یورپ اِیک خواب ہے۔جنت ہے۔ یوٹوپیہ (UTOPIA) ہے۔ لوگ لاکھوں روپیہ برباد کرکے یورپ آتے ہیں۔ اَپنی پرسکون زِندگی برباد کرنے۔
پچھلے دِنوں اِیک پاکستانی نوجوان نے اَمریکہ جانے کے لیئے ایجنٹ کو ۲۰ لاکھ روپے ادا کیئے۔ جو شخص اِتنی بڑی رَقم ادا کرسکتا ہے۔ وہ کوئی غریب آدمی تو ہو نہیں سکتا۔
مارکو پولو سے کسی نے پوچھا،’’تم نے اَپنی کتاب میں اَپنے سفر کی تمام تفصیلات لکھی ہیں‘‘۔ تو اُس نے جواب دِیا،’’جو کچھ مَیں نے دِیکھا یہ اُس کا پانچ فیصد بھی نہیں‘‘۔
بالکل اِسی طرح جو تفصیلات مَیں نے یورپ کے بارے میں لکھی ہیں یہ پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔
ہر وہ ملک جس کی سرحد یورپ سے ملحق ہے۔ و ُ ہاں ایجنٹ اَپنی اَپنی کچھاروں میں چھپے بیٹھے رَہتے ہیں۔جیسے ہی اُن کا شکار آتا ہے۔ حملہ کردِیتے ہیں۔ خواہ وہ پولینڈ ہو یا ہنگری۔ رومانیہ ہو یا چیکوسلواکیہ۔کروآتشیاء ہو یا سلوینیاء۔
چند سال پہلے یورپ کے شوق میں دَو ہندوستانی جہاز کے پہیوں میں بند ہوکر آئے۔جن میں سے اِیک رَاستے میں ہی وفات پاگیا اَور دَوسرا اَب بھی برطانیہ کے ہسپتال میں ہے۔
ہم لوگ یورپ کی خاطر اَپنی ہر چیز کا سودا کردِیتے ہیں۔ تہذیب، زبان، مذھب اَور عزتِ نفس۔اَگر ہم معاشی مسائل پے قابو پالیتے ہیں تو معاشرتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔یورپ میں جب امیگرنٹس کے ہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں،خاص کر اِیشیائی باشندوں کے ہاں، تب اِنہیں یورپیئن تہذیب بری لگنی شروع ہوجاتی ہے۔ اِس میں اُن بچیوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا کیونکہ اِن کے وَالدین دَولت کمانے کے چکر میں تربیت پے توجہ دِینا بھول جاتے ہیں۔خاص کر مسلمانوں کو یورپ میں بہت سی خامیاں نضر آتی ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔
سرفراز بیگ
۱۲ اگست ۲۰۰۱
PIAZZA GUIDO MONACO 3