“عیلی اس وجہ سے ٹینشن میں ھے “
“وہ مجھے معاف نہیں کر پا رہی”
“کرے گی بھی کیسے آخر میں نے اس کی بہن کو قتل کیا ھے”
فہد عیلی کے بالوں میں آ ہستہ آہستہ اپنی انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے عیلی کو مسلسل دیکھتے ھوئے سوچ رھا تھا۔۔۔
“تو کیا عیلی مجھ سے الگ ھو جائے گی”
فہد نے دہل کر عیلی کے معصوم سے چہرے کو دیکھا جو کہ گہری نیند میں سوئی ھوئی تھی۔۔۔۔
نہیں نہیں
“میں عیلی کو خود سے دور نہیں کر سکتا “
“میں جیوں گا کیسے عیلی کے بغیر “
“میری تو سانسیں بھی اب صرف عیلی کو دیکھ کر چلتی ھیں”
“اگر یہ خود گرازی ھے تو خودگرزی ہی سہی “
“مگر میں عیلی کو خود سے دور نہیں جانے دوں گا”
فہد نے سوچتے ھوئے اچانک سے عیلی کے چہرے کو زور سے اپنے ھاتھوں میں پکڑا اور پھر عیلی کو غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
انداز جنونی تھا مگر عیلی کی نیند پھر بھی نہ کھلی
شاید یہ انجیکشن کا ہی اثر تھا کہ عیلی کو فہد کی جنونیت اس کی دیوانگی محسوس ہی نہیں ھو رہی تھی ۔۔۔۔
“عیلی اگر اب پسند نہیں کرتی مجھے تو کیا ھوا’ جب وہ میرے ساتھ رھے گی تو اسے میری عادت ھو جائے گی اور مجھے یقین ھے کہ وہ مجھ سے محبت بھی کرنے لگے گی”
“ھاں یہ سہی ھے “
“میں عیلی کو ہمیشہ سنبھال کر اپنے پاس رکھوں گا اپنے قریب،
اور یہ میں تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کر رھا ھوں عیلی”
“آ ئ سویر ،
میں بہت محبت دوں گا تمہیں”
“یار کیا کروں عیلی مجبوری ھے نا اب،
محبت ہی اتنی کرتا ھوں تم سے، کہ تمہارے بغیر یہ دل دھڑکنا ہی چھوڑ دے گا”
“اور پھر تو میں مر جاؤں گا نا عیلی ،اس لئے میرے زندہ رہنے کے لئے مجھے تمہاری ضرورت ھے “
فہد محبت بھری نظروں سے عیلی کے چہرے کو دیکھ اپنے دل کا حال سنا رھا تھا۔۔۔۔۔
کتنی محبت تھی اس وقت اس کی آ نکھوں میں کہ اگر ریلی دیکھ لیتی تو یقیناً وہ فہد سے کبھی دور جانے کا سوچتی بھی نہ۔۔۔۔۔۔
“اور تم تم نے بھی تو اسد کو مارا ھے نا لیکن میں بھی تو سب کچھ بھول گیا ھوں نا عیلی “
“صرف تمہارے لئے”
“تتو مجھے یقین ھے کہ تتم بھی بھول جاؤ گی اپنی بہن کو ،
اور اور مجھ سے محبت کرنے لگ جاؤ گی “
“دیکھنا عیلی تمہیں بھی مجھ سے محبت ھو جائے گی”
فہد عیلی کے چہرے کو اپنے ھاتھ سے پکڑے آ ہستہ آہستہ اپنے انگوٹھے سے عیلی کے گال سہلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ عیلی سے بات بھی کر رھا تھا ۔۔۔۔
اس وقت وہ کوئی پاگل جنونی انسان ہی لگ رھا تھا جو اپنی محبت کو کھونے کے ڈر سے خوفزدہ ہو۔۔۔۔۔
محبت چیز ہی ایسی ھوتی ھے ۔۔۔۔
البتہ تو ھوتی نہیں اور جب کسی سے ھو جائے تو جان لیوا ثابت ہوتی ھے ۔۔۔۔۔
ایسا ہی فہد کے ساتھ ھو رھا تھا۔۔۔۔۔
وہ جو لڑکی کی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی اس کے لئے اس کی زندگی بن جائے گی۔۔۔۔۔
“بس عیلی اب تم ٹھیک ھو جاؤ پھر دیکھنا ہم کیسے دھوم دھام سے اپنا ولیمہ کریں گے،اور تم دیکھنا کہ بابا تم سے مل کر کتنا خوش ھوتے ھیں”
“پھر سب ٹھیک ھو گا “
“تم میں اور بابا ہم تینوں بہت خوش رہیں گے “
“اور میں اپنی محبت سے تمہارے سارے دکھ ساری تکلیفیں ختم کر دوں گا ”
“اور تم دیکھنا کہ تم خود مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرو گی جو تمہیں مجھ سے ھو جائے گی “
فہد کے چہرے پر اس وقت کتنے ہی خواب جگمگا رھے تھے کتنا خوش تھا وہ اس وقت ۔۔۔۔
کتنی فیوچر پلینگ کر رھا تھا اس بات سے انجان کہ ضروری نہیں کہ جو ہم سوچیں ویسا ھو بھی جائے۔۔۔۔
لیکن یہ بات فہد کو کون بتاتا ۔۔۔۔
پھر فہد نے مسکرا کر ریلی کو دیکھتے ھوئے جھک کر اس کی زخمی پیشانی کو اپنے ھونٹوں سے چھوا اور پھر عیلی کے بکھرے ہوئے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا کر سو گیا ۔۔۔۔
عیلی کی صبح آ نکھ اپنی گردن پر کسی کی گرم سانسوں کو محسوس کرنے سے کھلی تو اس نے فہد کو اپنے بے حد نزدیک گہری نیند میں سوئے ہوئے پایا ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی فہد کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی جس سے فہد کی بھی فوراً آ نکھ کھل گئی۔۔۔۔۔
“عیلی تم اٹھ گئی”
فہد نیند سے بھر پور آ واز میں عیلی کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا ۔۔۔۔
کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سویا تھا اس سے پہلے تو وہ اپنی زندگی(عیلی) کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی اپنی بے ترتیب سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
جو کہ فہد کو اپنے نزدیک دیکھ کر گھبرا جانے سے اتھل پتھل ھو گئیں تھیں۔۔۔۔۔
“طبیعت کیسی ھے اب تمہاری “
فہد اب اٹھ کر بیٹھ گیا تھا مگر دیکھ ابھی بھی عیلی کو ہی رھا تھا جبکہ عیلی نے ہلکا سا چہرہ موڑ کر فہد کو دیکھا اور پھر سے اپنا رخ موڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
“اچھا دیکھاؤ مجھے “
“ٹھیک تو ھو تم “
فہد نے عیلی کو خاموش دیکھا تو کھسک کر اس کے قریب ھوا اور پھر اپنےایک ھاتھ سے عیلی کے کاندھے کو پکڑ کر دوسرے ھاتھ سے اس کی پیشانی چیک کرنے لگا ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی کو فہد کی موجودگی میں سانس رکتی ھوئی محسوس ھو رہی تھی اور اب تو فہد کی یہ حرکت تو گویا آگ پر تیل کا کام کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
تبھی عیلی سر جھکائے گہری گہری سانسیں لینے لگی
جیسے کہ آ کسیجن کی کمی ھو گئی ھو ۔۔۔۔۔
فہد نے غور سے عیلی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھی اور پھر اٹھ کر عیلی سے دور کھڑا ھو گیا۔۔۔۔۔
“تم فریش ھو جاؤ “
“میں تمہارے لئے ناشتہ لے کر آ تا ھوں”
فہد نے گھبرائ ھوئی عیلی کو دیکھ کر کہا اور پھر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ عیلی فہد کو جاتا ھوا دیکھنے لگی اور پھر لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو ریلیکس کرنے لگی۔۔۔۔۔
“بھائی جی بلایا آ پ نے “
فہد اس وقت عیلی کو جوس کا پکڑا رھا تھا جبکہ ناشتہ وہ عیلی کو کروا چکا تھا اور عیلی نے بھی بغیر انکار کیے فہد کے ھاتھ سے ناشتہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔
اور اب فہد کے ھاتھ سے جوس کا گلاس بھی پکڑنے لگی تھی جب اچانک سے قاسم بولتے ھوئے کمرے میں داخل ھوا۔۔۔۔۔
“عیلی تم جوس پیؤ میں ابھی واپس آ تا ھوں “
“تب تک جوس ختم کر لینا پھر میڈیسن بھی کھانی ھے تمہیں “
“اوکے”
فہد نے جواب طلب نظروں سے عیلی کو دیکھا تو عیلی نے جھکے سر کو کچھ اور بھی جھکا لیا تو فہد ہلکا سا مسکرا کر قاسم کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
عیلی کو خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ فہد کی باتیں چپ چاپ کیوں مان رہی ھے شاید فہد کے اتنی محبت سے ناشتہ کروانے پر وہ اسے انکار کر ہی نہیں سکی ۔۔۔۔۔۔
اس لئے اب بھی وہ فہد کے بارے میں سوچتے ھوئے آہستہ آہستہ جوس پینے لگی ۔۔۔۔۔۔
“بھائی جی خیریت تو ھے “
“آ پ نے صبح صبح ہی کال کر دی میں تو جی ڈر ہی گیا، کہ اللہ خیر کرے ایسا کیا ھو گیا ھے ،جو آ پ نے مجھے یاد کیا “
قاسم حیرانگی سے فہد کے روشن چہرے کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
کیونکہ فہد نے صبح کے 7 بجے قاسم کو کال کر کے فارم ھاؤس پر بلایا تھا۔۔۔۔
اور خود عیلی کے لئے ناشتہ تیار کر کے اسے ناشتہ کروا رھا تھا جب قاسم گھبرایا ھوا کمرے میں داخل ھو کر بولا ۔۔۔۔۔
اور اب بھی وہ فہد سے جلدی بلانے کی وجہ پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
جبکہ فہد مسلسل مسکرا کر قاسم کو دیکھ رھا تھا ۔۔۔۔۔
“بھائی جی کیا ھوا”
” آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رھے ھیں جی”
قاسم نے فہد کے بلا وجہ مسکرائے جانے پر اس سے وجہ پوچھی کیونکہ اسے فہد کی ذہنی حالت پر شبہ ھو رھا تھا کہ کہیں عیلی کی طبیعت خرابی کی وجہ سے فہد کی ذہنی حالت خراب تو نہیں ہو گئی۔۔۔۔۔
“قاسم یار مجھے تمہاری ہیلپ چاھیے “
“بس یہ سمجھ لو کہ اب سب کچھ تمہیں ہی سنبھالنا ھے،
کیونکہ مجھے تو اب عیلی کی دیکھ بھال کرنی ھو گی، تاکہ وہ ایک دو دنوں میں ہی بالکل فٹ ھو جائے”
فہد ابھی بھی مسکراتے ھوئے قاسم سے بات کر رھا تھا جبکہ قاسم بھی مسکرا کر فہد کو دیکھنے لگا اور پھر جلدی سے بولا۔۔۔۔
“خادم حاضر ھے بھائی جی “
“آ پ حکم کریں کہ میں آ پ کی کیا خدمت کر سکتا ھوں”
قاسم وفاداری کا مکمل ثبوت پیش کر رھا تھا جبکہ فہد کی مسکراہٹ قاسم کے اس انداز پر کچھ اور گہری ھوئی ۔۔۔۔
“یار قاسم مجھے دو تین دنوں تک میرا اور عیلی کا ولیمہ کروانا ھے، تو یہ سارے انتظامات تم سنبھالو گے “
“کیونکہ یار مجھے لگتا ھے کہ یہ سہی وقت ھے اس طرح ایک تو عیلی کی حالت سدھر جائے گی ،اور دوسرا میں عیلی کو لے کر بابا سائیں کے پاس چلا جاؤں گا’ کیونکہ مجھے ان کی بھی فکر رہتی ھے “
“اور آ ج وکیل سے بھی بات کرو تم”
“میں اپنی ساری پراپرٹی عیلی کے نام کروانا چاہتا ہوں ،
تو یہ کام تم آ ج ہی کر دینا “
“مجھے یقین ھے کہ تم سب سنبھال لو گے “
“میں سہی کہہ رھا ھوں نا قاسم “
فہد نے شوکڈ سے بیٹھے قاسم کو پکارا تو وہ ہوش میں واپس آیا اور پھو زبردستی ہلکا سا مسکرا کر سر کو ھاں میں ہلا کر جلدی سے اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
جبکہ فہد اپنی خوشی میں قاسم کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو نوٹ ہی نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔
جو کہ یہ نیوز سن کر ہی بدل گئے تھے۔۔۔۔
“پی لیا جوس “
“ویری گڈ “
فہد جب دوبارہ کمرے میں داخل ھوا تو عیلی خالی گلاس اپنے ھاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔
تو فہد مسکرا کر چلتے ھوئے عیلی کے پاس آ یا اور پھر گلاس پکڑ کر اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ھوئے کہا۔۔۔۔
جبکہ عیلی بغیر کوئی جواب دیے چپ چاپ بیٹھی رہی۔۔۔۔
مگر فہد عیلی کو مسلسل اپنی لو دیتی نظروں کے ساتھ گھورے جا رھا تھا۔۔۔۔
جس سے عیلی گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
اور فہد سے اپنی یہی گھبراہٹ چھپانے کے لیے نظریں جھکا کر گود میں رکھے اپنے ھاتھوں کو مروڑنے لگی ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی کو اس طرح کرتے دیکھ کر فہد کی مسکراہٹ اور گہری ھو گئی ۔۔۔۔۔۔
تو فہد عیلی کو اور تنگ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے عیلی کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اسے محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
“یو نو عیلی”
“میں نے ایک بات نوٹ کی ھے”
“کہ تم بہت فرمابردار ھو “
“تو کافی اچھی زندگی گزرنے والی ھے، ہم دونوں کی
میں جو جو کہتا جاؤں گا ،تم وہ وہ مانتی جاؤ گی”
“بس ایسے ہی ہم بڑھے ھو جائیں گے “
“اور پھر اپنے پوتوں پوتیوں کو اپنی لو سٹوری سنائیں گے”
“کہ کیسے ان کے دادا کو ان کی دادی سے محبت ھوئی تھی”
فہد مسکرا کر عیلی کو دیکھتے ہوئے بول رھا تھا ۔۔۔۔۔جبکہ عیلی کا چہرہ اب مکمل سرخ ھو چکا تھا ۔۔۔۔اسی لئے وہ جلدی سے اٹھ کر باہر جانے لگی ۔۔۔۔جبکہ فہد نے بہت پھرتی کے ساتھ عیلی کے ھاتھ کو پکڑ کر اسے دوبارہ بیڈ پر بیٹھا دیا۔۔۔۔۔
“یہ کیا بات ھوئی عیلی “
ھاں ‘
“میڈیسن نہیں کھانی ھے کیا “
“بہت لاپروا ھو تم “
“اب نا تمہارے یہ نخرے نہیں چلیں گے “
“جلدی سے ایک دو دنوں میں ٹھیک ھو جاؤ “
“کیونکہ مجھے میری پیاری سی عیلی ولیمے کے دن بالکل ٹھیک بالکل فٹ چاھیے”
“اس بات پر میں کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا “
فہد مسلسل مسکراتے ھوئے عیلی کو دیکھ کر بول رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ عیلی کا چہرہ ہر گزرتے لمحے حیران پریشان سا ھوتا جا رھا تھا ۔۔۔۔۔
“سمجھ آئی”
“میری کیوٹ سی عیلی”
فہد نے جب عیلی کو شوکڈ سا خود کو دیکھتے ہوئے پایا تو ہلکا سا جھک کر عیلی کے ناک کو دبا کر بولا ۔۔۔۔۔
جس سے عیلی کرنٹ کھا کر فوراً واپس ھوش میں آئی اور پھر فہد کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر فہد کو غصے میں گھورتی ھوئی بولی ۔۔۔۔۔
“کیا کہا آ پ نے کہ ولیمہ ھے میرا اور آ پ کا “
“کیسے کر سکتے ھیں آ پ یہ “
“یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے آ پ کے ساتھ نہیں رہنا “
“یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے آ پ سے شدید نفرت ھے “
“قاتل ھیں آ پ میری بہن کے “
“اور آ پ کے ساتھ رہنے سے اچھا ھے ، کہ میں خودکشی کر لوں “
“مار ڈالا آ پ نے میری بہن اور میرے بابا کو “
عیلی غصے سے چیختی ھوئی آ خر میں رو کر زمین پر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ اپنے دل میں فہد کے لیے پیدا ھونے والی محبت کے ھاتھوں مجبور ھو کر اسے مارنے کا ارادہ ترک کرتے ھوئے یہاں سے چپ چاپ چلے جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔
مگر اب فہد نے اس سے ولیمے کی بات کر کے گویا اس کے زخموں کو دوبارہ سے ہرا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
اسی لئے وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے فہد سے وہ باتیں بھی کر گئ۔۔۔۔۔ جو وہ کبھی نارمل حالات میں تو نہ کرتی۔۔۔۔۔
جبکہ فہد پہلے تو کچھ دیر عیلی کو روتا ھوا دیکھتا رھا۔۔۔۔ مگر پھر غصے میں چلتا ھوا عیلی کے پاس آ یا اور پھر اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا کر اپنے مقابل کھڑا کیا ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی بھیگی بھیگی پلکوں سے شوکڈ سی کھڑی فہد کو دیکھنے لگی اور پھر کچھ دیر بعد اپنی بازو فہد کے مضبوط ھاتھ سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
مگر فہد غصے کی وجہ سے سرخ ھوتی آ نکھوں کے ساتھ چپ چاپ کھڑا عیلی کی ناکام سی کوشش کو دیکھتا رھا۔۔۔۔
“چھوڑیں میرا بازو”
“مت چھوا کریں مجھے”
“گن آ تی ھے مجھے آ پ کے وجود سے “
“نفرت کرتی ھوں میں آ پ سے اتنی سے بات سمجھ کیوں نہیں آ تی آ پ کو “
عیلی کافی دیر تک فہد سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرنے کے بعد آ خر میں چیخ کر فہد سے بولنے لگی۔۔۔۔۔
جبکہ فہد نے عیلی کی بات سنتے ہی جھٹکا دے کر عیلی کا بازو چھوڑا اور پھر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ عیلی کی کمر میں ڈالا ۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے ھاتھ کو پیچھے سے عیلی کی گردن میں ڈال کر عیلی کو اپنے قریب کیا ۔۔۔۔۔۔
جس سے عیلی اب اپنے ایڑھیاں اونچی کیے فہد کے بے حد قریب کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
اور فہد کی سرخ نظروں کو اپنے چہرے پر گڑھتا ھوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
“گن آ تی ھے تمہیں میرے چھونے سے “
“کیونکہ نفرت کرتی ھو تم مجھ سے”
لیکن کیوں ؟؟؟
“ھاں بولو “
“کیونکہ تمہاری بہن کا قتل کیا ھے میں نے “
“ھاں یہی وجہ ھے نا “
“بٹ فار یور کائنڈ انفرمیشن عیلشاہ فہد مصطفیٰ قاتل آپ بھی ھیں میرے بھائی کی”
“جان آ پ نے بھی لی ھے کسی انسان کی”
“اگر میں قاتل ھوں تو بے گناہ تم بھی نہیں ھو”
” میں نے بہت مشکل سے اسد کا خون معاف کیا ھے تمہیں ،اس گلٹ کے ساتھ کہ میں بھی تمہاری بہن کو مار چکا ھوں “
“اس لئے دوبارہ مجھ سے اس موضوع پر تم کوئی بات نہ کرو، تو ہی بہتر ھو گا تمہارے لیے”
فہد مسلسل عیلی کی برستی ھوئی آ نکھوں میں اپنی سرخ آ نکھیں گاڑھے اس سے کاٹ دار لہجے میں بات کر رہا تھا ۔۔۔۔۔جبکہ عیلی فہد کی گرم سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے خود کو جلتا ھوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور اس سے زیادہ فہد کی باتیں جو اسے پاگل کرنے کے لئے کافی تھیں ۔۔۔۔۔۔
وہ جو یہ سوچی بیٹھی تھی کہ اسد کے سر پر اتنی زور سے بھی واز نہیں لگا تھا ۔۔۔۔۔تو یقیناً وہ بچ گیا ھو گا اور عیلی قتل جیسے گناہ سے بچ گئی ھو گی ۔۔۔۔۔
کیونکہ فہد کا رویہ بھی دیکھ کر اسے یہی لگا تھا کہ اسد بچ گیا ھو گا ۔۔۔۔۔ورنہ فہد کہاں عیلی کو زندہ چھوڑتا ۔۔۔۔۔
حالانکہ سنجا بی نے یہ بات عیلی کو بتائ بھی تھی کہ اسد کی موت ھو چکی ھے ۔۔۔۔۔مگر تب عیلی کا دھیان اپنے پلین کی طرف تھا ۔۔۔۔ کہ کس طرح وہ فہد کو خود سے شادی کرنے کے لئے منا سکے اور پھر فہد کے پاس رہ کر اسے جان سے مار سکے۔۔۔۔ اس لئے وہ اس بات پر غور نہیں کر سکی ۔۔۔۔ مگر اب فہد کی بات سن کر عیلی کو مرتا ھوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ بات ہی اس کے لئے اذیت کا باعث تھی۔۔۔۔ کہ وہ ایک قاتل ھے ۔۔۔۔
اسی لئے عیلی کو اپنی سانسیں رکتی ھوئی محسوس ھو رہی تھی۔۔۔۔ تو وہ فہد کو دیکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔۔۔
اور فہد کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اسے خود سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔
جبکہ فہد نے جب عیلی کی ایسی حالت دیکھتی تو عیلی کو خود سے الگ کر کے اسے بیڈ پر بیٹھا کر خود جلدی سے گلاس میں پانی ڈالنے لگا ۔۔۔۔۔۔
“پانی پیو عیلی “
فہد پریشانی سے عیلی کے منہ کے قریب گلاس کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی نے آ نسوں بھری نظروں سے فہد کو دیکھا اور پھر پانی پینے لگی ۔۔۔۔۔۔
“یہ سچ ھے عیلی کہ تمہارے ھاتھوں اس رات اسد کی موت ھو چکی ھے”
“اور میرا یقین مانو اگر تم بے گناہ ھوتی تو میں کبھی تمہیں بغیر تمہاری مرضی کے اپنے پاس نہ رکھتا”
“مگر اب جتنا میں بے گناہ ھوں اتنی تم بھی ھو “
“اس لئے اب میں تمہارے منہ سے یہ نہ سنو کہ تمہیں مجھ سے نفرت ھے “
فہد نے سخت لہجے میں عیلی سے کہا اور فوراً کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ چاہتا تھا۔۔۔۔ کہ عیلی کچھ دیر اکیلی رہ کر سوچ سکے اور خود کو سنبھال بھی لے۔۔۔۔۔
فہد کو عیلی کی ایسی حالت پر تکلیف تو ھو رہی تھی۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کرنا ضروری تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ عیلی فہد کی نرمی کا ناجائز فائیدہ اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
فہد عیلی کو کبھی بھی خود سے دور نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ مگر عیلی کے سامنے وہ یہ بات کر گیا تھا۔۔۔۔
“کہ اگر وہ بے گناہ ھوتی تو وہ اسے چھوڑ دیتا “
کیونکہ فہد یہ جانتا تھا کہ عیلی کونسا بے گناہ ھے۔۔۔۔ جو وہ عیلی کو کبھی خود سے الگ کرتا ۔۔۔۔۔
“یعنی اب عیلی ہمیشہ اس کے پاس رھے گی “
فہد نے مسکرا کر سوچا اور پھر اپنے سپیشل روم کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔
“ایسے کیسے کر سکتے ھیں بھائی جی میرے ساتھ “
“اتنے سال چاپلوسی میں نے کی ان کی, اور ساری دولت اس کل کی آئی لڑکی کے نام کر رھے ھیں “
“وہ بھی جسے صرف ایک دفعہ دیکھا اور محبت سمجھ کر شادی کر لی “
قاسم اپنے کمرے میں بیٹھا ڈرنک کر رھا تھا۔۔۔۔جو کہ وہ فہد کی جب ڈرنکس لینے جاتا تھا۔۔۔۔ تو ان میں سے کچھ اپنے لئے بھی رکھ لیتا تھا ۔۔۔۔
اور اب انہی ڈرنکس میں سے ایک بوتل نکال کر پی رھا تھا۔۔۔۔۔
“سالی چھٹانک بھر کی چھوکری “
“اتنے امیر انسان کو پھنسا کر ساری دولت اکیلے ہڑپنا چاہتی ھے”
قاسم نے غصے میں عیلی کو برا بھلا کہتے ھوئے زور سے سٹیل کا گلاس(جس میں وہ ڈرنک کر رھا تھا) زمین پر پٹخا اور پھر بوتل کو منہ لگا کر شراب پینے لگا۔۔۔۔۔
“سالی مجھے”
“مجھے کنگلا کرنا چاہتی ھے “
“لیکن میں کیسے اپنے اتنے سالوں کی محنت ضائع ھونے دوں گا “
“کیا کچھ نہیں کیا میں نے اس دولت کو حاصل کرنے کے لئے”
“اسد بھائی کا قتل بھی تو اسی دولت کو حاصل کرنے کے لیے کیا تھا اور پھر سارا الزام اس چھوکری پر لگا دیا “
“لیکن نہیں فہد سائیں کو تو کچھ نظر ہی نہیں آ تا اپنی اس گھٹیا محبت کے آ گے”
“اپنے بھائی کا قتل بھی معاف کر دیا ،اس چھوکری کے پیچھے “
“ویسے بڑے محبت کے دعوے کرتے تھے”
“اسد میرا بچہ ھے “
قاسم نے منہ بگاڑتے ھوئے فہد کی نقل اتاری اور پھر سے بوتل کو منہ لگا لیا۔۔۔۔
“کچھ نہیں ھے وہ “
“فہد سائیں کچھ نہیں”
“اب لڑکی مل گئی تو سب بھول گئے “
“بھئ عورت چیز ہی ایسی ھے”
“لیکن بس اب نہ رھیں گے فہد سائیں اور نہ ان کی محبت،
اور جب فہد سائیں ہی اللّٰہ کو ہمیشہ کے لیے پیارے ھو جائیں گے، تو اس چھوکری کو تو میں خود سنبھال لوں گا “
قاسم خبثت سے بولا
اور پھر گٹا گٹ شراب پینے لگا ۔۔۔اس بات سے انجان کہ زینب کو گلاس گرنے کی آواز سن کر قاسم کے کمرے کی طرف آ ئ تھی ۔۔۔۔
وہ سب باتیں اور قاسم کی پلینگ سن چکی ھے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...