(Last Updated On: )
ہر کتاب سر نوشتِ دارد۔پاکستان پر یہ میری تیسری کتاب ہے۔ 1969 ء میں لکھی جانے والی پہلی کتاب بعنوان ’’پاکستان: ملٹری رُول آر پیپلز پاور‘‘میں ریاست کے حصے بخرے ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ پاکستان میں اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی۔ہر مکتبہء فکر کے ناقد، حتیٰ کہ کتاب کو پسند کی نگاہ سے دیکھنے والے بھی، کا خیال تھا کہ ملک ٹوٹ جانے کی بات بہت ہی دُور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے لیکن چند سال بعد یہی ہوا کہ ملک ٹوٹ گیا۔ لگ بھگ دس سال بعد میں نے پاکستان بارے دوسری کتاب بعنوان’ ’کین پاکستان سروائیو؟‘‘ لکھی۔ سوالیہ نشان گو غیر اہم نہیں تھالیکن جنرل ضیاء کے پاکستان میں ، جہاں ایسا کوئی سوال تک اٹھانا نا قابلِ قبول تھا،کتاب کا عنوان دکھتی رگ کو چھیڑنے والی بات تھی۔ کتاب کی اشاعت پر جنرل ضیاء کافی سیخ پا ہوئے ۔ اسی طرح ہر آمریت کے لئے بصد خوشی آلہء کار بننے والی افسر شاہی بھی شدید برہم ہوئی۔ ضیاء الحق نے بھارت میں ہونے والی اپنی ایک پریس کانفرنس کے موقع پر مجھے اور میری اس کتاب کو ہدفِ ملامت بنایاجو خاصا مفید ثابت ہوا اور اسے کتاب شائع کرنے والے ادارے کے سیلز ڈیپارٹمنٹ نے خاصا سراہا۔ اس کتاب پر بھی پابندی لگا دی گئی لیکن میرے لئے یہ امر خوشی کا باعث تھا کہ اس کتاب کے کئی ایڈیشن بلا حقوقِ اشاعت شائع ہوئے۔ آج کل وہ کتابوں پر پابندی نہیں لگا رہے، کم از کم گذشتہ دنوں ایسا نہیں ہوا، اور یہ امر باعثِ اطمینان اور تھوڑی سی پیش قدمی ہے۔
1963 ء میں جب میں نے ملک چھوڑا تھا تویہ ملک مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل تھا۔ آٹھ سال بعد مشرقی حصہ علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس وقت مغربی حصے کی آبادی چار ساڑھے چار کروڑ تھی۔ا س میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اب یہ بیس کروڑ کو چھو رہی ہے۔آبادی کے بڑے حصے کی عمر تیس سال سے کم ہے۔
اس کتاب کا مرکزی نقطہ و ہ طویل مبارزہ ہے جو عوام اورامریکی حمایت یافتہ سیاسی وعسکری اشرافیہ کے مابین لڑی جا رہی ہے۔ ابتدائی سالوں میں تو یوں ہوا کہ اس مبارزے میں امریکی محکمہ خارجہ کمک مہیا کرتا مگر پڑوسی ملک افغانستان میں امریکی دستوں کی موجودگی اور اندرون ملک گھروں پر امریکی بمباری سے یہ تنازع دوبدو شکل اختیار کر گیا ہے ۔ اگر یہ تنازع آگے بڑھا ، جیسا کہ کچھ حلقے واشنگٹن میں کٹ حجتی کر رہے ہیں،تو اس بات کا امکان کم ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت کا مثالی قرار دیا جانے والا اتحادپارہ پارہ ہو جائے گا۔ امریکہ سے اتحاد، جو اندرون ملک ہمیشہ متنازعہ رہا ہے، پاکستانی فوج کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ہمراہ پاکستان میں موجود سازشی نقال، باقاعدگی کے ساتھ یہ رائے پیش کرتے آ رہے ہیں کہ ’جہادی دہشت گردوں‘ کے خطرے سے بری طرح دوچارپاکستان میں اسلامی انقلاب پنپ رہا ہے۔ اس دعوے کا واحد مقصد امریکی قبضے کو دعوت دینا اورپاکستان پر جہادی غلبے بارے اپنی پیش گوئی کو درست ثابت کرنا ہے۔
اس مبارزے کا اہم ترین پہلو وزیرستان نہیں، عوام کی اکثریت اور ان کے بدعنوان، بے پروا حکمرانوں کے مابین تقسیم ہے۔ یہ مبارزہ عموماََ بغیر ہتھیاروں کے ہوتا ہے ۔ یہ ذہنوں میں جاری رہتا ہے مگر کبھی ختم نہیں ہوتا۔امریکہ سے گہری دشمنی کا تعلق مذہب سے کم اور اس آگاہی سے زیادہ ہے کہ امریکہ نے ہر اس فوجی آمر کی حمایت کی جو ملک پر مسلط ہو گیا۔پاکستان ایک مرتبہ پھر سٹریٹیجک اثاثے کے طور پر اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ خطرہ یہ ہے کہ امریکہ پھر ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کے خیال میں پاکستان کے اندر مستعدی سے کام کرنے والا واحد ادارہ فوج ہے اور امریکہ یہ بات سمجھنے پر بالکل تیار نظر نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ کتاب اس بات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
پاکستان میں میری مسلسل دلچسپی کا جوازکیسے بیان کیا جائے؟میری پیدائش اور تعلیم و تربیت وہاں ہوئی۔ میرے خاندان کے زیادہ تر افراد وہاں رہتے ہیں اور جب ملک میں میرے داخلے پر پابندی نہیں ہوتی تو میں باقاعدگی سے وہاں جاتا ہوں۔ پرانے دوستوں اور شناسائوں سے اچانک ملاقاتیں ایسی صورت میںاور بھی اچھی لگتی ہیں کہ ان میں سے اکثر اہم عہدوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں لہٰذا کھل کر بات کر سکتے ہیں اور ہم ایک ساتھ کھل کر ہنس سکتے ہیں۔ پاکستان میں مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہوتا۔میرا کچھ تھا جو وہیں، پیچھے اس مٹی میں، ان درختوں میں ، ان لوگوں میں رہ گیا تھالہٰذا ابتلا کے دور میں بھی مجھے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
مجھے پہاڑوں سے عشق ہے۔ کم از کم ان پہاڑوں کو فلک بوس عمارتوں میں بدل کر انہیں دبئی کی شکل نہیں دی جا سکتی۔ کھجور کے درخت، بھونڈی نقالی پر مبنی خلیجی فنِ تعمیر اورہمالیہ آپس میں میل نہیں کھاتے، ویسے ہمالیہ کسی کو ایسی کسی کوشش سے روکتا نہیں۔ شہروں کا منظرا لبتہ دوسری بات ہے، یہ وقت کے ساتھ ساتھ بالکل بدل گئے ہیں۔ منصوبہ بندی سے عاری اور بدساخت نئی عمارتوں نے اکثر بڑے شہروں کو تباہ کر دیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں دارلحکومت اسلام آباد کی تعمیر میں حصہ لینے والے امریکی ماہرِ تعمیر ایڈورڈ سٹون اس مقام سے ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ارضیاتی نقطہ نگاہ سے یہ مقام خطِ خطر پہ واقع ہے اور یہاں کی مٹی کمزور ہے۔ اس کی نصیحت تھی کہ کبھی بھی تین منزلوں سے زائد کوئی عمارت تعمیر نہ کی جائے۔ اُس عہد کے فوجی آمر نے ایڈورڈ کے مشورے پرعمل نہ کیا۔2005 ء میں جب ملک میں ایک بڑا زلزلہ آیا تو پورے اسلام آباد کی عمارتیں جھول رہی تھیں۔ زلزلے کے بعد جب کئی دن تک جھٹکے محسوس کئے جا رہے تھے تو میں وہاں تھا۔ یہ جھٹکے خاصے شدید تھے۔
پاکستان صرف زلزلے کے ہاتھوں ہی گھائل نہیں ہوا تھا۔ اس تازہ المئیے نے کچھ دیگر زخموں کو بھی نمایاں کیا۔ملک کو لگی وہ موذی اور خطرناک بیماری جس پر اشرافیہ کم کم ہی تو جہ دیتی ہے اور عام شہری اسے معمول کا عمل تسلیم کر چکے ہیں ،اس زلزلے کے نتیجے میں بالکل نمایاں تھی۔ہزاروں جانوں کو نگل جانے والے اس زلزلے نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ ملک کس حد تک بدعنوان نوکر شاہی، فوجی افسران، سیاستدانوں، حکومتوں اور زرہ بند مافیا کے ہاتھوںتباہ ہو چکا ہے نیز یہ کہ ہیرویٔن اور ناجائز اسلحہ کی کمائی کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔ اس میں مذہبی جاعتوں کی بے رحمانہ منافقت کا بھی اضافہ کر لیجئے جو ریاستی مذہب کا استحصال کرنے میں لگی رہتی ہیںتو یہ تصویر مکمل ہو جائے گی۔اقرباء پروری او ر رشوت ستانی کی کہانیوںپر حیران ہوئے بغیر بے شمار عام لوگ تھے جو اس المئیے کو اسی نقطہ ء نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔لاہور کے ایک سرکاری سکول میں طالب علم زلزلے سے متاثر بچوں کے لئے کھلونے جمع کر رہے تھے۔ جب ان سے پو چھا گیا کہ وہ کس شخصیت کا خطاب سننا پسند کریں گے تو انہوں نے متفقہ طور پر ہرسیاستدان، فوجی افسر اورسِول بیوروکریٹ کو رد کر دیا۔ ان کی ترجیح تھی: ڈاکٹر۔
ایسی تمام باتیں یقینا اس تحریک کی وضاحت نہیں کر سکتیں جو انسان کو مسلسل ایک ملک بارے لکھنے پر اُکساتی ہے۔ وجہ سیدھی سی ہے۔ میںزوال پزیر حکمران اشرافیہ کی بے رحمی، بدعنوانی اور نرگسیت سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ کروں، میری یہ نفرت پاکستان بارے میرے روئیے پر کبھی اثر اندازنہیں ہوئی۔ میرے دل میں عام لوگوں کیلئے گہری محبت اور عزت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اونچی شرح ناخواندگی کے باوجود عام لوگوں کی جبلت اور ذہانت نے مسلسل ملک کی بہتری بارے ان حکمرانوں کی نسبت بہتر فیصلے کئے ہیں جو 1947 ء سے ان پر مسلط ہیں۔ہر آزاد خیال پاکستانی صحافی یا لکھاری اس بات کی تصدیق کرے گا۔
لوگوں کو ان المیئوں کے لئے مطعون نہیں کیا جا سکتا جو ان کے ملک کو دیکھنے پڑے۔ جس ناقابلِ فرار اسیری اور مایوسی کا شکار کبھی کبھار وہ ہو جاتے ہیں،انہیں اس کے لئے مطعون نہیں کیا جا سکتا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کی اکثریت مذہبی گروہوں کے ہتھے نہیں چڑھ جاتی الٹا وہ ہٹ دھرمی کی حد تک ان گروہوںسے دور رہتے ہیں اور اس امر کا اظہار فروری 2008 ء کے انتخابات سمیت ہر انتخاب کے موقع پر ہوا ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا، ان کی اکثریت نے ایسی جماعتوں کوووٹ دیا جو سماجی تبدیلی اور اصلاح کا وعدہ کرتی ہیں جبکہ اقتدار میں موجود لوگوں کو انہوں نے رد کر دیا۔
میرے پرانے مدیر کولن رابنسن ،جو پہلے ورسو،پھر نیو پریس اور اب سکربنر کے ساتھ ہیں، پوری طرح اس بات کے قائل ہیں کہ مجھے یہ کتاب لکھ دینی چاہئے مبادا کہ دیر ہو جائے۔ا ن کا اصرار رنگ لایا۔رابنسن کی جبلت میری نسبت بہتر ثابت ہوئی۔اس کتاب پر کام جاری تھا کہ لندن ریویو آف بُکس کی سخت گیر نگہبان مَیری ۔کے۔وِلمرز نے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی بارے ایک طویل باب اس زیرِ تکمیل کتاب سے ہتھیا لیا۔ یہ مضمون، جیسا کہ اس کتاب کے قاری آگے چل کر دیکھیں گے، خاصا تنقیدی تھا۔میں اس کتاب پر کام کر ہی رہا تھا کہ مذکورہ مضمون کی اشاعت کے دو ہفتے بعد بے نظیر بھٹو کا قتل ہو گیا۔ جذبات کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں اس مضمون کی تُرشی میں تھوڑی تخفیف کر دوں مگر بے نظیر کی موت پر میرے دکھ اور غصے کے باوجود میں نے ایسا نہیں کیا۔ جرمن مصنف لیسنگ نے کہا تھا’’سچ کو نقاب پہنا کر اور اس کا بھیس بدل کر پیش کرنے والا شخص سچ کی قرم ساقی تو کرتا ہے ، سچ کا عاشق ہر گز نہیں ہو سکتا‘‘۔ پاکستان میں سچ عموماََ سرگوشیوں کی صورت سفر کرتا ہے۔لوگوں کے تئیں ہمارا فرض ہے کہ اپنے دل کی بات کہہ ڈالیں۔ بے نظیر، جنہیں میں برسوں سے جانتا تھا، کی موت بلا شبہ ایک سانحہ تھا۔یہ البتہ کوئی مناسب جواز نہ تھا کہ میں اپنا جائزہ از سرِ نو مرتب کرنے بیٹھ جاتا۔یہ کہ انہوں نے اپنی جماعت ، اپنے بیٹے کی بلوغت تک، اپنے شوہر کو ودیعت کر دی درحقیقت پاکستان کی جمہوری سیاست کا ایک گمبھیر عکس اور میرے تجزئیے کی توثیق ہے۔ملک میں وردی اور خاندانی اجارہ داری کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔
میں پاکستان میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں کا شکر گزار ہوں۔ ان میں ماہی گیر سے لیکر جرنیلوں تک، کسان، ٹریڈ یونین اسٹ ، سرکاری ملازم، پرانے دوست، سبھی شامل ہیں جو گذشتہ سالوں کے دوران ، میں جب بھی پاکستان گیا، بے دھڑک اپنا ما فی ضمیر بیان کرتے رہے۔ ان حضرات کے نام صیغہء ر از میںنہ رکھنا عین ممکن ہے دشمنی پر محمول کیا جائے۔حسب ِ معمول میری شریکِ حیات سُوز ن واٹکنز کا بھی شکریہ جو تین دہائیوں سے’’ نیو لیفٹ ریویو‘‘ کی شفیق مگرمنظم مدیر ہیںاور اس بات کا اندازہ اس جریدے کے مراسلہ نگاروں (میرے سمیت )کو بخوبی ہو گا۔
جب میں نے اس کتاب پر کام شروع کیا تو لندن میںمیرے ایک دوست نے پوچھا:’’کیا ایسے میں یہ کتاب شروع کرنا ناعاقبت اندیشی نہیں کہ جب اونٹ کسی کروٹ ابھی بیٹھا ہی نہیں ؟‘‘۔ اگر میں اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کے انتطار میں رہتا تو پاکستان پر کبھی کوئی چیز نہ لکھ پاتا۔
طارق علی
۵اپریل ۲۰۰۸ء