پاکیزہ اور ارزانش کی امی نے کہیں باہر اکٹھے گھومنے جانے کا فیصلہ کیا تا کہ ارزانش اور پاکیزہ ایک ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں اور دونوں خاندانوں کے تعلقات مزید بہتر ہو جائیں۔ سب گھر والے بہت خوش تھے اور خاص طور پر ارزانش سب سے زیادہ خوش تھا کیونکہ اسے تو پاکیزہ کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کے لئیے موقعے کی تلاش رہتی تھی۔ پاکیزہ اور ارزانش دونوں کے گھر والوں نے بس پر اکٹھے کسی پہاڑی مقام جانے کا فیصلہ کیا۔ مقررہ دن پر دونوں کے گھر والے تیار ہو گئے اور بس کے ذریعے سب ایک پہاڑی مقام چلے گئے۔ راستے میں سب نے بہت ساری باتیں کیں اور پاکیزہ کے بھائیوں نے اسے ارزانش کے نام سے بہت چڑایا۔ پاکیزہ کو پہاڑی مقام بہت پسند تھے اور اےسے مقامات پر جا کر اس کا چہرہ کِھل جایا کرتا تھا لیکن آج اس کے چہرے پہ کوئی رونق نہیں تھی۔
دونوں کے گر والوں نے رہنے کے لئیے جو گیسٹ ہاؤس لے رکھا تھا وہ ایک بہت اونچے پہاڑ پر تھا اور اس کے باہر سے سارہ نظارہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ سب وہاں پہنچے تو رات کا وقت تھا اور سب تھکے ہوئے تھے اسی لئیے سو گئے۔ پاکیزہ باہر آکر کھڑی ہو گئی اور نظارہ دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد ارزانش اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کے ہاتھوں میں دو کپ تھے۔ ایک کپ پاکیزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا “آج میرے ہاتھ کی کافی پئیں۔ پسند آ جاؤں گا میں”
پاکیزہ یہ سُن کر ہنسنے لگی اور گرم کافی سے بھرا کپ پکڑ لیا۔
“اچھا تو اب بتائیں کہ سوئی کیوں نہیں اب تک؟”
“ویسے ہی بس ابھی نیند نہیں آ رہی تھی تو یہاں آ کر کھڑی ہو گئی”
پاکیزہ نے ایک کافی کا گھونٹ لے کر کہا “کافی تو اپنی باتوں جیسے ہی اچھی بنا لیتے ہیں”
“بس دیکھ لیں۔ کبھی غرور نہیں کیا۔” یہ کہہ کر ارزانش ہنسنے لگا۔
“اُس دن میری ایک بات ادھوری رہ گئی تھی تو آج ہی پوری کر لیتی ہوں کیونکہ یہ بات مجھے بہت بے چین کر دیتی ہے” پاکیزہ نے تھوڑا سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
“جی آپ کہہ لیں جو کہنا چاہ رہی ہیں”
“میں کسی اور سے۔۔”
“بچوں ابھی تک سوئے نہیں تم لوگ؟” پیچھے سے ارزانش کی امی آ گئیں اور پاکیزہ خاموش ہو گئی۔
“ماما نیند نہیں آرہی تھی اسی لئیے یہاں آ کر کھڑے ہو گئے” ارزانش مُڑ کر اپنی امی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“ایسے تم دونوں جاگے رہو گے تو بیمار ہو جاؤ گے اسی لئیے سو جاؤ ابھی۔ باقی پرائیویٹ باتیں بعد میں کر لینا۔” ارزانش کی امی پاکیزہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ پاکیزہ یہ سُن کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ارزانش بھی سونے کے لئیے چلا گیا۔ صبح ہوتے ہی سب اُٹھ کر تیار ہو گئے تا کہ سیر کے لئیے جا سکیں۔
پاکیزہ جب تیار ہو کر آئی تو ارزانش کو ان دلکش وادیوں سے زیادہ خوبصورت پاکیزہ لگ رہی تھی جس پر سے اسکا دل نظریں ہٹانے کو تیار نہیں تھا۔
“نظر لگ جائے گی میری بہن کو اسی لئیے مسلسل نہ دیکھا کریں” پاکیزہ کا بڑا بھائی ذیشان ارزانش کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
“ہاں کہتے تو ٹھیک ہیں کیونکہ آپکی بہن ہے ہی بہت خوبصورت” ارزانش مسلسل پاکیزہ کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔
جب سب سیر کے لئیے گئے تو سب نے مل کر وہاں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کر دی۔ پاکیزہ ایک طرف پہاڑی کے کنارے بیٹھ گئی جس کے نیچے گہری کھائی تھی اور سامنے بہت ہی حسین نظارہ تھا۔ کھیلتی کھیلتی جب ارانش کی نظروں نے پاکیزہ کو ارد گرد نہ پایا تو وہ پاکیزہ کو ڈھونڈنے لگا۔ اچانک سے اسے پاکیزہ پہاڑ کے کنارے بیٹھی نظر آئی۔ وہ پاکیزہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا لیکن پاکیزہ کو بالکل پتا نہیں چلا۔
“کِن سوچوں میں گُم ہیں؟”
“آپ۔۔ میں۔۔۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی یہاں آکر بیٹھ گئی۔” یہ کہہ کر پشاکیزہ پھر کہیں سوچوں میں گُم ہو گئی۔
“سامنے اتنے گہرائی ہے۔ ڈر نہیں لگتا کیا؟”
“نہیں اب کسی گہرائی سے ڈر نہیں لگتا۔” پاکیزہ بغیر کسی تاثر کے سوچوں میں گُم رہتے ہوئے بولی۔
“اس گہرائی کی طرح اتنی گہری باتیں نہ کیا کریں۔ کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں میں۔”
“میں خود ان باتوں سے آذادی چاہتی ہوں لیکن کیا کروں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب بول دیتی ہوں”
ارزنش نے مُٹھی بند کر کر پاکیزہ کے چہرے کی سامنے کی جانب بڑھائی اور ہاتھ کھول کر ہتھیلی پر پھونک ماری۔
“یہ کیا کر رہے ہیں؟”پاکیزہ نے جاننے کے لئیے پوچھا۔
“آذاد۔ آپکو ان باتوں سے آذاد کر رہا ہوں”
“ایسا کرنے سے آذاد ہو جاؤں گی کیا؟”
“نہیں یقین تو خود ہی دیکھ لیجئیے گا۔ لیکن مجھے جھوٹا مت کہئیے گا کیونکہ اس کا اثر کچھ دن بعد شروع ہو گا۔ پھر آپ کو میرے میجک پہ یقین آ جائے گا۔”
“جی ٹھیک ہے۔ دیکھ لیتے ہیں کتنا اثر دکھاتا ہے آپکا میجک”
اتنے میں پاکیزہ کی امی سب کو اواز دینے لگیں کیونکہ کافی وقت ہو گیا تھا اور آج ہی ان کو گھر واپس جانے کے لئیے نکلنا تھا۔ سب وہاں سے گیسٹ ہاؤس چلے گئے اور اپنا سامان باندھنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں سب گھر کے لئیے روانہ ہو گئے۔ واپسی کے سفر میں بھی سب بہت لطف اندوز ہوئے اور اب دونوں کے گھر والے کافی حد تک گُھل مِل گئے تھے۔ اگلے دن تک سب گھر واپس پہنچ گئے۔ ایک ہفتے بعد پاکیزہ اور ارزانش کا نکاح تھا۔ یہ ہفتہ اتنی تیزی سے گزر گیا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا لیکن پاکیزہ کے لئیے یہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل ترین دن تھے کیونکہ وہ ہر ایک لمحہ سوچتی رہی کہ وہ اب کسی اور کی ہو جائے گی اور وہ مزید مُراد کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔ نکاح سے پہلے رات کو تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پاکیزہ سجدے میں گِر پڑی اور سجدے کی حالت میں خوب روئی اور بہت گڑگڑائی۔ روتے روتے دُعا کرنے لگی کہ “اے میرے پروردگار! بیشک سب آپکی ہی مرضی سے ہوتا ہے۔ آپ ہی سب کاموں پہ کُن فرماتے ہیں۔ آپ نے میرے اور مُراد کے رشتے پہ کُن نہیں فرمایا اس میں بھی آپکی کوئی حکمت ہوگی۔ مُراد نے میرے ساتھ جو بھی کیا آج میں اُسے اس سب کے لئیے معاف کرتی ہوں کیونکہ وہی شخص ہے جو مجھے مجازی عشق سے حقیقی عشق کی طرف لے کر آیا۔ اگر مُراد مجھ سے دور نہ جاتا تو میں کبھی بھی آپ کے اتنا قریب نہ آتی۔ بس اب مجھے ایک اچھی بیوی بننے کی توفیق عطا فرما دیں تا کہ میں بیوی کے سارے حقوق ادا کر سکوں۔ مجھے ہمت دیجئیے گا۔ مجھے اتنی ہمت دیجئے گا کہ میں مُراد کو کبھی یاد نہ کر پاؤں۔ آج میں نے مُراد کی محبت کو اپنے دل کے کسی چھوٹے کونے میں دفن کر دیا ہے جو اب ساری زندگی ویران ہی رہے گا اور آپ سے دُعا پے کہ مجھے اتنی ہمت دیں کہ وہ کونہ ہمیشہ ویران ہی رہے۔ میں ایک اچھی بیوی بن سکوں” پاکیزہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ جائے نماز اس کے آنسؤوں کی وجہ سے بھیگتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد وہ مُراد کو کال کرنے لگی تا کہ آخری بار اس سے بات کر سکے۔ وہ مسلسل کال کرتی رہی لیکن کسی نے کال نہ اُٹھائی اور وہ نا اُمید سی ہو گئی۔ پھر سے دُعا کرنے لگی۔
اسی طرح دُعائیں کرتے ہوئے رات گزر گئی۔ اتنا عرصہ گزر گیا تھا لیکن مُراد نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
اگلے دن سب بہت خوش تھے۔ پاکیزہ کہ امی نے پاکیزہ کو تیار کیا۔ ارزانش کی زندگی کا تو آج اہم ترین دن تھا۔
ارزامش کے گھر والے مقررہ وقت پر پاکیزہ کے گھر آ گئے اور مولوی صاحب کو بھی نکاح کے لئے بُلا لیا گیا۔ اب بس پاکیزہ کا وہاں پہ موجود ہونا باقی تھا۔
کچھ دیر بعد پاکیزہ کی امی اُسے اپنے ساتھ نیچے لے آئیں۔ جب پاکیزہ نیچے آئی تو مِسٹر دانش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے پاکیزہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پاکیزہ مِسٹر دانش کے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔
“نہیں بیٹا روتے نہیں ہیں۔ آج تو میری باربی کا سب سے سپیشل ڈے ہے۔ آج تو بالکل نہیں رونا” مِسٹر دانش پاکیزہ کو کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کرتے ہوئے بولے۔
پاکیزہ اور مِسٹر دانش کو دیکھ کر مِسِز دانش کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ اتنے میں مِسِز عالمگیر آ گئیں۔
“آج یہ رونا نہیں چلے گا۔ آپ ٹینشن نہ لیں آج کے بعد سے میری بیٹی کبھی نہیں روئے گی۔” مِسِز عالمگیر پاکیزہ کی امی کو تسلی دیتے ہوئے بولیں۔
جب پاکیزہ کو نکاح کے لئیے ارزانش کے قریب لایا گیا تو ارزانش پاکیزہ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ٹکتکی باندھ کر پاکیزہ کو دیکھنے لگا۔
“ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے پہلی بار دیکھا ہو؟” پاکیزہ نے ارزانش کو اس طرح دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“چاند کا دیدار تو روز ہوتا ہے لیکن چودھویں کا چاند بہت زیادہ دلکش اور حسین ہوتا ہے۔ دیکھنے میں بھی مہینے میں بس ایک بار ہی ملتا ہے۔ اسی لئیے سوچا جی بھر کے دیکھ لوں”
پاکیزہ کا چہرہ شرم کے مارے سُرخ ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح اچھے سے ہو گیا۔ ارزانش کو تو “قبول ہے” کہنے کی اتنی جلدی تھی جیسے پاکیزہ بھاگ جائے گی۔ نکاح کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے اور ارزانش وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ آیا اور پاکیزہ کے کان میں کہنے لگا لگا کہ “ارزانش بھائی ٹیرس پہ کھڑے ہیں اور آپکو بُلا رہے ہیں”
پاکیزہ وہاں سے اُٹھ کر ٹیرس پہ گئی تو وہاں کھڑا ارشانش پاکیزہ کا انتظار کر رہا تھا۔ پاکیزہ اس کے قریب چلی گئی۔
“وہ۔۔ عبداللہ۔۔ اس نے بتایا کہ آپ مجھے بُلا رہے ہیں”
“جی جی میں نے ہی بُلایا تھا”
“کچھ کام تھا؟”
“کام تو تھا۔ ہاں تو اب آپ میری محرم بن گئی ہیں۔ اسکا مجھے بہت دیر سے انتظار تھا اور آج اللہ نے میری خواہش پری کر ہی دی۔ کہنا یہ تھا کہ اب سے آپ کے سارے دُکھ میرے اور میری ساری خوشیاں آپکی۔ آج سے کبھی آپکو دُکھی نہیں ہونے دوں گا۔”
اتنے میں پاکیزہ کی دائیں آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بہہ گیا اور ارزانش نے ہاتھ آگے کر لیا تو وہ قطرہ ارزانش کی ہتھیلی پہ آ کر ٹھہرا۔
“یہ آنسو نہیں موتی ہیں میرے لئیے۔ اور یہ بہت قیمتی ہیں۔ رخصتی تک انہیں سنبھال کر رکھئیے گا۔ بعد میں مَیں خود ہی حفاظت کر لوں گا” ارزانش نے اپنے ہاتھ پہ آنسو کا قطرہ دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد ارزانش نے پاکیزہ کی رخصار سے آنسو پی لیا۔ پاکیزہ کے رخصار اب گلابی سے ہو گئے تھے اور اس کے ہاتھ سرد ہو گئے۔
“اب تو محرم ہوں آپکا۔ یہ سب کرنے کا حق رکھتا ہوں” ارزانش نے پاکیزہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
جب پاکیزہ نے محرم اور حق کے الفاظ سُنے تو اسے پھر سے کچھ بتانا یاد آ گیا۔
“لیکن آج میں آپکو کچھ بتانا چاہتی۔۔”
ابھی پاکیزہ بات کر ہی رہی تھی کہ ارزانش نے اس کے ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ دی۔
“مُراد کے بارے میں بتانا چاہتی ہیں نا؟”
ارزانش کے منہ سے مُراد کا نام سُن کر وہ ہکی بکی رہ گئی۔
“لیکن۔۔ آپ۔۔ آپ کیسے جانتے ہیں مُراد کو؟”
“بھائی رومینس پورا ہو گیا ہو تو آ جائیں۔ کب سے سب آپ دونوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔” اتنے میں ہانیہ ارزانش اور پاکیزہ کو بُلانے کے لئیے آ گئی۔ دونوں نیچے آ گئے لیکن پاکیزہ کی حیران نظریں مسلسل ارزانش کی آنکھوں کا تاقب کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ارزانش اور اُس کے گھر والے واپس چلے گئے کیونکہ رخصتی اگلے دن تھی۔
ساری رات پاکیزہ ارزانش کو کال کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ارزانش کے موبائل کی بیٹری کم ہونے کی وجہ سے اس کاموبائل بند تھا۔ ابھی وہ بار بار کال کر ہی رہی تھی کہ اسے ایک کال آئی۔ اس نے ہڑبڑی میں کال ریسیو کر لی اور بولنے لگی “ہیلو! کون؟”
“آج اتنی جلدی میں کیوں ہو؟ نہ سلام نہ دُعا” دوسری جانب سے ایک بہت جانی پہچانی آواز آئی تھی جو کبھی اس کے دل کے بہت قریب ہوا کرتی تھی۔ وہ دل میں سوچنے لگی کہ آج پتا نہیں کیا کیا ہو گا۔
“اب کیوں کال کی ہے مُراد؟ ختم ہو گیا۔ اب سب ختم ہو گیا ہے۔ دور چلے جائیں آپ۔ اب کچھ باقی نہیں رہا۔”
“کیا مطلب؟ ایسا کیا ہو گیا ہے جو یہ سب کہہ رہی ہو؟”
پاکیزہ کچھ دیر خاموش رہ کر بولنے کے لئیے الفاظ تلاش کرنے لگی اور پھر چیخ کر بولی “بیوی ہوں میں اب کسی کی۔ نکاح ہو گیا ہے میرا۔ آپ نے تو ناکام محبت کو آخری الوداع کہنے کا موقع بھی نہیں دیا۔
مُراد نے پاکیزہ کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ جس دن اُسکا نکاح ہو گیا اُس دن وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ مُراد یہ سب سننے کے بعد کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کال کاٹ دی۔ پاکیزہ چیخ چیخ کر رونے لگی اور اپنے رب سے ہمت اور صبر کی خواہش کرنے لگی۔ مُراد کا کچھ بولے بغیر کال کاٹنا اس کے لئیے زیادہ عزیت ناک تھا۔
اگلے دن سب تیار ہو کر ہال پہنچ گئے۔ آج پاکیزہ کی رخصتی کا دن تھا اور ہال بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔ کچھ دیر میں بارات آ گئی۔ سب بہت خوش تھے لیکن خوشی کے ساتھ ساتھ پاکیزہ کے بھائیوں کو اس کے جانے کا دُکھ بھی تھا کیونکہ وہ تینوں بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔
اور تینوں بھائی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ بارات کی شاندار تقریب کے بعد رخصتی کا وقت آ گیا۔ پاکیزہ کے بھائی اپنی بہن سے اپنے آنسو چھپا رہے تھے لیکن پاکیزہ بھی ان کی بہن تھی اور وہ سب جانتی تھی۔ تینوں بھائی اکٹھے کھڑے تھا۔ تینوں بھائی اور پاکیزہ ایک دائرے کی شکل میں کھڑ ہو گئے اور ایک ہی وقت پہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر بہت روئے۔ پھر مِسٹر دانش پالیزہ کے گلے لگ کر رنے لگے۔ مِسِز دانش کہنے لگیں “یہ بھی کوئی رونے کا وقت ہے؟ وہ اپنے گھر جا رہی ہے تو اُسے ہنس کر جانے دو”
یہ سُن کر پاکیزہ اپنی امی کے پاس آئی اور جب اُن کے گلے لگی تو اُس کی امی جو سب کو رونے سے منع کر رہی تھیں خود بھی رونے لگیں۔ اس کے بعد پاکیزہ کو رخصت کر دیا گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...