مجھے اپنے ایک روحانی تجربے کی روداد بیان کرنی ہے لیکن اپنی روداد سے پہلے اپنے دادا جی اور اباجی کے دو تجربوں کے بارے میں بتادینا ضروری سمجھتا ہوں ۔
پہلے میرے داداجی کا تجربہ:
داداجی معمولی سا بیمارہوئے اور فوت ہوگئے۔ گھر میں رونا پیٹنامچ گیا۔ سارے عزیز و اقارب جمع ہوگئے۔ داداجی کو غسل دے دیاگیاتو اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وفات کی خبر سن کر آئے ہوئے سارے لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ کچھ چیختے چلاتے گھرسے نکل بھاگے، ایک دو عزیز دہشت سے بے ہوش ہوگئے۔ اباجی کو ’’شادیٔ مرگ‘‘ کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آگیا۔ داداجی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فوراً کہنے لگے دوسری گلی سے اللہ رکھا کمہارکا پتہ کراؤ۔ وہاں سے پتہ کیاگیاتو معلوم ہواکہ ابھی ابھی بیٹھے بیٹھے ہی فوت ہوگیاہے۔۔داداجی نے ایک انوکھی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایاکہ مجھے دو سفید کپڑوں والے کہیں لئے جارہے تھے کہ ایک مقام پر رُکناپڑا۔وہاں موجود کچھ اور سفید کپڑوںوالوںنے ایک رجسٹر چیک کیا(اسے عالم بالا کا شناختی کارڈ آفس سمجھ لیں)داداجی کولے جانے والوں کو، چیکنگ کرنے والوں نے کہا :باری تو اللہ رکھا کمہارکی تھی تم لوگ اللہ رکھا قریشی کو لے آئے ہو۔ چنانچہ غلطی معلوم ہوجانے کے بعد داداجی کو پھر اس دنیا میں واپس لایاگیااور اسی وقت اللہ رکھا کمہار کی موت واقع ہوگئی۔ جہاں تک اس واقعہ کی صحت کا تعلق ہے اباجی، باباجی، بواحیات خاتوں۔۔ سب نے یہ واقعہ اپنی چشم دید گواہی پر بیان کیا۔ چاچڑاں شریف اور کوٹ شہباز کے بعض دُور کے اور بوڑھے عزیزوں نے بھی تصدیق کی کہ ہم بھاگ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ اس قصے کااصل بھید کیاتھا؟ یہ تو شا ید کوہ نداکی دوسری سمت جاکر ہی معلوم ہوسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفیدکپڑوں والے سارے فرشتے سرائیکی زبان بول رہے تھے۔ ظاہر ہے انہیں علم تھاکہ ہمارے داداجی صرف سرائیکی زبان ہی جانتے ہیں۔
(خاکوں کے مجموعہ’’میری محبتیں‘‘کے خاکہ ’’ڈاچی والیا موڑ مہار وے‘‘ سے اقتباس)
اور اب میرے ابا جی کا تجربہ:
۔۔۔۔۔۱۹۵۰ء میں اباجی اچانک بیمار ہوئے تھے۔ اس علالت میں عجیب و غریب قسم کے دورے پڑتے تھے۔ باباجی کے بیان کے مطابق اباجی کو چارچارپانچ پانچ کڑیل جوانوں نے دبایاہوتاتھا مگر اباجی اس طرح اٹھ بیٹھتے کہ انہیں دبانے والے لڑھکتے ہوئے اِدھر اُدھر جاپڑتے۔ اباجی نے اس سلسلہ میں جو احوال سنایا، اس کے مطابق ان کے اوپر ایک بہت بڑا فانوس نصب تھا، حالانکہ تب ہمارے گھر میں بجلی ہی نہیںآئی تھی۔ اس فانوس سے سبز رنگ کی روشنی نکلتی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ اسی روشنی کے ذریعے ان کی بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔اباجی کے بقول ایک مرحلے پر انہیں خود علم ہوگیاتھاکہ ان کی جان نکل رہی ہے۔ ٹانگوں سے بالکل جان نکل چکی تھی مگر پھر انہیں دنیا میں مزید(۳۶سال) جینے کی اجازت مل گئی ۔ اباجی کی زندگی کی یہ سنگین بیماری، جس کے باعث سارے عزیز ان کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے حقیقتاً کوئی بیماری تھی یاکوئی روحانی تجربہ تھا،میں اس بارے میں تو کوئی حتمی بات نہیں کرسکتاتاہم بعد میں ان کی زندگی میں خواب بینی، دم درود اور کشوف کاجو سلسلہ نظرآتاہے وہ اسی تجربے سے ہی مربوط محسوس ہوتاہے۔ واللہ اعلم!
(خاکوں کے مجموعہ’’میری محبتیں‘‘کے خاکہ ’’برگد کا پیڑ‘‘ سے اقتباس)
داداجی کا تجربہ قیامِ پاکستان سے پہلے کا ہے اور ابا جی کا تجربہ میری پیدائش سے سال بھر پہلے کا ہے۔ان دونوں تجربوں کے بارے میں سب سے زیادہ ابا جی سے معلومات ملیں اور مزید باباجی(میرے تایا جی)،اوربوا حیات خاتوں سے بھی معلوم کیں۔یہ دونوں واقعات میں نے اپنے دونوں بزرگوں کے خاکوں میں لکھ دئیے تھے۔یہ خاکے 1986 سے 1990 کے دوران لکھے گئے اور میرے خاکوں کے مجموعہ ’’میری محبتیں‘‘میں شامل ہیں۔جب میںیہ واقعات سن رہا تھا تب نہ تو میں نے ایسا سوچا تھا کہ کبھی انہیں لکھنے کی نوبت آئے گی اور نہ ہی ابا جی کے وہم و گمان میں تھا کہ میرے استفسار پر ان کا بیان کردہ یہ احوال کبھی باقاعدہ طور پر لکھ کر محفوظ کیا جائے گا۔مجھے ایسا کرنے کی توفیق ملی ہے تو اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔
داداجی اور ابا جی کے روحانی تجربوں کے بعد اب میں بھی ایسے ہی ایک تجربے سے گزرا ہوں۔اپنے تجربے کو میں دادا جی اور ابا جی کے تجربوں کا تسلسل سمجھتا ہوں۔انہیں کا ہی فیض سمجھتا ہوں کہ خدا نے ان کی وجہ سے مجھے بھی اس تجربے سے نوازا،اپنی محبت سے سرفراز کیا۔
جیسا کہ قارئین آگے چل کر پڑھ سکیںگے۔میرا تجربہ خواب نہیں جیتے جاگتے،پورے ہوش و حواس کے ساتھ تھا۔اگر اسے کشف کی کوئی نادر صورت مان لیں تب بھی مجھے اپنا جسم اس میں پوری طرح شریک دکھائی دیا۔ میں ایک ہی وقت میں اپنے سارے بچوں کے ساتھ بھی بات کر رہا تھا اور دوسری دنیا میں بھی موجود تھا۔بچے میری کیفیت کو میرا آخری وقت شمار کر رہے تھے۔میں بھی پہلے یہی سمجھا تھا لیکن دوسری دنیا میں پھر جو کچھ ہوا وہ چار دنوں پر پھیلا ہوا ایک انوکھا روحانی تجربہ بن گیا۔
میں نے آئندہ صفحات میں بھی بار بار لکھا ہے کہ میں سائنس اور جدید میڈیکل ترقیات کا معترف ہوں۔یہاں بھی اعتراف کر رہا ہوں۔دماغی خلل کی جو قسمیں بتائی جاتی ہیں وہ بھی بڑی حد تک درست ہیں۔ان بیماریوں کے دوش بدوش روحانی تجربات کا بھی ایک سلسلہ ہے جسے واضح طور پر اورالگ طور پر دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے۔ جدیدسائنس ابھی جہاں تک پہنچی ہے،اس سے آگے بھی ابھی بہت سارے جہان موجود ہیں۔بعض تک سائنس نے ابھی پہنچنا ہے اور بعض تک شاید پہنچ نہ سکے۔
میرے ساتھ جو کچھ ہوا اور میں نے اس دوران جو کچھ کہا اورکیا اس کی مختصرسی اور محتاط(جی ابھی محتاط) روداد پیش کر رہاہوں۔میرے تجربے کی شدت اتنی ہے کہ سارے بچوں کے ساتھ اسے شئیر کرنے کے باوجود میں اسے اپنے قارئین کے لئے بھی لکھنے پر مجبور ہوں۔شاید یہ میری پرانی عادت کا نتیجہ ہے کہ میں ایسے اسرار اور بھید اپنے تک نہیں رکھ پاتا۔مجھ میں انہیں سنبھال رکھنے کی ہمت نہیں ہے۔
میرا تجربہ،میرے داداجی اور ابا جی کے تجربوں کا تسلسل ہے۔اس سلسلہ میں نعوذ باللہ نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ کسی سے کچھ منوانا ہے۔بس میری اوقات سے کہیں زیادہ مجھے ایک روحانی تجربہ نصیب ہوا اور میں نے چاہا کہ دلچسپی رکھنے والے دوست بھی اس میں شریک ہو سکیں۔
آپ میرے اس تجربے کے بارے میں جو بھی رائے قائم کریں،آپ کا حق ہے۔
حیدر قریشی
جرمنی سے۔۔۔
یکم اکتوبر 2020 ء
ڈر ہے رازوں کے افشا کا موجب نہ بن جائے
حیدرؔ بھید بھرے دل کا اب چھید بھرا دل ہونا