میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا
آسٹریلیا کا برطانیہ سے ننھیال اور دُدھیال والا رشتہ ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں بچوں کو چھٹیاں گزارنے کے لئے ننھیال یا دُدھیال بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح آسٹریلین اور برطانوی نوجوان لڑکے لڑکیاں بالغ ہوتے ہی ایک دوسرے کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا سے یورپ جانے والے چند ماہ یا سال دوسال گزار کر واپس آ جاتے ہیں ۔ بعض دورانِ سفر ہی اچھی سی جاب یا اچھی سی شریکِ حیات ڈھونڈ لیتے ہیں اور وہیں رہ جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح برطانوی نوجوان بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں آسٹریلیا آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو آسٹریلیا کے موسم، یہاں کے خوبصورت ساحل یا کوئی خوبصورت ساحر یا ساحرہ یہاں رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سڈنی کے ساحلی علاقے بونڈائی، کوجی، رینڈوک اور ماروبرا میں بڑی تعداد میںایسے ہی برطانوی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رہتے ہیں۔ اس طرح ننھیال اور دُدھیال کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔
میرے آسٹریلین دوست یورپ کی سیر کاذکر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے میرا جی بھی یورپ کی سیر کو چرا یا۔ یورپ ’’بلکہ ولایت‘‘ کا ذکر تو میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں کیونکہ میرے آبائی علاقے کے بہت سے لوگ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ ذکر کوہ قاف کی پریوں کی کہانیوں کی طرح افسانوی اور رُومان سے بھرپور لگتا تھا۔ اب اس عمر میں ایسا تومحسوس نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس دیس کا جو تصور ذہن میں تھا وہ کچھ کم دلکش نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ خواہش غالبؔ والی خواہش بن جائے، اسے تکمیل کا جامہ پہنا دینا چاہیے۔ آسٹریلین اور برطانوی شہریوں کے مقابلے میں میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا۔ لہذا میرے اس سفرِ یورپ کا آغاز اور اختتام پاکستان میں ہی ہوا۔
یورپ جانے کے لئے میں نے جولائی کے مہینے کا انتخاب کیا۔ کیونکہ وہاں کے روتے بسورتے موسم میں جولائی قدرے بہتر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ گرمیوں کا موسم ہوتا ہے (یورپ کی سردیوں سے اللہ امان دے) دوسرا یہ کہ دن لمبے ہوتے ہیں۔ بارشیں بھی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔ میرا پروگرام یہ تھاکہ پہلے سڈنی سے پاکستان جائوں گا اور وہاں سے یورپ۔ یورپ سے واپسی پر بھی پاکستان سے ہو کر آسٹریلیا لوٹنا تھا۔
9 جولائی 2000 کی خنک اور سنہری دھوپ والی سہ پہر میں نے سڈنی کو الوداع کہا۔ آسٹریلین ائیرلائن کانٹس کی فلائٹ سہ پہر ساڑھے تین بجے سڈنی سے سنگاپور کیلئے روانہ ہوئی۔ جہاز میں خوب گہماگہمی تھی۔ زیادہ تر آسٹریلین اور یورپی مسافر تھے۔ یعنی ننھیال یا دُدھیال آ اور جا رہے تھے۔
جہاز فضا میں بلند ہوتے ہی حسین چہرے اور روشن مسکراہٹ والی ایئرہوسٹس مشروبات کی ٹرالی لے کر حاضر ہو گئی۔ ٹرالی رنگا رنگ شرابوں سے مرصع تھی۔ شرابوں کے خوبصورت رنگ، مسافروں کی رغبت، خصوصاََساقی کی دلآویز مسکراہٹ سے یہ حرام نہیں لگ رہی تھیں۔ اگر غالبؔ اس ماحول میں ہوتے، توشراب نہ سہی ،ساقی کا ہی بھرم رکھ لیتے۔ پھر ساگر و مینا کی موجودگی،ساقی کی دلکشی اور ماحول کی رنگینی ایک خوبصورت غزل کو جنم دے دیتی۔میں چونکہ غالب تھا نہ قاضی اس لئے فانٹا پر گزارا کیا۔ میں نے سوچا ذائقہ جیسا بھی سہی رنگ تو پرکشش ہے۔
کھانے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ میرے دوست ٹریول ایجنٹ نے میرے لئے مسلم فوڈ کا آرڈر نہیں لکھوایا تھا۔شاید اسے میری مسلمانیت پر شبہ تھا۔ ناچار کچی پکی سبزیوں پر گزارا کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ ایئرلائن والوں کی غلطی نہیں تھی ا س کے باوجود وہ بار بار مختلف پھل اور سبزیاں لا لا کر میرے آگے رکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ بار بار معذرت بھی کر رہے تھے۔ اُس دن اپنے ٹریول ایجنٹ دوست کی مہربانی سے میںنے سبزیاں کھا کر اور فانٹا پی کر اس طرح ڈکار لئے جس طرح ہمارے دیہاتی بھائی مکئی کی روٹی ساگ اور لسی کا لنچ کر کے لیتے ہیں۔
سنگاپور کے وقت کے مطابق ہم رات نو بجے وہاں لینڈ کر گئے۔ میری اگلی فلائٹ پی آئی اے کی تھی جو صبح سات بجے روانہ ہونا تھی۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ درمیان والے دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزارے جائیں۔ جس طرح دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے، اس طرح دو ایئرلائنوں کا مسافر ہونے کی وجہ سے مجھے سنگاپور میں ہوٹل کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ کانٹس والوں نے سنگاپور میں فارغ کر دیا تھا ،جب کہ پی آئی اے کی میزبانی کا شرف اگلی صبح حاصل ہونا تھا۔ درمیان کے دس گھنٹے’’ اپنی مرضی ‘‘ سے گزارنے کے لئے دونوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔میں مخمصے میں پڑ گیا کہ یہ دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزاروں۔ رات ہونے کی وجہ سے ائیرپورٹ سے باہر جانے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ ٹرا نزٹ وغیرہ لینے میں ہی کافی وقت ضائع ہو جاتا۔ چند گھنٹوں اور رات کے اندھیرے میں سنگا پور کی سیر کیا ہو پاتی۔میرا سامان بدستور ایئرلائنوں کے حوالے تھا۔ صرف ایک بیگ میرے پاس تھا۔ اس کے ساتھ یہ رات میں نے ایئرپورٹ پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔
سنگاپور ایئرپورٹ بھی ایک چھوٹے سے خوبصورت شہر کی مانند ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند حسین ترین ایئرپورٹوں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں رنگارنگ دکانیں، ڈیوٹی فری شاپس، کیفے، ریسٹورنٹ، بار، سموکنگ روم(سگریٹ پینے والے کمرے)،آرام کرنے والے لائو نجز اور وہ سب کچھ ہے جس کی آپ تمنا کریںاور جیب اجازت دے۔ جگہ جگہ معلومات اور مدد کے لئے کائونٹر بنے ہوئے ہیں۔ رات کے وقت وہاں عملہ نہیں ہوتا لیکن ہدایات درج ہوتی ہیں۔ ان پر عمل کرتے ہوئے فون اٹھائیں تو دوسری طرف کوئی نہ کوئی معلومات فراہم کرنے والی خاتون موجود ہوتی ہے۔ لہذا اتنا بڑا اور مصروف ایئرپورٹ ہونے کے باوجود وہاں بھٹک جانے کا خدشہ نہیں ہے۔
کانٹس کی میزبانی اور ٹریول ایجنٹ کی مہربانی سے سبزیاں اور پھل کھا کھا کر میرا پیٹ بھرا ہوا تھا لہذا سنگاپور میں میں نے ایک کافی پر اکتفا کیا جو چار امریکن ڈالر میں ملی۔ میں نے حساب لگایا تو یہ رقم 240 پاکستانی روپوں کے برابر تھی۔ یعنی ایک ایک گھونٹ تیس روپے سے کم کا نہ تھا۔ ستم یہ کہ کافی انتہائی بدذائقہ تھی۔ شاید اس کیفے کا مالک پہلے کراچی کینٹ اسٹیشن میں اسٹال لگاتا تھا۔ جیسے تیسے کر کے آدھا کپ پیا۔ہر گھونٹ کے ساتھ خیا ل آتا تھا کہ اتنے روپوں میں کراچی کے بندوخان میںڈنر کیا جا سکتا تھا یا لاہور میں پھجے کے پائے کا لنچ ہو سکتا تھا۔ ائرپورٹ پر آوادہ گردی کرتے ہوئے بہت سے حسین چہروں اور کئی ناگفتنی مناظر کا سامنا ہوا۔ چونکہ اس طرح کے مناظر سڈنی میں اکثر نظر آتے ہیں اس لئے میرے لئے زیادہ قابلِ توجہ نہ تھے۔
کافی دیر تک ائر پورٹ کی آوارہ گردی کرنے کے بعد بارہ بجے آرام کی طلب محسوس ہوئی۔ سنگاپور ائرپورٹ پر ریسٹ لائونجز بنے ہوئے ہیں جہاں آرام دہ بینچ ہیں۔ وہاں روشنی بھی مدہم ہوتی ہے اور شور و غل بھی نہیں ہوتا۔ کئی اور مسافر وہاںپہلے سے محوِ استراحت تھے۔ میں نے بھی ایک بینچ کا انتخاب کیا۔ تولئے کا سرہانہ بنا کر دراز ہو گیا۔ نرم بستر کا عادی بدن اتنی جلدی اس بنچ پر سونے کے لئے تیار نہ تھا لہذا اسے تھپک تھپک کر منانا پڑا۔ اگلے تین چار گھنٹے اسی طرح کچھ سوتے کچھ جاگتے گزرے۔
آنکھ کھلی تو گھڑی پر نظر دوڑائی۔ سوا چھ بج چکے تھے جب کہ سات بجے میری فلائٹ تھی۔ابھی بورڈنگ کارڈ بھی لینا تھا۔ وقت بہت ہی کم تھا۔ مجھ سے ایک اور غلطی بھی ہوئی تھی ۔ رات میں نے یہ معلوم نہیں کیا تھا کہ میری فلائٹ کس ٹرمینل سے جا رہی ہے۔ اس وقت سوچا تھا ابھی بہت وقت ہے صبح معلوم کر لوں گا۔ ٹی وی اسکرین پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ میری فلائٹ دوسرے ٹرمینل سے جائے گی جو خاصے فاصلے پر ہے۔ میں نے سوچا یہ فلائٹ تو گئی۔
سنگاپور ایئرپورٹ پر ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لئے ایسکالیٹر (ESCALATOR) بنے ہوئے ہیں۔ ایک ختم ہو تو دوسرے پر سوار ہو جائیں۔ میں ان پر کھڑا ہونے کی بجائے سرعت سے چلنے بلکہ دوڑنے لگا۔ پھر بھی پندرہ منٹ لگ گئے۔پی آئی اے کا کائونٹر ڈھونڈ کر وہاں پہنچا تو فلائٹ میں صرف بیس منٹ باقی تھے۔ امید تو نہیں تھی لیکن انہوں نے بلا تردد بورڈنگ کارڈ دے دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اُس دن مجھے پی آئی اے کی اس ’’خوبی‘‘ کا احساس ہوا کہ ان کی فلائٹس اکثر لیٹ ہوتی ہیںجس کا میری طرح سوتے رہنے والوں کو کبھی کبھار فائدہ پہنچ جاتا ہے۔
ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی
ایک عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد وطن واپسی دل میں ایک ایسی مسرت اور جوش پیدا کر دیتی ہے جو دیارِ غیر میں بسنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوتے ہی وطن کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔جوں جوں وطن کی سرزمین قریب آتی جاتی ہے توں توں آتشِ شوق بڑھتی جاتی ہے۔ میرے ٹکٹ پر درج تھا کہ یہ فلائٹ ایک گھنٹہ بنکاک میں رُکے گی۔ لیکن یہ قیام دو گھنٹے کا ثابت ہوا۔شاید وہاں بھی کچھ مسافر سوتے رہ گئے تھے ۔اس دوران پی آئی اے کے میزبان مسافروں کو ناشتہ ہی کراتے رہے۔ پہلے سنگاپور سے سوار ہونے والوں کو ناشتہ دیا، پھر بنکاک سے جہاز اڑتے ہی دوبارہ ناشتے کا دور چلا۔ شاید انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ میں نے پچھلی رات سبزیوں پر گزارا کیا تھا۔
میرے برابر والی سیٹ پر سنگا پور کا ایک بزنس مین سفر کر رہا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ یہ جہاز پہلے اسلام آباد جائے گا اور پھر کراچی تو وہ سخت ناخوش ہوا ۔کیونکہ اس کے ٹکٹ پر واضح تحریر تھا کہ یہ فلائٹ بنکاک سے براہِ راست کراچی جائے گی۔اسلام آباد کے راستے جانے سے اس کے چار مزید گھنٹے جہاز میں گزرنے تھے۔ ویسے بھی اس فلائٹ پر غیر ملکی مسافروں کی تفریح اور سہولت کے لئے کچھ زیادہ لوازمات نہیں تھے۔ بنتِ انگور کا تو خیرتصور ہی نہیں، کھانے، موسیقی اور خصوصاّمیزبانوں کا طریقہِ خدمت خالصتاً پاکستانی تھا۔جسے صرف پاکستانی ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ تمام فضائی میزبان اُدھیڑ عمر مرد تھے۔ ان کے چہرے مسکراہٹ سے عاری بلکہ جھنجھلاہٹ سے بھرپور دکھائی دیتے تھے۔ اُن سے کچھ طلب کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔
دوپہر بارہ بجے ہمارے طیارے نے اسلام آباد کی سرزمین کو چھوا تو مجھے ایسے لگاکہ ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں۔ زمین پر قدم رکھا تو اسے چومنے کو دل چاہا۔ سانس لیا تو خوشبوئیِ وطن سے مشامِ جاں معطر ہو گیا۔ قدم آگے بڑھایا تو وطن کی ہوائوں نے جیسے گلے لگا لیا۔ ائرپورٹ پر نظر دوڑائی تو میرے ہموطن اپنے اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیے۔ ایسے لگا کہ یہ سب میرے ہی گھر کے فرد ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ جا کر ایک ایک سے گلے ملوں۔ وہ سب مصروف تھے۔ انہیں احساس بھی نہیں ہوا کہ ان کے خاندان کا ایک بچھڑا ہوا فرد واپس آ یا ہے۔لیکن موسم کو میری آمد کی خبر ہو چکی تھی۔
سامان حاصل کرنے اور کسٹم اور امیگریشن کے مراحل طے کر کے ائرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلا تو کئی عزیزواقارب استقبال کے لئے موجود تھے۔ برآمدے میں آئے تو ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی۔ پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھے تو بارش کے نرم نرم قطرے گرنا شروع ہوئے۔ مجھے لگا جیسے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے میرا استقبال کیا جا رہا ہو۔
بارانِ رحمت کا یہ سلسلہ میرے سات روزہ قیامِ پاکستان کے دوران وقفے وقفے سے جاری رہا۔ یہ اچھا ہی ہوا ۔کیونکہ میں سڈنی میں سردی عروج پر چھوڑ کر آیا تھا اور پاکستان میں جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی زوروں پر تھی۔ بارش سے گرمی کا یہ زور قدرے کم ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان کی بارش مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کم کم ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی مٹی سے ایک مسحور کن خوشبو اٹھتی ہے جو آسٹریلیا میں ندارد ہے۔ آسٹریلیا میں بارش صرف عام سی بارش ہوتی ہے۔ اس میں وہ رُومان نہیں، جو پاکستان کی بارشوں میں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں بارش کے دوران بلکہ صرف بادل بھی چھائے ہوئے ہوں تو لوگ بیزاری کا اظہارکرتے ہیں، خراب موسم کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دھوپ نکلی ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں چاہے گرمی سے جان نکلی جا رہی ہو۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی شاعری میں ساون کی رم جھم،موسم سرما کی جھڑی اور گرم دن کی شام اچانک آنے والی بارش کا تذکرہ پہلی محبت کی طرح کیا جا تا ہے۔ پاکستان میں بارش کے چند اور فائدے بھی ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تو سرکاری ملازموں کو ہوتا ہے جو صبح بستر میںلیٹے لیٹے چہرے سے کمبل ہٹا کر باہر دیکھتے ہیں۔ اگر انہیں آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر آجائے تو کمبل دوبارہ اوڑھ لیتے ہیں اور دفتر سے چھٹی کر لیتے ہیں۔ دوسرا فائدہ بچوں کو ہوتا ہے جو بارش کے کئی دن بعد تک گلی کے گڑھوں میں جمع پانی میں نہاتے رہتے ہیں۔ یہ مزے آسٹریلیا میں کہاں ملیں گے جہاں بارش رکنے کے پانچ منٹ بعد اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ پانچ منٹ پہلے یہاں بارش ہوئی تھی۔
ایک گاڑی کے تنگ دامن میں ہم سب نہیں سما سکتے تھے۔ لہذا کار کے ساتھ ساتھ ایک ویگن کرائے پر حاصل کی گئی۔ میں نے کار کی بجائے ویگن میں سب کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ہم اسلام آباد سے اپنے گائوںگوجرخان کے لئے روانہ ہوئے۔راستے میں دو جگہ پولیس والوں نے ویگن روکی۔ڈرائیور نے انہیں نذرانہ دیا اور پولیس نے سفر جاری رکھنے کا پروانہ دیا۔بصورت ِدیگر گاڑی کے کاغذات کو غلط ثابت کر دیا جاتا یا ڈر ائیور کے لائسنس میں کیڑے نکال کر پریشان کیا جا سکتا تھا۔پاکستان میںاس طرح کی پریشانیوں کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے بابائے قائد کی تصویر۔لہذا ہمارے ڈرائیور نے بھی وہی کیااور ہمیں بخیروخوبی گھر پہنچا دیا۔
گائوں سے ہمارا رابطہ بس اب اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کبھی کبھار بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لئے وہاںچلے جاتے ہیں۔ میں تو دیارِ غیر کی خاک چھانتا رہتا ہوں۔ میرے بھائی بھی بڑے شہروں کی نذر ہوگئے ہیں۔ گائوں میں ہمارا گھر مکینوں کو ترستا رہتا ہے۔اس دفعہ کافی عرصے کے بعد گائوں جانا ہوا توبہت اچھا لگا۔بچپن کے دوستوں اور گائوں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ میرے بھائی نے میرے آنے کی خوشی میں پورے گائوں کی دعوت کر دی تھی۔خوب رونق اور تفریح رہی ۔ایک دوست نے کہا,, یہاں تو ولیمے والا سماں نظر آرہا ہے‘‘
میں نے جواب دیا ,, ہاں! لیکن ایک فرق ہے۔ولیمے والے دن دولہا کی آنکھوں میں شبِ وصل کا خمارنظر آتا ہے جبکہ میرا چہرہ مچھروں کا شکار نظر آتا ہے‘‘
یہ بات تھی بھی درست ۔ ان سات دنوں میں بجلی بے وفا محبوبہ کی طرح صرف ایک جھلک دکھا کر غیر معینہ مدت کے لئے غائب ہوجاتیتھی۔دن دستی پنکھا جھلتے اور رات مچھروں کی بھنبھناہٹ سنتے گزر جاتی۔اسی آنکھ مچولی میں یہ سات دن گزر گئے۔۱۶ جولائی کی صبح میری مانچسٹر کی فلائٹ تھی۔گائوں کے ایک بزرگ نے پوچھا ’’ پتر ولائت کسی کام سے جا رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’ نہیں چاچا ! گھومنے کے لئے جا رہا ہوں‘‘
انہوں نے کچھ کہا تو نہیںیکن میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیاہے۔فضول میں پیسہ ضائع کر رہا ہے۔پاکستان میں سیرو سیاحت کے بارے میں عام لوگوں کے جو خیالات ہیںاس کے پیشِ نظر اس بزرگ کا ایسی نظروں سے دیکھنا اچھنبے کی بات نہیں تھی۔بہرحال اس بزرگ کی نظروں کو نظرانداز کر کے۱۶ جولائی کی صبح پانچ بجے میں ایک لمبے سفر کے ارادے سے گھر سے نکل پڑا۔
پچاس روپے میں ایک فوٹو کاپی
اس دن اسلام آباد ایئرپورٹ کا بین الاقوامی لائونج کسی دیہاتی میلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ قطار تھی اور نہ ہی ایئرپورٹ کے عملے کا کوئی شخص مدد کے لئے موجود تھا۔ جس کا جتنا بس چل رہا تھا زور آزمائی کر کے آگے سرک رہا تھا۔
الوداعی ملاقات کے بعد سات بجے میں ٹرالی لے کر لائونج میں داخل ہوا۔ چیونٹی کی رفتار سے سرکتے سرکتے کائونٹر تک پہنچا تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہنے سے ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ انتظار کی اکتاہٹ الگ تھی۔ دراصل صبح کے اس وقت کئی بین الاقوامی پروازیںیکے بعد دیگرے روانہ ہونے والی تھیں۔ اس لئے اس قدر رش تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے کے عملے کی شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور وہ اس میں بہت وقت ضائع کر رہے تھے۔ مسافر انتظار میں کھڑے تھے اور وہ موسم کا حال، فوجی حکومت کی کارکردگی، مہنگائی سے لے کر رات کو کیا کھایا تھا، سبھی موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
لائونج میں موجود مسافروں کی اکثریت برطانیہ کے لئے محوِ سفر پر تھی۔ ان میں سے اکثر چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے اور اب واپسی کے لئے گامزن تھے۔ جب کہ کچھ بزرگ خواتین و حضرات اپنے بچوں کے پاس پہلی مرتبہ’’ ولایت‘‘ جا رہے تھے۔ میرپور (آزاد کشمیر) کی بولی کی بازگشت ہر جانب سنائی دے رہی تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ میں کسی بین الاقوامی ایئرپورٹ پر کھڑا ہوں۔ بلکہ کسی دیہاتی میلے کا سا سما ںتھا۔ کئی حضرات پگڑیاں اور تہہ بند پہنے ہوئے تھے اور درجنوں خواتین سرتاپا برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک دو حضرات نے ہاتھوں میں حقے بھی اٹھا رکھے تھے ۔ آموں کی پیٹیاں تو تقریباََ سبھی کے پاس تھیں۔
ساڑھے آٹھ بجے میں کائونٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ۔ اس وقت فلائٹ میں صرف آدھ گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ ابھی امیگریشن اور کسٹم وغیرہ کے مراحل باقی تھے۔ پی آئی اے کے کائونٹر پر موجود خاتون لباس اور فیشن کی شوخی میں نئی نویلی دلہنوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ وہاں تک تو سب اچھا تھا لیکن جب اس نے اپنے سرخ یاقوتی لب وا کئے تو اس کا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ بقول ا برار الحق ’’ پچھوں اوہ وی ملتان دی سی‘‘ ۔اس نے میرا آسٹریلین پاسپورٹ ہاتھ میں لے کر کہا ’’اس کی فوٹو کاپی کہاں ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’میرے پاس پاسپورٹ کی فوٹو کاپی تو نہیں ہے۔ ویسے اس کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘
وہ انتہائی رُوکھے لہجے میں بولیں ’’یہ فوٹو کاپی ہمیں ریکارڈ کے لئے درکار ہوتی ہے‘‘
’’اگر ایسی بات ہے تو پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہے فوٹو کاپی بنا لیں‘‘
کہنے لگیں ’’ ہمارے پاس فوٹو سٹیٹ مشین نہیں ہے۔ آپ کو کاپی بنوا کر لانی پڑے گی۔‘‘
میں نے حیرانگی سے کہا ’’ آپ کیا چاہتی ہیں ؟کیا میں دوبارہ باہر جا کر آپ کے لئے فوٹو کاپی بنوا کر لائوں ؟جب کہ پہلے ہی ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہنے کے بعد کائونٹر تک پہنچا ہوں‘‘
کہنے لگیں ’’اس کی ضرورت نہیں۔ اسی لائونج کے دوسری طرف فوٹو اسٹیٹ مشین والی شاپ ہے۔ آپ وہاں سے فوٹو کاپی بنوا کر لے آئیں‘‘
’’اور میرا سامان؟‘‘
’’سامان یہیں رہنے دیں‘‘
میں فوٹو کاپی بنانے والی اس شاپ میں گیا۔ پاسپورٹ ان کو دیا اور ایک فوٹو کاپی بنانے کے لئے کہا۔ وہ صاحب کہنے لگے ’’ آپ کو دو فوٹو کاپیاں درکار ہوں گی۔ ایک پی آئی اے والوں کے لئے اور دوسری امیگریشن کے لئے‘‘
اس سے پہلے میں متعدد بار بین الاقوامی سفر کر چکا تھا ۔یہ پاسپورٹ کی کاپی والامسئلہ کبھی درپیش نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا پاکستان میں آئے دن قواعد و ضوابط تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گی۔ بہرحال میں نے دو فوٹو کاپیاں بنوائیں۔ جب معاوضے کے بارے میںدریافت کیا تو انہوں نے کہا ’’سو روپے‘‘
میں سمجھا کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ دو فوٹو کاپیوں کا معاوضہ سو روپے تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا’’کیا کہا آپ نے؟‘‘
جواب آیا ’’ پچاس روپے فی کاپی کے حساب سے آپ سو روپے دے دیں‘‘
میں نے سخت حیران ہو کر کہا ’’فوٹو کاپی تو پچاس پیسے میں ہوتی ہے ۔یہ پچاس روپے کس بات کے؟‘‘
وہ صاحب بولے ’’ ایئرپورٹ کے باہرپچاس پیسے میں ہوتی ہے۔ یہاں یہی ریٹ ہے کیونکہ اس دکان کا کرایہ بہت زیادہ ہے‘‘
عرض کیا ’’بھائی جہاں کرایہ زیادہ ہوتا ہے وہاں گاہک بھی زیادہ ہوتے ہیںیا یہ کرایہ آپ صرف چند لوگوں سے ہی پورا کرتے ہیں‘‘
میری بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ان صاحب نے بتایاکہ وہ پچاس روپے سے کم نہیں لیتے۔ مجبوراََ سو روپے میں دو کاپیاں بنوا کر دوبارہ کائونٹر تک پہنچا۔ بورڈنگ کارڈ لیا۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرا۔ وہاں کسی نے بھی فوٹو کاپی نہیں مانگی۔ اس طرح اس فوٹو کاپی والے نے نہ صرف انتہائی مہنگے داموں فوٹو کاپی بنائی بلکہ چکمہ دے کر دوسری کاپی کے پیسے بھی ہتھیا لئے۔ اِسے کہتے ہیں چُپڑیاں نالے دو دو۔( گھی والی روٹی اور وہ بھی دو دو)
ویٹنگ لائونج میں پہنچا تو فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا لیکن مسافروں کو جہاز میں پہنچانے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ میں اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوٹی فری شاپ میں چلا گیا جو پان سگریٹ کے کھوکھے سے بڑی نہیں تھی۔ وہاں سے میں نے گولڈ لیف کے دو کارٹن خریدے۔ دراصل وہیں ائر پورٹ پر لوگوں کو آموں کی پیٹیاں اٹھائے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میرا دوست آصف کریم گولڈ لیف کا بہت شوقین ہوا کرتا تھا۔ آصف کریم اور میں اسلام آباد میں ایک ہی ادارے میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ فارغ وقت میں چائے پیتے ،سگریٹ کے کش لگاتے اور گپیں ہانکتے تھے۔ وہیں ہماری دوستی کا پودا پروان چڑھنا شروع ہو ،جو اب پھل پھول کر تناور درخت بن چکا ہے۔ کچھ عرصے بعد آصف شادی کر کے انگلینڈ جا کر سسرال کو پیارا ہو گیا اور میں آسٹریلیا چلا آیا۔ اب چھ سال کے عرصے کے بعد ہماری ملاقات برطانیہ میں ہونے والی تھی۔ یورپ کے ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے تین دن میں یارک شائر میں واقع آصف کے گھر قیام کررہا تھا۔
ڈیوٹی فری شاپ والے نے سگریٹوں کی جو قیمت بتائی اس میں اور مارکیٹ ریٹ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب کہ ڈیوٹی کے بغیر یہ قیمت مارکیٹ سے ساٹھ ستر فیصد کم ہونی چاہیے تھی۔ میرے استفسار پر ان صاحب نے کہا ’’دراصل ہمارے ہاں اصلی سگریٹ ہوتے ہیں جب کہ مارکیٹ میں دو نمبر مال ملتا ہے‘‘
میں نے کہا ’’ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ نقلی سگریٹ بکتے ہیںاور اصلی سگریٹ لینے کے لئے کسی ملک کا ویزہ لینا پڑتا ہے ۔ ‘‘
ـتمہی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا
اس کے فوراً بعد جہاز میں سوار ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فلائٹ ایک گھنٹے کی تاخیر سے نو کی بجائے دس بجے روانہ ہوئی۔ جہاز کے اندر بھی وہی دیہاتی ماحول تھا۔ہر طرف آموں کی پیٹیاں ، تہہ بند، ٹوپی والے برقعے اور پوٹھوہاری زبان کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ میری بائیں جانب کھڑکی والی سیٹ پر ایک بوڑھی دیہاتی خاتون براجمان تھیں۔ ان کی دلیری ملاحظہ فرمائیے۔ پہلی دفعہ گائوں سے نکلی تھیں اور اکیلی’’ ولایت ‘‘جا رہی تھیں۔ ان کا بیٹا مانچسٹر ایئرپورٹ پر انہیں لینے آ رہا تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ حتیٰ کہ کھانے کی ٹرے پر سے پیپر اتارنا بھی انہیں کارِ دارد نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے امداد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ٹرے بھی انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی۔ میں نے انہیںٹیبل کھول کر دیا۔ٹرے پر سے ایلومونیم فائل ہٹایاور انہیں بتایا کہ یہ کون سی ڈش ہے۔ دبی زبان میں بولیں’’ بھلا ہوئی پترا‘‘ ( خدا تمھارا بھلا کرے بیٹا)
میرے دائیں طرف کھڑکی والی سیٹ پر جو صاحب بیٹھے تھے، شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور سر پر بڑا سا پوٹھوہاری رومال باندھا ہوا تھا۔ ان کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ شروع میں کچھ جھجک رہے تھے ۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ جینز اور ٹی شرٹ میںملبوس یہ کلین شیو ’’بابو ‘‘نہ جانے کس مزاج کا ہو ۔لیکن جب میں نے انہیں انہی کی زبان میں مخاطب کیاتو ان کے چہرے پر خوشگوار حیرت ابھر آئی۔ وہ گوجر خان کے قریب ایک گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اتفاق سے اس گائوں میںمیرے بھی کچھ عزیز رہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ بہت خوش ہوئے۔ اب جو انہوں نے بولنا شروع کیا تو دور دور تک کہیں وقفہ نہیں تھا۔ حسن اختر نامی یہ صاحب مسلسل بولنے کے عادی تھے۔ وہ بات کسی ایک موضوع پر شروع کرتے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ لیکن ایک بات کی تکرار وہ بار بار پر کر رہے تھے کہ وہ پہلے ہانگ کانگ میں تھے اور وہاں ان کا اپنا بزنس تھا۔ وہ برطانیہ اس لئے جا بسے تھے کہ وہاں کام کئے بغیر سوشل سیکورٹی پر رہیں گے ۔لیکن گھر والوں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے انہیں چھپ چھپا کر کچھ نہ کچھ کام کرنا پڑتا تھا۔
دراصل اس گائوں کے کافی لوگ یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے جو لواحقین گائوں میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان پر باہر کے پونڈوں اور ڈالروں کا نہایت منفی ا ثر ہواہے۔ دشمنیاں عام ہیں، کئی قتل ہو چکے ہیں اور درجنوں مقدمے عدالتوں میں دائر ہیں۔ حسن اختر بھی اسی سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔ ان کا بھائی ایک جھگڑے میں زخمی ہو گیا تھا۔ حسن اختر برطانیہ میں جو بچاتے تھے وہ گھر والے مقدموں کی نذر کر دیتے تھے۔
حسن اختر بولتے ہوئے کبھی تو ایسے مبلغ نظر آتے جسے آخرت کی فکر ستا رہی ہو ۔ دوسرے ہی لمحے وہ یورپ کی رنگینوں کی باتیں مزے لے لے کرسنانا شروع کر دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں آنے کا فائدہ ہی کیاجب اپنی بیوی ساتھ ہو۔ یہاں ہر طرف حسینوں اور مہ جبینوں کی بہار ہے۔ یہاں آ کر بھی اس ماحول سے فیضیاب نہ ہوں تو وطن سے اتنی دور آنے کی ضرورت کیا ہے۔
حسن اختر کی انہی باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا اور ہم برطانیہ کے شہر مانچسٹر میںلینڈ کرنے لگے۔ آٹھ گھنٹے کی یہ فلائٹ آسٹریلین پاکستانیوں کے لئے کچھ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ ہمیں تو بیس بیس گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے تب جا کے منزل آتی ہے۔ میرے ذہن سے وہ رُعب جا تا رہا جو برطانیہ میں بسنے والے ہم پر ڈالاکرتے تھے کہ برطانیہ بہت ہی دور ہے۔