(Last Updated On: )
پلٹ کے خود وقت فیصلہ اپنا کر رہا ہے
تمہارا ہونا ہمارے ہونے سے ڈر رہا ہے
زقندیں بھرتی جوانی چڑھنے لگی ہے زینے
بڑھاپا ریلینگ پکڑے نیچے اُتر رہا ہے
عجیب تنہائی ہے تنفس کے زیر و بم میں
سکوت اندھے کنویں میں آوازیں بھر رہا ہے
میں جھیل آیا ہوں تجربہ گاہ کی صعوبت
ابھی ترا فن مشاہدے سے گزر رہا ہے
لبوں کی دم توڑتی ہوئی مسکراہٹوں سے
خمیدہ پلکوں کا آخری گوشہ تر رہا ہے
ہر ایک حصے کی اپنی دیواریں اُٹھ چکی ہیں
مکان، آنگن، کہاں وہ پہلے سا گھر رہا ہے
ضعیف دلشادؔ نظمی ہو تو گئے ہو لیکن
پرانی کچھ عادتوں کا پھر بھی اثر رہا ہے