(Last Updated On: )
جس دن سے عالمی وباکورونا نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لیا، روز اول سے ہی لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا۔ جہاں کچھ لوگ عدم مصروفیات سے ذہنی و نفسیاتی تناؤ کا شکار ہوئے وہیں کچھ مضبوط ذہنوں نے فرصت کے لمحات کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ مشرف عالم ذوقی نے عالمی وبا کے ابتدائی دنوں سے ہی فیس بک پرمختلف موضوعات پر پوسٹس لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہوا اور قارئین کی ایک بڑی تعداد نے جس پیمانے پر پسند کیا وہ جلد ہی ادبی خاکوں کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ ان تحریروں کی مقبولیت اور ادبی اہمیت کے پیش نظر میں نے ذوقی صاحب سے ان قیمتی مضامین کو یکجاکرنے کی اجازت مانگی۔ جس پر ذوقی صاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اجازت مرحمت فرمادی ۔ اس ذرہ نوازی کے لیے میں مشرف عالم ذوقی صاحب کا جتنا شکر ادا کروں ،کم ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو میں خاکہ نگاری کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے، لیکن اس کم مدت میں بھی جس طرح فن خاکہ نگاری نے ترقی حاصل کی ہے۔ اس کی مثال دوسری زبانوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملے۔اردو میں خاکہ نگاری کا بنیادی ماخذ قدیم شعرا ء کے اردو فارسی تذکرے ہیں۔ ان تذکروںمیں خاکو ں کی جھلک کا احساس ہوتا ہے، لیکن اس قدر مختصر ہے کہ اس سے کسی شخص کی زندگی پر مکمل روشنی نہیں پڑتی جس وجہ سے قاری تشنہ رہ جاتا ہے۔ لیکن آب حیات میں اس کمی کو پورا کرنے کی شروعات ہوچکی تھی۔محمد حسین احمد آزاد نے تشنگی کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’’ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی : کچھ میری اورکچھ ان کی زبانی ‘‘ لکھ کر خاکہ کو ایک نیا رنگ اور نیا پیراہن عطا کیا۔ جس میں وہ ملبوس ہوکرایک صدی کا سفر عبور کرلیا ہے۔
اردو میں ’’ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی : کچھ میری اورکچھ ان کی زبانی ‘‘ کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک خاکے لکھے گئے، لیکن جو مقبولیت فرحت اللہ بیگ کے خاکہ کو حاصل ہوئی ، وہ کسی اور خاکہ کو نہیں۔ خاکہ نگاروں کی فہرست میںمرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی ، سعادت حسن منٹو، محمد طفیل، مولوی عبد الحق، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، عطاء الحق قاسمی، اعجاز رضوی، چراغ حسن حسرت، ضمیر جعفری، قرۃ العین حیدر، محمد یونس، اسلم فرخی، رام لعل، شاہد احمد دہلوی، مالک رام، کنہیا کپور لال، فکر تونسوی، خواجہ غلام السیدین، علی جواد زیدی، خورشید برنی، رحیم گل، نصر اللہ خان، ممتاز مفتی، جگن ناتھ آزاد، نظیر صدیقی ، قمر یورش وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان خاکہ نگاروں میں سے چند کے خاکوں کو عوامی شہرت حاصل ہوئی جیسے نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی( فرحت اللہ بیگ) گنج ہائے گرانمایہ، ہم نفسان(رشید احمد صدیقی) گنجے فرشتے، لاؤڈ اسپیکر، فلمی شخصیتیں (سعادت حسن منٹو) جناب، صاحب، آپ، محترم، مکرم، معظم ، مخدومی، محبی، محو قلم کا بیان( طفیل احمد) چند ہم عصر ( مولوی عبد الحق) دوزخی( عصمت چغتائی) شیش محل، قاعدہ بے قاعدہ( شوکت تھانوی) عطایئے( عطا الحق قاسمی)مردم دیدہ( چراغ حسن حسرت) پکچر گیلری( قرۃ العین حیدر) دریچوں میں رکھے چراغ ( رام لعل) گنجینہ گوہر ( شاہد احمد دہلوی) وہ صورتیں الٰہی ( مالک رام ) ہم قبیلہ ( علی جواد زیدی) راہ گزر ( خورشید برنی ) کیا قافلہ جاتا رہا( نصر اللہ خان ) اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی ) آنکھیں ترستی ہیں (جگن ناتھ آزاد) جان پہچان ، شہرت کی خاطر( نظیر صدیقی) یاران میکدہ( قمر یورش) وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔
سید حسن احمد لکھتے ہیں :
’’اردو میں جن ادیبوں نے خاکے لکھے ہیں، ان کی تعداداچھی خاصی ہے، اردو ادب میں خاکہ نگاری کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی اس کا قطعی طور پر تعین ممکن نہیں ہے۔ ویسے اردو میں خاکہ نگاری کے اولین نقوش محمد حسین آزاد کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ ان کی مشہور تصنیف ’’ دربار اکبری‘‘ میں خاکہ نگاری کی کچھ جھلک مل جاتی ہیں۔‘‘
( بہار میں اردو خاکہ نگاری ، سید حسن احمد ، ص ۱۴)
خاکے کی تعریف مختلف شکلوں میں کی گئی ہے ۔ کبھی تو اسے اسکیچ (Skatch) سے تعبیر کیا جاتاہے اور کبھی قلمی چہرہ سے۔ شمیم احمد کرہانی کے مطابق :
’’خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہِ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہے۔‘‘
( اردو ادب میں خاکہ نگاری ؍ صابرہ سعید، ص ۶۳،۶۴)
صابرہ سعید نے تحقیق کے مطابق خاکے کی کچھ قسمیں بیان کی ہیں: جنھیں یہاں بیان کیا جاتا ہے :
(۱) تعارفی خاکے:
میں کسی شخصیت سے قارئین کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ یہ خاکے مختصر ہوتے ہیں۔ ایسی شخصیتیں جو زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں متعارف و مشہور ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی نجی زندگی اور سیرت سے لوگ واقف نہیں ہوتے ہیں ۔ خاکہ نگار اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر ان شخصیتوں کی زندگی کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے بارے میں ضروری سوانحی معلومات بھی پیش کردیتا ہے۔
(۲) سرسری خاکے :
بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی سیرت و صورت کے کچھ نقوش جو تخلیقانہ صلاحیت رکھنے والے فنکار میں یہ جذبہ بیدار کردیتے ہیں کہ ان پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھے۔ ان شخصیتوں سے خاکہ نویس کو قربت کے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں۔ کبھی چند ساعتوں کیلئے ملاقات ہوجاتی ہے ، کسی جگہ سے گزرتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ان کی زیارت سے شرف یاب ہوتا ہے، کسی محفل میں کچھ دیر قربت حاصل ہوتی ہے۔ اس تاثراتی سرمایہ کو وہ اپنی یادداشت کی مدد سے ایک مرقع کی شکل دے دیتا ہے۔ ان خاکوں میں شخصیت کے ذاتی اور نجی حالات کم لیکن صورت و سیرت کے کچھ نقوش جو خاکے نگار کے لئے انمٹ ہوتے ہیں ۔ اس قسم کی تحریری کوششوں کو ہم سرسری خاکوں سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
(۳) تاثراتی خاکے :
تاثراتی خاکہ میں خاکہ نگار شخصیت کے تعلق سے اپنے مجموعی تاثر کو پیش کرتا ہے۔ شخصیت کو بہ حیثیت شخصیت ِ کل وہ جیسا دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اسی رنگ میں اس کو پیش کردیتا ہے۔ شخصی اور جذباتی تعلقات ان تاثرات کو ابھارتے ہیں۔ تاثراتی خاکوں میں خاکہ نگار کی شخصیت کا عکس بھی جھلکتا ہے۔
(۴) مدحیہ اور توصیفی خاکے:
مدحیہ اور توصیفی خاکوں میں جذبہ عقیدت اور خلوص اور ہمدردی کے جذبات کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے۔ خاکہ نگار اپنے ممدوح کی زندگی کے کچھ مستند حالات کو لے کر شخصیت کی ایک دلکش اور جاذب نظر جھلک دکھاتا ہے۔ واقعات کا انتخاب ایسا ہوتا ہے کہ انھیں تسلیم کرنے میں قاری کو کوئی تامل نہیں ہوتا ۔ اس قسم کے خاکوں میں شخصیت کے متعلق قاری جو واحد تاثر اخذ کرتا ہے وہ مدحیہ ہوتا ہے۔
(۵) بیانیہ اور سنجیدہ خاکے:
یہ انشائیے کی صنف سے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔ ان میں خاکہ نگار شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات پوری تفصیل کے ساتھ قلم بند کرتا ہے۔ اور ان تاثرات کو مناسب واقعات کے ذریعہ ابھارتا ہے۔ کبھی یہ خاکے خالص انشایئے بن جاتے ہیں۔ جن میں شخصیت خاکہ نگار کے جذبات اور احساسات کو ابھارنا کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔
(۶) کرداری خاکے:
اردو میں کرداری خاکے نسبتاً کم ملتے ہیں۔ یہ خاکے افسانے کی صنف سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ان میں خاکہ نگار موضوع کے بارے میں صرف اپنے تاثرات پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ موضوع کی شخصیت کا معروضی مطالعہ پیش کرتا ہے اور اس کے کردار کی نمایاں خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے وہ شخصیت کی زندگی کے واقعات کو بھی اس نقطہ نظر سے منتخب کرتا ہے۔
(۷) سوانحی خاکے:
سوانحی خاکوں میں پیدائش سے لیکر موت تک کے حالات تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں۔ ایسے خاکے ہلکی پھلکی مختصر سوانح عمری سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ ان میں زیر بحث شخصیت کی نجی زندگی کا تجزیہ اور سیرت و کردار کے نقوش پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس قسم کے خاکے لکھنے والے اپنے موضوع کی زندگی کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤ ں سے واقف ہوتے ہیں۔
(۸) معلوماتی خاکے:
اس قسم کے خاکے عام طور پر شخصیتوں کے تعلق سے ایسے مواد کے حامل ہوتے ہیں جو قارئین کے لئے نیا ہوتا ہے ۔ زیر بحث شخصیت کی زندگی کے ایسے پہلو جن پر عام آدمی کی نگاہ نہیں پڑتی لیکن خاکہ نگار ان سے واقف ہوتا ہے۔ اس قسم کے خاکوں میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
(۹) اجتماعی خاکے:
خاکے کی ایک قسم اجتماعی خاکہ ہے۔ انفرادی خاکے میں کسی ایک شخصیت کو خاکے کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اردو میں زیادہ تر ایسے ہی خاکے لکھے گئے ہیں ۔ خاکے میں اگر ایک سے زیادہ شخصیتوں کو پیش کیا جائے تو وہ اجتماعی خاکے کی حیثیت اختیار کرلے گا۔ اختصار، اجمال، تنظیم اور سرعت اجتماعی خاکے کے اصل اصول کہے جاسکتے ہیں۔
(۱۰) مزاحیہ خاکے:
شخصی خاکوں میں مزاحیہ خاکہ نگاری کا ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی شخصیت کی زندگی کے دلچسپ واقعات اور لطائف بیان کرکے یا اس شخصیت کے کردار کی مضحک پہلوؤں کو نمایاں کرکے قارئین کی تفریح طبع کا سامان مہیا کیا جائے۔
(۱۱) طنزیہ خاکے:
طنزیہ خاکہ نگاری میں بالعموم شخصیت کا معاشرے ماحول اورمخالف قوتوں کی طنز کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ اور اس طریقے سے شخصیت کی عظمت کے نقوش نمایاں کئے جاتے ہیں۔ اگر خاکہ نگار خود شخصیت کو طنز کا ہدف بنائے تو خاکہ ہجو بن کررہ جاتا ہے۔ طنزیہ ومزاحیہ خاکوں میں الفاظ اور لہجہ اس قسم کا استعمال کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والے ہنس پڑیں یا ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل جائے ۔
(۱۲) ذاتی یا خود نوشت خاکہ:
ذاتی خاکے میں انسان کی اپنی داخلی زندگی کی کیفیات سیرت و کردار، نجی حالات اور سچے داخلی اور مطالعے کی جھلک ملتی ہے۔ ذاتی خاکہ لکھنا ایک مشکل فن ہے کیونکہ ذاتی مرقع نگار کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنے ایسے اہم خد و خال کو پیش کرنا پڑتا ہے جو واقف اور نا واقف ہر ذہن میں اصل کی یاد تازہ کردیں۔
(۱۳) انٹرویو:
آج کل شخصی خاکے انٹر ویو کی صورت میں بھی لکھے جارہے ہیں جن میں انٹرویو نگار ایسے سوالات مرتب کرتا ہے جن سے کسی شخصیت کی زندگی کے تمام اہم پہلو اجاگر ہوسکتے ہیں۔ پھر وہ انٹرویو کو اس طرح مرتب کرتا ہے کہ اس شخصیت کے بارے میں اس کے اپنے تاثرات اور مشاہدات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
(اردو ادب میں خاکہ نگاری؍ صابرہ سعید ص۱۰۳تا ۱۲۶)
اردو میں ایک سے بڑھ کر ایک خاکے لکھے گئے۔ جن میں خاکوں کی تمام قسمیں موجود ہیں۔ لیکن ان تمام قسموں کو مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے ایک خاکہ ڈپٹی نذیر احمدکی کہانی کچھ میری اورکچھ ان کی زبانی میں سمو دیاہے۔ وہ الفاظ و کردار، حسن اسلوب بیان کا جامع مجموعہ ہے۔ رشید حسن خاں لکھتے ہیں :
’’اردومیں اچھے اچھے خاکے لکھے گئے ہیں، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ فرحت اللہ بیگ کے اس خاکے کوجس قدر شہرت ملی ہے، وہ شاید ہی دوسروں کے حصے میں آئی ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام طور پر جو خاکے لکھے گئے ہیں، یا لکھے جاتے ہیں ، وہ یاتو یکطرفہ ہوتے ہیں، یعنی زندگی کا بس ایک رخ سامنے آپاتا ہے، یا پھر صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ خاکہ لکھنے والا کوشش کرکے ایسے پہلو سامنے لانا چاہتا ہے جن سے ایک خاص طرح کی شخصیت کا نقش ابھر کر سامنے آئے۔ اسی کے ساتھ اس کوشش کا بھی جگہ جگہ احساس ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے بعض مقامات پر خواہ مخواہ مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا ایسے رخ کو ابھارے ہیں جو ظرافت کی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ ‘‘
(مقدمہ ؍ رشید حسن خاں،ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اورکچھ ان کی زبانی ، ص۱۳)
مشرف عالم ذوقی کی خاکہ نگاری ایک عمدہ مثال ہے۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں عمدہ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان خاکوں میں نیا پن کا احساس ہوتا ہے ۔ ذوقی کا مطالعہ وسیع ہے، وہ فارسی ، انگریزی فن پاروں اور وہاں کی جیتی جاگتی تصویروں ، یادگاروں، واقعات، کرداروں کا نہایت سلیقہ کے ساتھ حوالہ دیتے ہیں۔ جس بنا پر قارئین کو ایک داستانوی دنیا سے بھی روشناس ہونے کا بھر پور مواقع فراہم ہوتا ہے۔
قارئین کے استفادہ کی غرض سے راقم الحروف مجموعہ میں موجود تمام کرداروں کاتعارف پیش کررہا ہے۔ امید ہے اس کوشش سے قارئین کو خاکہ کے مطالعہ میں دلچسپی پیدا ہوگی۔
مہاتما گاندھی:
مہاتما گاندھی جنھیں ہم عدم تشدد کے روح رواں اور اہنسا کے پجاری سمجھتے ہیں۔ وہ صرف یہی کچھ نہیں تھے۔ گاندھی بہت سے اسرار ورموز کے پیکر تھے۔ جنھیں مذکورہ بالا خوبیوں کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے گاندھی کے خاکہ نما مضمون میں ان کی جنسی حس پر بحث کی ہے۔ جسے لوگ گاندھی کے متعلق برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ اس بات سے بالکل نابلد ہیں کہ گاندھی بھی بدن کی جمالیات اور صنف نازک کی جسموں پر تجربات حاصل کرنے میں مستغرق رہے۔ وہ مختلف عورتوں کے ساتھ تعلقات بنانے کو ’ تجربہ‘ کا نام دیتے تھے۔ لیکن ایک زمانہ کے بعد ان کا یہ خیال بالکل بدل گیا۔ ذوقی گاندھی جی کے انٹرویو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میں خواتین سے رابطے کی سنسرشپ پر غور نہیں کرتا ہوں۔ آج میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ میرے لئے نیا نہیں ہے۔ جہاں تک میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں ، آج بھی ، میرا عقیدہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ پانچ سال قبل تھا۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے ، میں اپنی طالب علمی کی زندگی میں بغیر کسی خواہش کے خواتین سے بہت نزدیکی رکھتا تھا ، اس کے باوجود میں خود کو برہماچاری کہتا تھا۔ میرے لئے برہماچاریہ کا مطلب ہے وہ فکر اور طرز عمل جو خدا کے ساتھ ہمارا رابطہ قائم کرتا ہے۔ ‘‘
مہاتماگاندھی: میں نے گاندھی کو دیکھا ہے
راجندر یادو :
راجندر یادو کو ہندی میں پریم چند کے بعد سب سے اہم فکشن نگار تصور کیا جاتا ہے ۔ ان کی پیدائش ۲۸؍ اگست ۱۹۲۹ء کو تاج نگری آگرہ میں ہوئی۔ راجندر یادو نے ۸۴ برس کی عمر پائی۔ ان ۸۴ برسوں میں انھوں نے فکشن میں ایسے ایسے کردار تخلیق کیے جن سے وہ جب تک ادب اور ادب پڑھنے والے رہیں گے انھیں فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۳ کو ان کا انتقال ہوا۔ ناولوں اور افسانوں کی کتابوں میں ’’دیوتاؤں کی مورتیاں، کھیل کھلونا، جہاں لکشمی قید، ابھی منیو کی آتما ہتیا ، چھوٹے چھوٹے تاج محل، کناروں سے کناروں تک، ٹوٹنا، چوکھٹے توڑتے تڑکون، یہ جو آتش غالب ، یہاں تک، وہاں تک پہنچنے کی دوڑ، سارا آکاش، اکھڑے ہوئے لوگ، کلٹا، شہ اور مات، اندیکھے انجان پل، ایک انچ مسکان، منتر ودھیا، ایک تھا شیلندر‘‘ ہیں۔
ذوقی نے سوانحی خاکہ لکھ کر زبردست خراج عقیدت پیش کی ہے۔ جس کے وہ مستحق بھی تھے۔ ذوقی لکھتے ہیں:
’’۸۴ سال کی زندگی ملی تھی راجندر یادو کو۔ اس لمبی زندگی میں جس طرح انہوں نے ادب کی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دلی آنے کے بعد میرا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے اردو اور مسلمانوں کے لیے ان کے اندر کے درد اور جذبے کو قریب سے محسوس کیا ہے۔ راجندر یادو نے باضابطہ اردو زبان کی تعلیم لی تھی اور انتقال سے قبل تک انہیں اردو پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی تھی۔ ان کے رسالہ ہنس میں اردو کو خصوصی طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔ وہ ساری زندگی اردو سے قریب رہے۔ جب نامور جی نے اردو کی مخالفت میں ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘مضمون ہنس میں لکھا تو اردو کی حمایت میں اس وقت کے تمام بڑے لکھاری ایک منچ پر آگئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اردو اور پاکستا نی تحریروں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔‘‘
راجندر یادو : ایک دوزخی کی یادیں
ہاجرہ مسرور:
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار مصنفہ تھیں۔ وہ ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں ۔ ہاجرہ مسرور نے ۸۲ سال کی عمر پائی۔ لیکن طویل عمر پانے کے باوجود انھوں نے بہت جلد لکھناترک کردیا تھا۔تقسیم کے بعد انھوں نے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ ۱۵ ستمبر ۲۰۱۲ کو وہ انتقال کرگئیں ۔ انھوں نے ’’چاند کی دوسری طرف،تیسری منزل،اند ھیرے اْجالے،چوری چْھپے،ہائے اللہ،چرکے،وہ لوگ ‘‘کی ادبی تخلیقات ہیں۔
صلاح الدین پرویز :
صلاح الدین پرویز اردو کے بے لوث خادم تھے۔ ان کی پیدائش ۱۹۵۲ء میں ہوئی اور ۵۹ برس کی عمر میں ۲۰۱۱ میں انتقال کرگئے ۔ انھوں نے رسالہ ’’ استعارے‘‘ کی بھی ادارت کی۔ جب کہ ادبی تخلیقات میں ’’دھوپ سمندر سایا،آئیڈنٹی کارڈ، کنفیشن، دشت تحیرات،ایک دن بیت گیا،ایک ہزار دو راتیں،جنگل،محمد،نمرتا،ژاژ، ایک طویل نظم،سارے دن کا تھکا ہوا پرش،سبھی رنگ کے ساون‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ آئنڈنٹی کارڈ پر ساہتیہ اکادمی نے اعزاز سے بھی نوازا تھا ۔
ساجد رشید :
ادب و صحافت اور سیاست میں بیک وقت متحرک وفعال شخصیت ساجد رشید کا انتقال۱۱؍جولائی ۲۰۱۱ء کو ہوا۔ انھوں کی اردوفکشن میں کئی اہم تخلیقات پیش کیں۔ جن میں ’’ ایک چھوٹا سا جہنم، ایک مردہ سر کی حکایت، ریت کھڑی، نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی، وجود ‘‘ شامل ہیں۔ ساجد رشید مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے ایک بار اسمبلی الیکشن بھی لڑا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
ڈاکٹر محمد حسن :
ڈاکٹر محمد حسن اردو اور انگریزی زبان پر یکساں عبور رکھنے والے محقق و ناقد اور تخلیق کار تھے۔ وہ بیک وقت کئی صفات سے متصف تھے۔ ڈاکٹر محمد حسن کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ محمدحسن نے انگریزی اور اردو میں کل ملا کر 75 کتابوں کی تصنیف یا ادارت کی۔ وہ اردو کے قابل احترام نقاد، ناول نگار اور ڈراما نگار تھے۔ ان کی ادبی فکر میں غالبیات اور اقبالیات دونوں پائے جاتے تھے۔ وہ ایک مشہور سہ ماہی جریدہ عصری ادب کے مدیر بھی تھے۔انھوںنے اردو میں اپنی نادر تخلیقات و تحقیقات سے ایک نئی دنیا آباد کی۔ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں’’آج کا مصر،ادبی سماجیات،آخری سلام،ادبی تنقید،ادبیات شناسی، غالب: ماضی حال مستقبل‘‘ ڈاکٹر محمد حسن کا انتقال ۸۴ سال کی عمر میں ۲۴ ؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو ہوااور دہلی میں سپرد خاک ہوئے ۔
انور عظیم :
سید صدرالدین احمدقلمی نام انور عظیم کی نام سے دنیائے ادب میں مشہور ہیں۔ انور عظیم مختلف النوع شخصیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز پیشۂ صحافت سے کیا۔ بعد ازاں وہ فکشن کی طرف راغب ہوئے ۔ فکشن میں انھوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ انور عظیم کی پیدائش ۱۹۲۴ء میں ہوئی۔ ۷۶ سال کی عمر سنہ ۲۰۰۰ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ’’ اجنبی فاصلے، دھواں دھواں سویرا، دھان کٹنے کے بعد، جھلستے جنگل، لابوہیم، پرچھائیوں کی وادی، قصہ رات کا‘‘ ان کی کتابوں کے عنوانات ہیں۔ ذوقی نے ان پر سوانحی خاکہ قلم بند کیا ہے۔
ملک زادہ منظور احمد :
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کئی صفات کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت ناول نگار، شاعر، مشاعروں کے اسٹیج کے روح رواں، ایک مربی و مشفق استاد۔منظور صاحب ۱۷ ؍ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو اتر پردیش کے ضلع فیض آباد میں پیداہوئے ۔ انھوںنے تین مختلف النوع موضوعات ’’ انگریزی، اردو ، تاریخ‘‘ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی کتابوں میں ’’ کالج گرل، اردو کا مسئلہ، سحر سخن، ابو الکلام آزاد : فکر و فن ،ابو الکلام آزاد الہلا ل کے آئینہ میں، غبار خاطر کا تنقیدی جائزہ، سحر ستم، رقص شرر(خود نوشت )‘‘اردو زبان میں بطور یاد گار ہیں۔ ملک زادہ منظور احمد کا انتقال ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۶ء کوہوا۔
گلزار :
سمپورن سنگھ کلرا معروف بہ ’’ گلزار‘‘ آج کے اس دور میں وہ نہ صرف ہندی سنیما بلکہ اپنی ادبی و ثقافتی شوق کی بنا پر پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری عامیانہ زندگی کی روشن دلیل ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کو اردو اور اردو والوں کی خدمات میںصرف کردی ہیں۔ گلزار نے ڈراموں کے ذریعہ غالب کو روشناس کرایا۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جس طرح آج نوجوانوں میں غالب کو لیکر جو جنون اور عشق ہے وہ گلزار کی ہی دین ہے۔ وہ بیک وقت نغمہ نگار، ہدایت کار اور کہانی نویس ہیں۔ ان کی تخلیقات میں عام لوگوں کی زندگی کی بہترین عکاسی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ آج کے ترقی یافتہ دور کے نظیر ؔ ثانی ہیں۔ گلزار کی پیدائش ۱۸؍ اگست ۱۹۳۶ء کو پنجاب کے دینہ متحدہ ہندوستان میں ہوئی۔ تقسیم ہند و پاک کے بعد انھوں نے اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہندوستان کی ہجرت کی۔ گلزار نے اپنی زندگی کی شروعات موٹر میکنک کی حیثیت سے کی۔
شجاع خاور :
شجاع خاور ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام شجاع الدین تھا۔وہ پولیس کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔ ان کی وجہ شہرت جہاں شاعری ہے وہیں وہ یہ وجہ شہرت بھی رکھتے ہیں کہ جب جنتا پارٹی کی دور اقتدار میں اندرا گاندھی کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیم تشکیل دی گئی تھی شجاع خاور اس ٹیم کا حصہ تھے۔ پولیس میں آنے سے قبل وہ تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ ان کا شعری مجموعہ کلام ’’مصرعہ ثانی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ شجاع خاور کا انتقال ۲۰ ؍ جنوری ۲۰۱۲ء میں ہوا۔
وہاب اشرفی :
وہاب اشرفی ۲؍ جون ۱۹۳۶ء کو بہار کے جہان آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے تنقید و تحقیق سے متعلق تین درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ وہاب اشرفی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سمیت متعدد کالج اور یونیورسٹیز میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کی تنقیدی و تحقیقی تخلیقات میں ’’ تاریخ ادبیات عالم، 7 جلدیں،تاریخ ادب اردو، 4 جلدیں،فلسفہ اشتراکیت،قدیم ادبی تنقید،معانی کی تلاش،تفہیم البلاغت،قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ،مابعد جدیدی،مثنوی اور مثنویات،مارکسی فلسفہ، اشتراکیت اور اردو ادب،قصہ بے سمت زندگی کا،میرا مطالعہ قرآن‘‘ شامل ہیں۔ وہاب اشرفی کا انتقال ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۲ء کو ہوا۔
کملیشور :
کملیشور ہندی کے مشہور ادیب تھے۔ وہ ۶؍ جنوری ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی مشہور کتاب ’کتنے پاکستان‘ برصغیر میں نہایت مقبول رہی۔ انہوں نے تقریباً دس ناول، کئی مختصر کہانیاں اور کئی کتابوں کی تصنیف کی ہے۔ ان کی تصنیف میں موضوع سے لے کر لکھنے کے انداز میں تنوع پایا جاتاہے۔ انہوں نے فلموں کے سکرین پلے اور سکرپٹ بھی لکھے۔ان کے مشہور ادبی کارناموں میں ‘ آندھی‘، ’لوٹے ہوئے مسافر‘، ’تیسرا آدمی‘، ’کہرا‘ اور ’ماس کا دریا‘ شامل ہے۔ کملیشور کی ادبی خدمات کے لیے ہندوستانی حکومت نے انہیں سال دوہزار چھ میں اعلیٰ شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازہ گیا۔ ان کے مشہور ناول ’ کتنے پاکستان کے لیے‘ انہیں سنہ دو ہزار تین میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازہ گیا۔۷۵ سال کی عمر میں ۲۷ جنوری۲۰۰۷ء کو ان کا انتقال ہوا۔
خورشید اکرم:
خورشید اکرم ۶؍ مئی ۱۹۶۳ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔وہ اردو فکشن کے حوالہ سے ایک پروقار شخصیت کے مالک ہیں۔انھوں نے شاعری کے میدان میں بھی ایک منفرد لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ خورشید اکرم رسالہ ’’ ماہنامہ آج کل‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ان کی کتابوں میں’’ ایک غیر مشروط معافی، جدید ہندی شاعری، اندازِ نظر میرا‘‘ قابل ذکر ہیں۔
راج نرائن راز:
راج نرائن راز ایک اچھے شاعر ، صحافی ، ادیب اور ایک قابل مدیر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ان کی ولادت لورالائی (بلوچستان ، پاکستان ) میں۲۷؍ اکتوبر۱۹۳۰ء کو ہوئی۔ تقسیم کے وقت ان کا خاندان دہلی آگیا۔ راز نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور وزارت اطلاعات ونشریات میں ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد ’آجکل‘ کی ادارت کی۔ ان کی ادارت میں آجکل کے دستاویزی حیثیت کے کئی خاص نمبر شائع ہوئے۔ جن میں میر نمبر ، ہندی نمبر ، پنجابی نمبر ، صحافت نمبر اہم ہیں۔
راز نے متعدد اصناف میں شاعری کی ان کے شعری مجموعے ’لذت لفظوں کی ‘ چاندنی اساڑھ کی ‘ اور ’دھنک احساس‘ کی ان کی شاعرانہ اہمیت کی دلیل ہیں۔ شاعری کے علاوہ راز نے مختلف سماجی ، سیاسی اور ادبی موضوعات پر مضامین بھی لکھے۔ خواجہ احمد عباس اور منور لکھنوی پر باضابطہ کتابیں لکھیں۔ آخری عمر میں ٹکساس میں مقیم تھے وہیں ۸ نومبر ۱۹۹۸ء کو انتقال ہوا۔
ریختہ پروفائل
میرے مولبی صاحب:
میرے مولبی صاحب کے عنوان سے ذوقی نے اپنے بچپن کے استاد جن کا نام انھیں اب یاد نہیں سے متعلق ایک تاثراتی خاکہ لکھا ہے۔ ذوقی کی یہ تحریر ان کے بچپن کی یادوں اور ماضی کی ناسٹلجیا پر مبنی ہے۔
دنیال طریر:
دانیال طریر ۲۴؍ فروری ۱۹۸۰ ء کو بلوچستان میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے منٹوں سے بھی کم عمر پائی۔ دانیال طریر زبردست ذہن و فکر کے حامل تھے۔ صرف ۳۸ سال کی عمر میں ہی دنیائے ادب اردو کے ایک بڑے حلقہ کو فن کمال سے اپنی طرف جھکا دیا تھا۔ ۳۱ جولائی ۲۰۱۵ء کو موذی بیماری کے سبب ان کا انتقال ہوا۔ ان کی ادبی خدمات میں’’ آدھی آتما( شعری مجموعہ) بلوچستانی شعریات کی تلاش ( جلد اول دوم) معنی فانی ( شعری مجموعہ) معاصر تھیوری اور تعین قدر( تنقید) جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب ( تحقیق) خواب کمخواب( شعری مجموعہ) خدا میری نظم کیوں پڑھے گا(طویل نظم) پانی کے صحیفے (شعری مجموعہ)ادب، تنقید اور تھیوری( تنقید) تعبیری شعریات کی حدود( تنقید) بھوکے بھبھوکے( شعری مجموعہ ) شامل ہیں۔
یعقوب یاور :
یعقوب یاور نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔ یعقوب یاور کی پیدائش ۱۹۵۲ء میں ہوئی۔بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پروفیسر رہے۔ انھوں درجنوں کتابوں کے ترجمے کئے اور کئی ناول لکھے ۔ آج جب وہ جسمانی طور پر کمزور ہوگئے انھوں نے اس وقت بھی حساس دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج درج کراتے ہوئے اترپردیش اردو اکیڈمی کااعزاز یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ’’ مجھے اس بل کے پاس ہونے کی خبر سے بے حد صدمہ پہنچاہے۔ میری عمر ہوچکی ہے جسمانی طورپر بہت کچھ نہیں کر سکتا اس لیے میں یہ ایوارڈ لوٹارہاہوں۔‘‘ انہوں نے اردو اکیڈمی کے نام ایک خط جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔چاروں طرف خوف و ہراس کی فضا ہے۔ سب لوگوں کی طرح میں بھی اسی خوف کے ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوں۔ شہریت ترمیمی بل میں مسلمانوں کے علاوہ تمام لوگوں کو شہریت دینے کی رعایت فراہم کی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے میں مزید اذیت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ احتجاج کے طو رپر فی الحال میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گزشتہ برس مجھے ترجمے کی مد میں میری تمام زندگی کی کارکردگیوں کے اعتراف میں اترپردیش اردو اکیڈمی ، حکومت اترپردیش لکھنؤ نے جو اعزاز بخشا تھا اور اس کے لیے مجھے ایک لاکھ روپے کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا وہ میں واپس کر دوں‘‘۔
نند کشور وکرم:
نند کشور وِکرم ۱۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہ افسانہ نگار، مترجم، ادیب، صحافی اور نثر نگار کی حیثیت سے یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ تقسیم ہند و پاک کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوستان آگئے۔یہاں آنے کے بعد بھی اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیاں جاری رکھیں اور انہوں نے مارچ ۱۹۵۷ء میں دہلی انتظامیہ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔اس کے بعد۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۹ء تک بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ آجکل میں خدمات انجام دیں اور انہوں نے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) میں بطور اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوںنے حوالہ جاتی مجلہ ’’اردو ادب ‘‘ کے ۴۲ شمارے نکالے۔ جبکہ وہ ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوئے۔نند کشور وکرم کا انتقال ۲۷ ء؍ اگست ۲۰۱۹ء کو۹۰ سال کی عمر میں دہلی میں ہوا۔
شاہد انور :
شاہد انور نے اردو ڈراموں کی ترقی اور اس کی بازیافت میں اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے ’’ بی تھری، غیر ضروری لوگ ‘‘ جیسی کتابیں لکھیں۔ شاہد انور ذوقی کے اہم دوستوں میں سے ایک تھے۔ مشرف عالم ذوقی نے ان پر سنجیدہ اور بیانیہ خاکہ لکھا ہے۔ جس میں شاہد انور کی شخصیت ہمیں چلتا پھرتا اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتا ہے۔
نیر مسعود:
اہل اردو کو کافکا کے افسانوں سے روشناس کرانے والے معروف ادیب و محقق نیر مسعود ۱۶؍نومبر ۱۹۳۶ ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تنقید و تحقیق بشمول ترجمہ و افسانوی مجموعہ تیس کے قریب کتابیں لکھیں ۔ جن میں ’’ کافکا کے افسانے، طاؤس چمن کی مینا، عطر کافور، سیمیا، گنجفہ، دولھا صاحب عروج، رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے، تعبیر غالب ، مرثیہ خوانی کا فن، شفا ء الدولہ کی سرگزشت، انیس ، ادبستان، یگانہ احوال و آثار، لکھنؤ کا عروج و زوال ‘‘ نے خاصہ پزیرائی حاصل کی۔ ۲۴ جولائی ۲۰۱۷ء کو ان کا انتقال ہوا۔
صادقین :
سید صادقین احمد نقوی جنھوں نے صادقین کے نام سے اپنی شناخت بنائی۔ ان کو رباعیات کے شہنشاہ ،عظیم مصور، خطاط اور نقاش کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ۳۰؍جون ۱۹۳۰ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ فریئر ہال کی دیوار پر پینٹنگ میں مصروف تھے، اچانک گر پڑے اور ۱۰؍ فروری ۱۹۸۷ء کو کراچی کے ایک اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
چترا مدگل :
چترا مدگل ہندی کی ایک معروف قلمکارہ ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۴۳ء کو چنئی میں ہوئی۔ انھیں بہترین تخلیقی خدمات پیش کرنے پر کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ان کے تخلیقات ’’ گڈو گلی، آواں، جناور ، بے ایمان، ڈھائی گز کی اوڑھنی‘‘ادبی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔
غضنفر علی:
اردو فکشن میں ایک قابل قدر نام غضنفر علی کا ہے ۔ وہ گوپال گنج بہار میں ۱۹۵۳ء میں پیدا ہوئے۔ ’’ پانی ، کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، مم، وش منتھن، شوراب مانجھی‘‘ غضنفر کے ناول کے نام ہیں۔ جب کہ حیرت فروش ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے ۔ غضنفر علی نے تحقیقی و تخلیقی دونوں میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ وہ پیشہ ٔ تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔
راحت اندوری:
اپنی شاعری کی گھن گرج سے مجمع کو دیوانہ بنانے والا شاعر، لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والا انقلابی شاعر ، راحت اندوری اپنی شاعری سے دبے کچلے لوگوں کو راحت پہنچانے کا کام بخوبی طور پر کرتا تھا۔ راحت اندوری کا اصلی نام راحت اللہ قریشی تھا۔ وہ یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو مدھیہ پردیش کے شہر اندورمیں پیدا ہوئے ۔بنیادی طور پر راحت اندوری پروفیسر کے عہدہ پر فائز تھے۔ بعد ازاں انھوں نے مشاعروں کی دنیا میں اپنا نام روشن کیا۔ راحت اندوری ۷۰ سال کی عمر میں ۱۱ ؍ اگست ۲۰۲۰ء کو اس دنیائے فانی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔
عبداللہ حسین :
عبد اللہ حسین ۱۴ ؍ اگست ۱۹۳۱ء کو پاکستان کے راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دنیااردو کو ’’ اداس نسلیں، باگھ، نادار لوگ، قید ، رات، نشیب، فریب ‘‘ جیسی تخلیقات سے روشناس کرایا۔ ان کا انتقال ۴؍ جولائی ۲۰۱۵ کو لاہورمیں ہوا۔
بلراج مینرا:
بلراج مینرا ۱۹۳۵ ء میں ہوشیار پورمیں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دنیائے فکشن کو الگ انداز و اسلوب سے روشناس کرایا۔ اردو جریدہ ’’شعور ‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ بلراج مینرا نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دلی میں گزارا ۔ جہاں وہ زندگی بھر میر و غالب کے دیوانہ بنے رہے۔ انھوں نے لگ بھگ ۳۷ کہانیاں لکھیں۔عمر کے آخری پڑاؤ میں انھوں نے لکھنا ترک کردیا تھا ۔
اس مجموعہ میں شامل تمام خاکہ ادبی و تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے تمام خاکوں میں الگ تکنیک کا استعمال کیاہے۔ جو قارئین کی تمامتر توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
===