معزز، محترم اورعزیز قارئین ۔ آداب عرض
میں نے اپنے افسانوں کا اوّلین انتخاب ’’خواب کا رشتہ‘‘ بڑی تاخیر سے آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کی اشاعتِ دوم کی ضرورت فی الفور پیش آگئی۔ اس کے لیے میں آپ کی شکر گزار ہوں۔ کتاب آپ کو اچھی لگی۔ اس میں شامل افسانوں نے آپ کے فرصت کے لمحات کو آپ کی پسند کی مصروفیت فراہم کی یا پھر آپ نے ادب نوازی اور ہمت افزائی کا مظاہرہ کیا۔ میں تو یہی چاہتی تھی کہ میرے ناشر (اکادمی بازیافت) جناب مبین مرزا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کردیں۔ لیکن انھوں نے میرے افسانوں کے دوسرے انتخاب کا مطالبہ کردیا۔ کھینچا تانی چلتی رہی، میرے دوست احباب، میرے شریکِ حیات (عبداللہ جاوید) میرا افسانہ نگار بیٹا سہیل جاوید اور میرا سارا خانوادہ جناب مبین مرزا کا ہم خیال ہوگیا۔ لاچار مجھ کو اپنی نئی کتاب ’’رشتۂ آواز‘‘ لے کر اپنے گراں قدر قارئین کی خدمت میں پیش ہونا پڑا۔
میرے قارئین کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میںکتاب چھپوانے سے بچتی بچاتی ہوں۔ ایسا کیوں کرتی ہوں اس کا سبب میری عدیم الفرصتی ہوسکتی ہے، تساہل اور جانے کیا کیا— بہرحال معذرت خواہ ہوں۔
اپنے افسا نوں کی اس نئی کتاب ’’رشتۂ آواز‘‘ کے بارے میں کیا عرض کروں۔ اس میں شامل افسانے بھی میرے آس پاس وقوع پذیر زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا لوکیل پاکستان، کینیڈا، اور شمالی امریکا سے کسی نہ کسی طور سے مربوط ہے۔ اپنے افسا نوں کو افسانے کہنا اور سمجھنا میرے لیے بہت دشوار ہے۔ میں آپ کو کیسے بتائوں کہ میں افسانے جیتی ہوں، لکھتی نہیں ہوں۔ میرا ہر افسانہ خود مجھے حقیقت لگتا ہے۔ کیا آپ کو میرے افسانے حقائق نہیں لگتے؟
ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ افسانہ نگاروںسے یہ سوال ضرور کیا جاتا تھا، ’’آپ افسا نہ کیسے لکھتے ہیں؟‘‘ اپنے ہر افسا نے کو کاغذ پر اُتارنے کے بعد میں نے جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ میں نے جو افسانہ لکھا ہے، کیوں اور کیسے لکھا ہے؟ ہر مرتبہ مجھے یاد آیا کہ میں افسانہ لکھنے سے قبل، کبھی بے حد مختصر مدت اور کبھی دنوں، مہینوں عجیب سی کیفیت کے زیرِ اثر رہی۔ اور جب اس کیفیت کے آغاز پر غورکیا تو معلوم ہوا کہ میں نے کچھ دیکھا، کچھ سنا، کچھ پڑھا یا اچانک کوئی احساس دل و ذہن میں اُبھرا اور میرا حسیاتی اندرون مرتعش ہوا، میرے ہاتھوں میں قلم آگیا اور کا غذ پر متحرک ہوگیا۔
میرے ان افسانوں کو آپ ایسے ہی افسانوں میں شمار کیجیے۔ ان افسانوں کو میں نے نہیں لکھا ہے، افسا نے آپ تک پہنچنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے اور آپ تک پہنچ گئے۔
ان افسا نوں میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ اس کو جانچنا اور فیصلہ کرنا آپ کا منصب اور اختیار ہے۔ میرا نہیں ہے۔ اس کتاب میں موجود ایک ایک افسانہ آپ کا ہے۔ کتاب میں شائع ہونے سے قبل یہ افسانے اردو ادبی مجلّو ںاور رسائل میں جگہ پاچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افسانوں کے بارے میں ان مجلّوں اور رسائل کے پڑھنے وا لوں اور ساتھ ہی میرے ہم عصراور میرے محترم فکشن نگاروں، مبصروں اور ناقدوں نے قدردانہ کلمات کی سو غات دی ہے۔
میں ذاتی طور پر اپنی کتاب کے ہر افسا نے سے مطمئن ہوں۔ اگر افسانہ نگاری فریضہ ہے اپنے مالک حقیقی کی عطا کی ہوئی فطری صلاحیت Talent کو دیانت، اخلاص، انہماک، اور جانفشانی سے بکار لانے کا تو میں نے اپنا سب کچھ اس کی ادائیگی میں لگا دیا ہے اور اس کی قبولیت کے لیے میں اپنے رب کے دربار میں ملتمس اوردست بہ دعا ہوں۔
میں تاریخِ ادب اردو، انگریزی کے تمام فکشن نگاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور اپنے پسندیدہ قلم کاروں سے مسلسل کچھ نہ کچھ سیکھتی رہتی ہوں، وہ بھی جو موجود نہیں ہیں لیکن جریدئہ عالم پر اپنا دوام ثبت کرچکے ہیں، ان سے بھی جو میرے ہم عصر ہیں، مجھ سے بڑے ہوں یا چھو ٹے۔ البتہ میں نے کسی کی بھی پیروی کر نے سے اغماض برتا ہے۔ بزعم خود ایسا نہیں کیا، ہاں یہ ضرور چاہا ہے کہ ’میں ‘ جہاں تک بن پڑے اور بساط بھر ’’میں‘ ہی رہوں۔
اسی چاہت کی اساس پر میرا فن Art میری صناعی Craft میرا اسلوب اور زبان قائم ہے اللہ کرے دا ئم رہے۔
شہناز خانم عابدی
7180, Lantern Fly Hollow
Mississauga, Ontario
Canada – L5W 1L6
Email: shahnazkhanumabidi@hotmail.com
Phone: 905 – 6969 067