پاکستان میں ٹاپ کرنے والے دیوانے کے باپ غلام علی غلام کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی گئی کہ وہ جیل میں
ہے… عدن کے وکیل نے اس کے سسر کو بتایا… انہوں نے ماریہ سے بات کی اور جب وہ باہر آیا تو سیدھا ان ہی کے دفتر گیا… اس کا خون ابل رہا تھا اس گھٹیا عورت کے اس درجے کے گھٹیا پن پر… اپنا ہمدرد بنانے کے لیے اس نے انہیں ساری بات بتائی انہیں غیرت دلانا چاہی کہ ان کی بیٹی ساری رات کسی کے ساتھ تھی…
وہ اپنی بیٹی کی طرح ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے رہے جیسے ان کا بٹلر ان سے احکامات لے رہا تھا… سگار پیتے رہے نہ تائید نہ انکار… نہ مزید کی حوصلہ افزائی…
“تم نے اسے مارا کیوں؟” ساری بات سن کر بھی یہی
پوچھا…
“ہاتھ اٹھ گیا تھا میرا…” سوال اسے پسند نہیں آیا…
“تم نے اس کی پوری بات سنی… وہ ریکس سے ملی… اس نے اب کو ڈنر آفر کیا تو ساتھ چلی گئی دو اور دوست بھی ساتھ تھے’ رات وہ اپنی دوست کے پاس رک گئی… اور تم نے اسے مارا…
سمٹ سمٹا کر ساری غلطی عدن کی نکلی…
“یہ پاکستان نہیں ہے…” کیسا باپ تھا…
“اسے مجھے فون کر کے بتانا چاہیے تھا…” اس نے کہا… “ریکس کے ساتھ ساری رات…”
“تو ساری رات….. کیا ساری رات دو دوست باتیں نہیں کر سکتے؟” اپنے سسر کی اس اعلا درجے کی مثالی بے غیرتی پر اسے بہت تاؤ آیا…
“میں اس کا شوہر ہوں… اجازت نہ لیتی’ بتاتی تو سہی کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ ریکس کے ڈنر میں نہیں جا سکتا تھا…” دراصل آج عدن نے سوچ لیا تھا کہ اس باپ کو یہ بتا کر ہی اٹھے گا کہ اس کی بیٹی کے کرتوت کیا ہیں…
“اسپتال سے کتنا منافع آتا ہے’ تم اسے بتاتے ہو؟”
شڑاپ….. آگے پیچھے سے اسے ہنٹر لگنے لگے…
“اور وہ منافع کہاں جاتا ہے یہ…..؟”
اتنا اندھا بھی نہیں تھا اس کا سسر جو وہ اور غلام علی غلام سمجھے بیٹھے تھے…
وہ لب بھینچ کر رہ گیا… ہر بار لاجواب ہو کر ہی اٹھتا تھا…
“ریکس اس کا صرف اچھا دوست ہے اور بس…. شوہر اس کے تم ہی رہو گے… فکر نہ کرو…” جاندار قہقہہ لگا اور شڑاپ شڑاپ ہنٹر اسے لگے…
اس کے اندر نفرت کی آگ جلنے لگی… اس کا جی چاہا کہ ان دونوں کو اس نوبت تک لے آئے کہ وہ اس کے تلوے چاٹیں اور وہ انہیں ہش ہش کرے’ ایسی کاری ضرب کی شکست دے کہ دونوں انگلش میں بات کرنا بھول جائیں…
لیکن ابھی وقت نہیں آیا تھا… ابھی چپ رہ کر انتظار کرنا تھا’ یہ سب جو اس کے ساتھ ہو رہا تھا… وہ اسے کچھ کا کچھ بناتا جا رہا تھا تیرہ ماہ پہلے وہ ایسا نہیں تھا اور تیرہ ماہ بعد وہ ویسا نہیں رہا تھا…
جب وہ گھر آیا تو ٹیبل پر پاؤں رکھے ماریہ نیل پالش لگا رہی تھی… اس پر ایک نظر ڈالے بغیر اپنا کام کرتی رہی… وہ ٹی وی کے آگے بیٹھ گیا… وہ اٹھی ڈریسنگ گاؤن سے بلیو لونگ گاؤن میں آئی… رولرز کھولے’ میل اپ کیا اور ٹک ٹک کرتی چلی گئی…
عدن اپنا سر تھام کر بیٹھ گیا… وہ ذہنی مریض بن جاِئے گا ماریہ کے ساتھ رہتے رہتے… اس کا لمحہ بھر کو جی چاہا کہ لات مارے اب پر اور بھاگ جائے… جیل ہو آیا تھا’ سسر کے ہنٹر کھا آیا تھا… پاکستان کے لائق فائق خوب صورت لڑکے کا یہ حال ہو رہا تھا… خود کو نارمل کرنے کے لیے اس نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں اور بہن سے بات کی… پر وہ اور ڈسٹرب ہو گیا… اس کا جی کسی اور کوئل کی آواز سننے کو چاہنے لگا…
“تم بتاؤ… تمہیں کیا پریشانی ہے؟”
“تم کیا کرو گی؟”
“میں دعا کروں گی…” کوئل نے بہت اعتماد سے کہا…
“میں نے کبھی اپنے لیے دعا نہیں کی… کسی سے کیا کراؤں گا…” قہقہہ…
“تم نے تو خود سے میری طرح محبت بھی نہ کی ہو گی’ یہ دعا بھی مجھے ہی کرنے دو…”
“میں اتنا پکا مذہبی نہیں ہوں… پکا کیا مذہبی ہی نہیں ہوں…”
“اللہ کے تو ہو ناں…… اللہ کے بنائے…. یا وہ بھی نہیں؟”
“عالم مت بنو…” اس نے اکتا کر فون بند کر دیا…
……… ……………… ………
ماریہ پہلے والی ماریہ بن گئی’ رات رات غائب رہتی’ کبھی کبھار ہی عدن کو اس کی شکل دیکھنے کو ملتی…
“مر جائے…” اس کی طرف دھیان جاتے ہی وہ سوچتا…
“چند سالوں کی بات ہے… صرف چند سال…”
وہ کچھ دنوں سے ایک فون نمبر کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا… لیکن ہر بار مایوسی ہی ہوئی’ نمبر یاد نہیں آ رہا تھا… وہ نمبر بھول چکا تھا… جس سم میں وہ نمبر تھا وہ سم اس نے پاکستان میں اپنے باتھ روم کے فلیش میں بہا دی تھی اور اب وہ نمبر یاد کرنا چاہ رہا تھا…
آج اسے میامی جانا تھا اسپتال کے لیے کچھ آلات لینے… کام تو ایک ہی دن کا تھا لیکن وہ ایک ہفتے کے لیے جا رہا تھا…بیگ لے کر وہ ایر پورٹ آ گیا ابھی وہ کاؤنٹر تک نہیں گیا تھا کہ دو امریکن اس کے آگے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے… اپنے کارڈ نکال کر اسے دکھائے’ عدن کی آنکھیں کھل گئیں…
“کم ود از…” (ہمارے ساتھ آؤ)
“لیکن کیوں؟” عدن حواس باختہ ہو گیا’ امریکن پولیس اور سی آئی اے کی کہانیاں وہ اخبارات میں آئے دن پڑھتا تھا…
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا… ایک نے کمر کے پیچھے اس کے ہاتھ لے جا کر لاک کیے اور اسے آگے دھکا دینے لگا دوسرے نے بازو پکڑ لیا…
“میں نے کیا کیا ہے… کیوں لے جا رہے ہیں مجھے آفیسرز!” اس کی آواز بلند ہونے لگی…
وہ دونوں گونگے بہرے بنے اسے ساتھ لے کر کار کی طرف آئے’ سر پر ہاتھ رکھوا کر اسے اندر دھکیلا اور کار چلا دی… وہ سارے راستے کیوں’ کیا’ کیسے جیسے سوال کرتا رہا کوئی جواب نہیں ملا…
اسے ایک اندھیرے سیل میں بند کر دیا گیا…
وہ اس وقت جیل میں ہے اس کا جرم کیا ہے… وہ نہیں جانتا’ جن دو لوگوں کے ساتھ وہ آیا انہوں نے اسے سیکرٹ سروس کارڈ دکھایا تھا…
“یہ کیا مذاق ہے؟”
“یہ کیا ہو رہا ہے؟” وہ رونے کے قریب ہو گیا…
کیا یہ ماریہ نے کیا ہے’ لیکن وہ ایسا کیوں کرے گی’ اگر چاہے بھی نہیں کر سکتی… امریکا میں ایسی فون کالز نہیں چلتیں جن کے ملاتے اور بات ہوتے ہی بےگناہ لوگ جیل میں دھر لیے جائیں اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس پیمانے پر نہیں کہ ماریہ جیسی کر گزرے… اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا… وہ کسی کو یہ دھمکی بھی نہیں دے سکتا تھا کہ وہ کس باپ کا بیٹا ہے اور اس کا سسر کون ہے… بےخیالی میں وہ دیوار سے سر ٹکا کر بیٹھا رہا… اب ان امریکن کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے تو ٹھیک ہے یہ کلیر کر لیں اس کا حساب صاف تھا’ چند گھنٹے اونگھنے کے بعد اسے پیاس لگی’ لیکن پانی نہیں تھا اس کے ہاتھ پیچھے کمر پر بندھے تھے…
وہ واٹر واٹر چلانے لگا… کافی دیر تک چلاتا رہا لیکن گلا پھاڑ آواز سیل میں ہی گونجتی رہی… اس کا حلق اور خشک ہو گیا… رات تک چلانے کی ہمت بھی جاتی رہی… صبح تک وہ بھوک اور پیاس سے وہ فرش پر بچھ گیا اٹھ کر بیٹھنے کی سکت بھی نہ رہی… سیل کے اندر کوئی نہیں آیا… نہ ہوا نہ پانی’ نہ کھانا’ نہ انسان…
اس کے پیٹ سے آوازیں آنے لگیں دوبارہ وہ نیم بےہوش ہوا’ غنودگی طاری ہوئی لیکن نیند نہ آتی… گزرتے گزرتے پل گھنٹے بن کر ایک اور پورے دن میں ڈھل گئے… شام ہوئی رات آئی… پیاس سے اب وہ بالکل مرنے کے قریب تھا…اب وہ اپنی زندگی بھر کی کمائی ایک قطرہ پانی پر لٹا سکتا تھا… کسی کا قتل کر سکتا تھا ایک بوند کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا تھا اس نعمت کی قدر اسے آج سے پہلے نہیں ہوئی تھی… صرف دو دنوں میں ہی وہ بھول گیا کہ وہ کون ہے’ کتنا لائق فائق ہے’ کتنی فیکٹریوں کا مالک ہے’ وہ آج کا آئندہ کا بھول گیا’ لیکن حیرت انگیز طور پر اسے گزشتہ سے پیوستہ یاد آنے لگا…
چند اور گھنٹے گزرے… رات گہری ہو گئی… وہ فرش پر ہی ادھ موا پڑا رہا… ہونٹ سوکھی لکڑی کی مانند ہو گئے… اس نے کئی بار ارادہ کیا کہ اٹھ کر چلائے… لیکن اٹھ نہ سکا’ باقاعدگی سے ورزش کرنے والے کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اتنا کمزور ہے… کچھ باتیں بہت چالاک ہوتی ہیں… وقت آنے پر ہی کھلتی ہیں… بھلے سے پہلے کتنے بھی تجربے کر لو پرکھ لو… حساب کتاب لگا لو… جب کھلتی ہیں تو ہی اصل پرکھ دیتی ہیں…
جب وہ پیاس سے بالکل مرنے کے قریب ہو گیا تو اس کے سیل کا دروازہ کھلا… دو لوگ اسے اٹھا کر لے گئے…
اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا… اس کمرے میں موجود تیسرا شخص اپنا منہ اس کے منہ کے قریب لایا…
“ہو آر یو؟” (کون ہو تم) پیاس سے مرنے کے قریب عدن کو کچھ انداز ہوا کہ اس سوال سے اس کا مطلب کچھ اور ہی ہے…
“ڈاکٹر…. عدن…… ہزبینڈ آف…. سن آف…..”
ایک گھونسا اس کے جبڑے پر آ کر لگا تھا… “نام نہیں پوچھا… ڈاکٹر اڈن سن آف غلم عالی غلم……. نام نہیں پوچھا…”
جبڑے پر پڑے گھونسے کی تکلیف سہتے’ بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل اٹھاتے اور سوکھے حلق کی تکلیف کو سہتے اس نے اس سب پر غور کرنا چاہا کہ اگر وہ اتنا کچھ جانتا ہے تو اس سے پوچھ کیا رہا ہے… اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا…
جب اسے ہوش آیا تو اس کے منہ کے ساتھ پانی لگا تھا… جیسے ہی اس نے زبان سے پانی اندر کیا’ پانی ہٹا لیا گیا…
“میں نے کچھ نہیں کیا… مجھے چھوڑ دو…” وہ بڑبڑایا…
اس کے سامنے چند تصویریں ایک ایک کر کے لائی گئیں… چند قطرے ہی اس کے حلق میں گئے تھے… سر ابھی بھی گھوم ہی رہا تھا تصویریں دیکھ کر بھی اس نے نہیں دیکھیں… ایک اور گھونسا جبڑے پر آیا…
“دیکھو انہیں کون ہیں یہ؟”
اس نے آنکھیں پوری کھول کر غور سے دیکھنا چاہا… ایک کو دیکھا دوسرے کو دیکھا… تیسرے کو دیکھا… وہ انہیں پہچان نہیں سکا…
“میں نہیں جانتا انہیں…” اس نے نہ میں گردن ہلائی…
“غور سے دیکھو انہیں…”
اس نے پھر غور سے دیکھا… وہ ایک اور گھونسا کھانا نہیں چاہتا تھا ایک کی شکل کو اس نے ذرا سا پہچانا لیکن یاد نہیں آیا کہ وہ کون تھا…
“میں نے اسے کہیں دیکھا ہے…” اس نے صاف صاف بتا دیا…
“گڈ…. باقی بھی بس اگل دو…”
“میں نے اسے کہیں دیکھا ہے اور بس…… میں نہیں جانتا یہ کون ہے…”
“یہ تمہارا ساتھی ہے…”
“میرا ساتھی؟” آوازیں اسے دور سے آتی سنائی دے رہی تھیں… وہ بہت قوت لگا کر بول رہا تھا…
“یہ ہمیں مطلوب ہیں اور یہ تمہارے ساتھی ہیں… کہاں ہیں یہ؟” اس نے تصویروں کی طرف اشارہ کیا…
“میں انہیں نہیں جانتا… یہ میرے ساتھی نہیں ہیں…” وہ مسام مسام بھیگ گیا…
“یہ تمہارے ساتھی ہیں…” وہ اس کے کان کے پاس منہ لا کر چلّایا… جیسے وہیں سے گردن میں دانت گاڑ دے گا…
“میں انہیں نہیں جانتا…” اس نے بھی زور لگا کر چلّانا
چاہا…
“یہ تینوں تمہارے پاس علاج کے لیے آئے تھے…” اس نے بند مٹھی کا ایک اور گھونسا تیار کیا…
بجلی سی کوندی اور عدن کو یاد آیا کہ اس نے انہیں کہاں دیکھا ہے… ان میں سے ایک اس کا مریض تھا… ہاتھ کا زخم لے کر ایک بار آیا تھا… زخم کی نوعیت ایسی تھی کہ اس نے عدن کو اچھی خاصی رقم دی تھی اور خاموش رہنے کے لیے کہا تھا… عدن نے رقم رکھ لی اور علاج کر دیا… چند ہفتوں بعد اسی شخص کا حوالہ دے کر دو اور لوگ کمر اور پیٹ کے ویسے ہی گہرے زخموں کے لیے اس کے پاس آئے تھے… یہ تیز دھار چاقو کے زخم تھے… رقم اس بار بھی زیادہ ملی اور عدن بھول بھی گیا کہ ایسا کوئی اس کے پاس آیا بھی تھا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ وہ امریکا میں ہے اور وہاں کسی بات کو نظرانداز نہیں کیا جاتا… وہ تینوں سفید فام تھے… غیر مسلم تھے… لیکن ان کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کی خفیہ تنظیموں سے تھا…
“ہاں….. یہ میرے پاس علاج کے لیے آئے تھے…” عدن نے سب سچ سچ بتا دیا… یہ بھی کہ ان سے بہت پیسے ملے تھے لیکن اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں…
اس پتلے سے باڈی گارڈ ٹائپ آدمی کے چہرے پر تمسخر ابھرا…
“کہاں ہیں وہ اب……؟”
“میں نہیں جانتا….. میں قسم کھاتا ہوں… میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا… میں قسم کھاتا ہوں یہ خود میرے پاس آئے تھے…”
“کون ہیں وہ…. تمہیں کہاں ملے……تمہارا رابطہ کیسے ہو سکتا ہے؟” وہ سوال پر سوال پوچھنے لگا… اس کے اعصاب پر حاوی ہو چکا تھا…
“میں قسم کھاتا ہوں’ میں نہیں جانتا…” عدن کی آواز رندھ گئی… اس کا سر گھومنے لگا… اسے آس پاس شرارے نظر آنے لگے… نیم اندھیرے میں رقصِ بسمل…. زخم خوردہ نیند میں جان لیوا خواب…
“تم ان کے ساتھی ہو…… تم ایک دہشت گرد ہو؟”
وہ اسی بات سے ڈر رہا تھا… امریکی جیل میں ایک امریکی کے سامنے مردوں کی طرح بیٹھا وہ یہی دعا کر رہا تھا کہ وہ اس پر “دہشت گرد” کا لیبل نہ لگا دیں…
اخباروں میں پڑھی گئیں’ ٹی وی میں دیکھی گئیں خبریں اس کے آگے پیچھے گھومنے لگیں… اس پر بیان سے باہر دہشت طاری ہو گئی… وہ صرف تفتیش نہیں کر رہا تھا’ اسے دہشت گرد ثابت کر رہا تھا… اس سے منوا رہا تھا…
اس نے ایک غلطی کی تھی ان سے زیادہ رقم لینے کی اور اسی لالچ کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ منسلک کر دیا گیا… جیسے وہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی وہ امریکی سیل میں بھی ہو گا… ایسے ہی اب وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ باہر آئے گا بھی کہ نہیں…
اب اسے ماریہ یاد آ رہی تھی… وہ اس کی بیوی تھی… اسے اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے اور وہ ضرور کرے گی… جب غلام علی غلام کو اس کے اندر ہونے کی خبر ملے گی تو وہ بھاگے چلے آئیں گے اپنے سارے اثرورسوخ استعمال کر لیں گے اور اس کے سسر وہ کیسے برداشت کریں گے کہ ان کا داماد’ ان کی اکلوتی بیٹی کا شوہر جیل میں رہے…
وہ جلد ہی باہر آ جائے گا….. جلد ہی….. اتنی دولت….. اتنے تعلقات کب کام آئیں گے… وہ ایک پڑھا لکھا پُرامن شہری ہے’ ڈاکٹر ہے’ مسیحا دہشت گرد نہیں ہو سکتا… اس کے حق میں بہت سے ثبوت ملیں گے…
……… ……………… ………
جیل آنے کے آٹھ ماہ بعد اس نے بیرونی دنیا کے جس پہلے شخص کو اپنے پاس پایا… وہ اس کا وکیل عبدالعزیز تھا… سیاہ فام امریکی مسلم تھا… اس کے سامنے وہ دیر تک گُم صم بیٹھا رہا… عزیز اسے بتا رہا تھا کہ کن مشکلات سے اس سے یہ ملاقات ہو پائی ہے…
“پاپا نہیں آئے؟” اس کا پہلا سوال یہی تھا… وہ لاغر’ کمزور ہو چکا تھا… یہ جسمانی بات تھی… وہ اندر سے کیا ہو چکا تھا… یہ دوسری بات تھی…
“وہ نہیں آ سکتے……. تم سے صرف میں ہی مل سکتا
ہوں…”
“کہاں ہیں وہ؟ انہیں آنا چاہیے تھا…” ہر کام ممکن کرنے والے پاپا کے لیے یہاں آنا کیا مشکل تھا…
“وہ امریکا میں نہیں ہیں…”
“پھر کہاں ہیں؟” اسے اپنے جیل آنے سے زیادہ صدمہ اس بات کو جان کر ہوا کہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے لے پاس امریکہ میں نہیں ہیں…
“میرے پاس وقت کم ہے… تم مجھے ہر بات بتاؤ… میں نے جتنی بھی معلومات اکٹھی کی ہیں’ وہ ناکافی ہیں…”
“میرے پاپا کہاں ہیں؟” بھاڑ میں جائے اس کا کیس… اسے اپنے باپ کی فکر تھی کہیں……وہ………وہ….
“وہ پاکستان میں ہیں…. مجھے انہوں نے ہی پاکستان سے ہائر کیا ہے…” اس نے تحمل سے جواب دیا… “اب تمہارے کیس پر بات کریں…”
“پاکستان میں….” اسے ایک اور صدمہ ملا… وہ یہاں جیل میں اور اس کا باپ پاکستان میں ہے… ہو ہی نہیں سکتا… وہ تو پہلی فلائٹ لے کر یہاں بھاگے چلے آئے ہوں گے…
“وہ ٹھیک ہیں؟ ٹھیک ہیں وہ؟” وہ صدمے سے گرنے کے قریب تھا… “وہ زندہ ہیں نا” وہ سمجھا اس کے صدمے نے ان کی جان لے لی ہو گی…
“وہ بالکل ٹھیک ہیں’ میری ان سے یہاں آتے ہوئے بات ہوئی تھی… انہوں نے کہا کہ تم گھبرانا نہیں…”
اس بات پر وہ الجھ گیا… “وہ خود کیوں نہیں یہاں آئے…”
“وقت ختم ہو رہا ہے… اپنے کیس سے متعلق بات کرو…” وہ جھنجھلا گیا…
ناچار عدن نے اسے ایک ایک بات شروع سے آخر تک بتا دی…
“ان کے پاس ویڈیو بھی ہے… ان تینوں کی’ تمہاری اسپتال میں آتے وقت کی…… وہ رات گئے آئے تقریباً منہ چھپا کر…
عزیز نے اس سے کافی باتیں کیں… جاتے ہوئے اس نے تسلی کے نام پر دو لفظ نہیں کہے… شاید وہ جھوٹی تسلی دینے والوں میں سے نہیں تھا…
شروع کے دنوں میں وہ چیختا چلاتا رہا تھا… سوال پر سوال کرتا تھا… پھر مار کھاتا تھا… کئی کئی دن بھوکا رکھا جاتا تھا… پھر اسے چپ لگ گئی… اب وہ بنا آواز اور آنسو کے روتا… نیند آجاتی تو شکر کرتا’ ورنہ جاگتا رہتا…. ٹی وی میں دیکھی ڈاکومنٹریاں اسے یاد آنے لگتیں… اب وہ کبھی یہاں سے نہیں نکل سکے گا… پہلے ہی ہفتے اسے یقین ہو
گیا…
اس نے باہر آنے کی امید چھوڑ دی’ وہ صرف موت کا انتظار کرنے لگا… وہ اپنی قید کے دن گننے لگا… اب عزیز ہی اس کے پاس رابطے کا واحد ذریعہ تھا…
اس کا اسپتال سیل ہو چکا تھا… اکاؤنٹ فریز کر دیے گئے تھے… غلام علی غلام کو ان کے پاکستانی وکیل نے مشورہ دیا تھا کہ ان کا امریکہ جانا ٹھیک نہیں… “سی آئی اے” کی تحویل میں وہ بھی آ سکتے ہیں… ایسا سو فیصد ہو سکتا تھا… انہیں پاکستان ہی رکنا پڑا… وہیں سے ساری کوششیں کرنی پڑیں… اسپتال کے فروخت ہوتے ہی… ماریہ اور اس کے خاندان پر بھی کڑی نگرانی رکھی گئی تھی… کئی ہفتے ان سے تفتیش ہوتی رہی تھی… آغا عباس حیدر کو اسٹورز کی ساری چین ہاتھ سے نکلتی دکھائی دی… ان کی اپنی امریکی قومیت خطرے میں پڑ گئی…
اس موقع پر وہ رپورٹ کچھ کام آئی جو ماریہ نے عدن کے تھپڑ پر کروائی تھی اور پولیس عدن کو پکڑ کر لے گئی تھی… ماریہ کی مام ڈیڈ اور اس کے اکلوتے بھائی نے اپنے وکیل کے مشورے پر صاف صاف یہ بیان دیا کہ وہ اس کی عادات اور حرکتوں سے پہلے ہی سے تنگ تھے… وہ خود اس کی طرف سے مشکوک تھے… اس کے رویے سے نالاں تھے… وہ اسے نہیں جانتے… وہ پاکستانی تھا… وہ امریکا میں رہتے تھے… وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا تعلق کن کن لوگوں سے تھا…
آغا عباس حیدر زیادہ گھاگ تھے… انہوں نے چھوٹی چھوٹی اور کئی باتیں سوچ کر گھڑ کر سنائیں… انہیں بس اپنی جان چھڑوانی تھی…
ساتھ ہی ماریہ نے عدالت میں طلاق کے لیے درخواست دائر کر دی… ازبک مام نے اسے لالچی اور پیسے کا رسیا ثابت کرنا چاہا… وہ ایک لمبے عرصے سے امریکا میں رہ رہے تھے… انہیں معلوم تھا کہ امریکا میں کسی مسئلے سے کیسے نکلنا ہے…
عدن کے خلاف ڈھیروں بیانات اکٹھے ہو گئے…
“اس کا ساتھ دینے کے بجائے تمہاری بیٹی اس سے طلاق لے رہی ہے…” بیوی کو گرل فرینڈ بنا کر رکھنے کا مشورہ دینے والے پاپا یہ شکوہ کر رہے تھے…
“یہ فیصلہ وہ پہلا تھپڑ کھانے پر ہی کر چکی تھی…” امریکیوں سے پہلے انہوں نے مان لیا تھا کہ وہ دہشت گرد ہے…
“اس کی مدد کرنے کے بجائے تم یہ سب کرو گے… مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی اور نہیں تو دوست کا بیٹا ہی سمجھ لو اسے…”
“اس کی مدد کے لیے تم کیوں نہیں یہاں آ جاتے….. باپ ہو تم اسے کے…”
“قانونی باپ تو تم بھی ہو اس کے…”
“میں صرف ماریہ کا باپ ہوں اور اسے وہ مارتا رہا ہے… کتنے لالچی ہو تم لوگ’ اس کے اکاؤنٹ سے پیسے تمہارے ہی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتے رہے ہیں… تمہارے بیٹے نے تو یہاں ڈالرز کی فیکٹری لگا رکھی تھی’ دہشت گرد ہے وہ…”
“نہیں ہے وہ دہشت گرد…” وہ غصے سے کھول اٹھے…
آغا جی نے جناتی قہقہہ لگایا… “مان لو یہ بات’ امریکی غلط نہیں ہوتے’ اگر غلط ہوں تو بھی اسے غلط نہیں رہنے دیتے…”
“تم نے پھنسوا دیا ہے اسے…” فون کے پار وہ دھاڑے…
“مجھے اس چوہے کو پھنسوانے کی ضرورت نہیں تھی… ایسی ٹڈی کو میں پیروں تلے بھی نہیں کچلتا’ چوہے کے لیے شیر کا پنجرہ……. ہونہہ……..!”
“اسی ٹڈی کے ساتھ تم نے اپنی کال گرل بیٹی کو بیاہ دیا… جس پر ہر امریکی تھوک کر گیا تھا…” ان کا بس نہیں چل رہا تھا’ آغا کی گردن دبوچ لیں…
“اس تھوکی ہوئی کو تمہارے لڑکے نے کیوں چاٹا آخر…” آغا نے بہت آرام سے پوچھا اور فون بند کر دیا…
اس کے بعد عدن سے متعلق آنے والی کوئی فون کال ریسیو نہ کی گئی… ماریہ کو امریکا سے باہر بھیج دیا… کچھ ہی عرصے بعد خود بھی فرانس چلے گئے… اپنے بزنس کو وہ کہیں سے بھی ہینڈل کر سکتے تھے…
ماریہ نامی باب’ آغا نامی دولت کو بہت شان و شوکت سے عدن کی زندگی میں لکھا گیا تھا…بہت دھوم دھڑکا تھا ان کے نام اور دولت کا’ عدن اور اس کے باپ کے لیے ایک سال آٹھ ماہ پیشتر ان ناموں کا بہت ڈنکا بجا تھا…
رنگ ماسٹر غلام علی غلام نے بہت لمبی پلاننگ کی تھی… دونوں دوست تھے… ساتھ ساتھ پڑھے تھے… آغا امریکا چلے گئے… غلام علی نے اپنے باپ کا کاروبار سنبھال لیا… عشرے میں آغا کہاں کے کہاں جا پہنچے اور غلام علی صرف تین فیکٹریاں ہی بنا سکے… جس طرح وہ اپنے بیٹے کو بڑے بڑے ٹارگٹ دیتے تھے… اسی طرح اپنے لیے بھی بڑے ٹارگٹ ہی رکھتے تھے اور ان کا ٹارگٹ آغا کو کٹ کرنا تھا… لیکن ایسا ہو کر نہیں دے رہا تھا… وہ گاہے بگاہے امریکا چکر لگاتے رہتے… آغا پر قریب سے نظر رکھتے… ماریہ بھی ان کی نظر میں تھی اور اور اس قریب کی نظر میں ہی وہ جان گئے کہ ماریہ جیسی لڑکی ان کے ہاتھ نہیں آئے گی… بہت ہی مشکل ہے’ وہ کرے گی تو اپنی مرضی سے’ ورنہ کوئی اسے عدن کے لیے منا نہیں سکے گا اور آغا کیوں عدن کی طرف جھکے گا… ساتھ ساتھ غلام علی نے دو’ تین اور خاندانوں پر نظر رکھی ہوئی تھی… لیکن آغا عدن کی طرف جھک ہی گیا… ماریہ انہیں مل ہی گئی’ لیکن’ پھر بھی کیا ہوا…
آغا خود کو بچا کر ایک طرف ہو گئے… بیٹا تو ان کا ہی گیا نا…
غلام علی کو یقین تھا کہ اس سب کے پیچھے آغا کا ہاتھ ہے… آغا نے کسی حسد یا جلن میں عدن کو پھنسایا ہے… کوئی بدلہ لیا ہے… غلام علی سے….. اور غلام علی دھوکا کھا گئے… آغا پر سارا الزام دھرتے وہ اس آگ کو بھول گئے جو چلتی فیکٹری میں لگا کر بھڑکائی گئی تھی… فیکٹری دیوالیہ ہو رہی تھی… انہیں بیمہ کی رقم چاہیے تھی… فیکٹری کو حادثے کی ضرورت تھی… اس حادثے کا منصوبہ انہوں نے بنا لیا… غلام علی’ عدن’ عدن کے بھائی’ ان کے چند دوستوں نے مل کر کمال کا منصوبہ تشکیل دیا… چلتی فیکٹری’ دن کے وقت پچاس ورکرز کی موجودگی میں آگ بھڑکی اور فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا…
اس آگ نے کیا کچھ نہیں تباہ کیا تھا… صرف غلام علی غلام کو ہی تباہ نہیں کیا تھا’ دس’ نو عمر لڑکے جھلس کر مر گئے…
باقی جو زندہ رہے’ وہ جگہ جگہ سے جھلس گئے’ تین چند ہفتوں کے وقفے سے مر گئے… کہتے ہیں آگ کا جلا نہیں بچتا’ جو مر گئے تھے ان کے گھر والے پیچھے سے مر گئے… کسی کا جوان بھائی گیا’ کسی کا شوہر’ کوئی تین بچے یتیم کر گیا’ کوئی سات…
مرنے والے مر گئے… فیکٹری بند ہو گئی… باقی ماندہ بےروزگار ہو گئے… امداد کے نام پر ان کو ایک روپیہ نہ دیا گیا… نہ علاج کروایا گیا’ نہ کھانے کو دیا گیا’ فیکٹری میں کام کرنے والے پچاس ورکرز اپنی موت اور آگ سے انجان وہاں پر روز کی طرح کام کرنے آئے تھے… ان میں سے کئی بعد ازاں دمے کے مریض بن گئے… ان کے ساتھ یہ سب اچانک ہوا اور بھیانک ہوا… اتنے جوان بیٹوں’ شوہروں’ باپوں کو نگل لینے والا غلام علی غلام اپنے صرف ایک بیٹے کے لیے تڑپ رہا تھا…
آغا کے لیے ان کے اندر ایسی آگ بھڑکی تھی کہ ان کا جی چاہتا تھا کہ ان کے سینے پر چڑھ کر اس کا کلیجہ کچا کھائیں… لیکن وہ بےبس تھے…
غلام علی غلام کو اب اپنی طاقت اور حیثیت کا اندازہ ہو رہا تھا… زندہ لوگوں کو جلانے والے’ کاغذ کے نوٹ اکٹھے کرنے والے’ فرعون بنتے ہیں’ بھول جاتے ہیں تھپڑ کا جواب گھونسے سے ملے گا اور ضرور ملے گا…
غلام علی غلام کا بس نہیں چل رہا تھا ایک ایک امریکی کو خرید لیں لیکن نہ ان کے اپس اتنے پیسے تھے نہ ہی سارے امریکی بک رہے تھے… امریکا وہ جا نہیں سکتے تھے… ان کے وکیل نے سختی سے منع کیا تھا… عدن کے اکاؤنٹ سے پیسے انہیں ہی ٹرانسفر کیے جاتے رہے تھے… انہیں بھی دہشت گرد سمجھ لیا جائے گا… پاکستان سے ہی انہوں نے ایک قابل وکیل کو ہائر کیا… تمام تر کوششوں کے باوجود عدن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کہاں ہے… کس ریاست’ کس شہر’ کس جیل میں’ کوئی بھی انہیں کچھ بھی بتانے کے لیے تیار نہیں تھا…
آٹھ ماہ غلام علی غلام نے جلتے کوئلوں پر گزارے’ پیسہ پانی کی طرح جا رہا تھا… وہی پیسہ جو پانی کی طرح کمایا گیا تھا… وہ ہر وقت عزیز سے رابطے میں رہتے تھے… عدن سے ملاقات کی روداد سن کر غلام علی غلام رونے کے قریب ہو گئے… انہیں ایسا وقت بھی دیکھنا تھا… ان کا دیوتا غلام بنا لیا گیا تھا… ان کے بار بار پوچھنے پر بھی عزیز نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ دیکھنے میں کیسا ہو گیا تھا… وہ کیس ہی ڈسکس کرتا رہا… عزیز نے انہیں ایک فیصدی بھی آس نہیں دلائی تھی کہ اس کا کیس مضبوط ہے اور وہ جلد ہی باہر آ جائے گا…
“سب کچھ اس کے خلاف ہے… اس کے پاس اپنے حق میں ثابت کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے…”
“وہ بے قصور ہے…” غلام علی کے پاس صرف یہی ایک دلیل تھی…
“اس نے ان سے پیسے لیے تھے…”
“وہ پیسے علاج کے لیے تھے…”
“وہ پیسے ان کی شناخت کو چھپانے کے لیے تھے… عدن نے رات گئے اپنے آفس میں تنہا انہیں ڈیل کیا… ان کا علاج کیا اور…..”
“وہ پھر بھی بے قصور ہے… دہشت گرد نہیں ہے… ان کا ساتھی نہیں ہے… ایسا نہیں ہے وہ…… تم اسے جلد سے جلد باہر نکلواؤ’ جتنا چاہے پیسہ لگے’ میں دوں گا…”
“پیسہ نہیں….. ثبوت چاہیے’ یہاں پیسے کی ضرورت نہیں ہے…”
“پیسے سے سب ہو جاتا ہے…” غلام علی کے پاس ایک ہی حل تھا پیسہ……
عزیز چپ ہی رہا… سوچنے لگا’ کیسا انسان ہے… بات سمجھ ہی نہیں رہا… پیسہ پیسہ کر رہا ہے… جیسے قانون میری جیب میں ہے… عدالت میرے حکم سے چلتی ہو اور میں وکیل نہ ہوں… کوئی دکان دار ہوں کہ سب خرید کر دے
دیا… دو ایسے ہی مشرقی لوگوں سے اس کا واسطہ پہلے بھی پڑ چکا تھا لیکن اس بار اسے حیرت تھی… کیونکہ غلام علی مسلمان تھا… وہ خود بھی مسلمان تھا… اس شخص کے ساتھ وہ پچھلے آٹھ ماہ سے رابطے میں تھا اور اس کی کسی ایک بھی بات نے عزیز کو متاثر نہیں کیا تھا… بہرحال یہ اس کا پیشہ تھا اور اسے دلجمعی سے کام کرنا تھا… وقفے وقفے سے اس کی کئی ملاقاتیں عدن سے ہوئیں… اب وہ کچھ سنبھل رہا تھا… اسے امید تھی کہ وہ جلد ہی باہر آ جائے گا…
“تم دوبارہ ان سے کبھی ملے؟”
“نہیں’ کبھی نہیں’ پھر کبھی نہیں…”
“ان کے نام بھی نہیں جانتے؟”
“نہیں… انہوں نے کہا… کچھ مت پوچھو صرف علاج کر
دو…”
“برائے مہربانی مجھے ایک بار پھر سے یاد کر کے بتاؤ… وہ سے کہیں اور ملے یا دوبارہ تمہارے پاس آئے یا تمہیں فون کیا؟”
“میں کتنی بار بتا چکا ہوں….. نہیں……. نہیں…… نہیں…”
“تمہیں اپنے اعصاب قابو میں رکھنے چاہئیں…” عزیز نے تحمل سے کہا…
“کچھ بھی میرے قابو میں نہیں ہے…” وہ چڑ گیا…
“اکثر باتیں بے معنی نظر آتی ہیں… لیکن وہ بےحد اہم ہوتی ہیں… اگر وہ تیسری’ چوتھی بار تمہارے قریب سے بھی گزرے ہوں گے تو میرے لیے تمہارے کیا کا دفاع مشکل ترین ہو جائے گا…”
عدن نے اپنی سوچوں کو اکٹھا کرنا چاہا… بہت باریک بینی سے’ پھر سے اپنی یادداشت کا جائزہ لیا…
“نہیں…” اس نے کہا… “میں انہیں جانتا ہی نہیں… وہ میرے پاس خود آئے تھے…”
“یہ نہیں مانیں گے’ تم نے ان کی شناخت رجسٹرڈ نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی…”
“یہ کیسے نہیں مانیں گے… میں ایک ڈاکٹر ہوں’ پولیس والا نہیں کہ علاج سے پہلے تفتیش کروں… مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان کے ناموں کے اندراج نہیں کیے… ان کے زخموں کی نوعیت کو چھپایا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان کا ساتھی ہوں یا دہشت گرد ہوں… مجھے میرے حصے کی سزا ملنی چاہیے مگر اتنی بڑی سزا نہیں…”
“یہ دلائل تو جج کے سامنے ہی دیے جائیں گے…”
اس جواب پر عدن غصے سے عزیز کو دیکھ کر رہ گیا…
“اپنی پشت پر ایک ہاتھ ایسا ضرور رکھو جو وقت پڑنے پر تھپکی بھی دے اور ہاتھ بڑھا کر گڑھے سے بھی نکال لے… اپنی پشت پر یہ ہاتھ تمہیں خود بنانا ہو گا… یہ من و سلویٰ نہیں کہ بیٹھے بٹھائے مل جائے…”
عزیز کی بات درست تھی مگر پشت پر تھپکی دینے والا وہ ہاتھ اسی پشت کو کنویں میں اور نیچے دھکا دے کر جا چکا تھا…
اس کا اپنا سگا باپ امریکا کے ڈر سے امریکا نہیں آ رہا تھا…
“امکانات تو بہت سے ہیں… یہ بھی کہ مقدمہ عدالت تک جائے گا ہی نہیں اور یہیں کہیں تمہارا فیصلہ ہو جائے گا…”
ایک اور تیز نگاہ اس نے عزیز پر ڈالی کچا کھا جانے والی…
“ایسا کیسا کر سکتے ہیں… میں ایک عام انسان ہوں… پڑھا لکھا’ ایسے کیسے؟” وہ چلّایا…
عزیز نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا…
“تم ماریہ کے ڈیڈ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو’ بہت سے سرمایہ دار ان کے دوست ہیں… بڑے بڑے لوگ ان کے گھر آتے جاتے ہیں… کچھ قانون دان بھی ان کے جاننے والے ہیں… میڈیا سے روابط ہیں ان کے…”
“جو بیانات انہوں نے تمہارے خلاف دیے ہیں’ مجھے نہیں لگتا کہ وہ تمہاری کوئی بھی مدد کریں گے… مگر پھر بھی ٹرائے کرنے میں کوئی حرج نہیں…”
“ماریہ سے بات ہوئی تمہاری؟”
“اس کے وکیل سے ہوئی تھی…”
عدن نے تین’ چار غلیظ گالیاں ماریہ کے نام کی’ وہ امریکی قانون دانوں کو گالیاں دینے لگا… جنہوں نے اس جیسے شریف’ پڑرھے لکھے انسان کو قید کر لیا تھا…
پھر گیارہ ماہ گزر گئے… کوئی پیش رفت نہ ہو سکی…
اب وہ اس کی منت سماجت پر آ گیا…
“میں کوشش ہی تو کر رہا ہوں عدن!”
“مجھے یہاں سے نکالو’ پلیز’ کچھ کرو…” اس نے رونے میں شرم محسوس نہیں کی اور عزیز کے سامنے رونے لگا…
“اگر تم پر کچھ ثابت نہ ہوا تو تم ضرور باہر آؤ گے…”
“اگر ثابت ہو گیا… انہوں نے ثابت کر دیا…….. پھر…… پھر؟”
“ٹیک اٹ ایزی پلیز…” وہ اتنا ہی کہہ سکا…
“مجھے کون بےگناہ ثابت کرے گا…”
“میں کوشش کروں گا’ کر رہا ہوں…”
“کوئی میری ضمانت بھی نہیں کروا سکتا؟”
عزیز کو اس کے بھولپن پر تمسخرانہ ہنسی سی آئی…
“ابھی تو اوباما بھی تمیں ضمانت پر رہا نہیں کروا سکتا…”
“پھر کون کروا سکتا ہے؟” اس وقت وہ پاگل پن کی حد کے قریب تر تھا…
عزیز نے کندھے اچکائے… پھر جیسے کچھ یاد آیا…
“خدا…”
“خدا!” عدن بڑبڑایا… جیل میں رہتے بھی اس نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی… دکھ میں ہی سہی…
جسے مانگنا آتا ہے… اسے مل ہی جاتا ہے… عدن کو مانگنا آتا نہیں تھا… جسے آتا تھا اس کا دعوا تھا اسے سب مل جاتا تھا…
“تم ایک کام کرنا عزیز…… پاپا کو فون کرنا’ غور سے سنو’ کہنا’ انارکلی’ نیلا گنبد گلی نمبر چار میں جائیں… سبز رنگ کے دروازے والے گھر میں آواز دے کر کہیں مجھے آزاد کروا دے… صرف ایک اور احسان کر دے… گھر چھوٹا ہے… گلی تنگ ہے لیکن پاپا سے کہنا’ ضرور جائیں… وہ مانگتی ہے اور اسے ملتا ہے… میری آزادی بھی مل جائے گی…”
عزیز اس کی طرف دیکھے گیا… وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا… “میں کہہ دوں گا…”
“تم یاد سے کہہ دینا…” اس نے آنکھیں پونچھیں…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...