پروفیسر ڈاکٹرغفور شاہ(میانوالی)
کسی بھی ملک کا ادب اس کے ماحول ،معاشرت،مذہب، تہذیب و تمدن، اجتماعی خوابوں اور عوامی آرزؤں کا ترجمان ہوا کرتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد تخلیق پانے والے شعر اور نثری ادب کو ہم بجا طور پر پاکستانی ادب قرار دے سکتے ہیں۔ اس کی نمایاں خصوصیات کا مطالعہ کرنے سے قبل لازم ہے کہ پاکستانی ادب کی تعریف کا تعین کر لیا جائے ۔ مختلف ادیبوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے چند ادیبوں کی وضع کردہ تعریفیں درج ذیل ہیں۔
فیض احمد فیض کے بقول:۔
’’پاکستانی ادب وہ ہے جس میں پاکستانی روایات،حالات، پس منظر اور بیش منظر سے مطابقت موجود ہو۔ اس میں مقامیت کے مقاصد کے ساتھ آفاقیت بھی موجود ہے‘‘۔(۱)
احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں۔
’’پاکستانی ادب سے مراد ہے وہ ادب جو پاکستان کے وجود ، پاکستان کے وقار اور پاکستان کے طریقے کا اثبات کرتا ہو اور جو پاکستان کے تہذیبی و تاریخی مظاہر کا ترجمان ہواور جو یہاں کے کروڑوں باشندوں کی امنگوں اور آرزوؤں نیز شکستوں اور محرومیوں کا غیر جانبدار عکاس ہو۔ ظاہر ہے اس صورت میں پاکستانی ادب ،ہندوستانی ادب یا ایرانی ادب یا چینی ادب یا انگریزی ادب سے مختلف ہو گا‘‘۔(۲)
میرزا ادیب کی رائے ہے کہ:۔
’’وہ ادب جو پاکستان میں رہنے والے ادیبوں نے وجود پذیر کیا ہے۔ پاکستانی ادب ہی کہلائے گا،،(۳)
ڈاکٹر سلیم اختر نے پاکستانی ادب کی تعریف ان الفاظ میں متعین کی۔
’’پاکستانی ادیب کا لکھا ہوا وہ ادب جس میں پاکستانی قوم کے مسائل و ابتلا کا تذکرہ ہو یا جس سے پاکستانی قوم کا تشخص اُجاگر ہوتا ہو، اسے پاکستانی ادب قرار دیا جا سکتاہے۔‘‘(۴)
پاکستانی اد ب کے حوالے سے احمد جاوید کا خیال ہے کہ:۔
’’قوم جس راستے سے گزرتی ہے اس کے نقوش اس کی تہذیب مزاج اور ادب پر ثبت ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم بھی جس راستے سے گزر کر یہاں پہنچی ہے وہ راستہ پاکستانی ادب کا راستہ ہے۔‘‘(۵)
ڈاکٹر سلطانہ بخش پاکستانی ادب کو ایک ایسے پہلو دار ہیرے سے تشبیہ دیتی ہیں جس کا ہر پہلو اپنی الگ آب و تاب رکھتا ہے۔مجموعی طور پر یہ ادب ایک وحدت اور ایک اکائی ہے۔(۶)
مندرجہ بالا سطور میں درج مختلف ادباء کی آراء سے ظاہر ہے کہ پاکستانی ادب ایک الگ شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ پاکستانی ادب ہماری کامرانیوں اور تشنہ کامیوں، بربادیوں اور شادابیوں ، احساسِ زباں اور اعترافِ تشکر کی مستند قومی دستاویز اور معتبر میزانیہ ہے۔
پاکستانی ادب نے اپنے دامن میں جہاں پندرہ کروڑ پاکستانی عوام کے ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیاں ، اداسیاں اور محرومیاں سمیٹ لی ہیں۔وہاں خواص کی بداعمالیاں اور بے اعتدالیاں بھی محفوظ کر لی ہیں۔
بلا شبہ ہمارے شعر و ادب میں ہماری خاک کے تمام خواب اور عذاب مکمل طور پر سمٹ آئے ہیں۔ پاکستانی ادب کی تاریخ خواب ، اور انقلاب ، تعمیر اور حسرتِ تعبیرہو شربا داستان ہے۔ اس کا مطالعہ درحقیقت پاکستانی کے باطنی وجود اور اوج تک رسائی کے مترادف ہے ۔ وطن عزیز کی شخصیت اور نفسیات مزاج اور معاشرت طرز احساس اور طرز فکر کو سمجھنے کے لیے اس کی معاشی، سیاسی، سماجی، تہذیبی ، اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کی ادبی تاریخ کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔
آزادی کے بعد کے برسوں میں رفتہ رفتہ علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے اشتراکِ عمل سے پاکستان میں اردو کا ایک نیا لہجہ منفرد آہنگ اور جدا اسلوب وضع ہوتا چلا گیا اور اب تک پاکستانی زبان و ادب کے واضح خدوکال صورت پذیر ہو چکے ہیں ۔ آج کی پاکستانی اردو کلاسیکی اردو سے واضح طور پر ممتاز اور منفرد ہے۔ پاکستانی اردو کی اپنی الگ رنگت اور Shadesوضع ہو چکے ہیں۔ الفاظ کے قدیم معنی تبدیل ہو چکے ہیں۔ نئے محاورے پاکستانی اردو میں شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستانی ارد و میں صرفی اور نحو ی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہو چکی ہیں ۔ پاکستانی قلمکاروں نے اپنے متون (Tects) میں ساختیاتی سطح پر بہت سے نئے تجربے بن رہے ہیں۔ انہوں نے اسلوبیاتی حوالے سے پہلے سے متعین قواعدی معیارات سے بھی انحراف کی روش اختیار کی ہے۔ پاکستانی ادب میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی لسانی بو یاس شامل ہو رہی ہے اور پاکستانی Landscapeبھی منعکس ہو رہا ہے۔
فسادات کا المیہ ، ہجر ت کا کرب ، غیر مستحکم سیاسی نظام، آمریت کا تسلسل ۱۹۶۵ء اور ۱۹۸۱ء کی جنگیں، مسئلہ افغانستان اور مسئلہ کشمیر وغیرہ پاکستانی دور کے ادب کے شعری اور نثری ادب کے نمایاں موضوعات رہے ہیں۔ علاقائی زبانوں کی ادبیات کے ساتھ ساتھ پاکستانی ادب نے عالمی ادبی تحریکوں کے اثرات بھی قبول کیے ہیں۔پاکستانی ادب کے واضح خدوخال اور نقش و نگار اس کے شعری اور نثری ادب کے آئینے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے آئندہ سطور میں ہم پاکستانی ادب کے نمایاں رُجحانات کا مطالعہ پیش کر یں گے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں لکھی جانے والی غزل اپنے مزاج اسلوب ، لفظیات ، تشبیہات، استعارات،علامات، موڈ اور مواد کے لحاظ سے منفرد پہچان وضع کر چکی ہے۔ ہجر او رفسادات کے موضوعات سے لے کر سیاسی سماجی عدم مساوات تک ،پاکستان کے دو لخت ہونے سے لے کر مسئلہ افغانستان تک ،سیاسی ڈھانچے کی فرسودگی سے لے کر ہر طرح کی آلودگی تک، خوفناک معاشی پسماندگی سے لے کر نہایت ہی شرمناک شرح خواندگی تک کوئی اہم خوبی موضوع ایسا نہیں ہے جس کا عکس پاکستانی غزل میں موجود نہ ہو ۔ پاکستانی تاریخ اور معاشرت کے مختلف پہلو اس صنفِ سخن میں اختصار مگر جامعیت کے ساتھ سمٹ آئے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں بالخصوص خالص پاکستانی غزل کا مزاج متشکل ہوا ہے۔ ستر کی دہائی کے غزل گو شعرا ء نے اظہر کے نئے قرینے تراشے ان کی لکھی غزلیات میں داخلی قوافی ، تکرارِلفظی، جوڑے دار الفاظ ، اصنافتوں سے اجتناب ، پرندوں جانوروں حشرات الارض، داستانوی کرداروں ، انگریزی الفاظ اور استفہامیہ اشعار کی کثرت سے بحث کوئی پاکستانی غزل نے پرانی لغت اور لفظیات سے دامن چھڑالیا ہے۔(۵)
تنویر سپرا، سبطِ علی صبا، اور علی مطہر اشعر کی صنعتی ماحول کی ترجمان غزل ہو یا محمد خالد غلام حسین ساجد، ثروت حسین ،صابرظفر ،محمد اظہار الحق اور خالد اقبال یا سر کی اساطیری غزل۔۔ ناصر کاظمی کی طویل مسلسل غزل سے لے کر فرحت عباس شاہ کی ایک حکومتوں کی دین ہیں۔اسی طرح وطن پرستی کی حامل نظموں کی تخلیق ۱۹۶۵ء کی جنگ کی عطا۔۱۹۶۵ء کی ستم زدہ روزہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں بے شمار نظمیں اور رجزیہ اشعار معرضِ تخلیق ہیں ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے خیال میں اس جنگ کے نتیجہ میں خالص پاکستانی ادب کی بنیاد پڑی اور ادب میں وہ خطِ فاصل واضح تر ہو گیا جس کا تصور تقسیم ملک کے باوجود ابھی تک دھندلا اور مبہم تھا۔۱۹۷۷ء کے المیہ نے پاکستانی ادب پر براہِ راست اثرات مرتب کیے تو نظم اور افسانے پر اس کا بالواسطہ اثر پڑا۔
سید محمد جعفری ، نذیر احمد شیخ، مجید لاہوری، دلاور فگار، ضمیر جعفری، انور مسعود ،سرفراز شاہد کی مزاحیہ نظم پاکستانی معاشرت کی آئینہ دارہے۔
پاکستانی نظم نگاروں نے ملکی، قومی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا اور اپنے گہرے تہذیبی شعور، تخلیقی آگہی اور جدید طرز احساس کے حوالے سے نقطہ ،کمال پہ لاکھڑا کیا۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی نظم ہماری سیاسی بیداری اور تہذیبی وقوف کی بہترین ترجمان ہے۔
نعت گوئی پاکستان میں تخلیق پانے والے شعری ادب کی نمایاں انفرادیت قرار دی جا سکتی ہے۔ نعت پاکستانی ادب کی مقبول صنفِ سخن کے طور پر ادبی افق پر نمودار ہوئی ہے۔ اس کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ صنف قیام پاکستان کے بنیادی مقدرسے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ پاکستان میں نعت گوئی کا رجحان اتنا فروغ پذیر ہو اہے کہ جو شاعر پہلے صرف غزل گو کی حیثیت سے پہچانے جانے تھے وہ بھی نعت کہنا اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگے ہیں۔بحر میں قافییہ ردیف کی پابندی سے آزاد مسلسل غزل تک ، سلیم احمد اور خلیل رامپوری کی اینٹی غزل سے لے کے ظفر اقبال ، رئیس فروغ اور انور شعور کی تغزل شکن تجرباتی غزل تک ، فارغ بکاری ،قتیل شفائی اور سجاد مرزا کی آزاد غزل سے لے کر ، عدیم ہاشمی کی مکالماتی غزل تک ، انور مسعود، سرفراز شاہد اور انعام الحق جاوید کی مزاحیہ غزل سے لے کر حفیظ الرحمن احسن کی طنزیہ غزل تک مشتاق باسط کی نثری غزل سے لے کر شیر افضل جعفری اور علی اکبر عباس کی علاقائی لب و لہجہ کی حامل غزل تک ، ناصرشہزاد سے لے کر اسلم کولسری کی پنجابی بحور میں لکھی گئی غزل تک،پاکستانی غزل میں انفرادی تجربات اور موضوعات کی متنوع جہات موجود ہیں۔ مختصراًیہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں لکھی جانے والی غزل پاکستانی (Landscape) ،پاکستانی ثقافت اور کلچر کی مکمل ترجمان ہے۔
غزل کے ساتھ ساتھ پاکستانی نظم نے بھی پاکستانی زندگی کی حقیقت افروز ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیا ہے ۔ پاکستان میں لکھی جانے والی نظم اپنے موضوعات او رہیئتی تجربات کے حوالے سے قابل مطالعہ ہے۔ پاکستان میں تہہ دار معنیاتی پیٹرن کی حامل نظموں کا آغاز ہوا تو یہ سلسلہ وسعت پذیر ہوتا چلا گیا۔ پاکستانی نظم پر عالمی ادب کے اثرات کا نتیجہ تھا کہ ۵۵۹۱ء لگ بھگ پاکستانی اد بی منظر پر ابھرنے والے جدید نظم میں ہیئت کے تجربات کو فروغ دیا۔ پاکستانی نظم میں ہیئت کے تجربات کے حوالے سے ن۔م راشد ، مجید امجد ، جیلانی کامران جعفر طاہر، اور قیوم نظر کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔ پاکستانی نظم میں مزاحمت اور احتجاج کے رویے وطن عزیز میں مسلسل آمرانہ ڈاکٹر ریاض مجید نے بجا طور پر اس رائے کا اظہار کیایہ کہ۔
’’ اردو نعت کا عصرِ حاضر جیسے قیام پاکستان سے شروع کیا جا سکتا ہے ایک اعتبار سے لغت کے عصرِ جدید ہی کی توسیع ہے۔‘‘(۸)
تقسیم برصغیر کی وجہ سے ہجرت کا المیہ اور خاک و خون کا سمندر عبور کر کے ارضِ پاکستان پر قدم رکھنا بھی نعت لکھنے کا اہم محرک ہوا۔ ہجرت کے کر جانے، بار گاہِ رسالت ؐ میں عرضِ حال بیان کرنے پر شعرا کو مجبور کیا اور پھر ارضِ پاک میں نعت گو ئی کے لیے فضا ساز گار ہوتی چلی گئی۔۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے بعدنعت گوئی کی طرف پاکستانی شعراء کی توجہ بہت زیادہ بڑھ گئی۔ بالخصوص۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت سے پاکستان میں نعت کے د ورِ زریں کا آغاز ہوا۔ جب حکومتی سطح پر صنفِ نعت کے فروغ کے لیے بھٹو میں اقدامات اٹھائے گئے اسی دورمیں ذرائع ابلاغ نے نعت گوئی کی اشاعت کے حوالے سے بڑا نمایاں کردار اد ا کیا ۔ آج پاکستان کا نقشہ شعری ادب سوچ اور اظہار کے متنوع قرینوں سے معمور ہے۔ نعت اب صرف حضور اکرمؐ کے شمال ، فضائل اور خصائل تک محدود نہیں رہی بلکہ اس سے سیرتِ اطہرؐ کی روشنی بھی پھوٹ رہی ہے۔ پاکستان میں نعت نگاری کا شعور ایک زندہ اور فعال تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان میں کوئی نصابی کتاب ، کوئی ادبی جریدہ، اور کوئی علمی اور ادبی محفل نعت کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ جدید پاکستانی نعت مسلم امہ کی محرومیوں کا نوحہ ہے۔ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو آج کی پاکستانی نعت کا بنیادی رویہ بن چکا ہے۔اظہار کے اسالیب اور مضامین نو کے حوالے سے پاکستانی نعت نہایت ثروت مند صنفِ سخن ہے۔ سہ مصرعی نعتیہ نظموں کا رواج عام ہو رہا ہے، نعتیہ ثلاثی اور ہائیکوبھی نعت کے شعرا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہے ہیں۔ نعت بلاشبہ ا س وقت پاکستانی ادب کی ہر دالعزیز صنفِ سخن بن چکی ہے۔ پاکستانی نعت میں ارضی صداقتوں کا ظہور بھی ہے اور زمینی حقائق کا شعور بھی ۔ جدید پاکستانی نعت میں جبرِ مسلسل کی صورت پذیری کے کٹھن مراحل کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
حمد نگاری اور مرثیہ گوئی بھی پاکستانی ادب کا اختصاص ہے۔ پاکستانی مرثیہ نگار شعرا نے عصر حاضر میں بپا ہونے والی یزیدی یلغار اور آمریت کے طغیان میں سانحے کربلا کی صدائے صداقت کو زندہ کیا ہے۔ پاکستانی شاعری میں بالعموم اور ان اصناف میں بالخصوص واقعہ کربلا بطور استعارہ استعمال ہو رہاہے۔
ستر کی دہائی میں دو نئی اصنافِ سخن یعنی ماہیا اور ہائیکو کا پاکستانی شعری ادب میں آغاز ہوا۔ ماہیا پنجابی ادب کی معرفت پاکستانی ادب میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ جب کہ ہائیکو جاپان سے درآمد کی گئی صنفِ سخن ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں ابھی تک ان دونوں اصناف کے اوزان اور بحور پر بحثیں جاری ہیں تاہم ہمارے تخلیق کار وں نے مختلف اوزان اور بحور میں ماہیا اورہائیکو لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ماہیا میں ہمارے شعر انے پاکستان کی دیہی معاشرت اور ثقافتی مظاہر کی ترجمانی کا فریضہ بھی نہایت عمدگی سے ادا کیا ہے۔ مزید یہ کہ سماجی جبر کو بھی ماہیا نگاوروں نے اپنے ماہیوں میں فنی قرینے کے ساتھ سمویا ہے۔جہاں تک ہائیکو کا تعلق ہے اس کے موضوعات کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ پاکستانی ہائیکو نگاروں نے ا س کی موضوعاتی جہتوں میں اضافے لکھا ہے۔ پاکستانی ہائیکو جاپانی مزاج سے قطع نظر کرتے ہوئے ہمارے شعرا کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنا منفرد مزاج متعین کرنے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔نثری ادب میں افسانہ اپنے موضوعات کی وسعت فکر ونظر کی گہرائی اور زبان و بیا ن کے تنوع کے لحاظ سے پاکستانی ادب کی سب سے زیادہ توانا اور موثر صنف کے طور پر ابھرا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی تاریخ اس صنف میں محفوظ ہوتی چلی گئی ہے۔ زندگی کے بدلتے معمولات کے ساتھ ساتھ نئے نئے موضوعات پاکستانی افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنتے رہے ہیں فسادات کے بعد ماضی پرستی ہمارے ، افسانے کا دوسرا بڑا موضوع رہی ہے۔ نئی سر زمین پر جب لوگوں کو وہ وخواب پورے ہوتے نظر نہ آئے جنہیں آنکھو ں میں سجائے وہ اس سر زمین پر پہنچے تھے تو ان پر مایوسی اور دل شکستگی کی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ یہی وہ فضا تھی جس میں ہمارے شروع کے افسانہ نگاروں نے سرحد پار کے گلی کوچوں اور منظروں سے منسوب واقعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ۔محبت جیسے آفاقی انسانی جذبے کو بھی ہمارے افسانہ نگاروں نے نئے زاویوں سے دریافت کیا پاکستانی اردو نثر کا واضح نکھار ۱۹۶۵ء کے بعد سامنے آتا ہے۔اس سال پاک بھار ت جنگ نے پاکستانی اردو کی انفرادیت کو بہت حد تک آگے بڑھانے اور کلاسیکی اردو بھی رُخ موڑنے کے لیے ایک بڑے محرک کا کردار اد ا کیا اور۱۹۸۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد تو پاکستانی اردو نے نئے سمتوں کا واضح تعین کرلیا ۔ اردو افسانے میں اس امر کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔قیامِ پاکستان سے لیکر پچاس(۵۰) کی دہائی تک پاکستانی افسانے میں حقیقت نگاری کا رجحان غالب رہا ۔ ساٹھ کی دہائی میں علامتی اور تجزید ی افسانے کا آغاز ہوا۔ انتظار حسین کا افسانہ’’آخری آدمی‘‘ اس نوعیت کی افسانہ نگاری کاسرِ آغاز ہے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۱۹۷۰ء کی دہائی میں علامتی تجریدی افسانے بیں قومی شناخت، سیاسی جبریت اور معاشرتی گھٹن جیسے واقعات کو فوقیت حاصل رہی تاہم اس کے ساتھ ساتھ رومانی ، سماجی اور تہذیبی مسائل پر بھی افسانے لکھے جاتے رہے۔ ۱۹۷۷ء کے بعد پاکستانی افسانہ نگاروں کے لہجوں پر اداسی ، مایوسی اشتعال اور ہیجان انگیزی کا غلبہ رہا۔ ہمارے افسانے میں نئی نئی علامتیں ظہور پزیر ہوئیں اور طرح طرح کے اسالیب بھی متعارف ہوئے۔ پاکستانی افسانہ جس حیرت انگیز طریقے سے اپنی صنفی ورود میں مقید رہنے کے باوجود زندگی کے بدلتے تناظر ات اور پیچیدہ تجربات کی موثر صورت گری کرتا رہا ہے۔ اس سے اس کے اندر مضمر وسیع تخلیقی احکامات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اب پاکستانی ادب میں افسانہ ایک مضبوط روایت کا درجہ حاصل کر چکاہے۔
پاکستانی افسانہ کی مانند ناول میں موضوعات اور اسالیب کا تنوع نہیں ہے۔ فسادات کے موضوع پر فنی حوالے سے پاکستانی ناول میں بلند تخلیق سامنے نہیں آئی ا س موضوع کو محیط تمام ناول ہنگامی اور وقتی اد ب کے زمرے میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ ہجرت کے موضوع کو تخلیقی تجربہ بنانے والے کچھ ناول نگار فنی لحاظ سے کامیاب رہے ہیں۔
ڈاکٹر عطش درانی کی تحقیقی کے مطابق شوکت صدیقی کا ناول جانگلوس (تین جلدیں) لسانی تغیرات اور اردو میں پاکستانی زبانوں کے الفاظ کی شمولیت کے حوالے سے نہایت کامیاب تجربہ ہے۔ جانگلوس ایک ایسا ناول ہے جو نہ صرف قیام پاکستان ، اس کی تاریخ ، مسائل اور پاکستانیت کے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے بلکہ ا س کے جغرافیے شہروں، دیہاتوں ، گلی ، محلوں، سڑکوں اور نہروں کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں میں سفر کرتا مختلف ثقافتوں ، رسموں رواجوں سے بھی روشناس کراتا چلا جاتاہے۔ اگر اس ناول کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں لکھی جانے والی اردو کے خدوخال واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ جانگلوس میں پاکستان کی مختلف علاقوں کے لوک گیتوں، ماہیوں، دوہڑوں، سمیوں اور ناچوں کے علاوہ چیتروں اور منظروں کو بھی بخوبی پیش کیا گیا ہے۔ ناول کی تینوں جلدوں میں پاکستانی لینڈ سکیپ کی مثالیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ناول میں ارد و، پنجابی، سرائیکی،سندھی کے علاوہ کسی حد تک بلوچی اور پشتو کے الفاظ میں بھی بر محل استعمال کیے گئے ہیں۔ شوکت صدیقی نے اس ناول میں مقامی لفظ خاص کے طور پر ق، ک کے فرق کو واضح طور سے املا کیا ہے۔پاکستانی اردو کی زیادہ تر مثالیں کرداروں کے ایسے مکالمات میں ہیں جن میں مقامی کردار اس، لہجے میں اردو بولتے ہیں جیسا کہ ناول نگار چاہتا ہے کہ وہ ایسے بولیں ۔ جانگلوس پاکستانی اردو کا ایک اہم نمونہ ہے۔ جانگلوس کی طرح اگر مزید پاکستانی ناولوں اور افسانوں کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی اردو ادب کے بہت سے نئے گوشے سامنے آسکتے ہیں۔(۹)
جہاں تک پاکستانی ناول نگاروں میں جغرافیائی ،سماجی او ر علاقائی ، لسانی تغیر کا تعلق ہے اس میں پاکستانی دیہات کا پسِ منظر سید شبیر حسین کے ناول ’’جھوک سیال‘‘ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر منعکس ہواہے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی نے اپنے ناول’’سنگھم‘‘ میں پاکستان کے وجود میں آنے کے اسباب و علل کو تاریخی پسِ منظر اور تاریخی ’واقعات کے ساتھ پیش کیا ہے اور فنی معیارات کو بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ غلام الثقلین نقوی کا نام ’’میرا گاؤں‘‘ بانو قدسیہ کا ’’راجہ گدھ‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا ’’راکھ‘‘ پاکستانی ذہن کے مطالعہ کے حوالے سے خاصے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگیں کسی شاہکار ناول کا موضوع نہیں بن سکیں تاہم الطاف فاطمہ کا ناول’’چلتا مسافر‘‘سلمیٰ اعوان کا ’’تنہا‘‘ اور طارق مجمود کا ’’اللہ میگھ دے‘‘ المیہ مشرقی پاکستان کو کسی نہ کسی حوالے سے زیر بحث لاتے ہیں۔ قر ۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ عبداللہ حسین کا’’اداس نسلیں‘‘ اور انتظا ر حسین کا ’’بستی‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا’’بہاؤ‘‘ ناول میں جدید تکنیک کو بروئے کار لانے کے ضمن میں یاد رکھے جائیں گے۔قیام پاکستان سے ۱۹۶۵ء تک پاکستانی اردو کا تناظر اسلوب سے زیادہ موضوع کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ خصوصاً ناولوں میں اس کی کارفرمائی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مختار مسعود کی انشائیہ نما تحریر آوازِ دوست، زبان کی چاشنی اور پاک سر زمین کی بو باس کے حوالے سے قابل مطالعہ ہے۔ اسی طرح مسعود مفتی کا ’’رپور تاژ’’لمحے‘‘ بھی پاکستانی نثر کا شاہکار ہے۔
ٹیلی ویژن ڈرامے نے پاکستانی زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ امجد اسلام امجد کے ڈرامہ ’’وارث‘‘ میں پنجابی آمیز مکالمات کا استعمال ہو یا نور الھدیٰ شاہ کے ڈرامے ’’جنگل‘‘ میں سندھ کے ثقافتی ماحول کی عکاسی، یونس جاوید کے لکھے ڈرامہ ’’اندھیرا اجالا‘‘ منو بھائی کا لکھا ڈرامہ’’سونا چاندی‘‘ اور عطا ء الحق قاسمی کے ڈرامہ ’’شب دیگ‘‘ میں پاکستان میں وجود پذیر ہونے والی اردو کی نہایت عمدہ مثالیں موجود ہیں۔
پاکستانی اردو بول چال اور لسانی تغیر کے حوالے سے اشفاق احمد کا ریڈیو پروگرام تلقین شاہ اور ٹی وی ڈرامہ’’منچلے کا سودا‘‘ بھی پاکستانی ادب کے نمایاں رُخ ہیں۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی اردو بول چال کے فروغ میں اشفاق احمد کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔(۱۰)
قیام پاکستان کے بعد تخلیق پانے والے نثری ادب میں ’’سفر نامہ‘‘ بھی نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔مستنصر حسین تارڑ کے شمالی علاقہ جات کے تمام سفر نامے، سید شوکت علی شاہ کا بلوچستان کا سفر نامہ ’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ پاکستانی معاشرت اور منظر نامے کی تفہیم کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں سفر حج کے حوالے سے لکھے جانے والے سفر نامے اسلامی کلچر اور تہذیب سے ہماری والہانہ وابستگی کے نہایت عمدہ ترجمان ہیں جب کہ ہندوستان کے حوالے سے لکھے جانے والے سفر ناموں میں پاکستانیت کا شعور اور احساس نمایاں ہے۔ ممتاز مفتی کا ’’ہند یاترا‘‘ اور ثریا حفیظ الدین کا سفر نامہ ’’جس دیس میں‘‘ گنگا بہتی ہے‘‘ ہندوستان فہمی کے ضمن میں قابلِ مطالع نگارشات ہیں ۔ ان سفر ناموں کا مطالعہ پاکستان شناسی ے شعور کو عام کرنے میں بھی بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
انشائیہ خالصتاً پاکستانی صنف نثر ہے۔ جس نے پاکستانی ادب میں ایک رویے اور رُجحان سے بڑھ کر تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پاکستان میں اس صنف کو گزشتہ تیس برسوں میں خاص پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جس طرح شعری اور افسانوی ادب نے ہمارے معاشرے کے متنوع مسائل کا احاطہ کیا ہے اسی طرح فکاہیہ کالم نگاروں نے بھی اپنے اپنے ارد گرد جنم لینے والے مسائل پر طنز و ظرافت کے پردے میں نہایت بر محل تنقید کی ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں چھپنے والے کالموں میں پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ رقم ہوتی چلی گئی ہے۔ ہمارے بیشتر فکاہیہ نگار چونکہ بنیادی طور پر ادیب رہے ہیں اس لیے ان کالموں کامزاج بھی ادبیت کا حامل رہا ہے۔ ان کالموں کے مطالعہ کے بغیر پاکستانی ادب کی تفہیم و تحسین ممکن نہیں۔ پاکستان کی خواتین قلمکاروں کی نگارشات اور تخلیقات بھی پاکستانی ادب کی مشاطگی کرتی رہی ہیں۔
مختلف اصنافِ شعر ونثر کے مطالعہ سے ’’معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی زبان و ادب کا پنا ایک مزاج اور لہجہ وجود پزیر ہو چکا ہے۔ پاکستانی ادب میں راوی کا بہاؤ، روہی کی مٹھاس، صحراکے تھر کی وسعت اور شمالی علاقوں کے فلک شگاف پہاڑوں کی رفعت موجود ہے۔ پاکستانی ادب ہندوستانی ادب کے مزاج اور لہجے سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ ہمارے ادب میں مسلم ثقافت اور تاریخ کے حوالے بکثرت موجود ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے مضافات میں تخلیق پانے والے مختلف علاقائی زبانوں کے غیر مطبوعہ شعری اور نثری ادب کا مطالعہ بھی پاکستانی ادب کی تفہیم کے لیے نا گزیر ہے ۔ اس کے بغیر اس کے مکمل خدو خال ہمارے سامنے نہیں آسکیں گے۔پاکستانی ادب کا غالب رُجحان سیاسی اور سماجی سے زیادہ احتجاجی رہا ہے۔ پروفیسر احمد جاوید نے پاکستانی ادب کی مجموعی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ ۔
’’پاکستانی ادب کا ایک بڑا حصہ سیاسی مزاج کا حامل ہے ۔ ہمارے موضوعات ہمارے اپنے احوال کی چغلی کھاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم پاکستانی ادب کا موازنہ بھارت کے اردو ادب سے کرتے ہیں تو رنگ سے صاف پہچانے جاتے ہیں۔ہمارے موضوعات میں وہ وسعتنہیں جو جمہوری معاشروں میں ممکن ہوتی ہے اورجو بھارت کے اردو ادب میں دکھائی دیتی ہے۔لیکن تکینکی ، تخلیقی اور ہئیتی سطح پر ہمارا ادب کہیں آگے دکھائی دیتا ہے۔‘‘(۱۱)
پاکستان محض ایک جغرافیا ئی تصور ہی نہیں تاریخ کا ایک زندہ معجزہ بھی ہے۔ یہ صدیوں کے دیاروں سے طلوع ہوتی ہوئی تہذیب ہے، یہ لفظ وخیالات کی دھڑکتی ہوئی کائنات ہے اور یہ ادب و ثقافت کی ایک زندہ تحریک ہے۔ اس کا شعرو ادب اسلوب ، طرزِ ادا اور جملوں کی ساخت وغیرہ کے حوالے سے امریکی ادب انگریزی ادب، چینی ادب اور فرانسیسی ادب سے الگ طور پر پہچانا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص اُجاگر کرنے کے لیے آج کے پاکستانی ادب کی نمایاں خصوصیات کو واضح کرنا ناگزیر ہے۔ یہ ادب کے علاوہ مطالعہ پاکستان کا بھی ایک اہم موضوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱:۔ فیض احمد فیض (انٹر ویو۔عمران نقوی) ادبی ایڈیشن روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔۵جنوری ۱۹۸۳ء
۲:۔احمد ندیم قاسمی۔ (انٹرویو۔ منور علی ملک) پس دیوار ۔ بُک مارک ٹیمپل روڈ لاہور ۔ بار اول ۱۹۹۳ء ۔ ص۱۰۱
۳:۔ میرزا ادیب حوالہ نمبر۲ ص۶۶
۴:۔ ڈاکٹر سلیم اختر حوالہ نمبر۲ ص۱۶۳
۵:۔ احمد جاوید ۔مضمون ،پاکستانی ادب کی شناخت مطبوعہ، عبارت کتابی سلسلہ نمبر ۱، ۱۴۰۔گلنار کالونی ، ر اولپنڈی۔۱۹۹۷ء ص۲۷
۶:۔ ڈاکٹر سلطانہ بخش ۔ اردو میں اصولِ تحقیق جلد دوم۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۔ ۱۹۸۸ء۔ص۲۲
۷:۔ خاور اعجاز ۔ نئی پاکستانی اردو غزل، ابلاغ پبلشرز۔ لاہور، ۲۰۰۱ء ، ص۳۹
۸:۔ ڈاکٹر ریاض مجید۔ اردو میں نعت گوئی، اقبال اکادمی لاہور۔ طبع اول،۱۹۹۰ء ص۴۸۹
۹:۔ ڈاکٹرعطش درانی ۔پاکستانی اردو کے خدو خال ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، طبع اول سال۱۹۹۷ء۔ ص۲۵۴
۱۰:۔ حوالہ نمبر ۹ ص۲۵۳،
۱۱:۔ حوالہ نمبر ۵ ص ۳۸
نوٹ:۔
اس موضوع پر مزید مطالعے کے لیے راقم کی کتاب ، پاکستانی ادب ،۱۹۷۲ء تا حال، ۱۹۹۵ء بُک ٹاک لاہور۔پاکستانی ادب ۔ شناخت کی نصف صدی (تحقیقی و تنقید) ۲۰۰۰ء۔ریز پبلی کیشنز مری روڈ راولپنڈی کے علاوہ ڈاکٹر انیس ناگی کی کتاب پاکستانی اردو ادب کی تاریخ مکتبہ جمالیات لاہور۔ ۲۰۰۵ء ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد شعبہ اردو کی کتابیں کوڈ نمبر۱۵۰۷(یونٹ۔۱تا ۹اور ۱۰تا ۱۸دیکھئے۔