معروف شاعرہ، افسانہ نگار اور سفر نامہ نگار ۔ تسنیم کوثر ۔ (لاہور)
ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک افسانوی مجموعہ حرف حرف کہانی مجھے بذریعہ ڈاک اس شہر دل پذیر سے موصول ہوا جو مجھے بہت پسندہے اور میں اس شہر کو دیکھے بنااس شہر میں گھومے پھرے بغیر ہی اس کی ریشم گلی اور پکا قلعو کے حصار میں ہوئی۔ قدیم تہذیب و تمدن والے شہر مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد، سر سبز و شاداب حیدر آباد ایک قدیم شہر ہے۔ از منہ کہنہ میں یہ وادی سندھ کا نیرون کوٹ تھا یہ کلہوڑوں اور تالپوروں کا شہر ہے۔ صوفیوں اور درویشیوں کا شہر ہے۔
کہیں پڑھا تھا گئے وقتوں میں اس شہر کی سڑکیں گلاب کے عرق سے دھوئی جاتی تھیں اور اب۔۔۔ یہاں سخن کی مہکاریں اٹھتی ہیں، تخیل کی آبیاری ہوتی ہے لفظوں میں پھول کھلتے ہیں تو حرف حرف کہانی تخلیق ہوتی ہے کہ اس کے خالق امین جالندھری اسی شہر کے باسی ہیں، اسی قدیم تہذیب و تمدن والے شہر کے ۔ تبھی تو ان کی کہانیوں میں تہذیب کا عکس اور لفظوں کا بانکپن جھلکتا ہے۔
کہانی کار معاشرے کا نباض ہوتا ہے وہ اپنے مشاہدے ، تجربے اور تجزیے سے کام لیتا ہے اور معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو لفظوں میں ڈھال کر کہانیوں کا روپ دیتا ہے۔ امین جالندھری کی ہر کہانی اختصار میں لپٹی ہوئی ہے۔ ہر کہانی حقیقت سے قریب تر ہے ۔ تعفن زدہ معاشرے کے بھید کھولتی ہوئی قاری کو زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتی ہوئی اپنے ارد گرد ہونے والی بد عنوانیوں اور نا انصافیوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی زندگی کے اتار چڑھائو کا عکس دکھاتی ہوئی اپنی کہانیوں میں امین جالندھری نے نہ تو وضاحتی بیانئے والے ہیں اور نہ ہی اپنے پڑھنے والوں کو گنجلک بس الجھایا ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کی دکھتی رگ پہ ہاتھ دھرا ہے اور اپنے سادہ اسلوب سے لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔
امین جالندھری کی تحریروں میں تاریخ کا رنگ بھی موجود ہے اور دلی کے روز مرہ کا تڑکا بھی ملتا ہے ۔ افسانہ بلند پروازی، میں رفیق خان اور بین کے مکالمے خوب لطف دیتے ہیں۔ افسانہ محاسبہ کا یہ جملہ ان کی تاریخ سے دلچسپی کا ثبوت دیتا ہے ۔ یہ پوش علاقوں میں رہنے والے رنجیت سنگھ کی طرح ایک آنکھ سے دنیا کو کیوں دیکھتے ہیں۔ زر خرید غلام میں امین جالندھری محلاتی سازشوں کو بے نقاب کر تے ہیں۔ سنو شکنتلا ! خاصہ دار کی موجودگی میں ظل سبحانی کا خاتمہ مشکل ہے۔ انار کلی نے ظل سبحانی کو اپنے نازو انداز سے اتنی شراب پلادی ہے کہ وہ انٹا غفیل ہو رہے ہیں تمہارے ہاتھ بہت توانا ہیں سندھور! ہمت سے کام لو۔ آج اگر تم نے کارنامہ دکھایا تو میں ظل سبحانی سے کہہ کر تمہیں صوبے دار بنوادوں گی محل سرا میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ افسانہ درد کی زنجیر سے اقتباس ہے۔ اے مردود! کیا زندوں کی سی باتیں کرتے ہوئے بے ضمیروں ہمیں دیکھو ساری عمر پائوں میں گھنگھرو باندھ کے بھی خوشحالی ہمارا مقدر نہ بنی۔ عشوہ و غمزہ نازو ادا بھی ناری کو خار میں جلنے سے نہ روک سکا۔ امین جالندھری نے افسانہ مستی میں چوروں کو مور پڑ جانے کا حال دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔
اور رہائی میں وڈیروں جاگیرداروں کے بھی پول کھول دیئے ہیں۔ عرض محمد: ہمارے خاندان میں آج تک کسی نے کسی کو پولیس میں بھرتی نہیں کرایا مگر۔ تم ہمارے پرانے کماندار ہو تمہارے لئے لاکھوں خرچ کریں گے اور ہاں! تمہاری حسن زادی کا کیا حال ہے۔ سائیں۔ آپ کی باندی ہے۔ تو پھر عرض محمد! کل تم یہ کرنا حسن زادی کو رات حویلی میں بھجوا دینا۔ افسانہ تجربہ میں بٹوارے کی کربناکی کو لفظوں سے تصویر کیا ہے۔ امین جالندھری نے اپنی کہانیوں میں لفظوں کو یوں برتا ہے جیسے کوئی سہل متنع میں شعر کہے۔ ان کی تحریر مقامی رنگ کی آمیزش لئے ہوئے ہے۔ علاقائی رنگ بھی خوب شامل کئے ہیں۔
مسافر میں فضل خان کی کہانی مجھے میرے پاکپتن کی یاد دلاتی ہے۔ جس میں گل بہار کی جدائی فضل خان کو کھلنے لگی تو وہ سب کچھ دان کر سفر پہ چل دیئے۔ دوسری صبح پورے محلے میں یہ خبر پھیل چکی کہ فضل خن نے اپنا مکان مسجد بنانے کیلئے دے دیا ہے اور خود پاکپتن کے سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔ امین جالندھری کی حرف حرف کہانی میں ایسے موضوعات ملتے ہیں جو معاشرے کی رکھتی رگیں ہیں۔ ہر کہانی مختلف طبقے کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ابہام نہیں سادہ سبھائو ہے جس کا اظہار کتاب یہ دی گئی آرا میں بھی کیا گیا ہے ۔ مدیر قرطاس اور استاد شاعر جان کاشمیری مدیر تسطیر اور معروف نظم گو شاعر نصیر احمد ناصر، معراج جامی اور دیگر ہم وطنوں کی آراء کتاب کی توقیر بڑھا رہی ہیں۔ سرحد پار سے ڈاکٹر شاہد احمد جمالی ، ڈاکٹر معین الدین ، شاہین اجمیری اور عزیز تنویر کوٹوی اجمیری کی تحریریں ، حرف حرف کہانی کو معتبر بنا رہی ہیں۔ مجھے ہندوستان کی یاد دلا رہی ہیں۔ جب میں نے پنک سٹی جے پور کی سیر کی تھی اور خواجہ غریب نواز کے درِ اقدس پہ حاضری دی تھی۔ اب برسوں پہلے کا امن قافلہ یاد آگیا جب عاصمہ جہانگیرکی قیادت اور زاہدہ حنا اور کشور ناہید کی سنگت میں پاکستان سے خواتین کا وفد اتر پر دیش ہانڈے کی دعوت پر ہندوستان گیا تھا۔ سلامت رہیے امین جالندھری صاحب ، مبارک باد قبول کیجئے۔ اور قلم کا یہ سفر جاری رکھئے ، لکھتے رہئے ، لکھتے رہئے کہ یہی زندگی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹرانورسدید کی نئی تالیف
مفکر ادب، ڈاکٹر وزیرآغا
مقالہ نگار: جناب غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر خورشید رضوی، شاہد شیدائی، منور عثمانی، مشتاق احمد، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، راغب شکیب، جمیل سالک اور انور سدید ماہنامہ “سپوتنگ” کی خاص کتاب50/-روپے
ملنے کا پتہ: کلاسک، ریگل چوک دی مال لاہور