میرے عصر کا افسانہ قلم و قرطاس سے ناتا توڑ کر کمپیوٹر سے رشتہ جوڑ رہا ہے۔ اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی تخلیق میں کمپیوٹر کا کچھ عمل دخل ہے۔ کمپیوٹر کے عصر کا افسانہ بھی افسانہ نگار کی تخلیق ہوتا ہے۔ آج سے ایک عشرہ قبل میں نے اپنے کسی افسانوی انتخاب کے پیش لفظ میں یہ مفروضہ اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیا تھا ’’فکشن فیکٹ سے (افسانہ حقیقت سے) کم جبریہ و قدریہ نہیں ہوتا۔ کوئی کوئی کہانی، افسانہ یا قصہ لکھنے والے کے سر میں اس طرح سما جاتا ہے کہ جیسے حکمِ حاکم، مرگِ مفاجات اور اپنے آپ کو خلق کروا کے رہتا ہے۔‘‘
میں نے اپنے افسانوں کے بارے میں یہ بھی عرض کیا تھا۔ ’’میرا افسانہ اپنا ایک جداگانہ موضوع ہی نہیں، اسلوب اور تکنیکی انداز رکھتا ہے۔‘‘
کسی اور مقام پر میں نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ میں کتاب چھپوانے سے بچتی بچاتی ہوں۔ ایسا کیوں کرتی ہوں، اس کا سبب میری عدیم الفرصتی ہوسکتی ہے، تساہل اور جانے کیا کیا— بہرحال معذرت خواہ ہوں۔
میں نے اپنے افسانوں کو مرتب کرکے آپ کی مہربان توجہ کی نذر گزرانے کا فیصلہ کرنے میں اس مرتبہ بہت مدت لگا دی ہے، اس کا سبب یہ نہیں کہ مجھے لکھنے کے لیے مناسب موضوع نہیں مل رہے ہیں۔ میں کینیڈا میں بیسویں صدی کے عشرئہ آخر سے مقیم ہوں۔ امریکا بھی آنا جانا، رہنا سہنا ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان سے روحانی اور قلبی رشتہ ہے۔ میرے چاروں اور افسانے ہی افسانے، موضوعات، واقعات، کردار، زندگی کے رنگ رنگ اور نوع نوع مظاہر افسانوں کے قالب میں آنے کے لیے بے چین اور بے تاب ہیں۔
جب میں اپنی زندگی پر غور کرتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں حقیقت اور افسانے میں امتیاز کرنا ترک کر چکی ہوں۔ بسا اوقات میں خود اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کے بجائے ’’وہ‘‘ خیال کرنے لگتی ہوں۔
میں نے شاید دنیا کو دل کی آنکھوں سے دیکھنا سیکھ لیا ہے۔
میرے افسانے اس کے شاہد ہیں یا نہیں؟ یہ تو میرے افسانے، میرے مہربان پڑھنے والوں کو بتا سکتے ہیں۔
میرے مالک کی تخلیق کی ہوئی دنیا بے حد وسیع ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ مزید وسعتوں سے ہم کنار ہوتی جاتی ہے۔ اس کے ڈانڈے باہر کائنات سے جا ملے ہیں۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ میں حقیقت اور افسانے میں بہ یک وقت موجود ہوتی ہوں۔ میرا افسانہ بہ یک وقت حقیقت بھی ہوتا ہے اور افسانہ بھی۔ آپ پڑھ دیکھیے۔
’’نقش بر آب‘‘ پر آپ سے باتیں کرتے ہوئے زبانِ قلم سے اپنی اس دلی خواہش کا اظہار کیا ہے، میں جہاں تک بن پڑے اور بساط بھر ’’میں‘‘ رہوں۔ اسی چاہت کی اساس پر میرا فن، میری صناعی، میرا اسلوب اور زبان قائم ہے۔ اﷲ کرے دائم رہے۔ اس سمے ’’میں‘‘ خود کو ’’میں‘‘ کہنے سے بھی قاصر ہوں اور ’’قائم و دائم‘‘ میری سوچ کی حدود سے باہر ہیں اور میں اپنے افسانوں کی تازہ کتاب ’’نقش برآب‘‘ کا پیش لفظ تحریر کرکے اطمینان کا سانس لے رہی ہوں۔
گر قبول افتدز ہے عزوشرف۔
آپ کی مخلص
شہناز خانم عابدی
647-763-7686
[email protected]
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...