چھ ماہ وہ پاکستان میں جھنگ میں پاپا کے ایک دوست کے پاس رہا… وہ کمپیوٹر سائنس کا اسٹوڈنٹ تھا… کالج سے وہ نکالا گیا تھا… اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی اور پاکستان میں ابھی کسی بھی کالج میں ایڈمیشن نہیں لے سکتا تھا… کیونکہ سیشن شروع ہو چکے تھے… اب اسے سیشن ختم ہونے کا ہی انتظار کرنا تھا… انکل ہاشمی کی مدد سے اتنا ضرور ہوا کہ اسے ایک کوچنگ سینٹر میں انگلش ٹیچر کی جاب مل گئی… ایک اس کی انگلش ہی اچھی تھی اور وہ یہی پڑھا سکتا تھا… ماما نے اسے آتے ہوئے پیسے دیے تھے… پیسوں کا اسے مسئلہ نہیں تھا… لیکن اب وہ فارغ نہیں رہنا چاہتا تھا… زیادہ وقت کوچنگ سینٹر میں ہی رہتا… استقبالیہ پر بھی بیٹھ جاتا… جب وہ فر فر انگریزی میں بات کرتا تو انگلش کے لیے ٹیوشن کا پوچھنے آئے لڑکے لڑکیاں ایڈمیشن لے لیتے… کوچنگ سینٹر کا مالک اس سے بہت خوش تھا… اچھے پیسے دے دیتا تھا…
چھ ماہ جھنگ میں اس کا اچھا ہی وقت گزر گیا… پھر مسز گوہر بھی پاکستان آ گئیں… ان کا آبائی شہر لاہور تھا… یہیں سے وہ برطانیہ گئے تھے… ان کے باقی رشتےدار بھی مختلف ملکوں میں سیٹل تھے… ماموں دبئی میں رہتے تھے اور احمر کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ نہ ہونے کے سلسلے میں ناراض تھے… اتنے ناراض تھے کہ بات ہی نہیں کرتے تھے… خالہ کینیڈا میں تھیں اور ان کے شوہر قدامت پسند مذہبی تھے…انہیں گوہر خاتون کے کٹے ہوئے بال پسند نہیں تھے اور فرزام کے چچا کے ساتھ بھی وہی معاملہ درپیش تھا’ جو ان کا احمر کے ساتھ تھا… برسوں پہلے انہوں نے بھی ان کے حصے کی گاؤں کی زمین اپنے نام کروا لی تھی…
چند دن جھنگ میں رہ کر وہ دونوں لاہور آ گئے… انکل ہاشمی نے ان کے لیے ایک کرائے کے گھر کا انتظام کر دیا
تھا… یہ گھر ایم اے او کالج کے قریب تھا… بمشکل چار مرلے کا ہو گا… تین کمرے نیچے تھے… دو کمرے اوپر تھے… انہوں نے ایک سال کا ایڈوانس کرایہ دے دیا… ان چھ مہینوں میں مسز گوہر نے کسی نہ کسی طرح سے احمر سے کچھ پیسے لے ہی لیے تھے… کچھ ان کی اپنی بچت بھی تھی اور پاکستان میں بنائے گئے سونے کے زیورات… چند زیورات انہوں نے تانیہ کو دے دیے تھے… باقی ان کا خیال تھا کہ اسے ڈیزائن بدلوا کر دے دیں گی… لیکن آنے والے وقت میں وہ جب اسے کچھ کچھ سمجھ گئیں تو انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کیا…
زیورات بھی انہوں نے بیچ دیے… دو بیڈروم اوپر سیٹ کر لیے… سیکنڈ ہینڈ فرنیچر مناسب اور اچھی حالت میں انہیں آرام سے مل گیا… ان دونوں کو زیادہ سامان کی ضرورت بھی نہیں تھی…
لاہور شہر میں اب پڑھنے والے کم ہی ہوں گے… لیکن پڑھانے والے جگہ جگہ اڈے بنا کر بیٹھ گئے… فرزام کو اس کا بہت فائدہ ہوا… وہ شام سے رات تک تین مختلف اکیڈمیوں میں ایک ایک’ دو دو پیریڈز لینے لگا… دن میں وہ مسز گوہر کے ساتھ ان کے کام کرتا…
برطانیہ جانے سے پہلے مسز گوہر اپنے گھر میں بچوں کے روایتی ملبوسات بنانے کا کام کرتی تھیں… ایک اچھی لوکیشن میں ایک اسٹور کرائے پر لیا تھا… جہاں مٹیریل تیار ہونے کے بعد فروخت کیا جاتا تھا… ساتھ ساتھ دوسرے اسٹورز میں بھی ڈسپلے کیا جاتا تھا… کوٹھی کے نیچے والے پورشن میں یہی کام ہوتا تھا… وہیں ان کا چھوٹا سا آفس بھی تھا… احمر سے جب بار بار انہوں نے اپنے ٹھیک ٹھاک چلتے ہوئے کام کے بارے میں کہا تو احمر نے ہزار مثالیں
دیں… انہیں سمجھایا کہ وہ یہی کام یہاں بھی کر سکتی ہیں… بلکہ یہاں تو ان کے کام کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا… انڈین اور پاکستانی تو ترستے ہیں کہ انہیں روایتی پہناوے مل جائیں… اتنی یقین دہانیوں پر بھی سب بیچ باچ چلی گئیں اور آخر میں ان کے ہاتھ گھاٹا ہی آیا…
انہوں نے پرانے کاریگروں سے رابطے کیے… لیکن جس معاوضے پر وہ لوگ اب پاکستانی انڈسٹری میں کام کر رہے تھے… وہ اتنا معاوضہ انہیں دے نہیں سکتی تھیں… اب انہیں کم معاوضے پر لیکن اچھے کام کرنے والے چاہیے تھے… کٹنگ کا کورس تو وہ برطانیہ سے کر آئی تھیں… ساتھ ہی دوسرے چھوٹے بڑے کٹس کا… اسی لیے اب انہیں کٹنگ ماسٹر رکھنے کی تو ضرورت نہیں تھی… دو ماسٹر جی رکھے سلائی کے لیے… ایک کاریگر مشینی کڑھائی کے کام کے لیے اور ایک کاریگر فریم ورک کے لیے…
ایک مہینے سے وہ شاہ عالمی بازار جا جا کر مٹیریل اکٹھا کر رہی تھیں… پہلے انہیں یہ سہولت تھی کہ ان کے پاس کار تھی اور مخصوص دکان داروں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے… وہ انہیں کسی کے بھی ہاتھ مٹیریل کی فہرست بھیج دیتیں اور پھر جا کر چیک کر کے لے آتی تھیں… رنگ ساز کے ساتھ ماہانہ حساب کتاب تھا…
شاہ عالمی میں انہوں نے پرانے دکان دار ڈھونڈنے چاہے… مگر ان میں سے صرف ایک ہی ملا… وہ ایک ہی بہت تھا… فہرست ہاتھ میں لیے انہیں بار بار بازار جانا پڑتا… پھر اتنا سامان دونوں کو اٹھا کر رکشے میں ڈال رک لانا پڑتا… فرزام تو انہیں سامان اٹھانے نہ دیتا… لیکن اپنے بیٹے پر اتنا بوجھ ڈالنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا… شروع شروع میں فرزام شاپرز ہی پکڑ لیتا تھا… پھر ایک دن اس نے عجیب کام کیا… وہ ایک بڑا اور چوڑا کپڑا اپنے ساتھ لے آیا… سارے سامان کو اس میں باندھا اور دکان دار کی مدد سے اس نے وہ گٹھڑی اپنے سر پر رکھوا لی… مسز گوہر کی چیخ نکل گئی…
“فرزام! تمہاری گردن میں جھٹکا آ جائے گا… خدا کے لیے ایسے مت کرو… پلیز اسے اتارو…”
“نہیں ماما….. میری گردن ٹھیک رہے گی….. میں نے بہت سے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے… آپ مجھے بھی کرنے دیں…”
“تمہیں عجیب نہیں لگ رہا؟” وہ خوف زدہ نظروں سے اس کے سر پر جمی گٹھڑی کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ اب گری کہ اب گری…
“نہیں ماما! ایسی باتیں بھی عجیب لگتی ہیں کیا؟”
شاہ عالمی کے رش میں وہ دونوں جگہ بناتے آگے پیچھے…… کبھی ساتھ ساتھ گزر رہے تھے…
“مجھے تو بہت مزہ آرہا ہے اس روٹین کا… جانتی ہیں ایک بہت بڑی جاپانی کمپنی کا مالک اپنے گھر کی کیاریوں کی خود دیکھ بھال کرتا ہے’ کھاد ڈالتا ہے’ کانٹ چھانٹ کرتا
ہے… جب میں نے اس کے بارے میں پڑھا تو سوچا کہ جب میں بھی اس جتنی بڑی کمپنی کا ملک بن جاؤں گا تو میں بھی ایسے ہی پودوں میں کھاد ڈالا کروں گا… اپنے جوتے پالش کیا کروں گا… پر مجھے ان معلوم ہوا ماما کہ وہ کمپنی بنانے سے پہلے کرتا رہا ہے… بڑے کام سے پہلے ہی چھوٹے کام کرنے پڑتے ہیں… ان فیکٹ سارے کام کرنے پڑتے ہیں… ان میں شرم نہیں کرنا چاہیے’ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ماما؟” گٹھڑی والا سر اس نے ذرا سا موڑ کر اپنی ماں کی طرف دیکھا…
“ہاں! میرے بچے… اتنی عظیم باتیں کر رہے ہو کہ مجھے راستہ ہی دکھائی نہیں دے رہا…”
“ہاہاہا……. آنکھیں صاف کر لیں نا… بات بات پر رویا مت کریں…” وہ ہنسا تو وہ بھی ہنسنے لگیں…
گھر میں کام شروع ہو گیا… دن میں فرزام نمونے لے کر انارکلی’ کرشن نگر’ باغبان پورہ’ سنت نگر’ بھاٹی دروازے’ لاہور اسٹیشن’ صدر’ گوال منڈی’ اچھرہ بازاروں میں’ دکانوں میں جا جا کر آرڈرز لیتا… دیکھنے میں وہ ذرا انگریز انگریز لگتا تھا… انگریزی لب و لہجے کہ اردو بولتا تو بہت ہی پیارا’ چھوٹا سا صاحب لگتا نمونے دیکھنے والے سوچتے کہ گورا صاحب کام کر رہا ہے… کوالٹی بھی اعلا ہو گی اور باقی مٹیریل بھی اور ساتھ ساتھ وہ اپنے گاہکوں سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ “انگریز کی صنعت کے بنے ہیں” جیسے جاپان کی مشینری’ کوریا کی جیولری’ ترکی کا فرنیچر اور اب انگریز کے کپڑے……
پھر وہ بات بھی بہت اچھے انداز میں کرتا تھا’ دکانوں میں جاتا تو اس کی مہمان نوازی کرنے کو ان کا جی چاہتا… انہیں آہستہ آہستہ آرڈرز ملنے لگے… وہ آرڈرز لیتا بھی اور سپلائی بھی کرتا ایک عدد سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل اس نے لے لی تھی… لیکن لاہور کہ سڑکوں پر’ خاص طور پر اچھرے اور بھاٹی دروازے کے بازاروں کی چھوٹی بڑی پھنسی ہوئی سڑکوں پر بائیک چلانا امریکا کے سب سے اونچے پل کے موٹے رسے پر بائیک چلانے کے قریب قریب برابر تھا… ہر بار واپسی پر آکر وہ کہتا…
“تیرا لعل زندہ آ گیا ماما….! جلدی سے امیر ہو جائیں ورنہ میری خیر نہیں…” وہ ہنس دیتیں…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...