انتساب
امی ابو کے نام
موجودہ عہد کی تمام تر تبدیلیوں اور سائبر ورلڈ کی خوبیوں اورخرابیوں سے ہندستانی مشرقین بھی تیزی سے متاثر ہوتی جارہی ہے اور ہندستان کا تہذیبی ورثہ بھی اب تصادم کا شکار ہے۔ مگر اب بھی مغربی دنیا کے مقابل اپنی مشرقین کی حافت کی حد تک کامیاب بھی ہے۔ چونکہ ہندستان ایک وسیع وعریض، مختلف ریاستوں پر مشتمل یونین ہے۔ جہاں Quan federal نظام میں ریاستوں کو کسی حد تک اپنے امور میں Autonny بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ساری ریاستوں میں مشرقی قدروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ فیڈرل سوچ بھی اپنی جڑیں جمائے ہوئے ہیں۔ صوبہ ہریانہ سے میری ذاتی نسبت ہے۔فیڈرل، جاگیردارانہ دقیانوسیوں سے ابھی تک جوجھ رہا ہے۔ ہندستان کے شمال مغرب میں واقع یہ صوبہ مشرق میں اترپردیش، مغرب میں پنجاب، شمال میں شوالک پہاڑوں اور ہماچل پردیش، جنوب میں اراوی پہاڑیوں اور راجستھان کے ریگستانی علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہی پہاڑی سلسلے اور، بھرت پور گڑگائوں اور متھرا کو ملا کر ایک الگ جغرافیہ بناتے ہیں۔ اس جغرافیائی ٹکڑے کا نام میوات ہے۔ یہی Tykical جغرافیائی علاقہ میری جائے پیدائش ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی جیسے متمدن شہر کے پڑوس میں ہونے کے باوجود بھی یہاں لڑکیوں کو نا خواندہ رکھنا، Gender Biasrass بچپن کی شادیاں، مسلم معاشرے تک میں گوتر سسٹم رائج ہے۔
اس فیڈل اور سماجی جمود کا ایک سبب یہاں کے لوگوں میں عدم مسافرت، عدم تحرک اور موروثی ہٹ دھرمی بھی ہے۔ مگر زہے نصیب کہ ایسے جامد سماج میں بھی والد محترم کی جہاں بینی ومشفقانہ طبیعت نے وہ موقع فراہم کیا کہ ہم بھائی بہن آزادانہ ملک کے مایہ ناز اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
باوجودہزار رکاوٹوں کے ان کی توجہ دیکھ ریکھ نے ہمیں اس قابل بنا دیا کہ ہم کتابوں سے قریب ہوتے چلے گئے اورحصول علم کو اپنامقصد بنالیا۔
آرٹ اور ادب کی جانب طبعی رجحان نے اردو ادب سے قریب کردیا اور گریجویشن کے بعد کے مراحل میں میں نے اردو زبان وادب کو بحیثیت مستقل مضمون اختیار کیا۔
طبیعت میں موزونیت، موروثی طور پر ودیعت تھی اس لیے شاعری کا بھی شوق ہوا اور گاہے بہ گاہے اس جانب بھی توجہ ہوتی رہی۔ اس حوالے سے کتابی شکل میں میری پہلی کاوش ہے نظمہ شکل میں مہا بھارت جو زیر ترتیب ہے۔ بچپن سے ہی کہانیاں اور ناول پڑھنے کا شوق رہا ہے۔ اردو اور ہندی کی کہانیاں اور ناول بیشتر حالات میں مطالعے میں رکھتی ہوں۔ مختلف رسالوں میں چھپنے والی ذوقی صاحب کی کہانیوں کو شوق سے پڑتی رہی ہوں اس لیے ان کے کمال فن سے واقفیت تو تھی ہی مگرجب ان کا ناول لے سانس بھی آہستہ نظر سے گزرا تو عنوان کی جاذبیت سے ہی تجسس اور ناول کو پڑھنے کی للک من میں جگادی۔ ورق پلٹی گئی اور تجسس بڑھتا گیا اچھوتے زوایے کھلتے گئے اور پڑھنے کے بعد ناول کی فضا اور کیفیت کئی دنوں تک ذہن ودماغ پرچھائی رہی۔ سوالات ایک ایک کرکے ذہن کو پریشان کرنے لگے کہ ذوقی کے بے ساختہ قلم نے جس جرأت کا مظاہر کیا ہے کیا اردو ادب کے قارئین اخلاقیات کے اس پہلو سے چھیڑ چھاڑ کو ہضم کرپائیں گے۔