اس ہزاروی کے شروع میں میں سیاحت کی غرض سے یورپ کے سفر پر گیا۔ دورانِ سفر کچھ ایسے دلچسپ تجربات پیش آئے کہ میرے دل میں اس سفر کے واقعات کو قلمبند کر نے کی خواہش اُبھری۔ اسی خواہش کے زیرِ اثر سفر کے دوران میں یہ واقعات اور تجربات نوٹ کرتا رہا۔ مصروفیت کی وجہ سے دو تین سال تک میں اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس تاخیر کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ وہ وجہ میرے اندر اُٹھنے والا یہ سوال تھا کہ کیا یہ کتاب قابلِ ا شاعت ہو گی یا نہیں ۔ اِس دوران آسٹریلیا اور پاکستان کے اخبارات و رسائل میں میری دوسری کئی تحریریں مسلسل چھپتی رہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر مختلف لوگوں کا مختلف ردِ عمل سامنے آتا رہا۔ ان میں کچھ تو عام قاری تھے اور کچھ اہلِ قلم بھی تھے۔ ان اہلِ قلم میں بھارت سے تعلق رکھنے والے آسٹریلیا کے جانے مانے اُردو ادیب اور شاعر اوم کرشن راحتؔ بھی شامل تھے۔ میرا ایک مضمون ’’ یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ پڑھ کر انہوں نے ازراہِ شفقت مجھے خط لکھا۔ جس میں انہوں نے مجھے حکم دیا کہ آکر اُن سے ملوں۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میری تحریر کی خوبیوں اورخامیوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ ان خامیوں کے باوجود یہ ایک بہت اچھی ادبی تحریر ہے، اِس سلسلے کو جاری رکھو۔ ان کا یہ فرمان میرے لئے سندسے کم نہ تھا۔ان کے علاوہ اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے دوسرے دوستوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان میں سے اکثر صاحبِ کتاب اور بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ان احباب کی حوصلہ افزائی سے میرے اندر حوصلہ بڑھتا رہا اور میں ادب کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کرتا رہا۔ اس دوران میری تحریریں آسٹریلیا ، پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسالوں میں چھپتی رہیں۔
2001 میں میں نے آسٹریلیا کے سب سے بڑے اُردو اخبار پندرہ روزہ اوورسیز کی ادارت سنبھالی۔ یہ پندرہ روزہ میگزین نما اخبار تھا۔ اس میں حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ساتھ ادبی تحریروں کی بھی گنجائش تھی۔ اس میں آسٹریلیا بھر کے بہترین اُردو قلمکار حصہ لیتے تھے۔یو ں تو اوورسیز میں میری مختلف نوع کی بے شمار تحریریں شائع ہوئیں ۔ لیکن میرے دو مستقل سلسلے بہت مقبول ہوئے۔ ان میں سے ایک میرے کالموں پر مشتمل مستقل سلسلہ ’صدائے جرس ‘تھا ۔ جس میں مختلف موضوعات پر میں نے بہت سارے کالم لکھے۔ ان میں سے زیادہ تر ادبی مضامین تھے۔ ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت ‘‘بھی اُنہی میں سے ایک تھا۔ جسے پڑھ کر اوم کرشن راحتؔ صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔
دوسرا سلسلہ یہی سفرنامہ تھا جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے میں نے اوورسیز میں قسط وار لکھنا شروع کیا ۔ اوورسیز بڑی تعداد میں چھپتا تھا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ہر شہر میں پہنچتا تھا۔ اس سفرنامے کو قارئین نے بہت زیادہ پسند کیا ۔ اس میں ہر طبقہِ فکر کے خواتین و حضرات شامل تھے۔ ایک قسط اخبار کے آدھے صفحے کے برابر ہوتی تھی۔ اِس طرح دو سال میں کتاب کا صرف تہائی حصہ مکمل ہوا۔ اِس حساب سے کتاب مکمل کرنے لئے مزید چار سال درکار تھے ۔
2003 میں ،میں نے نیا کاروبار شروع کیا۔ اس کی مصروفیات کی وجہ سے نہ صرف میںنے’ اوورسیز‘ کی ادارت چھوڑ دی بلکہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل موقوف ہو گیا۔ اگلے تین سال دو اور دو چار جیسے حسابی فارمولوں کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھ سکا۔2006 میں جب ذرا فرصت ملی تو ایک دفعہ پھر قلم ہاتھ میں تھاما۔ قلم تو پکڑ لیا لیکن اتنے عرصے سے ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑنا آسان نہ تھا۔ اُدھر کاروباری اور صحافتی مصروفیات اب بھی کم نہیں تھیں۔کیونکہ اب کاروبار کے ساتھ ساتھ میں آسٹریلیا میںاُردو کی سب سے بڑی ویب سا ئیٹ بھی چلارہا تھا۔ ویب سائیٹ کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے کا کام بھی بہت وقت مانگتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان دونوں مصروفیات کے باوجود آخر کار میں کتاب مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس کی کتابت کرانے،کمپیوٹر پر خود ہی اس کی تصصیح کرنے ، کچھ ا ہلِ نظر احباب کو دکھانے اور دوبارہ تصصیح کرنے میں سال ڈیڑھ مزید لگ گیا۔اس طرح کتاب کے آغاز سے اختتام تک بقول شخصے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ دُنیا کے حالات بدل چکے تھے۔ سفر کے بہت سے واقعات یاد رہنے کے باوجود ان کی جزئیات فراموش ہو گئیں تھیں۔وہ تو شکر ہے کہ اہم واقعات میں پہلے ہی اپنی ڈائری میں درج کر چکا تھا۔ورنہ یادداشت کے سہارے کتاب مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔میں بھی اپنی عمر کے تیسرے عشرے سے چوتھے میں داخل ہوچکا تھا۔ بقول میرے دوست جاوید کے سفر میں کی گئی ’خراب حرکتوں‘ کا ذکر اب مجھے زیب نہیں دیتا ۔ دوسرے دوست مولوی صدیق نے فتویٰ دیا ۔ اس وقت کیا، کسی بھی وقت ایسی حرکتیں جائز نہیں ہیں۔مزید غضب یہ کر رہے ہو کہ اپنی ان حرکتوں کا تحریری اعتراف بھی کر رہے ہو۔ گویا ان کازیادہ اعتراض ارتکاب پر نہیں اعتراف پر تھا۔
اُدھر بزرگ دوست اوم کرشن راحتؔ اور دوسرے شعراء اور ادیب دوستوں کی رائے تھی کہ یہ سب ادب کا حصہ ہے۔پھر بھی محترم بھائی عارف صادقُؔ اور محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال صاحبہ کی سفارش پر میں نے بہت سے واقعات حذف کر دئیے۔ ان واقعات کے حذف یا ترمیم کے بعد میرے حساب سے اب یہ معصوم سی درسی کتاب بن گئی ہے۔امید ہے قاری اسے اپنا اخلاق سدھارنے کے لئے بھی استعمال کر سکیں گے۔
کتاب میں درج تمام واقعات اصلی مگر چند کرداروں اور مقامات کے نام فرضی ہیں۔ اس کی وجہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔
آخر میں ان احباب کا شکریہ ادا کر نا چاہوں گا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت ممکن ہوسکی۔ دیارِ غیر کے باسیوں کے لئے کتاب تحریر کرنا جتنا مشکل ہے، اسے شائع کرانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ وطن سے دُور رہ کر فون اور ای میل کے ذریعے کتابت سے لے کر اشاعت تک تمام مرحلے طے کرنا آسان نہیں ہے۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے جن احباب نے میرے ساتھ پورا پورا تعاون کیا۔ ان میں اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کے صدر ڈاکٹر شبیر حیدر، جنرل سیکرٹری عارف صادقؔ، جناب اوم کرش راحتؔ، محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال، میرے بڑے بھائی لیفٹیننٹ کمانڈر طالب حسین مرزا، میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا، دوست پبلی کیشنز کے محترم اختر اور آصف صاحب شامل ہیں۔ کتاب کو حتمی شکل دینے سے پہلے یہ اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کی کئی تنقیدی نشستوں میں موضوعِ بحث رہی۔ اس سے بھی مجھے کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں مدد ملی۔ اس لئے سوسائٹی کے تمام احباب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان تمام احباب کے تعاون کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہیں تھی۔
اس سلسلے میں سب سے آخری لیکن سب سے اہم نام میرے والد صاحب مرحوم کا ہے۔ اس وقت میں صرف تیرہ برس کا تھاجب وہ ہم سے جدا ہوگئے تھے۔ وہ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن علم اور اہلِ علم کی جو قدر و منزلت ان کے دل میں تھی۔صرف اِس کے نتیجے میں ہی آج یہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر دُور آسمانوں میں ان کی رُوح مسکرا رہی ہو گی۔
طارق محمود مرزا ۔ سڈنی ۔ انیس فروری ۲۰۰۸