اسے کچھ خبرنہ تھی کہ وہ پاگلوں کی بستی میں کیوں آگیاتھا۔اسے سب کے طورطریقے عجیب وغریب لگ رہے تھے۔وہ خوفزدہ تھا۔اسے محسوس ہو رہاتھاجیسے سب ہی اسے عجیب نظروں سے گھوررہے ہیں اورابھی اسے اٹھاکرکسی گہری کھائی میں پھینک دیں گے یاقریب بہتے ہوئے غلیظ نالے کی نذرکردیں گے۔بستی میں عجیب ساشورتھا۔ننگ دھڑنگ بچے گلیوں میں اودھم مچارہے تھے۔وہ خوف زدہ ہورہا تھا کہ کہیں قریب سے گزرنے والی عورتیں اپنالباس اتارپھینکیں گی یااس کے خوبصورت مہکتے کپڑے نوچ ڈالیں گی۔اس لیے خواتین کودیکھتے ہی وہ ان سے فاصلے کومزیدبڑھادیتا۔سڑک پرگزرنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کودیکھتاتواسے یوں لگتاجیسے ان کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی ہو۔اسے یوں لگتاجیسے یہ پاگل ابھی اسے بھاری بھرکم سیاہ ٹائروں کے نیچے روندڈالیں گے اوراس کے شفاف جسم کے چیتھڑے سڑک پربکھرجائیں گے۔اس لیے وہ فٹ پاتھ سے بھی ہٹ کرچلنے لگا۔پیدل چلتے ہوئے اسے بھوک محسوس ہونے لگی۔اس نے ایک دوہوٹلوں کیاندرجھانکامگرپاگلوں کے قہقہوں نے اسے خوف زدہ کردیا۔وہ اس ڈرسے کہ کہیں وہ اسے دہکتے تنورمیں نہ پھینک دیں اوراس کاجسم کوئلوں کی مانندنہ ہوجائے،دورہٹ گیا۔ایک دوربارچلتے ہوئے اس کاسامناکتوں سے ہوا۔اس ’’پاگلوں کی بستی کے کتے بھی توپاگل ہوں گے‘‘سوچتے ہوئے وہ درخت کی اوٹ میں ہوگیاکہ کہیں کتے اس کے نازک جسم کو بھنبھوڑنہ ڈالیں۔وہ لوگوں کے لباس دیکھتاتواسے عجیب سی گھن آتی۔کوئی پاس سے گزرتاتوبدبواس کے نتھنوں میں سرایت کر جاتی۔ایک ہوٹل کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے پیاس محسوس ہوئی۔اس نے اندرجھانکاتواسے مالٹائی رنگ کاکولرنظرآیاجس پرسٹیل کاگلاس دھراتھا۔اس کاجی چاہاکہ آگے بڑھے اورتین چارگلاس غٹاغٹ حلق میں انڈیل لیاورپیاس کی آگ کوبجھادے۔وہ سوچ ہی رہاتھاکہ اس کی نظراندربیٹھے ہوئے مردوزن پرپڑی۔ان کے بال الجھے ہوئے اورلباس غلاظت سے اٹے ہوئے تھے۔جب وہ قہقہے لگاتے توان کے دانت بہت بھیانک نظرآتے۔وہ ہوٹل سے ذرافاصلے پرہوگیااورپیاس بجھانے کاارادہ ترک کردیا۔وہ کھڑاکچھ سوچ ہی رہاتھاکہ ایک آوازفضامیں بلندہوئی، ’’آگے چلے جاؤ‘‘اورساتھ ہی ایک قہقہہ بلند ہوا۔اس کے پیلے نوکیلے دانتوں نے اسے خوفزدہ کردیا۔اسے یوں لگاجیسے یہ پاگل اپنے نوکیلے دانت اس کے جسم میں گاڑدیگااوراس کاساراخون چوس لیگا۔وہ تیزقدم اٹھاتاہواکچھ فاصلے پرآگیا۔اسی لمحے دو ایمبولینس گاڑیاں سائرن بجاتی ہوئی گزریں۔اسے یوں لگاجیسے گاڑیاں سڑک پرخون کاچھڑکاؤکررہی ہیں اورسڑک دھیرے دھیرے سرخی مائل ہوتی جارہی ہے۔وہ خوفزدہ ہوگیااورایک درخت کی اوٹ سے سڑک کودیکھنے لگا۔اسی دوران ایک کتے نے سڑک عبورکرنیکی کوشش کی اورایک ٹرک نے اسے سڑک پرہموارکردیا۔اس کاسرخ خون سڑک پرپھیل گیااوربدبواس کے نتھنوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔وہ بدبو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔دونوں انگلیوں سے اس نے ناک کودبالیامگربدبواس کے نتھنوں میں سرایت کرتی رہی۔وہ درخت کی اوٹ سے نکلااورسڑک سے کچھ فاصلے پرتیزدھوپ میں کھڑاہوگیااس نے آنکھیں بندکرلیں جیسے وہ کچھ بھی نہ دیکھناچاہتاہو۔تیزدھوپ میں اس کی ہمت جواب دینے لگی۔وہ لڑکھڑایااورزمین پربیٹھ گیا۔
ابھی چندلمحے ہی گزرے تھے کہ ایک پاگل خانے کی گاڑی اس کے قریب آکررکی اورتین آدمیوں نے اسے جکڑکرگاڑی میں ڈالااوردروازے کوباہرسے تالا لگادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...