(Last Updated On: )
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہر شہر کو شہرِ نا پرساں قرار دیاجاتاہے جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں ہمہ وقت مست دکھائی دیتاہے اور زندگی کی اقدار عالیہ پر جان کنی کا عالم ہے ۔یہ عجیب شہر ہیں جن پر اکثر لوگوں کو عراق کے شہر کوفہ کے قریب ہونے کا گماں گزرتا ہے۔ کتابوں اور ادبی مجلات کے مطالعہ پر مبنی اِن مضامین میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جاہ و حشمت کی نشانیوں اور کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور عبرت کی مظہر حنوط شدہ لاشوں سے وابستہ داستانوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور ان کے اعجاز سے تخلیق کار بھی اندیشہ ٔ زوال سے نا آشنا رہتے ہیں ۔ زندگی کی اقدار ِ عالیہ اور درخشاں روایات کی زبوں حالی کے نتیجے میں انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات کا سامنا ہے ۔حرص و ہوس کے موجودہ دور میں کچھ شقی القلب درندوں نے مظلوم انسانوں کی حیاتِ مستعار کو غم کے فسانے میں بدل کر اس دنیا کے آئینہ خانے میں اُنھیں تماشا بنا کر رکھ دیا۔ان ادیبوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا اور حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ۔ ان کے رخصت ہونے کے بعدسب سوچتے ہیں اب دعائے نیم شب میں الم نصیبوں اور جگر فگاروں کا پرسانِ حال کون ہو گا ۔ خود نوشت کی صورت میں لکھے گئے اِن مضامین میں کچھ کردار ایسے بھی ملیں گے جو اپنے عہد میں الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے پاس مرہم بہ دست پہنچنے کے بجائے خنجر آزما ہونے پر تُل گئے ۔ان کی سفاکی اور شقاوت آمیزمہم جوئی کے باوجود بعض یگانۂ روزگار ہستیوں نے ہوائے جو رو ستم میں بھی مشعلِ وفا کو فروزاں رکھااور یہی تلقین کی کہ ہجوم ِ غم میں دِل سنبھال کر اور یاس و ہراس کو ٹال کر آگے بڑھنا ہی دانش مندی ہے ۔ ان مضامین میںمحسن کش ،پیمان شکن ،جعل ساز اور سارق سفہا کو آ ئینہ دکھایا گیا ہے ۔بے حس معاشرہ جب مظلوموں کی داد رسی اور چارہ گری سے گریز کو معمول بنالے تو اُن کے رفتگاں عالمِ خواب میں اُن کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔اس قسم کا تصوراتی ماحول خود نوشت اور سوانح نگاری کے مظہرمضامین کو نیا آ ہنگ عطا کرتاہے ۔یہ تمام مضامین چھے جولائی 2017ء کو دائمی مفارقت دینے والے میرے نوجوان بیٹے سجاد حسین نہایت محنت سے کمپوز کیے ۔میری دست بستہ التجا ہے کہ میرے بیٹے کے لیے دعائے مغفرت کریں اور ہم الم نصیب جگر فگار والدین کے لیے دعا کریں کہ خالقِ ارض و سماہمیں آزمائش کی اس گھڑی میں صبر عطا فرمائے ۔ اس وقت واقعہ ٔ کر بلا کی یاد آتی ہے تو دل سے یہی آواز نکلتی ہے کہ مجید امجد نے سچ کہاتھا:
سلام اُن پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے
فقیر
غلام شبیر