دورتک لہلہاتے کھیتوں میں وہ پگلا کسی بجو کا کی طرح ٹنگا کھڑا تھا ۔لکڑی جیسا جسم ،ہانڈی جیساسر۔
’’منا ‘‘منحنی جسم ، اندر کو دھنسی آنکھیں اورپچکے ہوئے پیٹ والا بوڑھا لرزگیا ۔۔ ’’منا یہ کیسا مجاق ہے‘‘
مجوری (مزدوری )کررہاہوں ’’پگلے نے اپنا ہانڈی جیسا سرہلایا ۔
’’کس نے کہا تھا مجوری کرنے کو ‘‘
’’سوکار نے‘‘
ایک موٹی سی گندی سی گالی سہوکار کو دیتے ہوئے بوڑھے نے پگلے کے دونوں بازوسیدھے کیے تو و ہ بے ساختہ بوڑھے کے میلے کچیلے وجود سے لپٹ کر بھائی بھائی کی رٹ لگائے دہاڑ یں مارکر رونے لگا ۔
بوڑھے کا د ل بھی بھرآیا ۔ اس کے سینے سے اتنی درد ناک چیخیں ابھریں کہ اس کا وجود ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ غصہ ، پشیمانی،لاچاری ،شرمندگی اوربیچارگی کے گرم گرم ابلتے آنسوؤں سے اس کا چہر ہ بھیگنے لگا ۔ جانے کب تک یہ تماشا جاری رہا کہ دفعۃ بوڑھے کو اپنی حماقت کا احساس ہوا ’’منا ‘‘پگلے کو سینے سے لگا کر وہ پچکارنے لگا’’گھر چل بیٹے‘‘
’’مجھے مجوری کرنی ہے ‘‘
’’تو مجوری نہیں کرے گا ‘‘
’’تو بھائی کا چہلم کیسے ہوگا ‘‘
’’و ہ میں کروں گا ۔نا ۔۔۔۔ ’’پگلے کا ہانڈی ایساسر تھپکتے ہوئے بوڑھے نے تسلی دی ۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے ۔۔ جب سے بابو اس سڑک حادثے میں جاں بحق ہواتھا ۔ شاید تبھی سے وہ پگلے کو بہلارہاتھا کہ چہلم ہوگا ۔
پر چہلم ہوتا کیسے ؟ جب بھی روپیہ ہاتھوں میں آتا ان میں کھجلی سی ہونے لگتی تھی ۔ پتوں کی بازی لگتے دیکھ من مچلنے لگتا تھا ۔ جب تک ایک پائی بھی جیب میں رہتی اس پر جنون سوار رہتا اورجب وہ مکمل طورپر قلاش ہوجاتا ۔ تب اس سے ہوش آتاکہ کیاہوا ؟
عمر گزرتی رہی ۔۔۔ بازی لگتی رہی ۔۔۔۔ پتے بکھرتے رہے ۔۔ وہ لٹتا رہا۔۔
بوڑھے نے ایک آہ سرد کھینچی ۔ اب اس کے ہاتھوں میں کیا رہ گیا تھا ۔ ایک سو کھا زردپتہ۔
وہ رات کاجانے کونسا پہر تھا ۔ بوڑھا دبے پاؤں جھونپڑی میں داخل ہواتھکا ہارا ، غم گین ، خوف زدہ ، جی چاہ رہاتھاکہ کسی کو نے کھدرے میں دبک کر پڑا رہے کہ ہڑبڑا گیا ۔ سامنے ہی منا بیٹھا جاگ رہاتھا ۔
’’تت۔۔۔تو سویا نہیں ابھی تک۔‘‘
’’بھائی سپنوں میں آتاہے ۔۔۔ نیند نہیں آتی ‘‘پگلا مسمسی صورت بناکر بولا ۔’’انوری بوا کہتی ہے اس کی روح بھٹک رہی ہے ۔چہلم ہوگا ۔ تووہ لوٹ جائے گی ‘‘۔
چہلم ۔۔۔ چہلم ۔۔۔۔بوڑھے کا دماغ تپ گیا ۔ اس کے من میں چور تھا ۔ اس نے جھونپڑی رہن رکھ کر جوروپے ساہوکار سے چہلم کے لئے اکھٹے کئے تھے ۔ وہ جوئے میں ہارآیا تھا ۔
چہلم ہوگا منے ضرور ہوگا‘‘بوڑھے نے آگے بڑھ کر پگلے کو گلے لگایا اوراس کا ہانڈی ایسا سر تھپکتے ہوئے اسے تسلی دی ۔
پرچہلم ہوتا کیسے ؟ بوسیدہ کمبل میں لپٹا جھونپڑی کے ایک کونے میں پڑ ابوڑھا ، اونگھتا رہا ۔۔۔۔ سوچتا رہا ۔۔۔ وہ حادثہ ۔۔ وہ نشے میں دھت لاپرواہ امیرزادہ ۔۔ بابو کی موت ۔۔۔ چہلم ۔۔ اس کے لئے رقم ۔۔ چہلم ۔۔ رقم ۔۔۔۔ رقم ۔۔ ۔ چہلم۔
دونوں آپس میں گڈمڈ ہوتے رہے ۔ اس کے ہاتھوں سے پھسلتے رہے ۔
دن ڈھلے ساہو کا ر نے طلب کیاتووہ حیران ہوگیاکل رات وہ پائی پائی ہارچکاتھاپھرساہوکارنے اسے طلب کیوں کیا؟وہ ہانپتا کانپتا اس کی دیوڑھی پر آیا ۔
’’کیوں بے ‘‘ اس کو دیکھتے ہی ساہو کا ر نے بارعب لہجے میں کہا ۔ ’’میں نے سنا ہے تو اس گرام پردھان کے ساتھ مل کر اپنے بیٹے کے ہتھیار سے Compensation وصول کرنے کے چکر میں ہے ۔ ‘‘
’’ کک۔۔۔۔ کمپاسیشن ‘‘ بوڑھا ہکلا گیا ۔ جج ۔۔۔ جی ۔۔ ہجور مگر وہ رکم ۔۔ ۔ وہ رکم ۔۔۔ اپنے لئے نہیں ہے ساو کار ۔۔ پر دھان جی وہ رکم ۔۔۔ بابوکے بال بچوں کے نام کریں گے ۔ ‘‘
’’اچھا ‘‘ ایک عیارسی مسکراہٹ ساہوکار کے ہونٹوں پر آگئی ۔
’’اورتو کہہ رہاتھا تیر اپگلا بیٹا چہلم کی رٹ لگا ئے ہوئے ہے ۔ ‘‘
’’ہاں ہجور‘‘ ، ’’اورتوچاہے تووہ رقم تیرے نام ہوسکتی ہے۔ ‘‘
’’میرے نام ‘‘ بوڑھا چونکا ’’نہ ۔۔۔۔ نہیں سرکار ۔۔۔ بابو کے بال بچوں کے ساتھ ناانصاپھی(ناانصافی ) ہوگی ۔ ‘‘
’’اورجو چہلم نہیں ہوگا تو پگلا کیا کرے گا ۔ کھیتوں میں مزدوری ۔۔۔ ‘‘ساہوکار نے بوڑھے کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی تو وہ تڑپ اٹھا اوراس نے بڑی بے بس نظروں سے ساہوکار کی جانب دیکھا ۔
’’اس لئے تو کہتاہوں ۔۔۔۔ پردھا ن کا ساتھ چھوڑ ۔۔۔۔ میں تجھے اس ہتھیارے سے چہلم کے لئے ایک موٹی رقم دلواسکتاہوں ۔ ‘‘
اف!! یہ کیسا تذکرہ تھا ۔ یہ کیسا لالچ تھا ۔ بوڑھا الجھ سا گیا ۔ ’’کمپاسیسن کی رکم ۔۔۔۔ ‘‘اس نے سوچا ’’یہ رکم ۔۔۔۔ بابوکے بال بچوں کی جندگی سنوار سکتی ہے ۔ یہ رکم میں کیوں لوں ۔۔۔۔لیکن رکم تو چہلم کے لئے بھی جروری ہے ۔ لیکن چہلم کس لئے ؟ ۔۔۔ منا تو پگلا ہے ۔۔ ۔ چہلم کی کوئی جرورت نہیں،میں وہ رکم بابوکے بال بچوں کے حوالے کردونگا ۔۔۔بوڑھا بری طرح الجھتا رہا ۔۔ ۔ ٹوٹتابکھرتا رہا ۔
ٹمٹماتی سرد سیاہ رات ۔۔۔ اورساہو کا رکی دیوڑھی پر جمی پتوں کی بازی ۔۔۔۔ پتوں کی بازی کہ زندگی کی بازی ۔۔۔۔ بوڑھے کی جیب گرم تھی ۔ ۔۔ وہ بابو کے ہتھیار ے سے چہلم کے نام پر رقم اینٹھ لایا تھا ۔ ۔۔اب تو چہلم ضرور ہوگا ۔
لیکن پتوں کی بازی کہ زندگی کی بازی ۔۔۔ دفعۃً بوڑھے کو لگا ا سکے ہاتھوں میں کھجلی سی ہونے لگی ہے ۔ پاپی من مچل رہاہے ۔قدم پتوں کی جانب لپک رہے ہیں ۔
نہ ۔۔۔نہیں ‘‘بوڑھے نے سختی سے خود کو روکا ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔
آج کوئی بازی نہیں ہوگی ۔۔۔ یہ رکم توچہلم کے لئے ہے ۔۔۔ لیکن چہلم کس لیے ۔؟ مناتو پگلا ہے ۔۔ چہلم کی کوئی جرورت نہیں ۔۔۔۔ مجھے یہ رکم ۔۔۔
بابوکے بال بچوں کے حوالے کردینی چاہیے ‘‘
لیکن وہ پتے ۔۔۔۔ رنگ برنگے ۔۔۔ کیسے کرارے ۔۔۔ ان کی بازی زندگی کی بازی ۔۔۔۔ بوڑھے کامن بہکنے لگا ۔ کیا میں ہمیشہ ہارتا رہوں گا ۔ جیت بھی تو سکتاہوں ۔۔۔ ایک داؤ تو لگا کر دیکھو ں۔۔۔۔ چہلم کس لئے ؟ چہلم کی کیا جرورت ہے ۔۔ لیکن بابو کے بال بچے ۔۔۔۔ آج کی باجی (بازی )تو میں جیت لوں گا ۔
پھر رات کے جانے کو نسے پہر ۔۔۔۔وہ تھکا ہارا غم گین ، خوف زدہ ۔۔۔پائی پائی کا محتاج ۔ ساہوکار کی دیوڑھی سے نکلا اورسرد سیاہ رات میں کہیں گم ہوگیا ۔ اورپھر جب دن ایک انگڑائی لے کر بیدار ہورہاتھا ۔ ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے گاؤں والوں نے دیکھا ۔۔۔ دور تک لہلہاتے کھیتوں میں ایک بجو کا ٹنگا کھڑا ہے ۔۔ لکڑی جیسا جسم ۔۔ ہانڈی جیساسر۔۔۔۔
آگے بڑھ کر کسی نے چھوا تو پایا کہ وہ تو کب کا ٹھنڈا ہوچکاہے ۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...