“ثنا سکندر اٹینشن ہوجاؤ۔کچھ ہی دیر میں کانوکیشن اسٹارٹ ہوجائے گا اور تم ابھی تک نیند کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہو۔” ڈیزی اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔
” یار کب شروع ہوگا یہ کانوکیشن میں تو کھڑے کھڑے اکڑ گئی ہوں۔ڈسکوری والوں پہ اتنا برا وقت آگیا ہے کہ ان کی بھی کوریج کریں۔ ” ثنا منہ بناتے ہوئے بولی
“مس ثنا شاید آپ یہ بھول رہی ہیں کہ ہم یہاں کس تھیم کیلئے آئے ہیں اور یہ تمہاری پہلی کور اسٹوری ہے ڈسکوری کیلئے۔ ” ڈیزی ڈیجیٹل نوٹ بک پہ نگاہ ڈالتے ہوئے بولی۔
” اوکے! بابا آئی نو بٹ ہم اپنی اسٹوری کیلئے ان سے بعد میں بھی مل سکتے ہیں مینز ان کے انٹرویوز کرلیں گے۔” ثنا کچھ نروس ہوتے ہوئے بولی۔
ڈیزی نے اس کا نروس ہونا محسوس کیا۔نوٹ بک کوسائیڈ پہ رکھا اور ثنا کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔” یو نو ثنا اس کور اسٹوری کیلئے مونیکا نے تمہیں کیوں سلیکٹ کیا بی کاز یہ motivational story اس عورت کی ہے جو ایک ایسے system سے تعلق رکھتی ہے’ جہاں عورت کو basic needs تک حاصل نہیں اور ایسے میں یہ لیڈی she is a quite symbol of miracle۔تمہیں معلوم ہے یہ اس لیڈی کی سیکنڈ ڈاکٹریٹ ہے اور سب سے اسپیشل بات اس کے بیٹے نے بھی اس کے ساتھ ڈاکٹریٹ کیا ہے دونوں کو ایک ساتھ ہی ڈگری ملے گی۔ what a moment وہ پاکستانی ہے اور تم بھی جس طرح تم اسٹرگل کر کے یہاں تک پہنچی ہو۔ تم سے اچھا اس اسٹوری پہ اور کوئی کام نہیں کرسکتا۔تمہارے پاس ایک ونڈر فل چانس ہے کہ تم بتا سکو اپنے کنٹری کے بارے میں کہ پاکستان کا رائٹ سین کیا ہے۔ ”
” وہ تو ہے بٹ میں بہت نروس ہوں۔ ” ثنا خوف ذدہ سی تھی۔
” اوہ کم ان میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ” ڈیزی اسے تسلی دیتی ہوئے بولی۔
******
ثنا سکندر اور ڈیزی مائیکل دونوں کا تعلق ڈسکوری سے تھا۔ ڈیزی تو باقاعدہ ڈسکوری کی ایمپلائی تھی مگر ثنا ٹرائل بیسس پہ تھی۔پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کے بعد وہ لندن آگئی تھی۔ صحافت اس کا شوق تھا جنون تھا وہ اسٹرگل کر کے یہاں پہنچی تھی مونیکا ایڈیگر ان کی ہیڈ تھی اس نے ثنا کو ” quite colour of lady of east” کی تھیم دیتے ہوئے کہا تھا۔
“مشرق میں بہت اسرار ہے ثنا سکندر جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ تم مشرق والے اپنے راز آسانی سے نہیں کھولتے اس لئے میں چاہتی ہوں مشرق ہی مشرق کے مقابل آئے تم اس اسٹوری پہ کام کرو تو بتاؤ مشرق کی adorable ladies کون کون ہیں؟” مونیکا پیپر ویٹ گھماتے ہوئے بول رہی تھی
” محترمہ فاطمہ جناح جنہوں نے پاکستان کی محبت میں اپنی ذاتی ذندگی قربان کر دی۔بینظیر بھٹو جو اپنے کازز کیلئے فیملی سے دوری کا گھونٹ پی لیتی ہے۔.” ثنا کو زیادہ سوچنا نہیں پڑا تھا۔
” اونہوں! ثنا عام عورت کی خاصیت کی بابت بتاؤ جن کی خاصیت عام نہ ہو ایسے تو پھر مدر ٹریسا,گاندھی فیملی کی لیڈیز بھی ہیں۔” مونیکا بولی۔
ثنا ایک لمحے کیلئے چپ ہوگئی کتنی خواتین ہوں گی اس وقت پاکستان میں جو محدود وسائل میں سروائیو کر رہی ہیں اور ہر میدان میں آگے ہیں۔
“تم جو نام لے رہی ہو وہ اس وقت ایک دنیا جانتی ہے مگر کیا تم ایک ایسا نام جاننا چاہو گی جسے دنیا تمہارے ذریعہ جانے۔” مونیکا لیپ ٹاپ کی طرف جھکتے ہوئے بولی۔
” وائے ناٹ!” ثنا نے کہا۔
” یہ دیکھو۔” مونیکا نے پروجیکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” یہ تو کیمبرج یونی ہے۔ ” ثنا حیرانگی سے بولی
” یس مائی ڈیر۔کل کیمبرج کا کانوکیشن ہے اور وہیں تم مل سکو گی دی ونڈر فل لیڈی ایلاف اذلان شاہ سے۔ ” مونیکا اٹھتے ہوئے بولی۔
“تمہیں باقی ڈیزی گائیڈ کردے گی۔” یہ کہہ کر مونیکا چلی گئی۔
******
سو اب ثنا اور ڈیزی کیمبرج کے کانوکیشن ہال میں تھیں۔
” اوہ! ثنا لک وہ آرہے ہیں۔ دونوں ماں بیٹا بٹ دیکھو وہ ڈیشنگ سا مرد بھی ہے آئی تھنک پوری فیملی ہے۔”ڈیزی پرجوش سی ہو کے بولی۔
ثنا نے سامنے دیکھا اور مسمرائز سی ہوگئی تھی۔ وہاں بہت لوگ تھے مگر ان تینوں جیسا نہ تھا کوئی وہاں ۔ایلاف اذلان درمیان میں تھی روایتی کنوینشن ڈریس اور مشرقی لباس پہنے،سر پہ سرمئی اسکارف باندھے وہ ایک باوقار سی لیڈی تھی۔ اس کے بیٹے نے بھی کنوینشن ڈریس پہن رکھا تھا براؤن سوٹ پہ جبکہ ایلاف کے دائیں طرف گرے سوٹ پہنے سرمئی میچنگ ٹائی لگائے ذہانت سے بھر پور شہد رنگ آنکھوں پہ گلاسز لگائے مردانہ وجاہت کا شاہکار وہ اپالو جیسا دکھنے والا شاندار شخص ایلاف کے ہم قدم تھا اس کے عنابی لب ایلاف کی کسی بات پہ مسکرائے تھے اور ثنا نے سوچا تھا۔
“کوئی مرد اتنا حسین مسکرا بھی سکتا ہے؟ ”
” واؤ یار یہ ماں بیٹا کم بہن بھائی زیادہ لگ رہے ہیں اور ہزبینڈ تو دیکھو اسکا یہ ہالی وڈ میں آجائے تو سب کی چھٹی ہوجائے۔ ” ڈیزی نثار ہوتے ہوئے بولی۔
” ہم یہاں ایلاف لیڈی کو فوکس کرنے آئے ہیں نا کہ ان کے شوہر کو ہالی وڈ میں چانس دلانے اب چلو اپنی سیٹ پہ کانوکیشن اسٹارٹ ہوگیا ہے۔ ” ثنا ڈیزی کو آگے دھکیلتے ہوئے بولی جو اب بھی پلٹ کے انہیں ہی دیکھے جا رہی تھی۔
******
کنونشن اسٹارٹ ہوچکا تھا ڈگریز اسٹوڈنٹس کو ملتیں وہ اپنی اسپیچ کرتے اور پھر آگے سلسلہ چلتا۔
” لیڈیز اینڈ جینٹیلمینز آج کا دن کیمبرج یونی کیلئے یوں بھی خاص ہے کہ اکنامکس کی فیلڈ میں آج جو ڈاکٹریٹ دی جارہیں اس میں دو اسٹوڈنٹس ایسے ہیں’ جو ماں بیٹا ہیں دونوں نے ایک ہی فیلڈ میں ریسرچ کیا اور ایز یو نو لیڈیز فرسٹ سو مسز ایلاف اذلان شاہ کم آن اسٹیج اینڈ ٹیک یور ڈگری۔ ” ڈین کی بات پہ ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا ایلاف اپنی جگہ سے اٹھ کے اسٹیج تک آئی ڈگری لی اور ڈائس تک آئی دونوں ہاتھ ڈائس پہ ٹکائے وہ مسرور سی مسکرا رہی تھی چاند جیسے چہرے پہ روشن مسکان۔
” سو ایلاف واٹ ڈو یو فیل کیا کہیں گی آپ کسے دیں گی کریڈٹ آپ؟ ” میزبان پوچھ رہا تھا۔
” اللّه! میں شکر گزار ہوں اس کی جس نے میرا وسیلہ پیر اذلان شاہ کوبنایا۔اگر میری ذندگی میں آپ نہ ہوتے تو ایلاف محبوب ہی رہ جاتی میں۔ آپ انگریز کیا کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو میری کامیابی کے پیچھے ان کاہاتھ ہے۔میرے عشق کا جنون میری زندگی کا نور ہیں یہ۔ ” ایلاف کا لہجہ عقیدت سے چور تھا۔
“عشق کا جنون! محترمہ ہم انگریز عشق نہیں جانتےمگر اتنا ضرور جانتے ہیں آپ کا سفر اتنا بھی آسان نہیں ہوگا بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے جنوں کی راہ میں۔ ”
“ٹھیک کہا آپ نے سفر مشکل سہی مگر ہم سفر ہی مسیحا ہو تو تھکن محسوس نہیں ہوتی۔اپنا مسیحا خود ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ چھاؤں میں بیٹھنے کیلئے شجر خود اگانا ہوتا ہے۔ میری منزل سامنے اور مسیحا ساتھ ہے۔ تلاش، کوشش اور جستجو کے ساتھ یقین کا دیا ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ ” ایلاف نے اس نوٹ کے ساتھ اسپیچ ختم کی اور اسٹیج سےاتر گئی۔
ہال میں تالیوں کی گونج تھی اور فلیش لائٹس کی جھلملاہٹیں تھیں سب ان دونوں کو دیکھ رہے تھے کیا بونڈنگ ہے ان میں؟
مشرق میں بھی کمال ہے۔ بیویوں کو شوہر ایسے سپورٹ کرتے ہیں سب یہی سوچ رہے تھے کوئی ان لمحوں کی گرد بھی نا پا سکا تھا جنہوں نے ایلاف محبوب کی زندگی میں جہنم کے شعلے دہکا دئیے تھے۔
******
ڈیزی نے ثنا کو دیکھا جو سر جھکائے کاغذ پہ لکھ رہی تھی۔
ایلاف اذلان شاہ!
وہ لڑکی جو حجاب پہنتی ہے
وہ جس کا شوہر جاگیردار ہے
جو روایتوں سے جڑی زمین سے ہے
جہاں عورت سانس بھی لینے کو ترستی ہے
جہاں مرد عورت کا استحصال کرتا ہے
وہاں
ایلاف اذلان شاہ
پڑھتی ہے
قدم آگے بڑھاتی ہے
اس کا مرد اس کا ساتھ نبھاتا ہے
وہ اسے دھتکارتا نہیں
اسکا سائبان بنتا ہے
وہ اسے جلتی دھوپ میں سایہ دیتا ہے
وہ آذاد ہے
ایلاف اذلان شاہ
روتی نہیں
ہمت ہارتی نہیں
وہ سر جھکاتی نہیں
کیوں کہ
وقت اور خدا دونوں اس پہ مہربان ہیں!
“کیا لکھ رہی ہو ثنا اتنے آرام سے تم سارا کریڈیٹ اس کے شوہر اور قسمت میں ڈال رہی ہو۔ ” ڈیزی صدمے سے بولی
” ہاں تو برا کیا ہے ہمارے معاشرے میں عورت مرد پہ ہی ڈپینڈ کرتی ہے۔کبھی باپ کے روپ میں تو کبھی شوہر کے روپ میں مرد کو عورت کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت کم مرد عورت کو اس کا حق دیتے ہیں۔ “ثنا جوش سے بولی
” دیٹس مائی پوائنٹ مرد مرد ہے اور عورت’عورت ہے لوگ وہی’ وقت وہی رواج اور حالات وہی مگر قسمت ایلاف جیسی عورتوں کی ہی کیوں چمکتی ہے؟ ” ڈیزی سانس لینے کو رکی پھر بولی ” مرد اور عورت کوئی نئی جنس نہیں پیدا ہوئی ایلاف اور اذلان شاہ کی صورت میں۔یہ دونوں توازن کی وہ خوبصورت مثال ہیں جسے ہم مغرب والے تمہارے مشرق کے گاؤں، محلوں میں ڈھونڈتے ہیں اور تم مشرق والے مغرب کے بارز اور کسینوز میں۔مرد عورت کو موقع تبھی دیتا ہے’جب وہ اس کے رنگ میں رنگتی ہے۔ مرد کی فطرت بڑی عجیب ہوتی ہے وہ عوت سے جڑا رہتا ہے۔بچپن میں ماں سے، جوانی میں بیوی سے مگر اس عورت سے جو اس کا اندر پڑھ لے مرد اس عورت کے آگے ہی جھکتا ہے جو اس کو سنوار دے جس میں اس کی ماں جیسی خصوصیت ہو ورنہ اذلان شاہ تو پورا کڑیل مرد ہے۔ فیوڈل سسٹم کا جاگیردار بہت سے مظلوموں کا ناخدا۔اس کی نرم روئی میں کمال ایلاف شاہ کی ریاضت کا ہے جس کا ثمر وہ صرف اسے ہی دیتا ہے ورنہ ایک سے بڑھ کے ایک چہرہ ہے یہاں مگر اس کی نگاہ میں صرف ایلاف ہے۔ اذلان شاہ کا ہر انداز پکار رہا ہے کہ وہ صرف ایلاف کیلئے یہاں ہے کچھ تو کمال ہے،کوئی تو اسرار ہے،مرتبہ یوں ہی تو نہیں ملتا۔ ” ڈیزی ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے بولی۔
” تم کہتی تو ٹھیک ہی ہو۔میری کھوج یہی ہے کہ کیسے ہوا ہے یہ سب اتنا کمال’اتنا بانصیب اور با مراد ہونا ایک انسان کے نصیب میں کب آتا ہے؟کیسے آتا ہے؟” ثنا کاغذ سمیٹتے ہوئے بولی۔
“اتنی آسانی سے تم مشرق والے اپنے راز کھول دو تو ہم مغرب والے کھوج ہی کیوں لگائیں۔یہ لیڈی اذلان نرم حلوہ تو قطعا نہ ہوں گی۔ ” ڈیزی اٹھتے ہوئے بولی۔
” ڈونٹ وری میں بھی مشرق سے ہوں۔ ہم مشرق والے اپنے راز ایک دوسرے سے سانجھے رکھتے ہیں۔اب چلو ان کی طرف اس سے پہلے وہ لوگ نکل لیں۔” ثنا اسے تسلی کے ساتھ ہوشیار کرتے ہوئے بولی۔
” اوہ ہاں!چلو ” ڈیزی بولتے ہوئے اس کے ہم قدم ہوئی۔
*******
” ڈیڈ آج مجھے بڑا افسوس ہو رہا ہے۔میں اور مام آج خیر سے ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں۔ وی ہیو ٹو سلیبریٹ! آج سے پہلے ہم تینوں ساتھ سلیبریٹ کرتے تھے بٹ آج ہمارا ٹرائنگل بریک ہوگیا ہے۔ ” سفیان شاہ افسوس سے سر ہلاتے ہوئے بول رہا تھا۔
” کیوں بھئی سفی ساری سلیبریشن میں اذلان ہمارے ساتھ ہوتے ہیں تو آج کیوں نہیں؟ ” ایلاف نے پوچھا۔
” کیوں کہ پاپا ڈاکٹریٹ نہیں ہیں اور ویسے بھی ماما ہم جینئس ماں بیٹے کے ساتھ اونلی ماسٹرز پاپا!نو’نو جوڑی جم نہیں رہی۔ ” سفیان مسلسل اذلان شاہ کو تنگ کرتے ہوئے بول رہا تھا۔
” سفی میرے سامنے کہہ رہے ہو تم یہ اس ڈگری پہ نام صرف میرا ہے مگر یہ بات ہم دونوں جانتے ہیں ساری ریسرچ رپورٹنگ تمہارے پاپا کی وجہ سے ہی پاسبل ہوئی ورنہ کیمبرج میں کوئی گھسنے بھی نہ دے ہمیں۔ ” ایلاف برا مانتے ہوئے بولی۔
” کیا مام کبھی تو میری سائیڈ لیا کریں۔ کیا آ وائف الویز بی وائف بنی رہتی ہیں اور پاپا آپ بھی کچھ بولیں نہ بلیو می مام آپ کو نہیں ڈانٹیں گی۔” سفیان شرارت سے بولا۔
” ہمارا وکیل اتنا زبردست ہے کہ ہمیں ضرورت ہی نہیں کچھ کہنے کی اور صاحبزادے آپ ہماری زوجہ کو کبھی ورغلا نہیں سکتے۔”اذلان شاہ ایلاف کے چہرے کو نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوئے بولے۔
” یہ چیٹنگ ہے بھئی! آپ دونوں ہمیشہ میچ فکسڈ کردیتے ہو۔ کبھی تو مجھ بیچارے پر رحم کیا کریں۔ کیا سوچا تھا میں نے کہ آج صرف میں اور مام ڈنر پہ جائیں گے آپ دونوں کو لڑوا کے مگر کہاں بھئ خیر …..اے دنیا کے خوبرو ترین مرد کیا اس پرستان کے شہزادے کو اس قلوپطرہ ثانی کے ساتھ عیشائیہ تناول کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟” سفیان دونوں ہاتھ باندھ کے فریادی انداز میں بولا۔
ایلاف کی ہنسی چھوٹ گئی تھی سفی ایسے ہی رونق لگائے رکھتا تھا۔
“شہزادے پہ ہمیں اعتراض ہے مگر سوچا جاسکتا ہے۔انفیکٹ ہمیں شام میں برمنگھم جانا ہے تو تم ڈنر ,بریک فاسٹ دو دن تک اس قلوپطرہ کے ساتھ تناول کرسکتے ہو۔” اذلان شاہ شاہانہ انداز میں بولے۔
” ارے اذلان سفی یونہی ہانک رہا ہے ہم ہمیشہ کی طرح ساتھ ہی سب پلان کریں گے۔ ” ایلاف جلدی سے بولی۔
” ایلی! آئی نو جانتا ہوں اس جوکر کو مگر کچھ کام ہے ارجنٹ شیلٹر ہوم سے ریلیٹیڈ پھر کچھ بزنس کے ایشوز بھی سو ڈونٹ وری۔ ” اذلان نرمی سے بولے۔
” آپ کے ہوتے ہوئے کیا ٹینشین گڈ لک اور میرے خیال سے اب چلنا چاہئے کافی انٹرویوز اور فوٹوز ہوگئے۔ ” ایلاف اٹھتے ہوئے بولی۔
” یس مام! چلیں گھر چھوڑ دیں آپ کو پھر ڈیڈ کو بھی چھوڑنا ہے آپ بھی تھک گئیں ہیں۔” سفیان سنجیدگی سے بولا وہ دیکھ رہا تھا کیسے صحافیوں کی بارات اور سوالات نے ایلاف کو گھیرنا تھا۔
” ایکسکیوزمی! ” کی آواز پہ سفیان نے پلٹ کے دیکھا وہ دو لڑکیاں تھیں۔
” نو مور انٹرویو ز۔وی آر گوئنگ۔ ” سفیان روڈلی بولا۔
” لیڈی اذلان ہم ڈسکوری سے ہیں۔مونیکا سے آپ کی بات ہوئی تھی ہماری کمٹمنٹ ہے۔ ” ثنا سفیان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔
” اوہ یس! بٹ اب ہم جا رہے ہیں آپ یہ کارڈ رکھ لیں۔ میٹنگ ٹائم فکسڈ کرلیں گے آپ نے یہاں تو اپنا کام پورا کرلیا نا۔” ایلاف اخلاق سے بول رہی تھی۔
” اوہ تھینک یو ہم آپ سے جلد کانٹیکٹ کریں گے یہاں تو کام ہوگیا ہے۔ کیا آپ لوگ کیا ایک فیملی فوٹو دیں گے؟ ” ڈیزی پروفیشنل انداز میں بولی۔
” ابھی جو وہاں پورا پورٹ فولیو شوٹ ہوا ہے تو آپ دونوں کیا سو رہی تھیں؟”سفیان ناگواری سے بولا۔
” ڈسکوری کا کام کرنے کا طریقہ الگ ہے مسٹر وی آر دا بیسٹ۔لیڈی اذلان کین وی ہیو فوٹو؟ ” ثنا چبا چبا کے بولی۔
” اوکے! ” اذلان تنبیہی نگاہوں سے سفیان کو گھورتے ہوئے بولے۔
فوٹو سیشن کمپلیٹ ہوا تو وہ لوگ وہاں سے چل دئیے اور ثنا تو جیسے پھٹ پڑی۔
” نخرہ دیکھا تھا اس گھونچو مل کا’ایٹیٹیوڈ تو یوں دکھا رہا تھا جیسے اس کا انٹرویو کرنا ہے بندر کہیں کا جیسے ہم ڈسکوری سے نہیں نیشنل جیوگرافک سے آئے ہوں۔ چار گھنٹے سے یہاں سڑ رہے اور وہ چوہا بول رہا تھا نو مور انٹرویو جیسے یہی سننے آئے تھے ہم۔”
” اوہ ثنا کم آن بی پروفیشنل چلو مونیکا کو رپورٹ بھی کرنا ہے۔ “ڈیزی نے اس کی بات پہ کان بھی نہیں دھرا۔
ادھر سفیان نے تفتیش شروع کر رکھی تھی۔
” یہ کیا چکر ہے مام ڈسکوری کا؟”
“وہ لوگ motivational story پہ کام کر رہے ہیں اس لئے تمہاری مام کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔” اذلان شاہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے بولے۔
” اس کا مطلب ہے وہ آپ کی پوری ہسٹری کھنگالیں گے۔ کتنی اذیت ہوگی مام کو جو گزر گیا سو گزر گیا۔خدا خدا کرکے مام کی آزمائشیں ختم ہوئیں ہیں ?how could you allow this pull shit ” سفیان برہمی سے بولا ایسا ہی حساس تھا وہ ایلاف کیلئے اس کے ایک ایک زخم کا جو گواہ تھا۔
” ڈونٹ وری تمہاری ماں بچی نہیں ہے اسے معلوم ہے کہ کیا بات کرنی ہے اور کس طرح کرنی ہے۔ ” اذلان شاہ ناگواری سے بولے۔
” سفی جب تمہاری ماں نے اس وقت اپنے دکھوں کا اشتہار نہیں لگایا تو اب تمہیں لگتا ہے ایلاف یہ کام کرے گی۔ہمارے مسئلے ہماری جاگیر ہوتے ہیں انہیں چوباروں پہ نہیں گھر کی چار دیواری میں حل کیا جاتا ہے۔ ایلاف اذلان شاہ کو اپنی عزت کروانی آتی ہے، اپنا مان رکھنا آتا ہے۔ ” ایلاف مضبوط لہجے میں بولی۔
” آئی ایم پراؤڈ آف یو مام، آپ کی آنکھوں میں گزرے وقت کی پرچھائی آنسو بن کے چمکے میں نہیں برداشت کر سکتا۔” سفیان جذباتی ہوئے بولا۔
” جس ماں کا بیٹا تم جیسا ہو اس ماں کی آنکھوں میں ماضی کی گرد نہیں مستقبل کے خواب ہوتے ہیں اجلے روشن خواب۔ ” ایلاف سفی کی پیشانی چھوتے ہوئے بولی۔
” تو آپ کا اگلا خواب کیا ہے؟ ” اذلان ماحول کا بوجھل پن کم کرتے ہوئے بولے
” فی الحال تو آئس کریم کا خواب بس میں اور سفی اور آپ کی برازیلین کافی۔ ” ایلاف اطمینان سے بولی۔
” یعنی شوہر ہونے کے ناطے مجھے ہی جیب ڈھیلی کرنی ہے یار سفی مدد کرواؤ باپ کی۔ ” اذلان مصنوعی بے چارگی سے بولے۔
” نو وے ڈیڈ!” سفی نے صاف ہری جھنڈی دکھائی تھی۔
*******
اذلان شاہ کے فیورٹ کیفے میں اچھی سی ایک ریفریشمنٹ لینے کے بعد وہ سب اب گھر پہنچ چکے تھے۔ ایلاف آج بہت خوش تھی آج اس کے ایک اور خواب کو تعبیر ملی تھی۔ سفیان اپنے سیل فون پہ مگن تھا اور اس کے لبوں پہ وقفے وقفے سے مسکراہٹ کھل رہی تھی۔
” کیا بات ہے سفی آج کچھ ذیادہ ہے دانت صاف کرلئے ہیں یا پھر ہماری بہو لائن پہ ہے جو صاحبزادے کے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے۔” ایلاف مسکراتے ہوئے بولی۔
” اوہ مام میں کوئی پاپا تھوڑی ہوں جو صرف آپ کیلئے ہنستے ہیں اور دوسروں کیلئے اینگری برڈ بنے رہتے ہیں۔بیچاری کتنی لڑکیوں کے دل آج بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ ویسے مام کونسا چلا کاٹا ہے آپ نے کہ پاپا کو آپ کے سوا کچھ دکھتا نہیں؟” سفی نے ایلاف کا سوال گول کرتے ہوئے کہا۔
“چپ شریر کوئی ماں سے ایسی باتیں بھی کرتا ہے۔ بھلا یہ تو اذلان کی محبت ہے ورنہ میں کیا اور میرا کمال کیا؟” ایلاف انکساری سے بولی۔
” واہ مام آپ کی اس سادگی پہ ہی تو ڈیڈ فدا ہیں۔میں ڈیڈ کا بیٹا ضرور ہوں بٹ میری لائف میں کوئی ایلاف نہیں اس لئے میں سب کے ساتھ بنا کے رکھتا ہوں۔ یو نو مجھ میں اتنی کرٹسی ہے کہ میں کسی کا دل نہ ٹوٹنے دوں۔” سفی تعریفی انداز میں بولا۔
” ہاں سفی جو چلا میں نے اس برسوں کی رفاقت کیلئے کاٹا ہے جو درد سہا ہے واقف تم بھی ہو۔انتظار کے صحرا میں سفر کے مسافر کا حال تم جانتے ہو۔اپنے گوہر مقصود کو پانے کیلئے کتنے مصائب کے سمندروں کا سینہ میں نے چیرا ہے تم گواہ ہو اس سارے سفرنامے کے۔” ایلاف بیتے لمحوں کی ذد میں بولی تھی۔
یہ خوشیوں کے لمحوں میں غموں کی بازگشت کیسے ہر رنگ پھیکا کر دیتی ہے۔
ایلاف نے سوچا اور ہمیشہ کی طرح خود کو سنبھال لیا۔
” اور میرا سوال تو تم نے گول ہی کردیا بتا دو کون ہے؟ ” ایلاف نے پھر سے پوچھا۔
” کم ان بہو وغیرہ کا کوئی چکر نہیں ہے فرینڈز سے چٹ چیٹ چل رہی ہے اور ماہ نور اور عساف سر کھا رہے ہیں۔” سفیان اسے تسلی دیتے ہوئے بولا ۔
” سفی آئی مس ماہ نور اور عساف ” ایلاف نے کہا۔
” میں نے تو کہا تھا لے چلتے ہیں دونوں کو پر آپ ہی نے منع کردیا وہی ماہ نور کہہ رہی ہے کہ بھائی تم ذیادہ سگے ہو ہر جگہ پہنچ جاتے ہو مام اور ڈیڈ کے ساتھ ہم ہمیشہ پھنس جاتے ہیں۔ ” سفیان ماہ نور کا میسج سناتے ہوئے بولا۔
ماہ نور اور عساف سفیان سے چھوٹے تھے اور پاکستان میں تھے۔
” کیسے بلا لیتی بھئی ویسے بھی ان کے ایگزامز سر پہ ہیں پیپرز کے بعد ہم جب سڈنی جائیں گے تو لے جائیں گے انہیں۔” ایلاف اسٹڈیز پہ کبھی کمپرومائز نہیں کرتی تھی۔
” اذلان آپ تھک گئے ہوں گے آرام کر لیں پھر سفر کرنا ہے آپ نے۔” ایلاف اذلان سے مخاطب ہوئی جو خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔
” تھک تو آپ بھی گئی ہیں ایلاف آپ بھی آرام کریں یہ پریس والے آپ کو اتنی آسانی سے چین نہیں لینے دیں گے۔ “اذلان نرمی سے بولے۔
” مجھے کوئی خاص تھکن نہیں ہے آپ ریسٹ کریں میں جب تک آپ کا سامان ریڈی کرتی ہوں۔ ” ایلاف ان کا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھی۔
اذلان روم میں گئے تو ایلاف ان کی روانگی کی تیاری کرنے لگی۔اذلان کا سوٹ کیس،ہولڈال میں رکھنے والا سامان .لیپ ٹاپ اور انکی فیورٹ دو تین بکس جو سفر میں اذلان کو پڑھنا پسند تھیں۔
ان سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ کچن میں چلی آئی تھی اذلان کا سوٹ وہ صبح پریس کرچکی تھی بس اب کافی ریڈی کرنا باقی تھی سفر پہ جانے سے پہلے وہ ایلاف کے ہاتھ کی کافی پینا لازمی پسند کرتے تھے بقول اذلان کے ” یہ کافی کے گھونٹ گھونٹ میں ایلاف کی محبت اس کی کئیر مجھے محسوس ہوتی ہے مجھے ہمیشہ احساس دلاتی ہے کہ میرے ساتھ کسی کی دعا ہے پروا ہے۔ ”
ایلاف کافی لے کے جب کچن سے باہر آئی تو اذلان ریڈی ہوچکے تھے بلیک شلوار سوٹ پہ گرے واسکٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح شاندار دکھ رہے تھے۔ سفیان نے اذلان کو دیکھ کے سیٹی نما انداز میں ہونٹ سکوڑے۔
“ڈیڈ آج تو آپ فُل لیڈی کِلر لگ رہے ہیں بس آج اس ٹرین کی خیر نہیں جس میں ڈیڈ جا رہے ہیں مام آپ کی چوائس کا تو میں فین ہوں پر آپ کو خیال کرنا چاہئے اگر کوئی ڈیڈ کو انگلش چھپکلی لے اڑی تو؟” سفیان اذلان کو ہمیشہ کی طرح تنگ کرتے ہوئے بولا
” امپاسبل! ” ایلاف پریقین تھی۔
” خدا جانے آپ دونوں کی بانڈنگ کس مٹی سے ہوئی ہے۔خیر مام میرے لئے بھی ایک شاندار پوشاک منتخب کرلیں رات کے ڈنر کیلئے تاکہ ہم بھی کسی حسینہ پہ بجلی گراسکیں۔ ” سفیان ایلاف سے ہار مانتے ہوۓ بولا۔
” کیوں تم تو آج اپنی مام کے ساتھ ڈنر کرنے والے تھے نا پھر یہ سب؟” اذلان نے پوچھا۔
” ارے اذلان چھوڑیں بھی روز ہمارے ساتھ ڈنر کرتا ہے۔آج اسے فرینڈز کو ٹریٹ دینی ہے انجوائے کرنا ہے۔” ایلاف سفی کو سپوٹ کرتے ہوئے بولی۔
” میرے خیال سے اب سفی کی شادی ہوجانی چاہئے کب تک تم ہماری وائف پہ ڈپینڈ کروگے صاحبزادے۔ ” اذلان بھی اس کے باپ تھے آخر۔
” جس دن مام جیسی لڑکی مل گئی نا اس دن میں آرام سے شادی کرلوں گا۔ڈیڈ میں ہر معاملے میں آپ کے برابر رہا ہوں تو اس معاملے میں بھی پیچھے نہیں رہوں گا۔” سفی مزے سے بولا۔
” تمہاری مام جیسا پیس صرف ایک تھا اب اگر تمہیں کوئی ملی بھی تو وہ کاپی ہوگی اوریجنل تو صرف ایک ہے۔ ” اذلان شاہ محبت سے بھر پور لہجے میں بولے۔
” کوئی مسئلہ نہیں کاپی ہی سہی میں کونسا اذلان شاہ ہوں جسے ہر چیز اوریجنل ملے۔” سفی نے ناک سے مکھی اڑائی۔
” اوہ پلیز سفی!اذلان کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو چلو سفی تم روم میں چلو میں آتی ہوں۔ ” ایلاف بلش ہوتے ہوئے بولی۔
” واہ مام بھاگا رہی ہیں مجھے تاکہ پاپا کو آرام سے سی آف کرسکیں ہیں نا مشرقی عورت۔ ” سفیان نے اب ایلاف کو تنگ کیا اور ہنستے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
“بیسٹ آف لک اذلان اینڈ ٹیک کئیر۔” رومال ان کی واسکٹ میں لگاتے ہوئے ایلاف بولی۔
” اور کچھ مادام؟ ” دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے اذلان اس کا چہرہ نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوۓ بولے۔
” اونہوں! ” ایلاف نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولی۔
“اوکے!خدا کی امان میں.” اس کی پیشانی پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوۓ اذلان رخصت ہوئے۔
اذلان کے جانے کے بعد سفیان بھی اسے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے رخصت ہوا تو ایلاف بھی ریلکس ہوتے ہوئے سیل فون لے بیٹھی ماہ نور اور عساف کو کال کرنے کیلئے ثنا کے مسیج بھی تھے۔
” میم آپ انٹرویو دیں گی نا پلیز اپنی لائف کے ایکسپیرئنس بتائیے گا۔”
“میں انٹرویو ضرور دوں گی ثنا اس لئے نہیں کہ مجھے شہرت کی چاہ ہے بلکہ اس لئے کہ دنیا جان سکے کہ ارادے مضبوط ہوں تو رسموں رواجوں کی چٹانوں کے بیچ سے ہی راستے نکالے جاتے ہیں۔ ہر ایلاف محبوب کی قسمت میں پیر اذلان شاہ ہوتا ہے مگر اپنے حالات کیلئے ہمیں لڑنا پڑتا ہے اپنا درد گر خود ہونا پڑتا ہے کیوں کہ بہترین زندگی جینا عورت کا حق ہے۔ ” ایلاف خود سے بولی
ایلاف کو وہ ماضی یاد آنے لگا جس پہ وہ ایک عمر پا پیادہ چلتی آئی تھی۔
******
“راضی!راضیہ اُٹھ بھی جاؤاب۔ اس سے پہلے کہ میں تم پہ ٹھنڈا پانی پھینکوں۔ کالج سے دیر ہورہی ہے۔اٹھو!مرو اب اور میرا عبایا کہاں ہے مل نہیں رہا؟” ایلاف غصے سے بولی ایک تو کالج سے دیر اوپر سے راضیہ کے نخرے۔
” میں کالج نہیں جارہی اور تمہارا عبایا دھونے کیلئے ڈالا تھا۔ ٹھنڈ لگ رہی تھی’ اس لئے پانی سے نکالا ہی نہیں۔ ” راضیہ مزے سے بولی۔
” مرو تم! میں اب کالج کیا پہن کے جاؤں گی؟ ” آج اتنا ضروری ٹیسٹ تھا اور اتنی ہی بری خبریں مل رہیں تھیں۔
” میرا پہن لو۔” جواب حاضر تھا۔
” تمہارا وہ بھڑکیلا عبایا پہنوں’وہ بھی میں!” ایلاف صدمے سے بولی۔
” تو کونسا اپنی اترن دے رہی ہوں نا پہنو ایسی ہی چلی جاؤ اور سن لینا اماں کی باتیں۔ ” ادھار رکھنا تو راضیہ نے سیکھا تھا ہی نہیں۔
“اچھا!” ایلاف مرے مرے انداز میں بولی اس کی خودداری پہ چوٹ پڑی تھی.کوئی اور ٹائم ہوتا تو وہ راضیہ کو بتاتی جسے نہ پڑھنے کا شوق تھا نہ کسی اور ڈھنگ کے کام کا مگر ایلاف محبوب کیلئے پڑھائی ہی وہ سیڑھی تھی جس پہ چڑھ کے وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی۔
” سنو ایلاف یہ فولڈر مایا کو دے دینا۔ ” راضیہ نے کہا۔
“ہرگز نہیں کہاں ڈھونڈوں گی اسے میں اور یہ میرا بیگ کہاں ہے؟” ایلاف نے دو باتیں ایک ساتھ کیں۔
” پلیز اچھی کزن نہیں ہو اور بیگ بھی دھلنے کیلئے ڈالا ہے۔ ” راضیہ اسے ذبردستی فولڈر تھماتے ہوئے بولی۔
” تو بی بی یونیفارم کا احسان کیوں کیا وہ بھی ڈال دیتیں۔ ” ایلاف تپ کے بولی۔
” اوہو بس کرو دیر ہورہی ہے تمہیں جلدی کرو ورنہ اماں تمہیں گھر بٹھا لیں گی۔” راضیہ نے اسے ڈرایا۔
ایلاف اس پہ نفرین بھیجتی جلدی سے راضیہ کا عبایا پہنے بیگ لٹکائے فولڈر ہاتھ میں پکڑے باہر کو نکلی۔
” تھوڑا انتظار کرنا۔ مایا چھٹی کے ٹائم گیٹ پہ ملے گی تمہیں۔ ” راضیہ پیچھے سے بولی۔
” اچھا! مامی خدا حافظ میں جا رہی ہوں دیر ہورہی ہے۔” ایلاف صحن میں بیٹھی مامی سے بولی۔
” ہاں بی بی جاؤ انتظار ہورہا ہوگا وہاں تمہارا ایک دن نہیں جاؤ گی تو دنیا کا کاروبار ٹھپ۔” مامی طنزیہ بولیں۔
” سارا کام کر تو دیا ہے پھر آج راضیہ گھر پہ تو ہے نا۔” ایلاف بولی۔
” ہاں بھئی ہم ماں بیٹی ہیں نا تمہاری خدمتوں کیلئے جاؤ بی بی اپنا راستہ ناپو کسی سردار کی جانشین نہ ہو۔ ” مامی لگتا تھا ماموں سے لڑ کے بیٹھی تھیں اس لئے تختہ مشق ایلاف کو بنایا۔
ایلاف کالج جانے سے پہلے صفائی اور ناشتہ نپٹاتی تھی پھر بھی مامی کو اعتراض تھا اس کے روز جانے پہ۔
“ماموں خدا حافظ! ” باہر آتے ماموں کو دیکھ کے ایلاف بولی۔
” کالج جا رہی ہو بیٹا خیر سے جاؤ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔” ماموں شفقت بھرے لہجے میں بولے ایک ماموں کا دم ہی تو غنیمت تھا ایلاف کیلئے۔
” نہیں ماموں بس دعا کیجئے گا آج بہت ضروری ٹیسٹ ہے۔ ” ایلاف کہہ کر باہر نکل گئی۔
” خدا ہر امتحان میں کامیاب کرے ایلاف تمہیں۔” ماموں نے اسے دل سے دعا دی۔
ہماری اکثر دعاؤں کا اثر نجانے کتنے لمحوں کی اذیت کے اثر کو ذائل کردیتا ہے۔ یہ ہمیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا اس لئے دعا کو مصیبت پہ بند باندھنا بھی کہا جاتا ہے اور دعا کا حکم بھی اس لئے ہے۔
” کام ہوگیا ” کمرے کی کھڑکی سے ایلاف کو باہر کالج کیلئے جاتے دیکھ کر راضیہ نے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا اندر آتی مامی چونک گئیں۔
” کونسا کام اور تو کم بخت آج پھر کالج نہیں گئی وہ ایلاف ایک دن دیکھنا افسر بن جائے گی اور تو یوں ہی نالائقی دکھاتی رہنا۔ ” مامی چڑتے ہوئے بولیں۔
” اوہ میری بھولی اماں خالی کتابیں رٹنے سے کوئی ذہین نہیں ہوتا اور یہ ایلاف کوئی افسر نہیں بننے والی تم بھلے لکھ لو۔ ” راضیہ ماں کو ٹھنڈا کرتے ہوئے بولی۔
” اے تجھے کیا بشارت ہوئی ہے کہ وہ موئی ایلاف افسرنی نہیں بنے گی ارے بڑی اونچی اڑان ہے اپنی ماں کی طرح اس کی۔ ” مامی حیرانگی سے بولیں۔
اور جواب میں راضیہ کے لبوں پہ ایک شاطرانہ اور پراسرار مسکراہٹ تھی کسی کی تباہی اور بربادی کا سوچ کے ہی۔
ایلاف بوجھل دل کے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔مامی کی طنزیہ باتیں کوئی نئی بات نہ تھیں ایلاف کیلئے یہ ان کی عادت تھی مگر جب وہ بیچ میں اس کے ماں باپ کو گھسیٹتی تھیں تو ایلاف کو بہت دکھ ہوتا تھا۔مامی کا بس نہ چلتا تھا اسے گھر سے ہمیشہ کیلئے غائب کردیں وہ ماموں کی وجہ سے مجبور تھیں۔
گلیوں سے ہوتی ہوئی ایلاف چوڑی سڑک کے کنارے پہنچ چکی تھی جسے کراس کر کے سامنے کالج کی عمارت تھی۔ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والی ایلاف محبوب کیلئے کالج گوشہ عافیت سے کم نہ تھا۔
کالج میں سارا دن بہت مصروف تھا ٹیسٹ کے بعد لیکچرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ ایلاف ان اسٹوڈنٹس میں سے تھی جو بنک مارنا گناہ تصور کرتے ہیں اپنی پڑھائی کا خرچہ وہ ٹیوشن پڑھا کے نکالتی تھی۔ وہ سیکنڈ ائیر کامرس کی اسٹوڈنٹ تھی اکنامکس کی فیلڈ میں نام بنانا اس کا خواب تھا۔
چھٹی ہوئی تو وہ راضیہ کا فولڈر ہاتھ میں لئے مایا کا انتظار کرنے لگی آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہوا تو ایلاف کا غصے کے مارے برا حال ہوگیا۔
” حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی جیسی راضیہ خود ویسی اس کی دوستیں ہیں۔ میں ہی بیوقوف ہوں جو اس کی باتوں میں آکے اپنا وقت برباد کر رہی ہوں۔ ” ایلاف بڑبڑاتی ہوئے گھر کیلئے نکل گئی۔
“سنیں بیٹا! ” کی آواز پہ اس نے پلٹ کے دیکھا۔پکارنے والی ایک لمبی تڑنگی عورت تھی جس کے چهرے پہ کرختگی تھی اور صاف لگ رہا تھا کہ وہ زبردستی نرم لہجے میں بول رہی ہے۔
” جی! ”
“بیٹا یہ سامان اٹھانے میں مدد کردیں۔وہ سامنے گلی میں میرا گھر ہے بہت مہربانی ہوگی۔ ” وہ عوت ایسی عاجزی سے بولی کہ ایلآف کو مانتے ہی بنی۔
ایلاف خود دھان پان سی تھی جلد ہی تھک گئی
” اور کتنا دور ہے آپ کا گھر؟ ” ایلاف تھکن محسوس کرتے ہوئے بولی۔
جواب میں اس عورت نے پیچھے پلٹ کے دیکھا اور پلک جھپکتے کے ساتھ ہی ایلاف کے منہ پہ بھیگا کلوروفارم رکھ دیا۔ تاریکی میں جانے سے پہلے ایلاف نے دیکھا تھا کہ اسی عورت نے اپنے بازؤں میں اسے سنبھال لیا تھا۔
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...