سب سے پہلے خدا وندِ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُ س کی عطا کردہ ہمت اور صحت کی وجہ سے یہ مشکل کام پایۂ تکمیل تک پہنچااگر خدا کی مرضی شامل ِ حال نہ ہوتی تو اس تحقیقی کام کا انجام پانا مشکل تھا۔آج جب اپنے اس کام کو دیکھتا ہوں تو جہاں قلبی طمانیت کا احساس ہو رہاہے وہاں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ اگر میرے والدین زندہ ہوتے تو میری اس خوشی میں وہ بھی شریک ہوتے۔خدا اُن کی مغفرت کرے اور اُن کا وہ جہان اچھا کرے،آمین!
ایم فل( اُردو) کا کورس ورک مکمل کرنے کے بعد جب موضوع کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو اندازہ ہوا کہ جس کام کو میں آسان سمجھ رہا تھا اُس میں پیچیدگی کی کئی صورتیں مجھے پریشان کرنے کے لیے بالکل تیار بیٹھی ہیں، لیکن نبی پاکؐ کے صدقے اور شعبہء اُردو ہزارہ یونیورسٹی کے اساتذۂ کرام کی بدولت میری ہر مشکل آسانی میں بدلتی چلی گئی۔اپنے تحقیقی مقالے کے لیے میرے پیش ِ نظراُردو کے حوالے سے کئی موضوعات ایسے تھے جن پر کام کیا جاسکتا تھالیکن کافی سوچ بچار کے بعد میں نے ’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ پر کام کرنے کا ارادہ کرلیا اور اس موضوع پر اپنے نگران ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی صاحب کے ساتھ کئی دن تک تبادلہ ٔ خیال کرتا رہا،اس دوران یہ تسلی بھی ہو گئی کہ اس موضوع پر کام کرنے کی خاصی گنجائش موجود ہے۔
حیدر قریشی پر کام کرنے کی کئی وجوہات ہیں اُن میں پہلی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ ایک نیا موضوع ہے بلکہ ایک ایسے شخص کی دریافت بھی ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے اُردو ادب میں تخلیقی،تنقیدی اور تحقیقی حوالوں سے معیاری کام کر رہا ہے۔ قریشی صاحب کافی عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں اور ادبی مراکز سے دور ہونے کے باوجود اُردو ادب کے مرکزی دھارے میں شامل ہیں۔کتابوں کے علاوہ اُن کے علمی ادبی مضامین و مقالات پاک و ہند اور یورپی ممالک کے بین الاقوامی رسائل میں طبع ہوتے رہتے ہیں۔اب اس بات کی ضرورت بھی تھی کہ اُن کے مجموعی ادبی کام کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اُس فکری نظام کو تلاش کیا جائے جس کے تحت یہ تمام ادبی سرگرمیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔
میں نے موضوع کی منظوری کے بعد جب مواد کی جمع آوری کا کام شروع کیا تو خاصا پریشان ہو گیا کیوں کہ میرے موضوع سے متعلق بیش تر اہم کتابیں انڈیا سے شائع ہوئی تھیں جن تک میری رسائی بوجوہ محال تھی۔اس پر مستزاد یہ کہ کچھ مواد ایسا تھا جو پاکستان میں شائع ہونے کے باوجود نایاب ہو چکا تھا اور اُن کتابوں کے نسخے جن حضرات کے پاس تھے وہ بھی پاکستان کے دور اُفتادہ علاقوں کے رہنے والے تھے ۔ یہ صورت ِ حال خاصی پریشان کُن تھی کیوں کہ ایک عام ملازمت پیشہ آدمی نہ تو اتنا سفر کر سکتا ہے اور نہ اتنا سرمایہ لگانے کی استطاعت رکھتا ہے۔آخر خدا کانام لے کر پہلے تو میں نے حیدر قریشی کے اُن احباب کی فہرست بنائی جن سے متعلقہ مواد ملنے کی توقع تھی اور اُس کے بعد بہ ہزار دقت اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش شروع کردی۔ خدا خدا کر کے رابطے کی صورتیں نکلنا شروع ہو گئیں اور کام قدرے سست روی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ان میں کئی لوگ ایسے تھے جو اصل کتاب کی فوٹو کاپیاں ارسال کرتے رہے اور کچھ نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل کتابیں اس شرط کے ساتھ بھیج دیں کہ بعد از استفادہ واپس کر دی جائیں۔ البتہ چند مہربان دوست ایسے بھی نکل آئے جن کی پہلی اور آخری شرط یہی تھی کہ اُنھی کے پاس جا کر استفادہ کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے،بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ان کے پاس بھی جانا پڑا ۔مجھے ان انوکھے تجربات اور مراحل سے گزرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ’’ مردہ بدست زندہ‘‘ کا مطلب کیا ہو تا ہے!
اس رنگا رنگ دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے،خدا کا شکر ہے کہ ایسے احبا ب آس پاس موجود تھے جن کی وجہ سے مجھے لکھنے پڑھنے کے دوران سہولت رہی ،ان میں حیدر قریشی کی دیرنیہ دوست ڈاکٹر ارشد خالد صاحب کا ذکر ضروری ہے۔جناب ارشد صاحب نے اپنے ذاتی خرچ پر مجھے ایسی نایاب کتب ارسال فرمائیں جو اُن کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں اور میرے تحقیقی کام میں حد درجہ کار آمد تھیں۔مدد گار احباب میں ایک اہم نام ڈاکٹر نذر خلیق صاحب کا بھی ہے،ان کی بدولت مجھے اولین مآخذ آسانی سے دستیاب ہوئے جس کی وجہ سے میرے تحقیق مر احل کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ ڈاکٹرنذر خلیق گاہے بگاہے فون کر کے مجھے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہے جس کی وجہ سے میرے کام کی رفتار تیز رہی۔ خدا اُنھیں سلامت رکھے!
جب میں نے مقالے کا باب اول لکھنا شروع کیا تو مجھے فکشن کے حوالے سے کچھ ایسی کتابوں کی ضرورت پڑی جنھیں اگر میں خود تلاش کرتا تو خاصا وقت ضائع ہو جاتا،مشکل کی اس گھڑ ی میں اپنے پرانے دوست سیّد ماجد شاہ کو آواز دی وہ سارے کام کاج چھوڑ کر میری مطلوبہ کتب کی تلاش میں مصروف ہو گئے اور صرف دس دنوں کے اندر اندر وہ تمام کتب ڈھونڈ کر اسلام آباد سے ٹی سی ایس کرا دیں جن کی وجہ سے میرا تحقیقی کام سہولت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔خدا اُنھیں ہمیشہ سکھی رکھے!
کتابوں کی فراہمی کے ضمن میں جناب حیدر قریشی نے بذات ِ خود جس دوستانہ انداز میں میری معاونت کی اُس کی عملی مثالیں کمیاب ہیں۔جناب ِ قریشی نے مجھے اپنی وہ تمام کتابیں جو مجھے کسی اور جگہ سے نہیں مل رہی تھیں ایک ساتھ جرمنی سے روانہ کر دیں اور اپنے ا نڈین کتابوں کے ناشر، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤ س(دہلی) والوں کو ہدایت بھی کر دی کہ میری مطلوبہ کتب جلد از جلد پاکستان بھیج دی جائیں۔غرض تھوڑے عرصے میں مجھے وہ تمام بنیادی مآخذ دستیاب ہو گئے جن کی وجہ سے میں نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنا تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کر دیا ۔خدا حیدر قریشی صاحب کی ہمت اسی طرح جواں رکھے !
مجھے یہ بات لکھتے ہوئے بڑی خوشی کا احساس ہو رہا ہے کہ میرے مقالے کے نگران ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی صاحب نے قدم قدم پر نہ صرف میری رہنمائی فرمائی بلکہ مسلسل حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔دوران ِ تحقیق میرا طریق ِ کار یہ رہا کہ ایک باب مکمل ہونے کے بعد اُن کو یونیورسٹی میں جا کر دے آتا تھا وہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر اور اچھی طرح دیکھ کر اُسی پر اپنی تفصیلی رائے لکھ دیتے اور میں اُنھی کے بتائے ہوئے نکات کے مطابق اپنی اصلاح کر لیتا تھا۔ مقالہ لکھنے کے دوران مجھے جس وقت بھی کوئی اُلجھن پیش آتی میں فوراً اُنھیں فون کر دیتا اور اپنی خود غرضی کی وجہ سے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ اُن کے آرام کا وقت بھی ہو سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر الطاف صاحب ہمیشہ فون پر بہت شفقت ، ہمدردی اور تحمل سے میرے مسائل سنتے اور میری اُلجھنوں کو دور کر دیتے۔سچی بات یہ ہے کہ اگر اس مقالے میں کوئی خوبی ہے تو وہ اُنھی کی وجہ سے ہے اور مقالے میں موجود تمام خامیوں کی ذمہ داری صرف مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ڈاکٹر الطاف صاحب چوں کہ خود جدید تحقیقی اُصولوں سے واقف ہیں لہٰذا اُن کی کوشش تھی کہ میں بھی اپنی تحقیق میں جدّت پیدا کروں،مجھے اس ضمن میں کتنی کامیابی نصیب ہوئی اس کا فیصلہ میرے اساتذہ ہی کر سکیں گے،میں نے بہر حال پوری ایمان داری اور دیانت داری کے ساتھ یہ تحقیقی فریضہ انجام دیا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ اسے جانچ پرکھ کے لیے پیش کرتا ہوں۔
میر امقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول میں حیدر قریشی کی تخلیقی نثر کے پانچوں اہم ادبی حوالے مثلاً افسانہ نگاری، خاکہ نگاری،انشائیہ نگاری،سفر نامہ نگاری اور یاد نگاری پر بات کی گئی ہے۔میرا طریقِ ِتحقیق یہ رہا ہے کہ اُن تمام بنیادی پہلوؤں کو اس انداز سے زیر ِبحث لایا جائے جس کی مدد سے حیدر قریشی کے فکری اور ادبی نظام کی تفہیم میں آسانی پیدا ہو جائے۔باب دوم شعری مباحث کا احاطہ کرتا ہے اس میں زیر ِ بحث شخصیت کی غزل، آزاد نظم اور ماہیا نگاری کے فنی اور فکری جہتوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔باب سوم میں حیدر قریشی کو بحیثیت محقق موضوع ِبحث بناکر اُن کی تمام تحقیقات کو جدید تحقیقی اُصولوں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
باب چہارم کاتعلق اُن کی تنقیدی خدمات کے ساتھ ہے جس میں معروضی انداز ِ نظر اپناتے ہوئے تمام ادبی کام کے فنی و فکری محاسن پر سیر حاصل مباحث اُٹھائے گئے ہیں۔باب پنجم میں حیدر قریشی کے فکری نظام کو بنیاد بنا کر اُن کی مجموعی ادبی خدمات کا محاکمہ پیش کیا ہے اور حاصل ِ تحقیق کے اہم نکات اخذ کرنے کی طرف توجہ کی گئی ہے۔
تحقیق ایک ایسا پیچیدہ عمل ہے جس میں محض ایک حوالہ تلاش کرنے کے لیے بسا اوقات پوری لائبریری چھاننا پڑ تی ہے،دوران ِ تحقیق میرے ساتھ ایسا کئی بار ہو ا اور مجھے بار بار ا یبٹ آباد، حو یلیا ں ،ہری پور،مانسہرہ اور بالاکوٹ میں احباب کے ذاتی کتب خانو ں کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ تمام احباب نے وقت بے وقت مجھے برداشت کیا اور کتابوں سے استفادہ کرنے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔اس کے علاوہ ادارہ فروغ ِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد)،اکادمی ادبیات پاکستان اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کتب خانوں سے مقدور بھر استفادہ کیا ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری سے بھی مسلسل رابطہ رکھا تھا بلکہ شعبۂ اُردو کے اساتذۂ کرام کی پراجیکٹ لائبریریوں سے بھی وقتا ً فووقتاً استفادہ کرتا رہا،اس خصوص میں اپنے تمام اساتذہ ٔ کرام ،ڈاکٹر نذر عابد صاحب (صدرِ شعبۂ اُردو)،ڈاکٹر محمد سفیان صفیؔ صاحب،ڈاکٹر محمد رحمان صاحب اور ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی صاحب کا شکریہ مجھ پر واجب ہے۔ آخر میں اپنے استاذِ گرامی ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان صاحب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کیوں کہ اُنھوں نے ہی مجھے ہزارہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی تحریک دلائی تھی۔خدا اُن کے درجات بلند کرے !
میرے گھر کے تمام افراد نے جس طرح میری ہمت بندھائی اور میری مصروفیات کی وجہ سے اپنے تمام کاموں کو موخر رکھا وہ بجائے خود اہم ہے۔ گھر کے تمام افراد نے اپنی ضروریات پر میرے مقالے کو جس طرح ترجیح دی وہ اُن سب کی علم دوستی اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بچوں میں حدیث بنت عامر،جبرائیل بن عامر،سقراط بن عامر کی مسکراہٹوں نے کام آسان کیا اور زوجہ میمونہ عامر نے ہر مقام پر آ سانیاں پیدا کیں، خدا سب کو خوش آباد رکھے!
احباب میں واحد سراج،احمد حسین مجاہد،امان اللہ امان خان،توفیق الرحمن،عمر رضا ملک،شہزاد میر،واجد علی،جان ِ عالم ،صاحبزادہ جواد الافیضی،فیاض احمد،فاریض خان سواتی،عادل سعید قریشی،محمد طیب صدیقی،شہزاد میر،محمد شعیب آفریدی اور سید ماجد شاہ کی مسلسل تشویق نے میرا حوصلہ بحال رکھا اور مجھے ہر ممکن مدد فراہم کرتے رہے۔
مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ میں آج جس مقام پر بھی ہوں اس میں میرے اُن تمام اساتذہ کی محنت ،لگن اور شفقت شاملِ حال رہی ہے جن سے میں کسب ِ فیض کرتا آیا ہوں۔مجھے اُمید ہے کہ مستقبل میں بھی مجھے اِن سب اساتذہ کا تعاون حاصل رہے گا۔ اپنے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا:
پڑے ہیں صورت ِ نقش ِ قدم نہ چھیڑ ہمیں
ہم اور خاک میں مل جائیں گے اُٹھانے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر سہیل
صدر ِ شعبۂ اُردو
ایبٹ آباد پبلک سکول۔مانسہرہ روڈ،ایبٹ آباد
موبائل:0331-5727998؍گھر:0992- 40657 1۔ ۔ برقی رابطہ:[email protected]