فون کیے ہوئے تقریباً دس پندرہ منٹ گزر گئے تھے مگر ابھی تک کوئی نہ آیا تھا… محمود کا ایک ایک منٹ انتہائی بےچینی سے گزر رہا تھا… اس نے ہمت کر کے باہر کی طرف جھانک کر دیکھا تو اسے نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا… اسے بڑی حیرت ہوئی… وہ شیرازی صاحب کی کوٹھی سے باہر نکل آیا…
پھر بھی اسے کوئی نظر نہ آیا… اب تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی… وہ دیوار سے لگا لگا اپنے دروازے کی طرف بڑھنے لگا یہاں تک کہ وہ دروازے تک پہنچ گیا…
اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا… تھوڑا سا دباؤ ڈالا اس طرح کہ کوئی آواز پیدا نہ ہو سکی, دروازہ اندر سے بند تھا…
نقاب پوش کے ساتھی باہر نہیں تھے… اس کے دو ہی مطلب نکالے جا سکتے تھے یا تو وہ لوگ چلے گئے ہیں یا پھر اندر موجود ہیں… دوسری صورت اس کے لیے حد درجہ تشویش ناک تھی مگر وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا…
وہ پھر دیوار کے ساتھ چلتا ہوا شیرازی صاحب کے دروازے تک پہنچ گیا… یکایک دور کسی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس نظر آئیں اور اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا… پھر اس گاڑی کی بتیاں بجھ گئیں… چند سیکنڈ بعد ہی ایک سایہ رینگتے ہوئے اس کے پاس پہنچ گیا… یہ پولیس انسپکٹر تھا…
“کیا تم محمود ہو؟”
“جی ہاں…”
“کیا بات ہے؟” انسپکٹر نے ریوالور گھماتے ہوئے کہا…
“آپ اپنے آدمیوں سمیت میرے پیچھے آیئے…”
“کچھ بتاؤ بھی تو…”
“ابھی کچھ نہ پوچھیں, یہ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے… میرا خیال ہے کہ وہ لوگ ہمارے گھر کے اندر ہیں اور خدا معلوم اندر کیا حال ہو… لہٰذا سب سے پہلے اندر والوں کو بچانے کی کوشش کریں… بات تو بعد میں بھی معلوم ہو جائے گی…”
“آل رائٹ…” اس نے اپنے آدمیوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی محمود کے پیچھے چلنے لگا…
“دروازہ اندر سے بند ہے, میں دروازے پر دستک دے کر اپنا نام بتاؤں گا تا کہ وہ لوگ اندر ہی ہوشیار نہ ہو جائیں…” محمود نے سرگوشی کی…
محمود دروازے پر پہنچ گیا اور آہستہ سے دستک دی…
“کون ہے؟” اندر سے پوچھا گیا… آواز سن کر محمود کا دل دھڑکنے لگا…
“میں ہوں محمود, دروازہ کھولو…”
“تم کہاں چلے گئے تھے, چلو ادھر…” نقاب پوش کے ساتھی نے دروازہ کھولتے ہی اسے بازو سے پکڑ لیا اور اندر گھسیٹ لے گیا… جلدی میں اس نے دروازہ بھی بند نہ کیا تھا…
کمرے کے اندر نقاب پوش فاروق سے کہہ رہا تھا…
“ہاں اب بتاؤ…”
“نہیں بتاتا…” فاروق پھر اڑ گیا…
“اچھا یہ بات ہے تو میں دوبارہ شکنجہ کسے دیتا ہوں…”
“کس دو…” فاروق نے لاپروائی سے کہا…
“شاباش!” بیگم جمشید کے منہ سے نکلا…
“ابھی تمہاری شاباش دھری رہ جائے گی…” نقاب پوش اور چڑ گیا…
وہ شکنجہ لے کر پھر بیگم جمشید کی طرف بڑھا اسی وقت دروازہ کھلا… اس کا ساتھی محمود کو لیے اندر داخل ہوا…
“بہت خوب, کہاں تھا یہ؟”
“خدا جانے باس, اس نے دروازے پر دستک دی تھی…”
“اس کے ساتھ کوئی اور تو نہیں تھا؟”
“نہیں باس یہ تنہا ہی تھا…”
“کہاں گئے تھے؟” نقاب پوش نے گرجتے ہوئے کہا…
“میں ذرا گھومنے گیا تھا…”
“بکواس نہ کرو مگر تم گھر سے نکلے کیسے؟” نقاب پوش ابھی تک حیران تھا…
“ہوا میں تحلیل ہو کر…”
“دیکھا…… میں نے کہا تھا نا کہ ہوا میں تحلیل ہو کر گیا ہو گا…” فاروق بول اٹھا…
“بڑی زبان چل رہی ہے…” اس نے غرا کر کہا…
“ابھی علاج کر لیتا ہوں…”
“میرا یا اپنا…” فاروق بولا… وہ محمود کو دیکھ کر شیر ہو گیا تھا…
“خاموش رہو… اور صرف یہ بتاؤ کہ پیکٹ کہاں ہے؟”
“یہیں ہے مگر اب تمہارے فرشتے بھی اسے نہیں پا سکتے…”
“فرشتوں کی بات چھوڑو… اسے تو ہم خود ہی پا لیں گے…”
“تو پھر پاؤ…”
“لو اس میں انگلیاں ڈالو…” اس نے شکنجہ محمود کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا…
“یہ کیا ہے؟”
“زبان کھلوانے کا آلہ…”
“اچھا….” محمود نے مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا…
نقاب پوش نے شکنجہ اس کی طرف بڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ دروازہ زوردار آواز کے ساتھ کھلا… انسپکٹر پولیس کے ہاتھ میں ریوالور تھا…
“خبردار, کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے…”
وہ چونک اٹھے… فاروق اور بیگم جمشید کے چہرے خوشی سے کِھل اٹھے…
“ہاتھ اوپر اٹھا لو…” انسپکٹر نے حکم دیتے ہوئے کہا…
“بہت اچھا جناب….” نواب پوش نے کہا اور ہاتھ اٹھانے لگا, لیکن انسپکٹر یہ نہ دیکھ سکا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز موجود ہے… اسے تو اس وقت ہوش آیا جب چاقو اس کے ہاتھ میں پیوست ہو گیا تھا اور ریوالور چھوٹ کر زمین پر گر گیا تھا…
نقاب پوش کے ایک ساتھی نے آگے بڑھ کر ریوالور پر جھپٹا مارا اور اٹھتے ہوئے بولا…
“اب تم ہاتھ اوپر اٹھاؤ…”
“انسپکٹر کے ہاتھ سے چاقو نکال کر اپنے قبضے میں کر لو…” نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی کو حکم دیتے ہوئے کہا…
“اب پھر حالات میرے کنٹرول میں ہیں اور میں اپنا سوال دہراتا ہوں… تم پیکٹ کا پتا فوراً بتا دو ورنہ میں سب کو گولی مار دوں گا…”
ہر کسی کو سانپ سونگھ گیا تھا… فاروق اور بیگم جمشید کے چہرے ایک بار پھر مرجھا گئے تھے…
“تم نہیں بتاؤ گے…….. تو یہ لو…” نقاب پوش نے یہ کہہ کر ریوالور کی لبلبی دبانے کی کوشش کی لیکن عین اس وقت ایک فائر ہوا اور اس کے ہاتھ سے ریوالور اچھل کر زمین پر گر پڑا… انسپکٹر نے ریوالور پر چھلانگ لگائی اور اسے اٹھا لیا…
“خبردار اگر کسی نے اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی کوشش کی, میں گولی مارنے سے دریغ نہیں کروں گا…” دروازے کے باہر سے گرجدار آواز آئی…
وہ سب ساکت کھڑے رہ گئے…
“انسپکٹر صاحب’ اپنے آدمیوں کو حکم دیں کہ وہ نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں کے ہتھیار اپنے قبضے میں کر لیں…” آواز پھر آئی اور پولیس انسپکٹر کے آدمیوں نے انسپکٹر کا حکم ملنے کا انتظار بھی نہ کیا’ فوراً ہی چار کانسٹیبل آگے بڑھے اور چاروں کی جیبوں سے پستول اور چاقو نکال لیے… انسپکٹر پولیس اپنے زخمی ہاتھ پر رومال باندھنے لگا…
“بہت خوب!” آواز پھر آئی… “اب میرے اندر آنے میں کوئی مضائقہ نہیں, کیونکہ صورت حال پوری طرح ہمارے قابو میں ہے…” ان الفاظ کے خاتمے پر ایک لمبا تڑنگا نوجوان اندر داخل ہوا…
“انکل اکرام!” محمود مسرت سے لبریز لہجے میں بولا…
“ہاں بھئی! میں دراصل پولیس پارٹی سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا مگر میں نے سوچا کہ پہلے یہ لوگ آ جائیں… پھر حالات کے مطابق دخل دوں گا… اب بتاؤ قصہ کیا ہے؟”
“قصہ بہت طویل ہے اطمینان سے سنانا پڑے گا……. کیوں نہ ہم پہلے ان چاروں کو باندھ لیں…” محمود نے تجویز پیش کی…
“یہ بھی ٹھیک ہے…”
کانسٹیبلوں نے نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ پشت پر باندھنے شروع کر دیے… ہاتھوں کے بعد ان کے پاؤں کی باری آئی اور اب وہ چاروں بےبسی کی حالت میں زمین پر پڑے تھے… نقاب پوش کا چہرہ نقاب کے پیچھے تھا… پھر بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت ضرور غصے کے مارے پاگل ہو رہا ہو گا…
“ہاں تو محمود… اب بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ انسپکٹر صاحب آپ بھی بیٹھ جائیں اور کانسٹیبلوں سے بھی کہیں بیٹھ جائیں…”
وہ سب لوگ بیٹھ گئے اور محمود نے اپنی کہانی شام کے واقعے سے شروع کی جب انہوں نے ٹیلیفون پر قتل کا حکم دیتے ہوئے سنا تھا…
“کیا تم ٹیلیفون کرنے والے کو پہچانتے ہو؟” انسپکٹر اکرام نے پوچھا…
“جی نہیں, کیونکہ اس نے اپنا چہرہ ہیٹ کے ذریعے کافی حد تک چھپایا ہوا تھا… البتہ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وضع قطع بالکل ان صاحب کی طرح تھی…” محمود نے نقاب پوش کی طرف اشارہ کیا…
“اور میرا خیال ہے کہ وہ یہی تھا…” فاروق نے بھی اپنا شک ظاہر کر دیا…
“بہت خوب, خیر اپنی کہانی جاری رکھو…” اکرام نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا…
محمود پھر کہانی سنانے لگا… پیکٹ دفن کرنے کا ذکر آیا.. ساتھ ہی فرزانہ کا بھی…
“اب فرزانہ کہاں ہے؟” انسپکٹر اکرام نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا…
“خدا جانے کہاں ہے… جہاں وہ ہے’ پیکٹ بھی وہیں ہو گا اور جہاں تک میرا خیال ہے’ وہ پائیں باغ کے کسی درخت میں بیٹھی ہو گی…”
“اوہ خدا کے بندے’ تم اطمینان سے بیٹھے کہانی سنا رہے
ہو… چلو پہلے چل کے اس کی خبر لینی چاہیے نہ جانے وہ کس حال میں ہو گی…”
“ہاں بہتر یہی ہے کہ پہلے فرزانہ کو ڈھونڈ لیں…” بیگم جمشید نے کہا…
“جی ہاں.. کیوں نہیں..”
“چلیں پہلے پائیں باغ میں چل کر دیکھتے ہیں…” محمود بولا…
“انسپکٹر صاحب’ آپ اپنے کانسٹیبلوں سمیت یہیں رہیں… ان میں سے کوئی حرکت نہ کرنے پائے…”
“آپ مطمئن رہیں…”
محمود’ فاروق’ ان کی امی اور اکرام پائیں باغ میں آئے… محمود اور فاروق کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں… باغ میں پہنچ کر محمود نے آواز لگائی…
“فرزانہ! تم کہاں ہو’ اب کوئی خطرہ نہیں رہا…” محمود نے پکارتے ہوئے کہا…
دفعتہً ایک درخت کی شاخیں ہلیں…
“میں یہاں ہوں… کیا سب معاملہ درست ہے؟”
فرزانہ کی آواز سنتے ہی سب کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے…
“ہاں بالکل… تم نیچے اتر آؤ…” سب انسپکٹر اکرام نے مسکراتے ہوئے کہا…
تھوڑی دیر بعد فرزانہ درخت سے اتر رہی تھی… اس طرح کہ پیکٹ اس کے منہ میں دبا ہوا تھا…
“شاباش فرزانہ! تم نے بہت عقل مندی سے کام لیا… اگر تم ایسا نہ کرتیں تو یہ پیکٹ ضرور بدمعاشوں کے ہاتھ لگ جاتا مگر تمہیں یہ خیال آیا کیسے؟” انکل اکرام نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا…
“شکریہ انکل! بات یہ ہے کہ جب محمود اور فاروق پیکٹ گڑھے میں دبا رہے تھے تو میں اسی وقت یہ سوچنے لگی تھی کہ اگر پیکٹ کہ تلاش میں کچھ لوگ ادھر آ گئے تو کیا ہو گا…کیا وہ سختی کر کے پیکٹ کا پتا لگانے میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے… اور یہی سوچتے سوچتے وہ وقت آ
گیا… امی دروازہ کھولنے گئیں تو میں دیوار سے چپکی ہوئی تھی… چاروں بدمعاش اندر آتے ہی امی کو محمود اور فاروق کے کمرے کی طرف لے گئے اور میں دروازے سے باہر نکل گئی… بس میں نے پیکٹ گڑھے سے نکالا اور درخت پر چڑھ گئی… اس درخت پر میں پہلے بھی کئی مرتبہ چڑھ چکی ہوں… اس کی شاخوں میں چھپنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہے اگر میرے کپڑے سبز نہ ہوتے تو بھی وہ لوگ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے…”
“جب وہ لوگ ٹارچوں سے پائیں باغ میں تلاشی لے رہے تھے تو تم کہاں تھیں؟” فاروق نے پوچھا…
“میں اسی درخت پر تھی… کیا وہ لوگ مجھے تلاش کر رہے تھے؟”
“نہیں…….. انہیں ہم نے تمہارے متعلق تو بتایا ہی نہیں
تھا… اگر بتا دیتے تو پھر شاید وہ تمہیں تلاش کر ہی لیتے… وہ تو یہاں پیکٹ تلاش کرتے رہے تھے…”
“بھئی بہت خوب تم نے یہ بھی بہت عقل مندی کا کام کیا کہ فرزانہ کا نام تک ان لوگوں کے سامنے نہیں لیا…”
“اچھا اب چلو ذرا یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ لوگ ہیں کون اور اس پیکٹ میں کیا ہے؟”
پھر وہ اسی کمرے میں آئے… ہر کوئی اپنی جگہ پر موجود تھا… اکرام نے پیکٹ ان چاروں کے سامنے لہرایا…
“یہ ہے وہ پیکٹ جس کی تمہیں تلاش تھی… ان ننھے جاسوسوں نے تمہیں شکست فاش دی ہے… اتنی بڑی شکست شاید تم نے زندگی میں کبھی نہ کھائی ہو اور اس بچی نے تو کمال ہی کر دیا… بس یوں سمجھو اس رات میں سب سے بڑا کارنامہ اسی نے انجام دیا ہے… اب ذرا میں یہ دیکھوں کہ اس پیکٹ میں کیا ہے جس کے بغیر تمہاری جان پر بن گئی تھی…”
یہ کہہ کر انکل اکرام نے پیکٹ کھول ڈالا… اس میں کچھ کاغذات تھے… کاغذات کے سوا کچھ نہیں تھا… وہ کاغذات کو پڑھنے لگا… جوں جوں وہ پڑھتا گیا اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیلتی چلی گئیں… یہاں تک کہ اس نے تمام کاغذات پڑھ لیے…. اب اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں حالانکہ یہ گلابی جاڑے کے دن تھے…
“اف خدایا! رحم ہی ہو گیا تیرا اس ملک پر…. اس قوم پر…” وہ بڑبڑائے…
“انکل! آخر ان کاغذات پر کیا لکھا ہے؟” محمود نے بےچینی سے پوچھا…
“یہ تمہارے جاننے کی باتیں نہیں ہیں اور نہ میں تمہیں بتا ہی سکتا ہوں’ کیونکہ قانوناً مجھے اس کی اجازت نہیں… صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ کاغذات ان کے ہاتھ لگ جاتے تو ملک کو بہت نقصان پہنچتا… ملک کے بعض ایسے قیمتی راز دشمن کے ہاتھ لگ جاتے کہ ہم کہیں کے نہ رہ جاتے… تم تینوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجان دیا ہے جو میں بیان نہیں کر سکتا…” یہ کہہ کر انسپکٹر اکرام نے اپنے ایک ماتحت کر حکم دیا…
“اس کا نقاب اتار دو…” یہ سن کر ماتحت آگے بڑھا اور نواب پوش کا نقاب کھینچ لیا… دوسرے ہی لمحے محمود, فاروق, فرزانہ اور بیگم جمشید کے منہ سے چیخیں نکل گئیں… ان کے سامنے شیرازی صاحب کھڑے تھے… ان کے پڑوسی, جن کے گھر وہ اکثر فون کرنے کے لیے جاتے تھے اور جن کی بیگم ان سے بہت پیار اور محبت سے پیش آتی تھیں… وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ نقاب کے پیچھے ان کے شوہر کا چہرہ بھی ہو سکتا ہے… ابھی وہ پتھر کے بتوں کی طرح کھڑے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی… وہ اُچھل پڑے…
………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...