میں نے’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کے دوسرے حصے میں اپنی کتاب کو قلمی تاج محل قرار دیا تھا۔بعد ازاں دیگر احباب نے بھی بجا طور پر اسے ’’قلمی تاج محل‘‘ لکھا۔اس دوران جناب عبدالکریم قدسی نے نظم و نثر میں ’’مبارکہ محل‘‘ کا عنوان لکھا تو یہ عنوان تاج محل کے حوالے سے ہونے کے ساتھ اپنے انفرادی عنوان کا موجب بھی بن گیا۔چنانچہ پھر اس کتاب کا نام ہی ’’مبارکہ محل‘‘ طے کر لیا گیا۔
اردو دنیا میں نسائیت کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور عزت ووقار اور محبت کی باتیں کی جاتی ہیں۔یہ سب کچھ مناسب ہے اور ایسا ہونا چاہئے۔تاہم یہ تاریخ رقم ہوچکی ہے کہ اردو دنیا میں
مبارکہ جیسی ایک عام گھریلوخاتون پراپنے بچوں اور شوہر کی طرف سے تین کتابیں لکھے جانااور اس طرح سے ان کی عزت،وقار اور ان سے محبت کا اظہار کرنا ریکارڈ پر آچکا ہے۔ایسی عزت اور ایسی محبت کی عام خواتین میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔یہ ایسی روشن مثال ہے جسے خواتین کی بڑی این جی اوز اور بڑی بیگمات کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ایسا مقام ابھی تک کسی این جی اوکی متحرک خواتین کو بھی نہیں ملا اور نہ ہی ادبی طور پر پیش پیش خواتین کواپنے خاندان کی طرف سے ایسا مقام مل سکا ہے۔مذکورہ تمام خواتین کو بھی یہ عزت و وقار کا مقام ملنا چاہئے۔لیکن ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب مذکورہ خواتین عام عورتوں کے حقوق اور عزت و محبت کے لئے دل سے تگ و دو کریں گی۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘کی اشاعت کے بعد انڈیا،پاکستان اور مغربی ممالک کے پاکستانیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی،خواتین کی طرف سے گھریلوخواتین کے لئے ایسی محبت اور عزت پر گہری خوشی کا اظہار کیا گیا۔اس سارے کام کو رشک بھری نظروں سے دیکھا گیا اور توقع کی گئی کہ اس عمل سے ہمارے معاشرے میں تدریجاََ بہتری آئے گی۔آتی جائے گی۔
بعض خواتین نے مجھ تک یہ بات پہنچائی کہ بہت ساری خواتین ہیں جنہوں نے اپنے رشتوں کے ساتھ محبت اور وفا کی۔سسرال کی دل سے خدمت کی۔بچوں کی پرورش میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔شوہر کا زندگی بھر ساتھ دیا۔اس کے باوجود ان کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا۔یقیناََ ایسی خواتین قابلِ احترام ہیں۔تاہم ایسی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے صلہ و ستائش سے بے نیاز ہونا بھی ضروری ہے۔مبارکہ جب کارزارِ حیات میں میرا ساتھ نبھا رہی تھیں،
اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں،تب ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ اس کے صلہ میں کتابیں لکھی جائیں گی اور مرتب کی جائیں گی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسی منصوبہ بندی کے بغیر از خود ہوتا چلا گیا ہے۔اگر ایک روایت مستحکم ہو جائے تو پھر توقع کی جا سکتی ہے کہ آگے چل کر اس روایت کو فروغ ملنے لگے۔
بعض خواتین کا حسنِ ظن ہے کہ انہوں نے مبارکہ کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کو میری خوبی قرار دے دیا۔ان کے بقول یہ مبارکہ سے زیادہ میری خوبی ہے،میری اچھائی ہے۔یہاں بھی میں یہی کہوں گا کہ میری یہ خوبی اور اچھائی سامنے آہی نہیں سکتی تھی جب تک کہ سامنے مبارکہ نہ ہوتی۔سو اگر یہ خوبی ہے تو ہم دونوں کی مشترکہ خوبی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔مبارکہ کے بارے میں میرے جذبات و احساسات میری زندگی بھرکا حاصل ہیں۔میں یہ سب کچھ زندگی بھر لکھتا رہا ہوں،اب یہ سارا کچھ یک جا ہو کر سامنے آیا ہے اور اس کے سماجی اثرات بھی سامنے آئے ہیں تو مجھے مزید خوشی ہوئی ہے۔
ان تمام خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری تحریروں پر اپنے ردِ عمل سے نوازا۔ معاشرتی مسائل کو اپنے اپنے زاویے سے دیکھا اور مجھے اپنے تاثرات سے نوازا۔جن احباب نے مضامین،تبصروں اور تاثرات کے ذریعے اپنے خیالات سے آگاہ کیا،ان سب کا شکر گزار ہوں۔۔امید کرتا ہوں کہ چراغ سے چراغ جلیں گے اور معتبر رشتوں کی روشنی پھیلتی جائے گی۔
حیدر قریشی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...