“جب سائنس کسی عقیدے کو اپناتی ہے تو وہ خودکشی کرلیتی ہے.”
(تھامس ہینری ہکسلی)
فلاسفی آف سائنس پر سب سے بااثر کتابوں میں سے ایک 1962 میں شائع ہونے والی تھامس کوہن کی کتاب The Structure of Scientific revolutions ہے۔ اس کتاب میں تھامس کوہن ایک دعویٰ کرتا ہے کہ سائنس ہمیشہ ایک منظم، شائستہ اور سیدھے طریقے سے آگے نہیں بڑھتی جہاں ہر نئے نتائج کو غیرجانبدارانہ طریقے سے دیکھا جائے۔ بلکہ اسکی بجائے ایک موجودہ تھیوری ہوتی ہے جسکا پوری فیلڈ پر غلبہ ہوتا ہے۔ جب نیا متضاد ڈیٹا سامنے آتا ہے تو تھیوری فوری طور پر نہیں گر جاتی۔ اس میں تھوڑی سی دراڑ پیدا ہوسکتی ہے لیکن تھیوری کو یکسر رد کردینے کے حوالے سے کافی شواہد سامنے آنے کے باوجود سائنسدان اس پر اپنا یقین جاری رکھتے ہیں۔
اسکو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ پرانی موجودہ تھیوری ایک مکان کی چھت کی طرح ہے اور اس مکان کی چھت پر موجود تعمیراتی سامان جوکہ تعمیراتی کام کے بعد بچ جاتا ہے یا فالتو ہوتا ہے رکھا جاتا ہے۔ یہ سامان نیا آنے والے ڈیٹا ہے جو تھیوری سے متضاد ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ نیا سامان چھت پر ڈالا جاتا رہتا ہے۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ مکان کی چھت اس سامان کے بوجھ تلے کمزور پڑ جاتی ہے اور گر جاتی ہے۔ سائنس کے اندر یہ وہ نقطہ ہے جہاں نئی تھیوری ڈیویلپ ہوتی ہے اور اسی سامان سے نئی چھت کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔
کوہن نے اس تخریب و تعمیر کے سلسلے کو پیراڈائم شفٹ کا نام دیا تھا۔ یہ جملہ کوہن نے متعارف کروایا جو آجکے جدید دور میں ایک کہاوت بن چکا ہے۔ پیراڈائم شفٹ خالص عقلیت کی بنیاد پر نہیں ہوتی ۔ بلکہ اس میں موجودہ تھیوری کے علمبرداروں کی نفسیات میں جذباتی اور سماجی تبدیلیوں کا کردار ہوتا ہے۔ تھامس کوہن کی کتاب سے کئی سال پہلے 1918 کے فزکس کے نوبل پرائز کے فاتح جرمن سائنسدان میکس پلانک نے اسکو بہت واضح اور مختصر طور ہر بیان کیا یے۔ وہ لکھتے ہیں” سائنسی نظریات اس لئیے تبدیل نہیں ہوتے کہ پرانے سائنسدان اپنی سوچ تبدیل کرلیتے ہیں، یہ اس لئیے تبدیل ہوتے ہیں کیونکہ پرانے سائنسدان مرجاتے ہیں.”
ہم بائیولوجی میں اسی طرح کی ایک پیراڈائم شفٹ کے بالکل وسط میں ہیں۔
1965 میں فزیالوجی اور میڈیسن میں نوبل پرائز فرانسس جیکب، آندرے لووف اور جیکس مونوڈ کو وائرس سینتھیسز اور انزائم کے جینیاتی کنٹرول کے حوالے سے دریافت پر دیا گیا۔ ان دریافتوں میں ایک میسینجر آر این اےmRNA بھی تھا۔ میسینجر آر این اے ایک مختصر دورانیے تک زندہ رہنے والا مالیکول ہے۔ یہ ڈی این اے سے معلومات سائٹوپلازم میں منتقل کرتا ہے اور ایک درمیانی سانچے کا کام کرتا ہے جس میں پروٹین بنانے کیلئے ہدایات موجود ہوتی ہیں۔
ہم کافی سالوں سے آر این اے کی کی دوسری اقسام کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔ خصوصاً ٹرانسفر آر این اے tRNA اور رائبوسومل آر این اے rRNA. ٹرانسفر آر این اے چھوٹے مالیکولز ہوتے ہیں جو ایک طرف مخصوص امائنو ایسڈ کو پکڑ سکتے ہیں۔ جب پروٹین بنانے کے لیے میسینجر آر این اے کو پڑھا جاتا ہے تو ٹرانسفر آر این اے اپنے امائنو ایسڈز کو نئی بننے والی پروٹین کی چین پر درست جگہ جوڑتا ہے۔ یہ عمل سائٹوپلازم میں موجود ساخت رائبوسوم پر ہوتا ہے۔ رائبوسومل آر این اے رائبوسوم کا بنیادی حصہ ہے جو دوسرے آر این اے اور پروٹینز کو اپنی جگہ پر جوڑکر رکھتا ہے۔ آر این اے کی دنیا اس لئیے بالکل سیدھی سادی معلوم ہوتی تھی۔ ایک طرف ساختی آر این اے ( rRNA, tRNA) تھے تو دوسری طرف میسینجر آر این اے۔
کئی دہائیوں تک مالیکیولر بائیولوجی کی کیٹ واک کے ستارے مالیکولز ڈی این اے (بنیادی کوڈ) اور پروٹین (خلیات میں مختلف فنکشنز پرفارم کرنے والے مالیکیولز ) تھے۔ آر این اے کو ایک غیر دلچسپ درمیانی مالیکول کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو بلیو پرنٹ سے فیکٹری کے کارندوں تک پیغام لیکر جاتا تھا۔
مالیکولر بائیولوجی میں کام کرنے والا ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ پروٹینز انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ وسیع پیمانے پر کاموں کو سرانجام دیتی ہیں جو زندگی کو ممکن بناتے ہیں۔ اس لئیے جو جینز ان پروٹینز کو کوڈ کرتے ہیں وہ بھی اہم ہیں۔ حتیٰ کہ ان جینز کے اندر تھوڑی سی میوٹیشن انتہائی خطرناک نتائج کا باعث ہوسکتی ہے جیساکہ ہیموفیلیا اور سسٹک فائبروسس۔
لیکن اس نقطہء نظر نے سائنسی کمیونٹی کی سوچ کو بہت محدود کردیا ہے۔ پروٹین اور انکو کوڈ کرنے والی جینز کی انتہائی اہمیت کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جینوم میں موجود دوسرے عوامل کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ لیکن یہ نظریاتی تصور سائنس میں کئی دہائیوں سے رائج ہے۔ یہ دراصل کافی عجیب ہے کیونکہ کافی عرصے سے ہماری رسائی اس ڈیٹا تک ہوچکی ہے جسکے مطابق پروٹین ہی ساری کہانی نہیں ہیں۔
ہم کیوں اپنا کچرہ نہیں پھینکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان کافی عرصہ پہلے اس چیز کی نشاندھی کرچکے ہیں کہ کارندوں تک پہنچنے سے پہلے بلیو پرنٹ کے اندر خلیات کی طرف سے ترمیم کردی جاتی ہے۔ یہ انٹرونز کی وجہ سے ہے جن سے ہم پہلے مل چکے ہیں۔ یہ ایسے حصے ہیں جو ڈی این اے سے میسینجر آر این اے میں کاپی ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ رائبو سوم اس پیغام کو پڑھیں انھیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ انٹرونز پہلی مرتبہ 1975 میں دریافت ہوئے تھے اور انکی دریافت پر 1993 میں رچرڈ رابرٹس اور فلپ شارپ کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
ستر کی دہائی میں سائنسدانوں نے سادہ یک خلوی جانداروں اور پیچیدہ جانداروں جیسے انسانوں کا موازنہ کیا۔ جانداروں کے آپس میں اختلافات کے باوجود ان میں ڈی این اے کی مقدار حیرت انگیز طور پر یکساں معلوم ہوتی تھی۔ اس سے یہ تصور ابھرا کہ بہت سے جانداروں میں کافی مقدار میں ایسا ڈی این اے ہونا چاہئے جسکو وہ استعمال نہیں کرتے۔ یہاں سے جنک ڈی این اے کی اصطلاح سامنے آئی۔ یہ ایسے حصے ہیں جو کسی پروٹین کیلئے کوڈ نہیں کرتے۔ اسی دوران بہت سی لیبارٹریز سے یہ تحققیات سامنے آئیں کہ ممالیہ جانوروں کے جینوم میں بہت سارے حصے ایسے جہاں بار بار دہرائے جانے والی ترتیب موجود ہے اور یہ کسی پروٹین کو کوڈ نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ پروٹین کو کوڈ نہیں کرتے لہذاٰ یہ فرض کر لیا گیا کہ یہ خلیات میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ فرانسس کرک اور دیگر نے ان حصوں کیلئے سیلفش ڈی این اے کی اصطلاح متعارف کروائی۔ حالیہ عرصے میں ان دونوں ماڈلز کو جینوم کے بارے میں ابھرتے ہوئے تصورات کا درجہ دیا گیا ہے۔
ہم انسان اپنے کھربوں خلیات، سینکڑوں خلیوں کی اقسام اور لاتعداد ٹشوز اور اعضاء کیساتھ قابل ذکر ہیں۔ چلیں اپنا موازنہ ایک خوردبینی جاندار نیماٹوڈ Caenorhabditis elegans کیساتھ کرتے ہیں۔ یہ تقریباً ایک ملی میٹر لمبا ہوتا ہے اور زمین کے اندر رہتا ہے۔ یہ تقریباً بڑے جانداروں کی طرح اعضاء رکھتا ہے مثلاً گٹ، منہ اور گونینڈز۔ باہر حال یہ صرف تقریباً ایک ہزار خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ قابل ذکر طور پر جسیے C. Elegans ڈیولپ ہوتا ہے سائنسدان اس بات کی کھوج لگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ کیسے ہر خلیہ نمودار ہوتا ہے۔
یہ چھوٹا سا کیڑا ایک طاقتور تجرباتی آلہ ہے کیونکہ یہ خلیات او ٹشوز کی ڈیولپمنٹ کیلئے روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔ سائنسدان ایک جینز کے ایکسپریشن کو تبدیل کرنے کے قابل ہوگئے ہیں اور پھر اس جین میں میوٹیشن کے نارمل ڈیولپمنٹ پر اثرات بھی دیکھ سکتے ہیں۔ درحقیقت C. Elegans نے ڈیولپمنٹل بائیولوجی میں اس قدر کامیابیوں کی بنیاد رکھی ہے کہ نوبل پرائز کمیٹی نے 2002 میں فزیالوجی اور میڈیسن میں اس جاندار پر کام کرنے کے حوالے سے سڈنی برنر ، رابرٹ ہوروٹز اور جان سلسٹن کو نوبل انعام سے نوازا۔
ہم C. Elegans کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن ظاہری بات ہے یہ ہماری نسبت بہت کم پیچیدہ جاندار ہے۔ ہم۔اتنے زیادہ نفیس کیوں ہیں؟ خلیات کے فنکشن کے اندر پروٹینز کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ پیچیدہ جانداروں جسیے ممالیہ جانداروں میں پروٹین کو کوڈ کرنے والے جینز سادہ جانداروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی معقول مفروضہ تھا لیکن یہ تھامس ہینری ہکسلی کی طرف سے واضح کردہ ایک فینومینا کے سامنے ناکام ثابت ہوا۔ وہ 19 ویں صدی میں ڈارون کا عظیم چیمپئن تھا اور یہ ہکسلے ہی تھا جس نے سب سے پہلے ’’ ایک بدصورت حقیقت سے ایک خوبصورت مفروضے کے قتل) کو بیان کیا۔
جیسے جیسے ڈی این اے کو پڑھنے کی ٹیکنالوجی نے ترقی کی دنیا بھر سے بہت سی لیبارٹریز نے بہت سے جانداروں کے جینوم کو تشکیل دیا۔ وہ مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے ان جینومز کے اندر پروٹین کوڈنگ جینز کی نشاندھی کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جو چیز سامنے آئی وہ کافی حیرت انگیز تھی۔ امید سے بہت کم پروٹین کوڈنگ جینز موجود تھے۔ جب انسانی جینوم کو ڈیکوڈ نہیں کہا گیا تھا تو سائنسدانوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ اسطرح کے ایک لاکھ کے زائد جینز موجود ہونگے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ صحیح تعداد بیس ہزار سے پچیس ہزار کے درمیان ہے۔ اور ایک عجیب بات یہ کہ C. Elegans کے اندر بائیس ہزار دوسو جینز موجود ہیں جو ہم سے کچھ زیادہ مختلف تعداد نہیں ہے۔
نا صرف ہم میں اور C. Elegans میں جینز کہ تعداد ایک جیسی کے بلکہ یہ تقریباً ایک جیسی پروٹینز کو کوڈ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم انسانی جین کی ترتیب کو دیکھیں تو اسی ترتیب کیساتھ ملتا جلتا جین ہمیں نیماٹوڈ میں ملیگا۔ لہذاٰ فینوٹائپس یعنی ظاہری خصوصیات میں فرق اس وجہ سے نہیں ہیں کہ ہومو سیپیئن کے اندر زیادہ یا اچھے جینز موجود ہیں۔
لیکن زیادہ پیچیدہ جاندار سادہ جانداروں کی نسبت اپنے جینز کو زیادہ طریقوں سے splice کاٹ سکتے ہیں۔ مثلاً اسکو سمجھنے کیلئے ایک مثال لیتے ہیں کہ اوریجنل جین کی ترتیب CARDIGAN ہے C. Elegans زیادہ سے زیادہ DIG یا DAN پروٹین بنانے کی اہلیت رکھتا ہوگا لیکن ممالیہ جاندار ان دو پروٹینز کیساتھ ساتھ CARD, RIGA CAIN اور CARDIGAN پروٹین بناسکتے ہیں۔
یہ یقینی طور پر انسانوں کو ایک ملی میٹر کے کیڑے کی نسبت بہت زیادہ پروٹینز کی ذخیرہ اندوزی کرنے کے قابل بناتا ہے۔ زیادہ پیچیدہ جاندار کیسے اپنے پیچیدہ سپلائسنگ پیٹرن کو ریگولیٹ کرتے ہیں؟ تھیوری کے اندر یہ ریگولیشن مکمل طور پر پروٹینز کنٹرول کرتی ہیں لیکن اس میں بھی بہت سی مشکلات ہیں۔ ایک خلیے کو ایک پیچیدہ نیٹ ورک میں جتنی زیادہ پروٹینز کو ریگولیٹ کرنا ہوگا اسکے لئے اتنی ہی زیادہ پروٹینز درکار ہونگی۔ یہ ریاضیاتی طور پر ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ اسکو شروع کرنے کیلئے ریگولیٹر پروٹینز کی تعداد بہت کم ہوجاتی ہے۔
کیا ہمارے پاس کوئی متبادل ماڈل ہے؟ جی ہمارے پاس متبادل ماڈل موجود ہے اور اسکو ہم اس ڈیٹا سے ظاہر کرسکتے ہیں۔ اگر ہم مختلف جانداروں کے اندر پروٹین کوڈنگ اور نان کوڈنگ جینز کی شرح معلوم کریں تو جو ڈیٹا سامنے آتا ہے اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ جانداروں کی پیچیدگی انکے نان کوڈنگ جینومز کیساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔
ایک انتہا پر ہمارے پاس بیکٹیریا ہیں۔ ان کا جینوم چھوٹا اور بہت زیادہ کمپیکٹ ہوتا ہے۔ بیکٹریا کے پروٹین کوڈنگ جینز چالیس لاکھ بیس کے جوڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ جینوم کا نوے فیصد بنتاہے۔ بیکٹریا بہت سادہ جاندار ہیں اور اپنی پروٹین کی ایکسپریشن کو کنٹرول کرنے کے حوالےسے کیلئے کافی حد تک سخت ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم ارتقائی درخت پر اوپر کی طرف جاتے ہیں تو چیزیں تبدیل ہونا شروع جاتی ہیں۔
مثلاً C. Elegans کے پروٹین کوڈنگ جینز تقریباً دوکروڑ چالیس لاکھ بیس کے جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ تمام جینوم کا صرف پچیس فیصد بنتا ہے۔ باقی پچھتر فیصد کسی پروٹین کیلئے کوڈ نہیں کرتا۔ جب ہم انسان تک پہنچتے ہیں تو پروٹین کوڈنگ جینز تین کروڑ بیس لاکھ بیس کے جوڑوں پر مشتمل ہیں، لیکن یہ جینوم کا صرف دو فیصد بنتا ہے۔ تقریباً اٹھانوے فیصد جینوم کسی پروٹین کیلئے کوڈ نہیں کرتا۔ صرف دو فیصد کو چھوڑ کر ہمارا سارا جینوم جنک ہے۔
دوسرے الفاظ میں جینز کی تعداد اور جینز کی جسامت کا پیچیدگی کیساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جینوم کی واحد خصوصیت جو زیادہ بڑھتی جاتی ہے جیسے جیسے جاندار زیادہ پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں وہ جینوم کا وہ حصہ ہے جو پروٹین کو کوڈ نہیں کرتا۔
زبان کا جبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ جینوم کے نان کوڈنگ حصے آخر کیا کرتے ہیں؟ اور یہ کیوں اہم ہیں؟ ہم تب اسکو زیر غور لاتے ہیں جب اس بات کو نوٹس کرنا شروع کرتے ہیں کہ انسانی سوچ کے عمل پر زبان اور اصطلاحات کا کس قدر مظبوط اثر ہوتا ہے۔ ان حصوں کو نان کوڈنگ کہا جاتا ہےلیکن اسکا مطلب ہے پروٹین کو کوڈ نہیں کرتے۔ یہ بالکل نان کوڈنگ سے بالکل مختلف ہے۔
ایک مشہور سائنسی محاورہ ہے کہ ” ثبوت کی عدم موجودگی اور غیرموجودگی کا ثبوت ایک چیز نہیں ہے”. مثال کے طور پر آسٹرانومی میں جب سائنسدانوں نے ایک دفعہ ایسی ٹیلی سکوپس بنالیں جو انفراریڈ ریڈی ایشن کی نشاندہی کرلیتی تھیں تو وہ ایسے ستاروں کی نشاندھی کرنے میں کامیاب ہوپائے جنکو پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔ ستارے ہمیشہ سے وہاں موجود تھے لیکن ہم انکو دیکھنے میں تب تک کامیاب نہیں ہوپائے جب تک ہمارے پاس ایسا کرنے کیلئے آلات نہیں آگئے۔ ایک آسان مثال موبائل فون کے سگنلز کی ہے ۔ اس قسم کے سگنلز ہمارے آس پاس موجود ہیں لیکن ہم انکی نشاندہی کرنے کے قابل نہیں ہوپائے جب تک ہمارے پاس موبائل فون نہیں آگیا۔ دوسرے لفظوں میں جو چیز ہم دریافت کرتے ہیں اسکا زیادہ دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم دیکھ کیسے رہے ہیں۔
سائنسدان آر این اے مالیکولز کا جائزہ لیتے ہوئے ان جینز کی نشاندھی کرتے ہیں جو مخصوص قسم کے خلیات میں ایکسپریس ہوتے ہیں۔ ایسا تمام آر این اے کو خلیے سے سے نکال کر اور مختلف تکنیک کی مدد سے اسکا جائزہ لیکر کیا جاتا یے۔ اسطرح سے آپکے پاس تمام موجود آر این اے کا ڈیٹا بیس تیار ہوجاتا ہے۔ جب اسی کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس بات کی تحقیقات شروع کیں کہ کونسا جین کونسی قسم کے خلیہ میں ایکسپریس ہوتا ہے تو تکنیک اتنی اچھی نہیں تھیں۔ اور انکو صرف میسینجر آر این اے کی نشاندھی کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہی قسم اہم تصور کی جاتی تھی۔ یہ طریقہ کار زیادہ ایکسپریس ہونے والے میسینجر آر این اے کو زیادہ بہتر طریقے سے نشاندہی کرتا تھا لیکن کم ایکسپریس ہونے والے حصوں کے بارے میں یہ اتنا موثر نہیں تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ میسینجر آر این اے کی جانچ کیلئے جو سافٹ ویئر استعمال ہوتا تھا اسکو اسطرح سے سیٹ کیا گیا تھا کہ جنک ڈی این اے کی طرف سے آنے والے درست سگنلز کو وہ نظرانداز کرتا تھا۔
ان تکنیکوں نے میسنجر آر این اے کی سمجھ میں ہماری بہت مدد کی ہے لیکن جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ صرف جینوم کے دو فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب ہم نے نئی ٹیکنالوجی کو انتہائی اضافی کمپیوٹنگ طاقت کیساتھ آراستہ کرلیا تو ہمیں احساس ہونا شروع ہوا کہ بقیہ اٹھانوے فیصد جینوم میں کچھ دلچسپ ہورہا تھا۔
ان بہتر طریقہ کار کیساتھ سائنسدانوں نے یہ معلوم کرلیا کہ نان کوڈنگ جینوم کے اندر کثیر تعداد میں ٹرانسکرپشن کا عمل جاری تھا۔ ابتدائی طور پر اسکو ٹرانسکرپشنل شور کہہ کر نظرانداز کیا گیا۔ یہ تجویز کیا گیا کہ بنیادی طور تمام جینوم کی ایکسپریشن کی گنگناہٹ تھی کیونکہ اس حصے سے شاذونادر ہی کوئی آر این اے بنتا تھا جو نشاندہی کی حد تک پہنچتا تھا۔ تصور یہ تھا کہ گوکہ ممکن ہے ہم اپنی نئی ٹیکنالوجی سے ان مالیکولز کی نشاندھی کرنے کے قابل ہو جائیں لیکن انکی حیاتیاتی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ٹرانسکرپشنل شور، اس جملے کا مطلب ہے رینڈم واقعات۔ بہر حال ان نان کوڈنگ جینز کے ایکسپریشن پیٹرن مختلف قسم کے خلیات میں مختلف تھے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انکی ٹرانسکرپشن رینڈم نہیں تھی۔ مثال کے طور پر دماغ میں یہ ایکسپریشن بہت زیادہ تھی۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ دماغ کے مختلف حصوں میں ایکسپریشن پیٹرن مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نتائج دیکھے جاسکتے ہیں جب مختلف افراد کے دماغ کے حصوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اگر آر این اے کی اس کم سطح کی ٹرانسکرپشن ایک خالص رینڈم عمل ہوتا تو یہ نتائج سامنے نہ آتے۔
یہ مزید واضح ہوتا جارہا ہے کہ جینز جوکہ کسی پروٹین کو کوڈ نہیں کرتے ان کی ٹرانسکرپشن خلیے کے فنکشن کیلئے بہت اہم ہے۔ لیکن عجیب طور پر ہم ابھی بھی اپنے بنائے ہوئے زبانی جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان حصوں سے بننے والا آر این اے ابھی بھی نان کوڈنگ آر این اے کہلاتا ہے۔ یہ ایک مبہم اصطلاح ہے کیونکہ ہمارا مطلب نان پروٹین کوڈنگ آر این اے ہے۔ نان کوڈنگ آر این اے دراصل کوڈ کرتا ہے یہ اپنے آپ کیلئے ایک فنکشنل آر این اے مالیکول کیلئے کوڈ کرتا ہے۔
___________________________________________
References
https://jamanetwork.com/jour…/jama/article-abstract/289964
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/5065367/
https://www.nature.com/articles/284604a0
https://www.nature.com/articles/284601a0
https://nyaspubs.onlinelibrary.wiley.com/…/j.1749-6632…
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC2883659/
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...