’’پلنگ اتنا چوڑا تھا کہ اُس پر جو کھیس بچھا تھا وہ چار کھیسوں کے برابر تھا۔ اس کے وسط میں پلَشّ کے ایک گاؤ تکیے کے سہارے بڑے ملک صاحب کے جسم کا ڈھیر پڑا تھا۔ ‘‘۱۷
افسانے کا متکلم دراصل قاسمی صاحب کے نظریات کا نمائندہ ہے جو اپنے ایک ہم جماعت جاگیردار دوست کے ساتھ دعوت پر اُس کا گاؤں دیکھنے آیا ہوا ہے۔ وہ گاؤں کی روزمرہ زندگی اور جاگیردارانہ سماج کے جبر کو دیکھتا اور کڑھتا ہی نہیں مذمت بھی کرتا ہے مگر اُس کا دوست بظاہر تعلیم یافتہ مگر اپنی حاکمانہ ذہنیت کے بدولت اِن تمام معمولات کو فطری تقاضا اور جائزہ تصور کرتا ہے۔ متکلم اِس جبر کی صورتحال سے پہلی بار اُس وقت متعارف ہوتا ہے جب بڑے ملک صاحب کی جانب سے ایک شریف النفس اور وضع دار جولاہے سکین (محمدمسکین)پر تشدّد دیکھتا ہے:
’’دھم دھم کی آواز سے ہم چونکے۔ دیکھا تو دو آدمیوں نے ایک اور آدمی کو پکڑ کر بڑے ملک صاحب کے سامنے جھکا رکھا تھا اور ملک صاحب اُس کی پیٹھ پر مکّوں کا مینہ برسا رہے تھے اور ساتھ ہی ایسی گالیاں بھی دیتے جاتے تھے جو صرف ملک صاحب ہی کسی کو دے سکتے ہیں۔ ‘‘۱۸
افسانے کا متکلم اِس موقع پر خاموش نہیں رہ سکتا اور بظاہر تعلیم یافتہ دوست سے یہ کہتا ہے:
’’خدا بخش تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم پڑھے لکھے آدمی ہو۔ ‘‘۱۹
لیکن خدا بخش کا جواب بھی دیکھیے جو اُس ذہنی رویے کا عکاس ہے جو اپنی توقیر اور نچلے طبقے کی تذلیل اپنا وراثتی حق تصور کرتا ہے:’’کیا کریں یار اِن لوگوں سے یہی سلوک کیا جائے تو سیدھے رہتے ہیں۔ ‘‘۲۰
یہ وہی ذہنیت ہے جو اِس معاشرے کے دیہی سماج ہی کا حصہ نہیں بلکہ بہت سے پڑھے لکھے دانشوروں کے یہاں بھی موجودہ جو اِس ملک کی نیم خواندہ (کہ جسے ایک شعوری کاوش سے نیم خواندہ رکھا گیا) اور اپنے حقوق سے ناواقف عوام کو جمہوری اقدار اور اظہار کی آزادی دینے کی بجائے طاقت کے بل بوتے پر کچل دینے کا خواہاں رہتا ہے۔
قاسمی صاحب کے اِسی افسانے ہی نہیں بیشتر کہانیوں میں طبقاتی برتری کا یہ احساس اِس حد تک غالب دکھائی دیتا ہے کہ یہ طبقہ نچلے طبقے کے افراد کو اُن کا پورا نام دینا بھی اپنی توہین خیال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے میں ’خدا بخش‘، ’بخشو ‘ اور ’محمد مسکین ‘، ’سکین‘ میں بدل گیا ہے لیکن افسانے کا متکلم ایک با شعور اور مزاحمت کرنے والا نوجوان ہے جو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہتا۔ اُس کا یہی سماجی شعور ہے جو اُسے بڑے ملک کے مضبوط پایوں والے پلنگ کو دیکھ کر یہ تبصرہ کرنے پر مجبور کرتا ہے:
’’میں سمجھا یہ پائے نہیں بلکہ پلنگ کے ہر کونے کے نیچے ایک سکین کھڑا ہے۔۔۔ اور خدا بخش! میں نے یہ بھی سوچاہے کہ اگر یہ چاروں سکین پلنگ کے چاروں گوشوں کے نیچے سے نکل جائیں تو پلنگ زمین پرا رہے۔ ‘‘۲۱
افسانے کے اختتام میں متکلم کے غصے پر بھی اُس کے جاگیردار دوست کی مسکراہٹ اپنی جگہ معنی خیز ہے:
’’لعنت ! میں نے کہا تمہاری ذہنیت تو آدم خوروں کی سی ہے۔ مگر خدا بخش ہنستا رہا اور میری طرف یوں دیکھتا رہا جیسے میں بیمار ہوں اور وہ میری دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘۲۲
مزاحمت اور ایک نئی صبحِ اُمید کا خواب قاسمی صاحب کے افسانے ’’جب بادل اُمڈے‘‘ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو زمانی اعتبار سے قیامِ پاکستان کے فوری بعد کی ایسی کہانی ہے جہاں مصنف جاگیردارانہ سماج میں مزاحمت کو ایک انقلاب کی صورت دیکھ رہا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جو اُس نظام کو تہہ و بالا کرنے والا اور کسان کو روایتی تابع فرمانی اور مظلومیت سے نکال کر مقابلہ کرنے اور حوصلہ دینے کا متمنی ہے۔ اگرچہ قاسمی صاحب کے اِس ترقی پسندانہ آدرش نے کہانی کو غیر فطری بھی بنا دیا ہے تاہم یہ اُس تاریخی شعور کو ضرور واضح کر رہا ہے جو اُس کردار کی ارتقائی شکل کی خبر دیتا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے اِس طبقے نے جس انداز امیں ثمرات سمیٹے اور پھر قیامِ پاکستان کے بعدجس انداز میں مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہو کر اِس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کہلوائے وہ سب اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے جسے اِس مختصر سی کہانی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چوپال میں بیٹھے اِس جاگیردار کی کچھ اور جھلکیاں بھی دیکھیے جو نہ صرف اس کردار بلکہ ہماری قومی تاریخ کو بھی واضح کر رہی ہیں :
’’صاحب! اب کے جاگیردار کی گرج میں طنز تھا۔ صاحب کی ماں کا۔۔۔ صاحب جاچکا جہاں سے آیا تھا۔ اب یہ صاحب واب یہاں نہیں چلے گا۔ اب ہم پاکستان میں ہیں۔ اپنا ملک، اپنا راج، اپنا سکّہ۔ یہاں اب صاحب کی جگہ ملک اور چودھری اور میاں کا حکم چلتا ہے۔ ‘‘۲۳
انگریز کی غلامی اور چاپلوسی کے بعد حاصل کی جانے والی وسیع جاگیروں کے بعد اُسے دی جانے والی یہ گالی اور طاقت کے سرچشمے کی یہ نئی صورتیں ملک، چودھری یا میاں دراصل پاکستان میں طبقاتی معاشرے کی بنیاد کی نشانیاں ہیں۔ اِس طرح یہ طبقہ یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ وہ پہلے بھی سرکار کا حصہ تھا اور اب بھی ہے:
’’خضر حیات کے زمانے میں ہم نے لیگیوں کے بیسیوں جھنڈے پھاڑے تو سرکار نے ہمیں ایک مربع زمین دے دی۔ اب لیگ کا راج ہے تو مربع اُسی طرح ہمارے پاس رہا اور لیگی اپنے پرانے گھروں میں پرانے جھنڈوں پر سے گرد جھاڑتے رہ گئے اور کھانڈ کا ڈپو بھی ہمیں مل گیا۔ سرکار جب بھی ہماری تھی اب بھی ہماری ہے۔ ‘‘۲۴
یہ ہماری قومی تاریخ کی وہ تلخ حقیقت ہے جس نے آج تک عام آدمی کو ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنایا ہوا ہے۔ تاہم اس افسانے میں اس نظام سے مفاہمت اور اِسے قبول کرنے کی بجائے مزاحمت دکھائی دیتی ہے۔ اس مہاجر کسان کے یہ جملے نہایت اہم اور آج بھی اتنے ہی معنی خیز ہیں جتنے کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد تھے:
’’مجھے معلوم نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے اندر آپ ایسے پھوڑے چھپائے بیٹھا ہے، اور جاگیردار جی اگر پاکستان کو زندہ رہنا ہے تو اُسے یہ پھوڑے کاٹ کر پھینکنا پڑیں گے۔ ‘‘۲۵
یہ ہے وہ نقطۂ نظر جو قاسمی صاحب جاگیردارانہ نظام کے متعلق رکھتے ہیں۔ وہ اِسے ایسا ہی ناسور سمجھتے ہیں جسے کاٹ کر پھینک دینا ہی پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے۔
قاسمی صاحب کے شہرہ آفاق افسانے ’’الحمد للہ‘‘ جو بنیادی طور پر تو معاشی جکڑ بندیوں میں بندھے مولوی ابوالبرکات کے سمجھوتوں اور وضع داری کی کہانی ہے لیکن ساتھ ساتھ چودھری فتح داد کی صورت جاگیردار کے ایک مختلف تصور کی نشاندہی بھی کر رہی ہے۔ میری تحقیق کے مطابق یہ قاسمی صاحب کا واحد افسانہ ہے جہاں جاگیردار کا تصور ایک حاجت روا اور اخلاقی تقاضوں کو نبھانے والا ہے۔ افسانے کا مجموعی مزاج قاسمی صاحب کے ترقی پسندانہ نظریات کی توسیعی شکل ہے جہاں نظامِ معیشت ہی اقدار کو متعین کرتا ہے۔ چودھری فتح داد کے کردار میں یہ صفات ممکن ہے قاسمی صاحب نے افسانے کے المناک انجام کو قرین قیاس بنانے کے لئے مجتمع کر دی ہوں تاہم یہ بھی اُن کا کمالِ فن ہے کہ کہیں بھی یہ کردار ایک مثالی یا مصنوعی کردار نہیں بنا۔ کہانی کا تانا بانا اور درپیش واقعات اِس کردار کو ایک حقیقی کردار کے طور پر قاری سے متعارف کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ چودھری کے اِس کردار کی چند جھلکیاں دیکھیں :
’’چودھری فتح داد نے گرم چادر کے نیچے سے ایک پوٹلی نکالی۔ یہ میری بیٹی کو دیجیے گا۔ ‘‘۲۶
’’دُعاؤں کے بعد مولوی ابل کا ذہن چودھری فتح داد کی طرف منتقل ہو جاتا۔ آج کتنے برسوں سے اس خدا ترس انسان نے اِس گھر میں ہر شام کو وظیفہ بھجوایا تھا۔ اور کتنی پابندی سے ہر فصل پر مولوی ابل کو پوشاک پہنائی تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی طرح ڈھنڈورا نہیں پیٹا تھا۔ ‘‘۲۷
احمد ندیم قاسمی کے بعد شوکت صدیقی بھی ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے ہاں جاگیردار کے کردار کی مختلف جہتیں سامنے آتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد:
’’وہ (شوکت صدیقی) ہماری اجتماعی زندگی کا بے رحم مفسر، مبصر اور ناقد ہے۔ اُس نے جہاں نچلے طبقے پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کہانی لکھی ہے وہاں متوسط طبقے سے اُبھرنے والی ترقی پسند قیادت کے تضادات کو بھی نمایاں کیا، اُس نے جہاں سرکاری کرندوں کی لوٹ کھسوٹ کا نقشہ کھینچا ہے، وہاں انسان دوست دانشوروں کی سہولت پسندی کے نتائج پر بھی نظر رکھی ہے۔ ‘‘۲۸
اِسی طرح ڈاکٹر افضال بٹ بھی شوکت صدیقی کے سماجی شعور کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
’’انہوں نے زندگی کے سماجی شعور کو ادب کی فنی اور فکری اقدار سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک ایسے سماجی ڈھانچے کا نقشہ ہمارے سامنے لاتے ہیں جو ظلم، استحصال، عدم مساوات جیسی سماجی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ ‘‘۲۹
شوکت صدیقی کے دو افسانوں ’’چاند کا داغ‘‘ اور ’’خان بہادر‘‘ میں جاگیردار کے کردار کا سماجی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’چاند کا داغ‘‘ ایک ظالم اور عیاش جاگیر دار مردان شاہ کی کہانی ہے۔ کہانی اگرچہ ڈرامائی اور نیم فلمی انداز میں بیان ہوئی ہے تاہم جاگیر دار کے متعلق شوکت صدیقی کے واضح تصور کو ضرور بیان کر رہی ہے جو اِس کردار کی صفّات کے ذریعے ایک ظالم، سفّاک اور عیاش شخص کے طور پر ہم سے متعارف ہو رہا ہے۔
’’مردان شاہ کے نوکروں چاکروں نے گوٹھ کے ایک ایک گھر کی تلاشی لی۔ جن لوگوں سے اللہ اُبھایا کا میل جول تھا، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ جوتے لگائے گئے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر اُلٹا لٹکایا گیا۔ ‘‘۳۰
تشدد اور ظلم کے منتقل ہوتے حکم ناموں کے اِن مناظر کے بعد مردان شاہ کے ہاتھوں براہِ راست تشدد کا نشانہ بنتی ایک بے بس عورت کا احوال بھی پڑھیے:
’’اُس نے بائیں ہاتھ سے نوری کے بال پکڑے اور زور سے اس طرح جھٹکا دیا کہ اُس کا چہرہ سامنےا گیا۔ وہ زخمی پرندے کی طرح دونوں کارندوں کی گرفت میں پھڑ پھڑانے لگی۔ مردان شاہ نے لوہے کا دہکتا ہوا سرخ سرخ ٹکڑا نوری کے رخسار پر زور سے جما دیا۔۔۔ اِس دفعہ مردان شاہ نے نوری کو اس طرح داغا کہ لوہے کا دہکتا ہوا سرخ سرخ ٹکڑا اس کے نرم اُجلے سینے کے بیچوں بیچ جم گیا۔ ‘‘۳۱
یہ وہ چند جھلکیاں تھیں جو جاگیردارانہ سماج کے جبر کو واضح کر رہی تھیں کہ کیسے یہ نظام عام آدمی سے اُس کے حق کا شعور ہی نہیں مزاحمت کے امکانات بھی چھین لینا چاہتا ہے۔
اِسی طرح ’’خان بہادر‘‘ انگریز عہد کے مراعات یافتہ اُس جاگیر دار کی کہانی ہے جو تقسیم کے بعد اپنے ملک میں تو حاکمیت کے احساس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے لیکن انگریز سرمایہ کاروں سے اب بھی اپنی زمین پر کھاد فیکٹری کے منصوبے کی منظوری کی خاطر ایک خاندانی چاپلوس اور غلام دکھائی دیتا ہے۔ اِس سرمایہ دار کو کھانے پر بلواتا ہے اور اپنے نجی نوادرات سے متعارف کرواتا ہے اور انگریز حکومت کے لئے اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ عہدِ غلامی کے اِن حقیقی اور فرضی قصّوں سے وہ پھر سے مفاد حاصل کرنے کا خواہاں ہے اور اِس معاشرے میں عزت اور اصولوں کی عظیم روایتوں کے اِس امین کے پاس باپ دادا کے ایسے ایسے قصّے موجود ہیں جو عزتِ نفس کی پامالی اور چاپلوسی کی حیران کن مثالیں ہیں :
’’بالکل خون کے دھبّے ہیں۔ خان بہادر نے سینہ تان کر مطلع کیا۔ اِس تلوار سے میرے دادا نے۱۸۵۷ء کے غدر میں بارہ سو سے زائد باغیوں کو ہلاک کیا تھا۔ ‘‘۳۲
اور پھر داد کی وفا داری پر یقین پختہ کرنے کے لئے کہتا ہے:
’’اس خط میں انہوں نے کمپنی بہادر کی حکومت سے اپنی وفاداری کے عہد کے ساتھ ساتھ یہ یقین دلایا تھا کہ باغی ان کی لاش سے گزر کر ہی قلعے میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ‘‘۳۳
پنجاب کے دیہی سماج اور جاگیردارانہ نظام کی عکاسی کے حوالے سے ایک اور اہم افسانہ نگار غلام الثقلین نقوی بھی ہیں۔ وہ خود دیہات میں پیدا ہوئے سو اُن کی کہانیوں میں دیہی معاشرت کا گہرا مشاہدہ دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے یہاں گاؤں کا ایک مثالی تصور موجود ہے اور اِس کی پیش کش میں وہ جزئیات نگاری کا خصوصی خیال رکھتے ہیں جس میں بسا اوقات بے جا طوالت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر اے۔ بی۔ اشرف:
’’دراصل نقوی کے یہاں ایک ضابطۂ اخلاق ہے۔ احترامِ آدمیت کو وہ آدمیت کی معراج سمجھتے ہیں۔ کسی طبقے کا انسان ہو نقوی اُس سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘۳۴
یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ افسانہ نگار انسانی جبلت کو بعینہٖ حقیقت نگاری کے قالب میں ڈھال کر قاری تک پہنچاتا ہے یا اُسے ایک اخلاقی نظام کا پابند بنا کر پیش کرتا ہے۔ خیر و شر کی ازلی قوتوں کے تصادم میں افسانہ نگار ایک غیر جانب دار مبصر کی حیثیت سے اپنا تبصرہ نشر کرتا ہے یا کسی ایک فریق کی دانستا ً برتری کو ثابت کرتا ہے؟ تاہم نقوی کے یہاں صورتِ حال خود کو خیر کے کرداروں کے ساتھ جوڑنے کی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق:
’’غلام الثقلین نقوی کے افسانوں میں ایسے لمحے بار بار آتے ہیں جب شر کی قوتیں نیکی پر غالب آنے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور اُس وقت جب خدا کی خدائی لرزہ بر اندام ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو ایک ظاہری جذبہ انسان کے باطن سے اُبھرتا ہے اور صورتِ واقعہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ ‘‘۳۵
غلام الثقلین نقوی کے جن افسانوں میں جاگیر دار کے کردار کی مختلف صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں اُن میں گل بانو، شیرا نمبر دار، ڈاچی والیا موڑ مہاروے، ماسی حاجن اور چوہا چور اور تیکھا موڑ اہم ہیں۔ اُن کے یہاں وسیع و عریض رقبے کے مالک جاگیر دار کے کردار کی بجائے بالعموم چھوٹے زمینداروں کے کردار نمایاں ہیں۔
’’شیرا نمبردار‘‘ اُن کا ایک نمائندہ افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار شیرا اوسط درجے کا زمیندار ہے۔ شیرے کے کردار میں پنجابی جاگیردار کی روایتی رعونت دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ شیرے کی جوانی کا جو نقشہ مصنف نے کھینچا ہے وہاں بھی وہ ایک پُر اطمینان اور وضع دار شخص دکھائی دیتا ہے جس میں خوب صورتی اور جاذبیت کے باوجود رعونت نہیں ہے: