“کبھی چھوڑ بھی دیا کرو اس کی جان۔ باقی لڑکیوں کو دیکھا ہے کبھی؟ ہر وقت اپنا بناؤ سنگھار کرنے میں مصروف رہتی ہیں” پاکیزہ کی امی غصّے میں بولیں۔
“کچھ وقت ہی تو ملتا ہے موبائل یوز کرنے کے لئے ماما۔ اب ہر چیز شکل و صورت کو دیکھ کے تو نہیں کی جاتی نا۔ آپ ریلیکس رہا کریں” پاکیزہ موبائل استعمال کرنے میں مشغول تھی اور سب باتیں اس طرح اس کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں جیسے اسے کچھ فرق ہی نہ پڑتا ہو۔
“مت سنو میری بات لیکن ایک دن تمہیں میری سب باتیں یاد آئیں گی” پاکیزہ کی امی اس کا رویہ دیکھتے ہوئے بولیں۔
پاکیزہ اپنے دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور گھر میں سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ سب سے بڑے بھائی کا نام علی تھا اور دوسرے بھائی کا نام ذیشان تھا۔ پاکیزہ تیسرے نمبر پر آتی تھی۔ پاکیزہ کے چھوٹے بھائی کا نام عبداللہ تھا۔
سب اس پہ اپنی جان چھڑکتے تھے۔ وہ کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تھی اور ہر چیز کو مذاق میں اْڑا دیتی تھی۔ ابھی وہ گیارہویں جماعت میں تھی اور ہمیشہ سے کو ایجوکیشن میں پڑھی تھی لیکن پھر بھی اْسے لڑکوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی کسی لڑکے کو اپنا دوست بناتی تھی۔ کئی لڑکے اُس سے بات کرنا چاہتے لیکن وہ کبھی کسی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئی تھی یا شاید کوئی آج تک اُسکو بھایا ہی نہیں تھا۔ اس کے والد مسٹر دانش ایک کاروباری آدمی تھے اور اْن کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی ہر خواہش پوری کی تھی۔ پاکیزہ اتنی خوبصورت تو نہیں تھی اور کوئی بھی شخص پہلی نظر میں اْسے دیکھتا تو سوچتا کہ وہ بہت شوخ لڑکی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ وہ انتہائی سْلجھی ہوئی اور عاجز لڑکی تھی۔ ہر کوئی اُس سے بات کر کے اُسکی سیرت سے متاثر ہو جاتا۔ کئی لوگ اس سے بات کر کے اسکی طرح بننے کی کوشش کرتے۔ زیادہ تر وقت پڑھائی میں یا اپنی سہیلیوں سے بات کرتے ہوئے گزارتی تھی۔ اسکی دوستی کا دائرہ اتنا وسیع تو نہیں تھا لیکن اُسکی ایک پَکی سہیلی حالے تھی جس کے ساتھ وہ ہر طرح کی بات کر لیتی تھی اور اُس پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتی تھی۔ کوئی بھی اس سے بات کرتا تو اسے اپنا دوست بنانا چاہتا لیکن زیادا تر لوگ اْس کا فائدہ ہی اْٹھاتے تھے کیونکہ وہ سب کی باتوں میں بہت جلدی آ جاتی تھی۔ دین کی طرف زیادہ رحجان نہیں تھا اُسکا اور دُعا مانگنے پہ بھی زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی۔ ہر وقت مْسکراتی رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی غم یا دْکھ اْسے چھو کر بھی نہیں گزر سکتا۔ اْس کی اپنی امّی کے ساتھ بہت بنتی تھی اور وہ اپنی ہر بات اْن کو بتاتی تھی۔ وہ ہمیشہ اسے یہی تلقین کرتی رہتیں کہ خود پر بھی توجہ دیا کرو۔
ابھی وو گیارہویں جماعت میں ہی تھی کہ ایک دن اسکی بات ایک اجنبی سے ہوئی۔ بات فیسبک پر ہی ہوئی۔ مُراد ایک بہت خوبصورت; دلکش اور قد آور انسان تھا۔ وہ سعودی عرب میں ایک الیکٹریکل انجینئر کی حیثیت سے نوکری کرتا تھا اور پاکیزہ سے چھ سال بڑا تھا اور پاکیزہ سے بالکل مختلف تھا۔ بہت ٹھہرا ہوا اور عبادت گزار انسان تھا۔ بات پہلے مُراد نے شروع کی تھی۔ مُراد ویسے تو لڑکیوں سےبات نہیں کرتا تھا لیکن قسمت کے بھی لوگوں کو ملوانے اور آزمانے کے عجیب طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مسج مُراد نے کیا تھا۔
“ہیلو”
“کیسی ہیں آپ؟”
پاکیزہ نے یہ جاننے کے لئے میسج کا جواب دیا کہ کہیں یہ اسکا کوئی کلاس فیلو تو نہیں۔
“آپ کون؟ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟”
“مائی سیلف مُراد احمد اور میں آپکو نہیں جانتا”
“اوکے دین اللہ حافظ”
“لیکن بات تو سنیں۔ نہیں جانتی تو جان جائیں گی”
“مجھے نہیں جاننا کسی کو”
“میں کوئی برا لڑکا نہیں اور نہ ہی لڑکیوں سے بات کرتا ہوں۔ آپ ایک دفع بات کر کے تو دیکھیں ”
“نہیں کرنی بات”
پاکیزہ اجنبیوں سے بات نہیں کیا کرتی تھی اسی لئیے وہ مُراد سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مُراد کئی دن تک میسج کرتا رہا اور آخر تنگ آکر پاکیزہ نے میسج کیا کہ “وٹس یور پروبلم؟ جب کہا ہے کہ میسج نہ کریں تو نہ کریں”
“لیکن پلیز آپ بات تو سن لیں”
“جی سنائیں”
“آپ بہت غصّے والی ہیں”
“بس یہی بتانا تھا؟”
“نہیں ابھی تو اور بھی بہت کچھ بتانا ہے”
ایسے ہی دونوں کی لڑائی جھگڑے میں بات شروع ہوئی اور دوستی ہو گئی۔ اور پھر روز باتیں ہونے لگیں۔
وہ پہلا انسان تھا جسکی باتیں سن کر وہ مدہوش سی ہو جاتی تھی۔ اس طرح بات بڑھتی گئی۔ فیسبک سے نمبر پہ بات ہونے لگی۔
__________
ایک دن بات کرتے کرتے مُراد کہنے لگا “پاکیزہ میں تمہیں ایک بہت اہم بات بتانا چاہتا ہوں جو ابھی تک میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتائی ہوئی”
“ایسی کیا بات ہے جو گھر والوں کو بھی نہیں پتا؟” پاکیزہ نے مذاق میں پوچھا۔
“لیکن وعدہ کرو کہ تم یہ بات سُن کر مجھے چھوڑ کے نہیں جاؤ گی” مراد نے مزید سنجیدہ ہو کر پاکیزہ سے کہا۔
“اب بتائیں بھی کہ کیا بات ہے” پاکیزہ نے گھبرا کر کہا۔
“مجھے”
“کیا مجھے؟ اب بول بھی دیں کہ کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟”
“مجھےکینسر ہے۔ بلڈ کینسر!”
پاکیزہ کی سانسیں مانو رُک سی گئی ہوں۔ اُس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو گئے اور اُسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
“آپ سیریس ہیں؟” اس نے لرزتی ہوئی زبان سے کہا۔
“اتنی بڑی بات میں مذاق میں کیسے کہہ سکتا ہوں پاکیزہ” “آپ نے یہ بات گھر والوں کو کیوں نہیں بتائی؟”
“میں ماں جی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا”
“پریشان؟ جب کچھ بُرا ہوگا تب وہ پریشان نہیں ہوں گی؟ تب وہ پریشان نہیں بہت زیادہ غمگین ہوں گی کہ انکے بیٹے نے انہیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ انہیں کچھ بتا سکے۔ اور علاج؟ علاج شروع کیا ہے اسکا؟”
“نہیں ابھی تک تو نہیں کیا”
“کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں آپ مُراد؟ آپکو خود کا احساس نہیں تو اپنے گھر والوں کا احساس کریں۔ ماں جی کا سوچیں۔ اُن کا کیا ہوگا؟”
“تم باقی باتیں چھوڑو پاکیزہ اور یہ بتاؤ کہ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نا؟”
“یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے۔ آپ کل ہی ڈاکٹر کے پاس جائیں اور علاج شروع کریں۔ اور ہاں اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں”
“اچھا میں عصر کی نماز پڑھ لوں۔ ہم بعد میں بات کرتے ہیں”
مراد یہ کہہ کر چلا گیا اور پاکیزہ کو ایک گہری سوچ میں ڈال گیا۔ پاکیزہ کئی دیر تک ایک صدمے میں رہی اور سوچتی رہی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں مغرب کی اذان کی آواز پڑی۔ وہ اُٹھی اور وُضو کر کے نماز پڑھنے لگی۔ اُس کی امی اسے دیکھ کر حیران تھیں کہ وہ لڑکی جو کہنے پہ بھی نماز نہیں پڑھتی آج خود نماز پڑھ رہی تھی۔ مغرب کی نماز ختم کرنے کے بعد وہ سجدے میں گِر پڑی اور زار و قطار رونے لگی۔ یہاں تک کہ اسکی ہچکی بندھ گئی۔ روتے روتے اللہ سے فریاد کرنے لگی کہ “اے اللہ! اے میرے پروردگار آج میں پہلی دفع پُر اُمید ہو کر تجھ سے مانگ رہی ہوں۔ یا اللہ میری پکار رد نہ کرنا۔ میرے مُراد کو ٹھیک کر دے۔ وہ تو بہت اچھا انسان ہے تو پھر اچھے انسانوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کو تو بھول بھی جائے گا تو کسی حساب میں کوئی کمی تو نہیں آئے گی نا۔ میرے مُراد کو بالکل ٹھیک کر دے”
یہ وہ لڑکی تھی جو کبھی روئی نہیں تھی۔ یہ وہ لڑکی تھی جو ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی۔ یہ وہ لڑکی تھی جس نے کبھی بھی دُعا نہیں مانگی تھی اور آج ایک اِبنِ آدم کے لئے رو رہی تھی۔ گڑگڑا کے خدا سے دُعا مانگ رہی تھی۔
اگلے دن سے مُراد کا علاج شروع ہوا اور اُس نے سب اپنے گھر والوں کو بتایا۔ اُس کے گھر والے پریشان تھے اسی لئے مُراد کو پاکستان واپس آنے کے لئے کہا اور وہ پاکستان آگیا۔ پاکیزہ نے شہر کے کئی اچھے ڈاکٹروں سے مشورے کئے اور مُراد کو بتایا۔ کچھ ہی مہینوں میں مُراد کی بیماری کافی حد تک ٹھیک ہو گئی اور پاکیزہ کا اللہ پہ ایمان مضبوط ہو گیا۔
پاکیزہ نے مُراد کے بارے میں حالے کو بتایا۔ حالے ہمیشہ سے پاکیزہ کی طرح بننا چاہتی تھی اور اس سے بہت متاثر تھی۔ حالے کو یہ سب سُن کر جلن سی محسوس ہوئی اور پاکیزہ سے پوچھنے لگی کہ “تم مُراد کے بارے میں سیریس ہو”
“ہاں بالکل” پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“تو اس سے شادی کرنے کا ارادہ ہے؟” حالے نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
“پتہ نہیں۔ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی” پاکیزہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا۔
پاکیزہ اور مُراد کبھی ملے نہیں تھے۔ انھوں نے بس میسج یا کال پہ ہی بات کی تھی۔ یہاں تک کہ مُراد نے آج تک پاکیزہ کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن مُراد پاکیزہ کی آواز اور اسکی باتوں کا دیوانہ تھا۔ باقیوں کی طرح اسے بھی پاکیزہ کے کردار نے متاثر کر دیا تھا۔ اسکو پاکیزہ کی آواز کوئل کی طرح میٹھی اور سُریلی لگتی تھی اور ہر وقت چاہتا تھا کہ اسکی آواز سنتا رہے۔ کچھ عرصے بعد مُراد نے پاکیزہ کو پروپوز کر دیا۔ پاکیزہ کی خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ اس نے مُراد کا پروپوزل قبول کر لیا۔ لیکن اس وقت تک وہ دوبارہ سعودی عرب چلا گیا تھا تا کہ اپنی نوکری جاری رکھ سکے۔ اس وجہ سے وہ پاکیزہ کے بارے میں اپنے گھر والوں کو نہیں بتا سکا اور اس نے پاکیزہ سے وعدہ کیا کہ جب وہ پاکستان واپس آئے گا تو وہ اپنے گھر والوں کو پاکیزہ کے گھر لے کے جائیگا۔ پاکیزہ نے اپنی امی کو مُراد کے بارے میں سب بتا دیا تھا اور اسکی امی تو اسکی خوشی میں ہی خوش تھیں کیوں کہ اسکی کوئی بات نہ مانی جائے ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا۔ پاکیزہ نے اپنی امی کو مُراد کی بیماری کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
پاکیزہ کو سب سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کے مُرا کو اسکی صورت نہیں بلکہ اسکی سیرت سے محبت تھی۔ اسکے کردار سے محبت تھی۔ محبت کے اظہار کے بعد اس نے مُراد کو اپنی تصویر دکھائی۔
“تو مِس پاکیزہ دانش ایسی دِکھتی ہیں آپ؟” مُراد نے ہنستے ہوئے کہا۔
“جی مسٹر مُراد احمد کچھ ایسی ہی دِکھتی ہوں میں”
“کچھ ایسی سے کیا مطلب ہے آپکا مِس پاکیزہ”
“آپ اب شک کر رہے ہیں مِسٹر مُرا اسی لئے یہ کہا۔ ورنہ تو یقیناً میں ایسی ہی دِکھتی ہوں”
“ویسے اگر سچ بولوں تو بہت خوبصورت ہیں آپ”
“اچھا؟ مجھے تو ایسا بالکل نہیں لگتا”
“نہیں بئی خدا کو جان دینی ہے۔ جھوٹ نہیں بولوں گا۔ یوں لگتا ہے جیسے میری قسمت میں اللہ نے ایک پَری لکھ دی ہو”
پاکیزہ نے ایک کہکہا لگاتے ہوئے کہا “اتنی تعریف بھی مت کریں اب نہیں تو آپکی پَری کے تھوڑا سا شوخا ہونے کے چانسِز ہی”
“تو کوئی بات نہیں۔ میں ہوں نہ نکھرے برداشت کرنے کے لئیے” مُراد نے ہنستے ہوئے کہا۔
پاکیزہ اس وقت محسوس کر رہی تھی جییسے وہ خوش قسمت ترین انسان ہو اور اُسے اُسکا شہزادہ مل گیا ہو۔
اچانک سے مُراد کہنے لگا کہ “اگر میں مر”
“شی! خاموش رہیں۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں آپکو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی اور اللہ سے آپ کو اپنے حصّے میں لکھوا لوں گی۔ آئیندہ ایسا سوچئیے گا بھی مت” پاکیزہ نے مُراد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
“اتنا پیار کرتی ہو کیا مُراد سے؟” مُراد نے پاکیزہ سے پُر جوش انداز میں سوال پوچھا۔
“بہت زیادہ! اور ابھی آپ نے تو میرا پیار دیکھا ہی نہیں ہے۔ اسی لئے کہتی ہوں ایسی باتیں مت کیا کریں” پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“اچھا بابا ٹھیک ہے۔ آئیندہ ایسا کچھ نہیں کہوں گا” مُراد نے پاکیزہ کو چڑاتے ہوئے کہا۔
اسی طرح دونوں کئی دیر تک باتیں کرتے رہتے اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب پَر لگا کر اُڑ گیا ہے۔
معمول کے مطابق پاکیزہ نے سب باتیں حالے کو بتائیں۔
“اچھا تو اسکا مطلب اب تم مُراد کی گرل فرینڈ ہو” حالے نے جَلن محسوس کرتے ہوئے کہا۔
“بالکل نہیں۔ میں گرل فرینڈ نہیں ہوں اُنکی” پاکیزہ نے غّصے میں حالے کی بات کا جواب دیا۔
“تو پھر؟ پھر کیا لگتی ہو تم اُسکی؟” حالے نے اس بار بہت ہی عجیب انداز میں سوال پوچھا تھا۔
“ہونے والی بیوی ہوں میں اُنکی۔ ہماری محبت بہت پاک ہے۔ کسی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی طرح حرام نہیں ہے کہ دو چار غلط باتیں کر کے چھوڑ دِیا جائے ایک دوسرے کو” پاکیزہ نے یہ باتیں کہتے ہوئے راحت بھری سانس لی تھی جیسے اسے سب کچھ مکمل محسوس ہو رہا ہو اور اُس کے چہرے پہ ایک دَبی ہوئی مُسکراہٹ تھی۔
حالے یہ سب سُننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت میں تھی۔ کہنے کو تو وہ پاکیزہ کے لئیے بہن سے بھی بڑھ کر تھی لیکن اُسے پاکیزہ کی خوشی بالکل بھی برداشت نہیں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...