڈھونڈھ لائیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے قصبہ سے نکلا اور سیدھا بداؤں پہنچا۔ جن صاحبزادہ کا قصہ عالم میں مشہور ہے کہ ان کے باپ کے دوست دروازہ پر آئے تو صاحبزادے لونڈی کے گود میں باہر نکلے۔ ماشاء اللہ اس وقت سترہ برس کا سن تھا۔ آنے والے نے برخوردار سے پوچھا میاں کیا پڑھتے تو گردن پھرا کے فرمایا بوا بتا دے “ٹل ہو اللہ”۔ وہ صاحبزادے اب اچھے خاصے جوان ہو چکے تھے۔ شیخ کو راستہ میں مل گئے اور بہت آؤ بھگت سے اپنے گھر لے گئے۔ شیخ کی مہمانی میں انھوں نے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ مگر شیخ کو ذرا لطف نہ آیا۔ وہ دلہن کی فکر میں ایسا غلطاں پیچاں تھا کہ کھانا بھی اچھا نہ معلوم ہوا۔ میزبان نے سبب دریافت کیا تو شیخ نے اپنا قصہ اور قصد بیان کیا۔ حرف مطلب سنتے ہی میزبان رو پڑا اور شیخ کو لپٹ گیا۔ بات یہ کہ اسی آفت میں وہ بھی مبتلا تھے۔ شیخ نے ان کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ فوراً اس خیال سے کہ کہیں ایسا نہ ہو میں جو فکر اپنے لیے کروں، وہی اس کی سمجھ میں بھی آ جائے اور میری مطلوبہ کو چھین لے۔ اسی وقت میزبان سے بہت بدمزگی کے ساتھ رخصت ہوئے اور بازار میں ایک دکان خالی دیکھ کر رات کی رات پڑ رہے۔ صبح کو محلوں کی سیر کو نکلے۔ آدمی سجیلے نکیلے تھے۔ ماوراء النہری خون کی گلکاریاں چہرہ سے ظاہر تھیں۔ گلی میں جو دیکھتا حیرت میں آجاتا۔ چال ڈھال بھی زمانے سے نرالی تھی۔ کہیں تو قدم پھونک پھونک کے دھرتے، کہیں پینترے بدلتے ہوئے چلتے۔ اکثر الٹے پاؤں چلنے کے کرتب دکھاتے۔ غرض کہ جس موقع پر جیسی ضرورت ہوتی وہ دانش مند اپنے سے ویسا ہی ٹھاٹ بدل لیتا۔
اس طرح آوارہ پھرتے پھرتے وہ ایک بڑے محل کے دروازے پر پہنچے اور بے کھٹکے اندر جانے کی ضرورت سے انھوں نے ڈیوڑھی میں قدم رکھا۔ دربانوں کے روکنے سے وہ کیا رک سکتا تھا۔ لیکن اس بے وجہ بد تہذیبی سے متاثر ہو کر جو دربان نے انکے ساتھ کی تھی وہیں ٹھہر گئے اور دیر تک غصہ میں روتے رہے۔ دو ایک آدمی اور جمع ہو گئے تب شیخ نے اپنے حالات خاص بیان کیے اور صاحب خانہ سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا۔
وہ دولت سرا جناب شریعت پناہ قاضی القضاۃ کی تھی۔ اس زمانے میں قاضی بدر الہدیٰ اس مسند پر جلوہ فرما تھے۔ سپاہیوں نے قاضی صاحب کو اطلاع دی۔ انھوں نے نہایت اخلاق سے شیخ کو اندر بلایا اور معمولی مراسم کے بعد استفسار حال کیا۔ شیخ نے اپنی شادی کی درخواست کو بہت ہی مؤدب طریقہ سے پیش کیا اور بعد بہت سی رد و قدح کے قاضی صاحب نے اپنی خانہ زاد لونڈی کے ساتھ عقد قرار دیا۔ شیخ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ جاریہ زادی ہے۔ عقد پر راضی ہو گئے۔ مگر معمولی ہلا پتی میں قبل نکاح کے اپنی منسوبہ سے ملنے کی درخواست پیش کی۔
قاضی صاحب نے بہت سمجھایا لیکن ایسا تجربہ کار آدمی کب ماننے والا تھا۔ ناچار قاضی کے شرعی انکار پر شیخ ناراض ہو کر چلا آیا اور بہت حیران ہوا کہ شادی کیسے ہو اور کہاں سے ڈھونڈھ کے بی بی لانا چاہیے۔ اس فکر میں وہ دو روز تک برابر ایک غیر نافذہ کوچہ کی موڑ پر بیٹھا رہا اور عہد کر لیا کہ جب تک اپنی مرضی کی بیوی نہ ڈھونڈھ لوں گا کھانا پینا حرام ہے۔ سچ کہا ہے “جویندہ یابندہ”۔
تیسرے روز سویرے ایک سڑان نوجوان عورت خوب گدبدی ایک خاص مستانہ ادا سے اُدھر سے نکلی اور شیخ کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھا ہی تھا کہ شیخ بول اٹھا ؏
پہچانتی ہو وہ طبلہ والا
دل کا میلان یا قدرتی سامان کچھ سمجھنے کی بات نہیں۔ آنکھ چار ہوتے ہی دونوں میں وہ میل جول ہوا کہ برسوں کے شیدائیوں اور چاہنے والوں میں کیا ہوگا۔ شیخ کی اداشناسی کا امتحان ایسے ہی وقت پر منحصر تھا۔ اس نے سر سے پانوں تک ایک بار اسے دیکھا اور گویا تمام اندرونی بیرونی خوبیوں کی سلیس لکھی ہوئی کتاب پڑھ لی جس کے مطالب و معانی میں غور کرنے کی اُسے ذرا بھی مشکل نہ پڑی۔ اسی وقت نظر نے سب کچھ تاڑ لیا کہ ہو نہ ہو یہی میرے لیے راحت اور باعث آسائش ہو۔ غرض کہ دونوں نظر باز ایک دوسرے کو تاڑ گئے اور ایسے بے تکلف ملے کہ پھر جدا نہ ہونے کی قسم کھا لی۔ شیخ کوئی معمولی آدمی تھا نہیں، آناً فاناً اس کے انتخاب اور پسند کا چرچہ ہو گیا اور ہر طرف سے لوگ امنڈ آئے۔ غریب الدیار آدمی اُس پر اتنا بڑا ذہین عقیل۔ سب نے اس کے ساتھ خالص ہمدردی کی۔ اور اس برخوردار جوڑے کو ایک مرفہ الحال آدمی اپنے ہمراہ لے گیا۔ دوسرے ہی دن قاضی صاحب نے آ کے نکاح پڑھ دیا ؏
ہو گئی دھوم دھام سے شادی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...