(Last Updated On: )
انشائیہ ہماری نئی صنف ادب ہے۔ یہ ایک نثری، غیر افسانوی بیانیہ ہے۔ جو چیز انشائیہ کے زیادہ قریب نظر آتی ہے، وہ مضمون ہے۔ اس میں بھی سائنسی مضمون، سیاسی مضمون، تاریخی مضمون، مذہبی مضمون کو معاف کر دیا گیا ہے۔ جس صنف کو بیتال کی طرح انشائیہ کے کندھوں پرسوار کر دیا گیا ہے وہ طنزیہ مزاحیہ مضمون ہے۔ وہ پکار پکار کے کہتا ہے کہ میں انشائیہ ہوں۔ مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش! انشائیہ کو مضمون کے خانے میں ڈالنے کی دو وجہیں ہیں۔ اولاً یہ کہ انشائیہ بھی مضمون ہی کی طرح ایک بیانیہ ہے۔ دوم یہ کہ حسنِ انشائیہ، شوخیِ تحریر یا تازگی کو مزاح کے مماثل قرار دے کر انشائیے کو مضمون کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مضمون نگاروں کو انشائیہ نگار اور انشائیہ نگاروں کو مضمون نگار بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے تحقیقی مقالات پر یونی ورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی سندیں بھی تفویض کر دی ہیں۔ چنانچہ نو مولود ڈاکٹروں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری تھیسس کو رد کرنے والے آپ کون؟ ہماری تھیسس کو تو فلاں یونی ورسٹی نے استناد کا درجہ عطا کیا ہے۔ گویا ان کی نیم پلیٹ پر تحریر ہوتا ہے کہ ’’زبان بند رکھو‘‘ ۔
احباب کا وطیرہ یہ ہے کہ جو مضمون ہے، وہی انشائیہ ہے۔ اور جو انشائیہ ہے وہی مضمون ہے:
واعظِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
مضمون خطِ مستقیم کا سفر ہے۔ مضمون نگار اپنے موضوع کے معلوم متعلقات رقم کرتا جاتا ہے۔ ان پر اپنے تاثرات کے بیان میں دلچسپ تبصرے بھی کرتا جاتا ہے۔ یہ مضمون مزاحیہ بھی ہو سکتا ہے اور فکر انگیز بھی۔ مفید بھی ہو سکتا ہے اور کار آمد بھی۔
انشائیہ نگار کو اپنے معروض کے معلوم متعلقات سے کوئی غرض نہیں۔ وہ ان باتوں سے صرف نظر کرتا چلتا ہے جو معلوم اور ظاہر و باہر ہیں۔ وہ معروض کے مخفی گوشوں کی تلاش کرتا ہے۔ اس غرض سے وہ معروض کو الٹتا پلٹتا ہے۔
معروف انشائیہ نگار سٹیل اور ایڈیسن نے یکم مارچ ۱۷۱۱ء کو ایک پرچہ جاری کیا۔ اس کا نام Spectator رکھا۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ انشائیہ نگار Spectator ہی ہوتا ہے۔ اپنے معروض کے بارے میں معلوم کوائف کو رد کر دیتا ہے۔ وہ معروض کے ان مخفی کوائف کو اپنے بیانیہ کا حصہ بناتا ہے جو اس کی نظر کا حاصل ہیں۔ وہ معروض کو ان زاویوں سے دیکھتا ہے جو اب تک پردۂ خفا میں تھے۔ اس کی تلاش کی کیفیت غالب کے لفظوں میں یوں بیان ہوئی ہے:
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
انشائیہ نگار کے طرز فکر اور اس کی فکر کے حاصل کو غالبؔ ہی کے لفظوں میں بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں: ’’میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں۔‘‘
انشائیہ نگار شاہراہِ عام سے حذر کرتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ معروض سے جو کچھ انشائیہ نگار برآمد کرتا ہے، وہ در اصل اپنے اندر سے ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اسی لیے مونتینؔ کہتا ہے: ’’اپنی کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔‘‘
انشائیہ نگار کی تلاش کے حاصل کو ’’خود انکشافی‘‘ ہی کہنا درست ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے تخلیقی پروسس کو بہت خوب بیان کیا ہے:
’’ادب تخلیق کرنے والے ارد گرد کی اشیاء اور مظاہر کو الٹنے پلٹنے لگتے ہیں۔ اور ان کے اندر چھپے مفاہیم کو سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انشائیہ اسی الٹ پلٹ کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘
اسی الٹ پلٹ میں مظاہر کے چھپے ہوئے گوشے چمک اٹھتے ہیں، اس مخفی گوشے کے چمک اٹھنے کا نام ہی تخلیق ہے۔ فراق کا ایک خوبصورت شعر ہے:
شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں
چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات
یکایک جو نیا مظہر جلوہ گر ہوا ہے اسے دیکھ کر ہم ’’نفیس حیرانیوں‘‘ سے دو چار ہوتے ہیں۔ یہ ’نفیس حیرانیاں‘ تخلیقِ انشائیہ کا حاصل ہے۔ جس طرح میدانوں کا باسی پہاڑیوں کی بلندیوں سے ایک ’’جہانِ حیرت‘‘ مشاہدہ کرتا ہے، انشائیہ کا قاری اسی طرح ’نفیس حیرانیاں ‘ سمیٹتا ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ انشائیہ کی صنف مغرب سے مستعار ہے۔ علی گڑھ تحریک نے جس طرح حالی کی شعریات کو ’کار آمد‘ بنانے کی سعی سے جوڑ دیا اسی طرح ایسّے کو بھی مفید اور کار آمد بنانے کی دھن میں انشائیہ اور مضمون خلط ملط ہو گئے۔ ایک بار پھر انشائیہ کو اس کے اپنے خد و خال کے ساتھ دیکھا جانے لگا۔
میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مطالعہ سب سے بڑا استاد ہے۔ کسی ادبی صنف کو سمجھنے میں علماء و فضلاء کے مقالات ہماری کم مدد کرتے ہیں اور ادبی فن پاروں کا مطالعہ زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ ’’جلوے ادھر کے‘‘ مغربی انشائیوں کے تراجم کا انتخاب ہے۔ مجھے خو شی ہے کہ اس کتاب کے مرتب جناب عارج میرؔ نے مغربی انشائیوں کو جمع کر کے بڑی ادبی ضرورت کو پورا کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد اسد اللّٰہ نے لکھا ہے کہ انشائیہ نگار یہ دیکھتا ہے کہ کائنات میں معروض کی رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ ہم ایک سیدھی پختہ سڑک سے کسی مقام پر جاتے ہیں تو اسی ایک راستے کے پابند ہوتے ہیں۔ کچھ جیالے نئے راستے کھوج نکالتے ہیں۔ نیا اور خوب میں جو رشتہ ہے اسے ڈھونڈ کر ہم دریافت کی کار گذاری انجام دیتے ہیں۔ وروڈ سے بھینس دہی بھوپال جانے والی شاہراہ سے ہم جاتے ہیں۔ یہ فاصلہ ساٹھ پینسٹھ کیلو میٹر ہے۔ مگر آدی واسی پہاڑی راستے سے پیدل چل کر بھینس دہی جاتے ہیں یہ فاصلہ دس بارہ کیلو میٹر ہی ہے۔ پہاڑ جنگل سے گذرنے والے جیالے بس سے سفر کرنے والوں پر خندہ زن ہیں۔ انھوں نے وہ راہ دیکھی ہے جو دوسروں کی آنکھ سے اوجھل ہے۔ اس ’نیا‘ اور ’خوب‘ تک رسائی بنی بنائی ڈگر سے انحراف کا حاصل ہے۔ ندا فاضلی نے کیا خوب کہا ہے:
رستہ ہو چاہے صاف، بھٹک جانا چاہئے
یہ بھٹک جانا ہی تخلیقیت کا راستہ ہے۔ بعض لوگ’ بھٹک جانے ’ کو دماغ کا فتور سمجھتے ہیں۔ مگر تخلیق کار وہی ہے جو ’نیا‘ اور ’خوب‘ دریافت کرتا ہے۔ ایک اچھے موسیقار کی خوبصورت کمپوزیشن لاکھوں لوگوں کا دل موہ لیتی ہے۔ مگر موسیقار اس کمپوزیشن پر قناعت نہیں کرتا۔ نئی نئی کمپوزیشن تلاش کرتا ہے۔ لَے اور سر کے نئے رشتے تلاش کرتا ہے۔ ہم بھی اس سے نت نئی کمپوزیشن کے خواہاں ہوتے ہیں۔ نئی کمپوزیشن پر جھوم اٹھتے ہیں۔ بعینہ انشائیہ نگار معروض کے نئے رشتے تلاش کرتا ہے۔ یہ صرف معروض کی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ انشائیہ نگار اور قاری بھی نئی رشتے داری اور اور نئی دوستی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ہماری نئی رشتہ داریاں ہوتی ہیں۔ ہمارا اپنا آپ تعلقات کے نئے رشتوں سے جڑ کر مسرت اور آگہی کے نئے تصور اور نئی مسرتوں کے تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انشائیہ انکشافِ ذات کا وسیلہ بن جاتا ہے بلکہ توسیعِ ذات کا سبب ہوتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ پختہ جانی بوجھی سڑک کے ہوتے ہوئے جنگل پہاڑ سے گذرنا کیا ضروری ہے؟ آپ غالبؔ کی اس آرزو مندی کو کس خانے میں رکھیں گے:
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
یہ آرزو مندی ہی زندگی کا جواز ہے، دنیا کا منظر نامہ اسی سے بدل رہا ہے۔ یہ آرزو مندی ہی چشمۂ حیات ہے۔ زمانے اور وقت کی نیرنگی اس سے عبارت ہے۔ اس مبحث سے مجھے یہ کہنا ہے کہ ’نئے‘ اور ’خوب‘ کی جستجو فطرت انسانی ہے۔ یہی فطری خواہش انشائیہ کے رگ و پے میں جاری و ساری نظر آتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صرف انشائیہ انسانی آرزو مندی کا مظہر ہے۔ یہ تخلیقیت کی اساس ہے۔ جب یہ آرزو مندی انشائیہ میں ظہور کرتی ہے تو ہم لبیک لبیک پکار اٹھتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد اسد اللّٰہ کا ایک انشائیہ ہے ’’دوسرا ٹکٹ‘‘ راوی بس میں سوار ہو کر کنڈکٹر سے دو ٹکٹ لیتا ہے۔ اس کا ہم نشیں حیرت سے پوچھتا ہے دوسرا ٹکٹ کس کے لیے؟ کوئی اور بھی ہے آپ کے ساتھ؟ راوی جواب دیتا ہے: ’’ہاں…! ہے!!‘‘ مگر وہ تو اکیلا بس میں سوار ہوا ہے۔
ہم نشیں تو معلوم نہیں کیا سوچ رہا ہو۔ مگر راوی خود سوچتا ہے کہ یہ دوسرا ٹکٹ کس کے لیے ہو سکتا ہے! اسے معلوم ہے کہ اس نے دوسرا ٹکٹ کیوں لیا ہے۔ مگر ایک تجربے کے طور پر وہ اجنبی کی طرح سوچتا ہے، نئے نئے پہلوؤں پر غور کرتا ہے، رد کرتا ہے اور غور و فکر کا عمل جاری رہتا ہے۔ جو سچویشن موجود نہیں ہے اس کے امکانات پر غور کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی منزل آ جاتی ہے۔ بس سے اتر جاتا ہے۔ پھر ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے دوسرا ٹکٹ اس لیے خریدا کہ ایک دن پہلے مسافروں کی کثرت کی وجہ سے کنڈکٹر اس تک نہیں پہنچا۔ اور اسے بغیر ٹکٹ لیے ہی اتر جانا پڑا۔ کمپنی کا نقصان نہ ہو اس لیے راوی نے آج دو ٹکٹ لیے۔ راوی نے ایک دن پہلے بغیر ٹکٹ کیسے سفر کیا؟ اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا جاتا تو یہ مضمون ہوتا۔ اجنبی بن کر نا موجود پہلو کی تلاش انشائیہ نگار کا طریقہ کار ہے۔
مونتینؔ مغربی انشائیہ کا موجد خیال کیا جاتا ہے۔ مونتین کا ایک انشائیہ ہے ’’کچھ بیکاری کے بارے میں‘‘ (مترجم: انور سدید) یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’انسانی ذہن بھی دھرتی اور عورت کی طرح ہے۔ اسے یوں ہی بے مصرف چھوڑ دیا جائے تو یہ کاہل، غیر تخلیقی اور کند ہو جاتا ہے۔ جس طرح پیتل کے پیالے میں آبِ لرزاں سورج کی شعاعوں یا چاند کے چہرے کو منعکس کرتا ہے اسی طرح دماغ کی روشن کرنیں ہر جانب روشنی بکھیرتی ہیں اور بعض اوقات تو یہ روشنی سقف منقّش کو بھی عبور کر جاتی ہے۔ بے کار آدمی جس کے سامنے کوئی نصب العین نہیں در حقیقت زیاں کار ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر جگہ موجود سمجھتا ہے مگر در حقیقت وہ کہیں بھی موجود نہیں ہوتا اور اگر موجود بھی ہو تو با شعور لوگوں کی محفل میں اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ غیر حاضر ہی شمار ہوتا ہے۔‘‘
بے کاری کے بارے میں سیدھا اظہار خیال کیا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے مگر مونتین کا زرخیز ذہن اس کا رشتہ بے کاشت زمین، پیتل کا پانی بھرا پیالہ، دانشوری وغیرہ سے جوڑتا چلا جاتا ہے۔ بے کاری کی یہ نئی رشتہ داریاں دریافت کرنا ہی انشائیہ نگاری ہے۔ مثالوں سے مضمون بے جا طوالت کا شکار ہو سکتا ہے اس لیے یہ سلسلہ ختم کرتا ہوں۔
میں ابتدا میں دانش گاہوں میں تحقیق کی ستم ظریفیوں کا ذکر کر چکا ہوں اسے کیا کیجئے کہ ادب میں اپنی پہچان رکھنے والے محققّین بھی انشائیہ پر موٹی موٹی کتابیں لکھ کر مضمون اور انشائیہ کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ ادب کا ماحول دہلی کی طرح کثافت آ میز ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مضمون انشائیہ کی حمایت میں ضرور ہے مگر مضمون نگاری کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ میں خود طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھتا ہوں۔ مزاح نگاری بذاتِ خود ادب کی ایک اہم صنف ہے۔ مضمون اور انشائیہ کو خلط ملط کرنا مضمون نگاری کی حمایت نہیں ہے۔ اچھے مضامین لکھنا، ان کی اشاعت، ان کے اچھے انتخابات کی اشاعت ہونی چاہئے مگر انشائیہ کو ایک خودمختار صنف کے طور پر شناخت کرنا اور اسے قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ مضمون نگار اظہار کی سیدھی سڑک کا مسافر ہوتا ہے تو کیا اس کا کام تخلیقی نہیں ہے؟؟
بھائی ہے اور بہت اہم ہے مگر مضمون نگار سیدھی سڑک سے گذرتے ہوئے اسے ایک ایسے موڑ سے گذارتا ہے جہاں نیلے نیلے پیلے پیرہن میں ملبوس پریاں قطار اندر قطار مضمون اور قاری کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ یہ موڑ مضمون نگار اور قاری کے لیے جشنِ عید ہوتا ہے۔ ایسے موڑ دریافت کرنے میں ہی مضمون اپنی تخلیقیت کا جواز مہیا کرتا ہے۔ ہم کبھی مسکرا کر اور کبھی قہقہہ لگا کر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ منظر کی نظر افروزی کی داد دیتے ہیں۔ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہمیں مضمون اور انشائیہ کے طریقۂ کار کو سمجھ کر دونوں کو اپنے اپنے مقام پر قائم کرنا چاہئے۔ میرا یہ تنقیدی مضمون مختصر ہے مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی بات پوری کر چکا ہوں۔
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ میں نے انشائیہ اور مضمون کو جو کچھ سمجھا ہے اسے بیان کر دیا ہے۔ کیا انشائیہ سے آپ کی شناسائی کا راستہ کھلا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کا جواب اثبات میں ہونا چاہئے۔
٭٭٭