میرے ایم فل کے مقالے بعنوان ’’حیدر قریشی کی خاکہ نگاری:ایک جائزہ‘‘ کا دفاعی امتحان ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو کامیابی سے مکمل ہوا۔امتحان کے بعد ڈاکٹرکامران کاظمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے امتحان میں کامیابی کی مبارکباد دی۔جب انہوں نے مجھ سے میرے مقالے کا عنوان پوچھا تو میں نے بتایاکہ میں نے حیدر قریشی صاحب کے خاکوں پر تحقیقی کام کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی حیدر قریشی کے افسانوں پر کام کیا تھا۔یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔
گھر پہنچ کر میں نے حیدرقریشی صاحب کو یہ خوشخبری دینے کے لئے رابطہ کیا تو میں خوشی سے پُرجوش تھی۔میں نے انہیں ڈیفنس کے دوران کا حال بھی بتایا۔ڈاکٹر شیر علی صاحب شعبہ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے بہ نفسِ نفیس موجود تھے۔ڈاکٹر فوزیہ تبسم کے کریدکرید کر کئے گئے ذہین سوالات میرے مطالعہ کو جانچ رہے تھے۔مجھے اس وجہ سے خوشی ہو رہی تھی کہ میرا مطالعہ میرے کام آ رہا تھا۔میرے اس مطالعہ میں میرے گھر کے افراد بھی کسی نہ کسی رنگ میں شریک رہے۔
ایم فل کی تیاری کے شروع کے دنوں میںمیرے چھوٹے بیٹے نے میرے پاس پڑی کتابوں میں سے ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘کو اٹھا کر دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘سے کیا مرادہے؟تو میں نے اسے بتایا کہ محترم حیدر قریشی نے اس کتاب میں اپنی زندگی کی یادوں کو اکٹھا کرکے لکھا ہے تو وہ حیران ہوا اور کہنے لگا جب مجھے صحیح پڑھنا لکھنا آ جائے گا تو میں یہ کتاب ضرور پڑھوں گا۔اسی طرح ہلکے پھلکے انداز میں باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ یہ کتاب’’میری محبتیں‘‘ ضرور پڑھیں۔انہوں نے مطالعہ کی مشقت سے بچنے کے لئے کہہ دیا کہ میری نظر پہلے ہی کمزور ہو رہی ہے۔تب میں نے مذاق سے کہا کہ آپ یہ کتاب پڑھیں گے توآپ کی آنکھوں کی روشنی بڑھ جائے گی۔یہ دو مثالیں یہ بتانے کے لئے لکھی ہیں کہ میرے ایم فل میں میرا سارا گھر بھی کسی نہ کسی طور شریک رہا۔جس سے مجھے تیاری کرنے میں مدد ملتی رہی۔
حیدرقریشی صاحب کی علمی و ادبی خدمات اردو ادب کا خزانہ ہیں۔ادب کے قارئین اور خاص طور پر نئے قارئین کو ادب سے جوڑ کر رکھنے والا خزانہ ہیں۔ خاکوں پر تحقیقی کام کے دوران میں حیدر قریشی صاحب کی قابلیت کی قائل ہو گئی۔بلاشبہ ان کا ادبی کام سراہے جانے کے لائق ہے۔ان کی تحریر میں انتہائی قوت اور جاذبیت ہے اور ان تحریروں کو پڑھنے کا اپنا ہی مزاہے۔قاری اپنے مطالعہ کے دوران ان تحریروں کے سحر میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔شگفتگی اور شائستگی دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔کتابوں کے عنوان ہوں یا خاکوں اور یادوں کے عنوان ہوں،عنوان ہی مطالعہ کی طرف راغب کر دیتا ہے۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ میں نے حیدر قریشی صاحب کو اپنے ایم فل کی خوشخبری سنانے کے لئے رابطہ کیا اور پھر میں اپنے مقالے سے متعلق دوسری لیکن دلچسپ یادوں کی طرف چلی گئی۔
جب میں نے حیدر قریشی صاحب کو ڈاکٹر کامران کاظمی صاحب سے ملاقات کی بات بتائی تو انہیں بھولی ہوئی بات یاد آئی۔انہوں نے بتایا کہ ہاں کامران کاظمی صاحب نے مقالہ لکھا تھا۔ایک موقعہ پر اس مقالہ کو کتابی شکل میں چھاپنے کا پروگرام بھی بنا تھا۔تب کامران کاظمی صاحب نے اپنی طرف سے ’’بیانِ صفائی‘‘ لکھ کر بھیج دیا تھا۔لیکن پھر ہر کوئی اپنی دوسری مصروفیات میں الجھ گیا اور یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔میں نے کہا کہ اگر وہ سارا مواد مل جائے تو مجھے اس کی روشنی میں ایک کتاب مرتب کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔میرے ارادہ کو دیکھتے ہوئے حیدرقریشی صاحب نے مجھے دستیاب مواد ڈھونڈ کر بھیج دیا۔اب میں اسے اپنی سوچ کے مطابق مرتب کرکے کتابی صورت میں شائع کر رہی ہوں۔
ڈاکٹر رشید امجدصاحب کی وجہ سے کامران کاظمی صاحب کو حیدرقریشی صاحب کے افسانوں پر مقالہ لکھنے کا موقعہ ملا تھا اس لئے حیدر قریشی کے افسانوں پر ڈاکٹر رشید امجد صاحب کا ایک مضمون شروع میں شامل کر لیا ہے اسے بھی کتاب کا پیش لفظ سمجھا جائے۔حیدر قریشی صاحب کے افسانوں کی فہرست سے قارئین کوسارے افسانوں کے بار ے میں معلومات کی سہولت ہو جائے گی۔ویسے توبیشتر افسانے کامران کاظمی صاحب کے مقالہ میں زیرِ بحث آ چکے ہیں۔لیکن حیدر قریشی صاحب کے آخری تین افسانوں کو سمجھنے میں مجھے کچھ مشکلات پیش آ رہی تھیں۔میں نے اس سلسلے میں حیدر قریشی صاحب کو اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ان افسانوںکے بارے میں چند وضاحت طلب سوال کئے۔حیدر قریشی صاحب نے کرم کیا برا منانے کی بجائے میرے سوالوں کے جواب میں پورا مضمون لکھ دیا۔اس مضمون سے مجھے روشنی ملی ہے۔امید کرتی ہوں کہ ان کا مضمون ان کی افسانہ نگاری کی تفہیم میں مفید ثابت ہو گا۔اس کتاب کے آخر میں حیدرقریشی صاحب کے افسانوں پر چند اہم اہلِ قلم کے تاثرات بھی شامل کر دئیے ہیں۔ان تاثرات سے حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کے بعض اور پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔
میں خوش ہوں کہ مجھے الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے حیدر قریشی صاحب کی خاکہ نگاری پر تحقیقی کام کرکے ایم فل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔اب ساتھ ہی ایک کھوئے ہوئے تحقیقی کام کو ڈھونڈ کر حیدر قریشی صاحب کی افسانہ نگاری پر بھی کچھ کام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی کہ دیارِ مغرب میں بیٹھ کر بھی حیدر قریشی صاحب اردو ادب کی جو آبیاری کر رہے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔یہ کوئی رسمی سا جملہ نہیں ہے جو کوئی حیدر قریشی صاحب کے ادبی کام کو دیکھنے بیٹھے تو معیار کے لحاظ سے بھی اور مقدار کے لحاظ سے بھی ان کا کام سب سے الگ اور
سر بلند دکھائی دیتا ہے۔یہ ان کا سب سے بڑا علمی اور ادبی اعزاز ہے۔
میں الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر شیر علی صاحب کی بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے حیدر قریشی صاحب کی خاکہ نگاری کی راہ سجھائی اور اس سلسلہ میں میری ہر طرح رہنمائی اور مدد فرمائی۔میں اپنے مقالہ کے نگران ڈاکٹر ناصر آفریدی صاحب کی بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک اچھے نگران کی طرح میرے ایم فل کے مقالے کی تکمیل میں میری رہنمائی کی۔میں اپنی ممتحن ڈاکٹر فوزیہ تبسم صاحبہ کی بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے ایک طرح سے علمی و ادبی دنیا میں کام کرنے لئے تحریک بخشی۔آپ تینوں کے لئے دل کی گہرائی سے دعائیں کرتی ہوں۔
آخر میں اپنی خوشی کی یہ بات بھی بتانا چاہوں گی کہ حیدر قریشی صاحب کی گیارہ کتابوں کا
مجموعہ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ میرے پاس موجود ہے۔اس میں ان کے پانچ شعری مجموعے اور تخلیقی نثر کے چھ مجموعے شامل ہیں۔خاکوں کا مجموعہ ’’میری محبتیں‘‘ اور یادوں کا مجموعہ‘‘کھٹی میٹھی یادیں‘‘ بھی اس میں شامل ہیں۔یہ مجموعہ ۲۰۰۹ء کا مطبوعہ ہے اور اس کے بعد حیدر قریشی صاحب نے ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے مزید ابواب بھی لکھے تھے جو اس کتاب کے الگ عوامی ایڈیشن میں شامل ہیں۔چنانچہ میرے پاس یہ الگ کتاب بھی موجود ہے ۔یہ کتابیں میرے کمرے میں سجی ہوئی ہیں۔لیکن صرف سجاوٹ کے لئے نہیں ہیں بلکہ میں انہیں بار بار پڑھتی رہتی ہوں۔بار بار مطالعہ کے نتیجہ میں ہر بار مجھ پر حیدر قریشی صاحب کی نگارشات کا کچھ نہ کچھ نیا منکشف ہوتارہتا ہے۔ان تحریروں میں بڑی جان ہے۔جیسے جیسے پڑھتے جائیں ویسے ویسے نئے جہان کھلتے چلے جاتے ہیں۔ہر کہانی کے اندر ایک کہانی ہے جو حیدر قریشی صاحب کی ظاہری و باطنی کیفیات کے اَسرارسامنے لاتی چلی جاتی ہے۔
مجھے امید ہے میری مرتب کردہ اس کاوش کو ادبی دنیا میں پسند کیا جائے گا۔
کلثوم رقیّہ
چکوال۔یکم نومبر ۲۰۲۳ء