(Last Updated On: )
۱۹۸۰ میں جب ہم نئے نئے مشہور ہو رہے تھے۔ محمد اسد اللہ، برصغیر ہند و پاک میں انشائیہ نگار کے طور پر اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ ہم لوگ ان کی طرف رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچتے تھے کہ رشک کرنا عنقریب ختم ہو جائے گا جب ہم خود قابلِ رشک ہو جائیں گے لیکن انھوں نے اپنے مسلسل ادبی کارناموں کے سبب ایسا آج تک ہونے نہ دیا۔ وہ ہندوستان میں انشائیے کے علمبردار کہلائے۔
خود کے لیے کھانا بنانا اور خود کھا نا اچھی بات ہے لیکن بہت اچھی بات دوسروں کے لیے بنانا اور دوسروں کو کھلانا ہے۔ دنیا میں یہ Trend ہے کہ ایک فیلڈ کا مشہور اور معزز آ دمی (آ دمی میں عورت بھی شامل ہے ) دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اتنی ہی محنت کر تا ہے جتنی اپنے لیے کر تا ہے۔ کوئی ’ ایکٹریس‘ رفیوجی کیمپ جا کر دلاسا دیتی اور فنڈ فراہم کرواتی ہے۔، ایک حسینۂ عالم، اپاہجوں کے لیے زندگی وقف کر دیتی ہے۔ فٹ بال اور کرکٹ پلیئرس اپنے کھیل کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں اور آ خر کار اپنے فیلڈ سے زیادہ اپنے فلاحی کاموں سے چاہے جاتے ہیں۔
محمد اسد اللہ بھی یہی کرتے رہے ہیں۔ بعض قلم کار صرف اپنی ہی تخلیقات کی کتابیں چھاپتے ہیں، خود کے لیے انعام اور اوارڈ حاصل کرنے کے کے لیے شب و روز، ماہ و سال فیلڈنگ لگانے میں لگے رہتے ہیں۔ ادبی پروگرام اور سیمینار منعقد کروانا تو دور رہا، ادبی محفلوں میں بطور سامع شرکت نہیں کر تے۔ اپنی پر سکون زندگی میں مگن۔ اپنا ادبی ریکارڈ بنانے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ اس کے بر عکس محمد اسد اللہ نے مختلف روپ میں دوسروں کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ ادبی جلسوں کے انتظامات کر تے ہوئے کر سیاں درست کر رہے ہیں۔ مائک ٹسٹ کر رہے ہیں۔ دعوت نامے لکھ اور تقسیم کر رہے ہیں۔ کسی سیمینار میں پر چہ پڑھنے کے لیے سفر کی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ کسی ادبی کمیٹی کے ذمہ دار ممبر ہیں یا صدارت کر رہے ہیں۔ الگ الگ موضوعات پر مواد جمع کرنے کے لیے لائبریریاں چھان رہے ہیں۔ پھر مسودہ ٹائپ کر کے کسی اکادمی یا قومی کونسل سے گرانٹ پانے کی آس میں اسی مسودہ کا پیکٹ ہاتھ میں لیے پوسٹ آ فس کی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں۔
انھوں نے عوامی خدمت کے لیے تحقیق و تدوین جیسے مشکل اور تنازعہ آ ور کام کو منتخب کیا۔ ان کی یہی کتاب ’ زعفران زار‘ پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ اس کا مقدمہ لکھتے وقت کہاں کہاں سے حوالے جمع کیے ہوں گے پھر اس کو دوبارہ اور سہ بارہ لکھ کر، ہر بار کچھ جملے حذف اور کچھ نئے شامل کر کے اس کو فائنل کیا ہو گا۔ یہ چند گھنٹوں کا نہیں ہفتوں کا کام ہے۔ پھر الگ الگ عنوان قائم کر کے ہر عنوان پر محنت کی ہو گی جیسے پہلا عنوان ہے ’ وجود زن‘ اس میں خواتین کے مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔ ہر خاتون قلم کار کا ایک مضمون منتخب کرنے کے لیے ان کے مضامین پڑھنا، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، کتاب چھپوانا۔ چھپ کر آ نے کے بعد پیکٹ بنا کر دو تین سو لوگوں کو پوسٹ کرنا۔ تبصرے کروا کر شائع کروانا۔ یہ ساری محنتیں بغیر کسی مالی فائدے کے کرنے کے بعد کسی خاتون کی ڈانٹ ڈپٹ ( مجرم ٹھہرا دئے گئے بے قصور کی طرح ) سننا کہ میں بھی تو مزاحیہ مضامین لکھتی ہوں، آپ نے ہم کو شامل نہیں کیا۔
کسی کا دل خوش کرنا، اس کو ہنسنے مسکرانے کے مواقع فراہم کرنا، بھی ایک نیکی مانی جاتی ہے۔ یہ کتاب اس قسم کی نیکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر قلم کار نے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی کوششیں کی ہیں۔ مرتب نے ان سب کو کتابی شکل میں پیش کر کے نیکی ہی کا کام کیا ہے۔ میں اپنے تمام پسندیدہ جملے اور اشعار پیش لفظ ہی میں لکھ دوں تو آپ اندر کیا پڑھیں گے ؟ اس لیے دروازے کے سوراخ سے کمرے میں جھانکتے ہوئے جتنا نظر آ جائے بس اتنی چیزوں کا ذکر کرتا ہوں۔ لیجئے اس کتاب کے بے شمار پر مزاح جملوں میں سے چند۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
٭گذشتہ ہمارے پاس پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ جانچ کے لیے آ یا۔ ایک خاتون مقالہ نگار نے اظہار تشکر کچھ یوں کیا تھا۔۔ ۔۔ میں شکر گذار ہوں خلد نشین نانا جان ( سابق ایم ایل اے ) کی، جن کے حوصلہ دلانے پر میں نے تحقیقی کا کام ہاتھ میں لیا۔ ہائی کورٹ جج چچا اور ایڈوکیٹ ماموں جان کی جنھوں نے ہر مرحلہ پر میری حوصلہ افزائی کی۔ پرنسپل خالہ کی جنھوں نے لائبریری کی سہولیات بہم پہنچائیں۔ ڈاکٹر بھائی جان کی جنھوں نے اس دوران میری صحت کا خیال رکھا، اکاونٹنس آفیسر شوہر اور انجینیرنگ میں پڑھ رہے دونوں بیٹوں کا جنھوں نے حساب میں میری مدد کی۔ ( ڈاکٹر بانو سرتاج )
٭ہمارے ایک دوست ہیں ان کے کان پر ہمیشہ قلم رکھا ہوتا ہے اور میز پر کورا کاغذ، چنانچہ وہ لکھتے رہتے ہیں۔ جیسے گھوڑا گاڑی میں جتا چلتا رہتا ہے۔، مشین کپڑے سیے جاتی ہے۔ لکھنے کا مشغلہ ان کو، پڑھنے، غور اور سمجھنے کی مہلت نہیں دیتا۔ تاریخ میں ان کا نام قطب الدین ایبک کے ساتھ لکھا جائے گا۔ اس نے قطب مینار بنایا تھا ہمارے دوست ’کتب مینار ‘بنا رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کا نام کتب الدین ایبک رکھ دیا ہے ( ڈاکٹر صفدر )
٭محلے کا نل اگر صبح و شام عورتوں کی عدالت ہے تو دو پہر میں اسی نل پر نوجوان تاش اور شطرنج کھیلتے ہیں۔ دیر رات تک بزرگ حضرات کی پارلیمنٹ رہتی ہے۔ جب یہ تمام رخصت ہو جاتے ہیں تو کتے اس جگہ پر قبضہ جما لیتے ہیں ( ڈاکٹر اشفاق احمد )
٭ہمارے ایک بزرگ تنخواہ دار کہا کر تے تھے مہینے کا پہلا عشرہ تر بتر، دوسرا کاٹ کسر اور تیسرا در بدر ( ڈاکٹر محمد اظہر حیات )
٭ہمارے ملک میں کوٹ پہننے کے لیے مخصوص لباس کی شرط نہیں۔ پٹھان شلوار پر کوٹ پہنتا ہے حیدر آ بادی ڈھیلے پاجامے پر، مراٹھا دھوتی پر اور جنوبی ہند کے باشندے لنگی پر ( ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل )
٭ لوگ باگ کہہ گئے ہیں کہ پیدل چلنے سے صحت اچھی رہتی ہے حالانکہ پیدل چلنے کے لیے پہلے سے صحت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ ( محمد توحید الحق )
٭ الیکشن میں کھڑے ہونے سے زیادہ بیٹھنے میں فائدہ ہے۔ بعض لیڈروں کا تو یہ باقاعدہ شریفانہ بزنس ہے۔ وہ کسی حلقہ انتخاب سے پرچہ نامزدگی بھر کر الیکشن میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور جن دو افراد میں کڑا مقابلہ ہوتا ہے ان دونوں ہی حضرات سے اچھی خاصی رقم اینٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں ( ڈاکٹر شیخ رحمٰن اکولوی )
مہمان بارش کے قطرے کی طرح تنہا نہیں آ تا۔۔ ۔۔ ان دنوں یہ ہونے لگا ہے کہ مہمان کے رخصت ہو تے وقت میزبان کے ہونٹوں پر سہما سہما سا ایک جملہ لڑکھڑا تا ہے۔ ’شام کا کھانا کھا کر جاتے تو اچھا تھا۔ ‘اندر ہی اندر دل لرزتا رہتا ہے کہ اس کی یہ رسمی پیش کش شرفِ قبولیت سے نواز دی گئی تو یہ بلا ایک دن اور قہر برپا کرے گی۔ اسی لئے وہ مہمان کے انکار کرتے ہی اسے گلے لگا کر خدا حافظ کہتا ہے اور سکھ کا سانس لیتا ہے یا پھولتی ہو ئی سانس درست کر تا ہے۔ ( محمد اسد اللہ )
٭ہماری شکنتلا ( اچلپور سے مرتضیٰ پور ہوتے ہوئے کچھ آ گے تک سفر کرنے والی انگریزوں کے زمانے کی چھوٹی لائن کی ٹرین ) کے سگنل کا رویہ عجیب ہی نوعیت کا ہے اسے اٹھائیں تو گرتا ہے اور گرائیں تو اٹھتا ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ اسے گرانے کے لیے سگنل مین کو سگنل پول پر چڑھنا ہوتا ہے جس سے سگنل کم اور سگنل مین زیادہ گرتا ہے۔
( بابو آر کے )
٭خدا کو کسی کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے تو وہ اسے مکان کی تلاش میں الجھا دیتا ہے۔۔ ۔ والد صاحب کا حکم نازل ہوا فوراً ایک عدد مکان تلاش کیا جائے۔ ہمیں والد صاحب سے اس حکم کی قطعی امید نہ تھی۔ کیونکہ ہماری عمر خوبصورت لڑکی تلاش کرنے کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک مکان کے سلسلے میں ایک ویران محلے میں پہنچے صاحبِ خانہ نے ہماری بیگم کے متعلق دریافت کیا، ہم نے حیرت سے کہا، حضرت ابھی تو ہمارے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے، شادی کہاں سے ہو گی۔ حضرت یکلخت بھڑک اٹھے اور کہنے لگے۔ ’’پھر تو آپ کو مکان نہیں مل سکتا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ٹھیک ورنہ۔۔ ۔‘‘ہم نے جواب دیا۔ ’’یہ مکان ہمارے والدین کو چاہئے وہ خیر سے شادی شدہ ہیں۔ ‘
(انصاری اصغر جمیل )
ایک دن دفتر سے واپسی پر شوہر خوشی سے پاگل بنا گھر میں داخل ہوا اور بیوی کو پکار کے کہنے لگا۔ بیگم سنو تو سہی بہت بڑی خوشخبری ہے، میں نے لاٹری میں ایک لاکھ کا انعام حاصل کیا ہے۔ بیوی نے سرد لہجے میں دریافت کیا، ’ پہلے یہ بتاؤ لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے لیے تمھارے پاس روپے آئے کہاں سے ؟‘( حیدر بیابانی)
٭منچلے کی بات سن کر مولانا مد ظلہ العالی اسے گھور کر دیکھنے لگے۔ منچلا مسکین صورت بنا کر مولانا مد ظلہ العالی کو تکنے لگا۔ کچھ دیر ماہر ہپناٹسٹ کی طرح گھورنے کے بعد گرجدار آواز ان کے منھ سے نکلی۔ استغفر اللہ۔ آواز اتنی گرجدار تھی کہ مسجد کی دیوار کی منڈیر پر بیٹھا کالا کوا اڑ گیا۔ شاید کسی جھوٹے کو کاٹنے کے لیے۔ مگر سماج میں جھوٹے اتنے ہو گئے ہیں کہ کالا کوا کاٹے تو کس کس کو کاٹے۔
(محمد طارق )
ہمارے قصبے میں پانچ سو گھر ہیں ہر گھر میں ایک شاعر ہے۔ پھر شاعروں کے چار گروپ ہیں۔ ہر ایک گروپ کا شاعر دوسرے گروپ کے شاعر کو شاعر ہی نہیں مانتا۔ ( ڈاکٹر رام پر کاش سکسینہ )
کسی ماہر نفسیات کی طرح اہلیہ کی نظر میری ہر حرکت پر رہتی ہے۔ کون سی بات پر میری آنکھ جھپکتی ہے، کن باتوں پر میرے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور کس پر میں خود کھڑا ہو جاتا ہوں۔ (سعید احمد خاں )
ان کا اصول ہے ’ ٹی۔ وی اپنے گھر کی اور بیوی پڑوس کے گھر کی۔ ہر پڑوسی کے گھر کو وہ اپنا گھر اور پڑوس کے ہر رشتے دار کو وہ اپنا رشتہ دار سمجھتے ہیں۔ پڑوسی اپنی بیوی کو اتنی محبت سے آواز نہ دیتا ہو گا جتنی محبت سے مرزا جی اس کی بیوی کو ’بھابھی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف ان ہی گھروں میں ہوتا ہے جہاں ’’بھابی‘‘ خود کو اتنی محبت کے ساتھ ’’بھابھی‘‘ کہلوانے کا شوق رکھتی ہوں۔ ( حسنین عاقب )
٭ کتنی ٹھنڈ لگ رہی ہے ؟ٹھنڈ یا سردی؟ دوسرے نے پوچھا لگ رہی ہے یا بج رہی ہے ؟ چوتھے نے جاننا چاہا ( رفیع الدین مجاہد )
٭ عید سے زیادہ لوگ چاند رات مناتے ہیں یا پھر چاند دیکھتے ہی بے تحاشہ عید منانا شروع کر دیتے ہیں۔ بازار میں اتنی بھیڑ کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ گئی رات تک بازار میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ جب چاند رات میں ہی اپنے دل کے سارے ارمان نکال لیں گے۔ ( محمد ایوب، کامٹی )
یوں تو سال میں تین موسم ہوتے ہیں لیکن لوگ، پت جھڑ، ساون بسنت، بہار میں سے کسی ایک کا جب ذکر کرتے ہیں تو اسے بھی چوتھا موسم قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک پانچواں موسم پیار کا ہوا کر تا ہے۔ شاید اس بات میں یہ اشارہ موجود ہے کہ پیار کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کب موسم کی طرح بدل جائے۔ ( سید اسد تابش )
محمد اسد اللہ نے ہر تخلیق سے پہلے تخلیق کار کا مختصر لیکن جامع تعارف تحریر کیا ہے۔ اس تعارف سے نئی معلومات حاصل ہوئیں۔ کتاب کے باب سوم ( فردوس گوش )طنز و مزاح نگار شعرا سے۔ بطور نمونہ چند اشعار:
کل پریشان تھے حالات بدلنے کے لیے
آج بدلے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہے ( عبد الصمد جاوید، علامہ گنبد )
حشر قربانی کے بکروں کا بہت دیکھ چکے
لوگ اب جذبۂ ایثار کہاں سے لائیں ( فیاض افسوسؔ )
سیدھی کمر ہوئی بھی نہیں تھی ابھی کہ پھر
ماری ہے اس نے لات ارے باپ کیا کروں ( ناظم انصاری )
تمہارے چہرے کی جھرّی سے ہم کو کیا لینا
تمہاری آنکھ میں کیف و سرور آج بھی ہے ( جملوا انصاری )
میکو بولا پائے پک رے، کھا کے جانا بھائی صاب
میرا سالا میکو بناریا، لاتا آفت ( سر فراز کاتب)
درشن میری آنکھوں کو کرانے نہیں آ تے
کچھ دن سے وہ چکی پہ پسانے نہیں آ تے ( لقب عمران )
وہ اپنی کھڑکی میں آ –+کے بھونڈے سروں میں اک گیت گا رہا ہے
تو کھد کی گاڑی پہ بیٹھے ہم بھی گھمیلا پھٹکا بجا رہے ہیں (فوجی جلگانوی )
ہم جھاڑیوں میں خوف سے اوندھے پڑے ہوئے
چیتا براجمان ہماری مچان پر ( غنی اعجازؔ )
سری دیوی کی کوئی فلم آ جائے جو گاؤں میں
جِتندر کی طرح ہلّڑ مچاتے ہیں بڑے خالو ( رفیق شاکر )
اس دورِ سیاست میں ہم نے تو یہی دیکھا
بگلوں کی ہوئی پیشی کوؤں کی عدالت میں ( منہ پھٹ ناگپوری )
جھانپڑ دکھائی دیتے ہیں تگڑے ضرور ہم
جا کر مقابلے میں پسر جائیں ہم تو کیا ( مسعود احمد جھانپڑ )
اوروں سے تو تھّرانا، اپنوں ہی پہ غرانا
یہ ہمّت مردانہ لا حول و لا قوت
املا انشا درست جن کا اور نہ ہجا ٹھیک
وہ بھی پی ایچ ڈی ہو جائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں ( مفلس قارونی )
تیر نظریں، بھوں کٹاری توپ خانہ ہے ادا
کتنے بے لائسنس ہیں ہتھیار تیرے شہر میں ( حسین خاں جھنجھٹ اکولوی )
تھوبڑا ان کا سناتا ہے کہانی رات کی
لے کے گورے گال کے بوسے کوئی مچھر گیا ( ریاض الدین کامل )
تاکید میری ساس کی بیٹی کو ہے یہی
شوہر ہو سامنے تو سدا منہ پھلا کے رکھ ( محمد توحید الحق )
بے خودی میں غیر کو ہسبنڈ سمجھ کر لڑ پڑے
ان کو عادت پڑ گئی ہے ہر گھڑی تکرار کی ( ڈاکٹر محمد کلیم ضیا)
ہوکے رہ جائے گی ارمانوں کی ایسی تیسی
وصل کی شب ہی لڑو گی مجھے معلوم نہ تھا ( نادر بالاپوری )
مستقل ہو، عارضی اچھی نہیں
چار دن کی چاندنی اچھی نہیں ( التمش شمس اکولوی )
بینڈ باجا ترا بجا دیوں کیا؟
نوکری والی ہے جما دیوں کیا؟ ( عقیل ساحر اکولوی )
لاتے ہیں مریضوں کو کرامات سنا کر
چلتے ہیں کمیشن پہ یہ باواؤں کے چمچے ( ڈاکٹر عمران علی خاں عمرانؔ )
یہ تمام چیزیں پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ چند نام چھوٹ گئے ہیں۔ تحقیق کر کے کتابیں چھاپنے والے ہر شخص کا یہی دکھ ہے کہ جب وہ اخبارات و رسائل میں مواد کی فراہمی کے لیے اعلان کرواتا ہے تو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ کتاب چھپ کر آ تی، شہرت پاتی ہے تب سخت اعتراض اٹھتا ہے کہ اس میں ہم کیوں نہیں ؟
یہ کتاب آپ کی نظر سے گزر نے کے بعد کچھ نام ذہن میں آئیں تو قلم کار کا نام، مختصر تعارف اور نمونۂ نثر / نظم، محمد اسد اللہ تک پہچانے کی زحمت فر مائیں۔ اس طرح کی تحقیقی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ دس پندرہ برس پہلے شائع ہوئی کتاب میں جو نام شامل نہیں تھے اس وہ اس کتاب میں شامل ہو گئے۔ اس میں جو رہ گئے، آ نے والی کتاب میں ہو جائیں گے۔ تحقیق کی دنیا میں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
سخت محنت، تلاش و جستجو کے باوجود، ہر قلم کار تک رسائی نہیں ہو پاتی اس لئے مرتب یا محقق کی نیت پر شک کرنے کے بجائے اس پر محبت کی نظر رکھیں ورنہ یہ لوگ ایسے عرق ریزی والے کاموں سے دست بر دار ہو کر چین سے بیٹھ رہیں گے۔ اس بات کو اسی کتاب میں فیاض افسوسؔ نے یوں کہا ہے۔
حشر قربانی کے بکروں کا بہت دیکھ چکے
لوگ اب جذبۂ ایثار کہاں سے لائیں۔
شکیل اعجاز