سکندر عثمان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد وہ ساری رات اس تمام معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ پہلی بار اسے ہلکا سا افسوس اور پچھتاوا ہوا تھا۔اسے امامہ ہاشم کو اس کے کہنے پر فوراً طلاق دے دینی چاہئیے تھی پھر شاید وہ جلال کے پاس چلی جاتی اور وہ دونوں شادی کر لیتے۔امامہ کے لیے بےحد ناپسندیدگی رکھنے کے باوجود اس نے پہلی بار اپنی غلطی تسلیم کی۔
“اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔وہ طلاق لینے کے لیے کورٹ نہیں گئی۔اس کے خاندان والے بھی ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔وہ جلال انصر کے پاس بھی نہیں گئی تو پھر آخر وہ گئی کہاں ، کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ۔۔۔۔۔؟”
وہ پہلی بار بہت سنجیدگی سے ، کسی ناراضی یا غصے کے بغیر اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
“یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ مجھ سے اتنی شدید نفرت اور ناپسندیدگی رکھنے کے بعد میری بیوی کے طور پر کہیں خاموشی کی زندگی گزار رہی ہو ، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ امامہ کسی کے ساتھ بھی دوبارہ رابطہ نہیں کر رہی۔ اب تک جب ایک سال سے زیادہ گزر گیا ہے کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہو گئی ہے؟کیا حادثہ پیش آ سکتا ہے اسے۔۔۔۔۔؟
اس کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی۔
“اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔وہ اپنے رسک پر گھر سے نکلی تھی اور حادثہ تو کسی کو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟پاپا ٹھیک کہتے ہیں جب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا تجسس بھی نہیں رکھنا چاہئیے۔خاص طور پر ایک ایسی لڑکی کے بارے میں جو اس حد تک احسان فراموش ہو جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہو اور جو مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو گا ٹھیک ہی ہوا ہو گا وہ اسی قابل تھی۔”
اس نے اس کے بارے میں ہر خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
کچھ دیر پہلے کی تاسف آمیز سنجیدگی وہ اب محسوس نہیں کر رہا تھا نہ ہی اسے کسی قسم کے پچھتاوے کا احساس تھا۔ وہ ویسے بھی چھوٹی موٹی باتوں پر پچھتانے کا عادی نہیں تھا۔ اس نے سکون کے عالم میں آنکھیں بند کر لیں اس کے ذہن میں اب دور دور تک کہیں امامہ ہاشم کا تصور موجود نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کبھی Van dame گئے ہو؟”اس دن یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے مائیک نے سالار سے پوچھا۔
“ایک دفعہ۔”
“کیسی جگہ ہے؟”مائیک نے سوال کیا۔
“بری نہیں ہے۔”سالار نے تبصرہ کیا۔
“اس ویک اینڈ پر وہاں چلتے ہیں۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”میری گرل فرینڈ کو بہت دلچسپی ہے اس جگہ میں۔۔۔۔۔وہ اکثر جاتی ہے۔”مائیک نے کہا۔
“تو تمہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی جانا چاہئیے۔”سالار نے کہا۔
“نہیں سب لوگ چلتے ہیں ، زیادہ مزہ آئے گا۔”مائیک نے کہا۔
“سب لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟”اس بار دانش نے گفتگو میں حصہ لیا۔
“جتنے دوست بھی ہیں ۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔! ”
“میں ، سالار ، تم ، سیٹھی اور سعد ۔”
“سعد کو رہنے دو۔۔۔۔۔۔وہ نائٹ کلب کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا یا پھر ایک لمبا چوڑا وعظ دے گا۔”سالار نے مداخلت کی۔
“تو پھر ٹھیک ہے ہم لوگ ہی چلتے ہیں۔”دانش نے کہا۔
“سینڈرا کو بھی انوائیٹ کر لیتے ہیں۔”سالار نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا۔
اس ویک اینڈ پر سب وہاں گئے اور تین چار گھنٹوں تک انہوں نے وہاں خوب انجوائے کیا۔اگلے روز سالار صبح دیر سے اٹھا۔وہ ابھی لنچ کی تیاری کر رہا تھا جب سعد نے اسے فون کیا۔
“ابھی اٹھے ہو؟”سعد نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
“ہاں دس منٹ پہلے۔۔۔۔۔”
“رات کو دیر تک باہر رہے ہو گے۔اس لئے۔۔۔۔۔”سعد نے اندازہ لگایا۔
“ہاں۔۔۔۔۔ہم لوگ باہر گئے ہوئے تھے۔”سالار نے دانستہ طور پر نائٹ کلب کا نام نہیں لیا۔
“ہم لوگ کون۔۔۔۔۔؟تم اور سینڈرا؟”
“نہیں پورا گروپ ہی۔”سالار نے کہا۔
“پورا گروپ۔۔۔۔۔؟مجھے لے کر نہیں گئے۔میں مر گیا تھا؟”سعد نے چڑ کر کہا۔
“تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔”سالار نے اطمینان سے کہا۔
“بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار ، بہت ہی گھٹیا۔۔۔۔۔یہ دانش بھی گیا تھا؟”
“ہم سب مائی ڈئیر ، ہم سب۔۔۔۔۔”سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
“مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ ! ” سالار کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
“تم ابھی بچے ہو۔۔۔۔۔ہر جگہ بچوں کو لے کر نہیں جا سکتے۔”سالار نے شرارت سے کہا۔
“میں ابھی آ کر تمہاری ٹانگیں توڑتا ہوں ، پھر تمہیں اندازہ ہو گا کہ یہ بچہ بڑا ہو گیا ہے۔”
“مذاق نہیں کر رہا یار ۔۔۔۔۔ہم نے تمہیں ساتھ جانے کو اس لیے نہیں کہا کیونکہ تم جاتے ہی نہیں۔”اس بار سالار واقعی سنجیدہ ہوا۔
“کیوں تم لوگ دوزخ میں جا رہے تھے کہ میں وہاں نہ جاتا۔”سعد کے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
“کم از کم تم اسے دوزخ ہی کہتے ہو۔ہم لوگ نائٹ کلب گئے ہوئے تھے اور تم کو وہاں نہیں جانا تھا۔”
“کیوں مجھے وہاں کیوں نہیں جانا تھا۔”سعد کے جواب نے سالار کو کچھ حیران کیا۔
“تم ساتھ چلتے؟”
“آف کورس۔۔۔۔۔”
مگر تمہیں وہاں جاکر کیا کرنا تھا۔ نہ تم ڈرنک کرتے ہو، نہ ڈانس کرتے ہو۔۔۔۔۔ پھر وہاں جاکر تم کیا کرتے۔۔۔۔۔ ہمیں نصیحتیں کرتے۔”
“ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ڈرنک اور ڈانس نہیں کرتا، مگر آؤٹنگ تو ہوجاتی ہے۔ میں انجوائے کرتا۔” سعد نے کہا۔
“مگر ایسی جگہوں پر جانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟” سالار نےچبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعد چند لمحے کچھ کہہ نہیں سکا۔
“میں وہاں کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہا تھا۔ تم سے کہہ رہا ہوں صرف آؤٹنگ کی غرض سے جاتا۔” چند لمحوں بعد اس نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا۔
“اوکے!اگلی بار ہمارا پروگرام بنے گا تو تمہیں بھی ساتھ لے لیں گےبلکہ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کل رات بھی تمہیں ساتھ لے لیتا ہم سب نے واقعی بہت انجوائے کیا۔” سالار نے کہا۔
“چلو اب میں کر بھی کیا کرسکتا ہوں۔ خیر آج کیا کر رہے ہو؟” سعد اب اس سے معمول کی باتیں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ تک ان دونوں کے درمیان
گفتگو ہوتی رہی پھر سالار نے فون بند کردیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تم اس ویک اینڈ پر کیا کرہے ہو؟ اس دن سعد نے سالار سے پوچھا۔ وہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھے۔
“میں اس ویک اینڈ پر نیویارک جارہا ہوں، سینڈرا کے ساتھ۔”سالار نے اپنا پروگرام بتایا۔
“کیوں۔۔۔۔۔؟” سعد نے وچھا۔
“اس کے بھائی کی شادی ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے اس نے۔”
“واپس کب آؤ گے؟”
“اتوار کی رات کو۔”
“تم ایسا کرو کہ اپنے اپارٹمنٹ کی چابی مجھے دے جاؤ۔ میں دو دن تمہارے اپارٹمنٹ پر گزاروں گا۔ کچھ اسائمنٹس ہیں جو مجھے تیار کرنے ہیں اور اس ویک اینڈ پر وہ چاروں ہی گھر ہوں گے ۔ وہاں بڑا رش ہو گا میں تمہارے اپارٹمنٹ میں اطمینان سے پڑھ لوں گا۔” سعد نے کہا۔
“اوکے تم میرے اپارٹمنٹ میں رہ لینا۔” سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
اسے سینڈرا کے ساتھ جمعہ کی رات کو نکلنا تھا۔ سالار کا بیگ اس کی گاڑی کی ڈگی میں تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ سینڈرا کو عین آخری وقت میں چند کام نبٹانے پڑ گئے اور وہ جو سر شام نکلنے کا ارادہ کئے بیٹھ تھے ان کا پروگرام ہفتے کی صبح تک ملتوی ہوگیا۔ سینڈرا پے انگ گیسٹ کے طور پر کہیں رہتی تھی اور وہ اس کے پاس رات نہیں گزار سکتا تھا۔ اسے اپنے پارٹمنٹ واپس آنا پڑا۔
رات کو تقریباً گیارہ بجے سینڈرا کو اس کی رہائش گاہ پر ڈراپ کرنے کے بعد اپارٹمنٹ چلا آیا۔ اس نے سعد کو ایک چابی دی تھی۔ دوسری چابی اس کے پاس ہی تھی وہ جانتا تھا کہ سعد اس وقت بیٹھا پڑھ رہا ہوگا مگر اس نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا ، لونگ روم کی لائٹ آن تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا وہ اپنے بیڈروم میں جانا چاہتا تھا مگر بیڈ روم کے دروازے پر ہی رُک گیا۔
بیڈ روم کا دروازہ بند تھا مگر اس کے باوجود اندر سے اُبھرنے والے قہقہے اور باتوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ سعد کے ساتھ اندر کوئی عورت تھی۔ وہ جامد ہوگیا۔ اس کے گروپ میں صرف سعد تھا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں تھے۔وہ جتنا مذہبی آدمی تھا اس سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی وہ اندر داخل نہیں ہوا۔قدرے بے یقینی سے واپس مڑگیا اور تب اس کی نظر لونگ روم کی ٹیبل پر رکھی بوتل اور گلاس پر پڑی ، وہاں سے کچن کاؤنٹر جہاں کھانے کے برتن ابھی تک پڑے تھے۔ وہ مزید وہاں رُکے بغیر اسی طرح خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سعد وہاں کسی لڑکی ساتھ رہنے کے لئے آیا تھا۔ بالکل نا قابل یقین۔ جو شخص حرام گوشت نہ کھاتا ہو۔ شراب نہ پیتا ہو پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہ،و ہر وقت اسلام کی بات کرتا رہتا ہو، دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہو، وہ کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔ اپارٹمنٹ کے دروازے کو باہر سے بند کیے ہوئے اسی طرح شاک کے عالم میں تھا۔ بوتل اور گلاس ظاہر کر رہے تھے کہ اس نے پی بھی ہوئی ہےاور شاید کھانا وغیرہ بھی کھایا ہوگا۔ اسی فریزراور کچن میں جہاں کا وہ پانی تک پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسے ہنسی آرہی تھی جو اپنے آپ کو جتنا اچھا اور سچا مسلمان ظاہر کرنے یا بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے وہ اتنا بڑا فراڈ ہوتا ہے ایک یہ شخص تھا جو یوں ظاہر کرتا تھا جیسے پورے امریکہ میں ایک ہی مسلمان ہے اور ایک لڑکی امامہ تھی۔ جو ٹینٹ جتنی بڑی چادر اوڑھتی تھی اور کردار اس کا یہ تھا کہ ایک لڑکے کے لئے گھر سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔ اور بنتے پھرتے ہیں سچے مسلمان۔” نیچے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے کچھ تنفر سے سوچا۔”منافقت اور جھوٹ کی حد ان پر ختم ہوجاتی ہے۔”
وہ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا اس وقت وہ سینڈرا کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے دانش کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ سالار نے بہانہ بنادیا کہ وہ بور ہورہا تھا اس لئے اس نے دانش کے پاس آنے اور رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دانش مطمئن ہوگیا۔
اتوار کی رات کو جب وہ واپس نیو ہیوں اپنے اپارٹمنٹ آیا تو سعد وہاں نہیں تھا، اس کے فلیٹ میں کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہاں کوئی عورت آئی تھی، وائن کی وہ بوتل بھی اسے کہیں نہیں ملی۔ وہ زیر لب مسکراتا ہوا پورے اپارٹمنٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ وہاں موجو د ہر چیز ویسے ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سالار نے اپنا سامان رکھنے کے بعد سعد کو فون کیا۔ کچھ دیر رسمی باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ موضوع پر آگیا۔
“پھر اچھی رہی تمہاری اسٹڈیز۔۔۔۔۔ اسائمنٹ بن گئے۔؟
“ہاں یار! میں تو دو دن اچھا خاصا پڑھتا رہا، اسائمنٹس تقریبا ً مکمل کرلی ہیں۔ تم بتاؤتمہارا ٹرپ کیسا رہا؟” سعد نے جواباً پوچھا۔
“بہت اچھا۔۔۔۔۔”
“کتنی دیر میں پہنچ گئے تھے وہاں ، رات کو سفر کرتے ہوئے کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟”
سعد نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔
“نہیں رات کو سفر نہیں کیا؟”
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ کے فرائیڈے کی رات کو نہیں سیٹرڈے کی صبح گئے تھے ہم لوگ وہاں۔” سالار نے بتایا۔
” تم پھر سینڈ را کی طرف رہے تھے۔؟”
“نہیں دانش کے پاس۔”
“کیوں یہاں آجاتے اپنے اپارٹمنٹ پر۔”
“آیا تھا۔” سالار نے بڑے اطمینان سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ سالار دل ہی دل میں ہنسا۔ سعد کے پیروں نیچے سے یقیناً اس وقت زمین نکل گئی تھی۔
“آئے تھے۔۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔؟ اس بار وہ بے اختیار ہکلایا۔
“گیارہ بجے کے قریب۔۔۔۔۔ تم اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ مصروف تھے۔ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے وہاں سے واپس آگیا۔”
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سعد پر اس وقت سکتہ طاری ہوچکا ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سالار اس طرح اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔
“ویسے تم نے کبھی اپنی گرل فرینڈ سے ملوایا نہیں۔” اس نے مزید کہا۔ سعد کو سانس لینے میں جتنی دقت ہورہی ہوگی وہ اندازہ کرسکتا تھا۔
“بس ویسے ہی ملوادوں گا۔” اس نے دوسری طرف سے بے حد مدھم اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“مگر تم کسی اور سے اس کا ذکر مت کرنا۔” اس نے ایک ہی سانس میں کہا۔
“میں کیوں ذکر کروں گا، تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
سالار اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اسے اس وقت سعد پر کچھ ترس آرہا تھا۔
اس رات سعد نے چند منٹوں بعد ہی فون رکھ دیا۔ سالار کو اس کی شرمندگی کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
اس واقعے کے بعد سالار کا خیال تھا کہ سعد دوبارہ کبھی اس کے سامنےاپنی مذہبی عقیدت اور وابستگی کا ذکر نہیں کرے گا مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ سعد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی اسی شدومد سے مذہب پر بات کرتا۔ دوسروں کو ٹوک دیتا۔ نصیحتیں کرتا۔ نماز پڑھنے کی ہدایت دیتا۔ صدقہ ، خیرات دینے کے لئے کہتا۔ اللہ سے محبت کے بارے میں گھنٹوں بولنے کے لئے تیار رہتا اور ،مذہب کے بارے میں بات کر رہا ہوتا تو کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے۔
اس کے گروپ کے لوگوں کے ساتھ اور بہت سے لوگ سعد سے بہت متاثر تھے اور اسکے کردار سے بہت مرعوب ۔۔۔۔۔ اور اللہ سے اس کی محبت پر رشک کا شکار ، ایک مثالی مسلم۔۔۔۔۔ جوانی کی مصروف زندگی میں بھی۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سعد بات کرنا جانتا تھا اس کا انداز بیاں بے حد متاثر کن تھا۔ اور اس کے شناسا لوگوں میں صرف سالار تھا، جس پر اس کی نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی تھی جو اس سے ذرہ برابر متاثر نہیں تھا اور نہ ہی کسی رشک کا شکار۔ جسے سعد کی داڑھی اس کے دین لئے استقامت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئی تھی نہ ہی دوسروں کے لئے اس کا ادب واحترام اس کا نرم انداز گفتگو۔
امامہ سے مذہبی لوگوں کے لئے اس کی نا پسندید گی کا آغاز ہوا تھا۔ جلال سے اسے آگے بڑھایا تھا اور سعد نے اسے انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں سے بڑھ کر منافق کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ داڑھی رکھنے والا مرد اور پر دہ کرنے والی عورت کسی بھی قسم کی بلکہ ہر قسم کی برائی کا شکار ہوتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ جو خود کو مذہبی نہیں کہتے۔
اتفاق سے ملنے والے تینوں لوگوں نے اس یقین کو مستحکم کیا ۔ امامہ ہاشم پردہ کرنے والی لڑکی اور ایک لڑکے کے لئے اپنے منگیتر ، اپنے خاندان اپنے گھر کو چھوڑ کر رات میں فرار ہوجانے والی لڑکی۔
جلال انصر۔۔۔۔۔ ڈاڑھی والا مرد، حضور ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیں پڑھنے والا اور ایک لڑکی سے افئیر چلانے والا اور پھر اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر ایک طرف ہوجانے والا ، پھر دین الگ دنیا الگ کر بات کرنے ولا۔ سعد ظفر کے بارے میں اس کی رائے ایک اور واقعہ سے اور خراب ہوئی۔
وہ ایک دن اس کے اپارٹمنٹ پر آیا ہوا تھا۔ سالار اس وقت کمپیوٹر آن کئے اپنا کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اسے کچھ چیزین لانے کے لئے اپارٹمنٹ سے قریبی مارکیٹ جانا پڑا اور اسے پیدل وہاں آنے جانے اور شاپنگ کرنے میں تیس منٹ لگے تھے۔ سعد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ جب سالار واپس آیا تو سعد کمپیوٹر پر چیٹنگ میں مصروف تھا۔ وہ کچھ دیر مزید اس کے پاس بیٹھا گپ شپ کرتا رہا پھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سالار نے لنچ کیا اور ایک بار پھر کمپیوٹر پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ دیر چیٹنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے لاشعوری طور پر کمپیوٹر چلاتے ہوئے اس کی ہسٹری دیکھی۔ وہاں ان ویب سائٹس اور پیجز کی کچھ تفصیلات تھیں جو کچھ دیر پہلے اس نے یا سعد نے دیکھی تھیں۔
سعد نے جن چند ویب سائٹس کو دیکھا تھا وہ بیہودہ تھیں ۔ اسے اپنے یا کسی دوسرے دوست کے ان پیجز دیکھنے یا ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر حیرت نہ ہوتی نہ اعتراض ۔ وہ خود ایسی ویب سائٹس کا وزٹ کرتا رہتا تھا مگر سعد کے ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر اسے حیرت ہوئی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“پھر تمہاری کیا پلاننگ ہے؟ پاکستان آنےکا ارادہ ہے”
وہ اس دن فو ن پر سکندر سے بات کررہا تھا۔ سکندر نے اسے بتایا تھا کہ وہ طیبہ کے ساتھ کچھ ہفتوں کے لئے آسٹریلیا جارہے ہیں۔ انہیں وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ہونے والی شادی کی کچھ تقریبا میں شرکت کرنی تھی۔
آپ دونوں وہاں نہیں ہوں گے تو میں پاکستان آکر کیا کروں گا۔” اسے مایوسی ہوئی۔
“یہ کیا بات ہوئی ۔ تم بہن بھائیوں سے ملنا، انیتا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔ سکندر نے کہا۔
پاپا!میں ادھر ہی چھٹیاں گزاروں گا۔ پاکستان آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔”
“تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا چلو، معیز بھی جارہا ہے۔” انہوں نے اس کے بڑے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
“میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آسٹریلیاچلوں۔ معیز کے ساتھ میری کون سی انڈر اسٹینڈنگ ہے، جو آپ مجھے اس کے جانے کا بتارہے ہیں۔” اس نے خاصی بیزاری کے ساتھ کہا۔
“میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا اگر تم وہیں رہنا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی بس اپنا خیال رکھنا اور دیکھو سالار کوئی غلط کام مت کرنا۔”
انہوں نے اسے تنبیہ کی ۔ وہ اس غلط کام کی نوعیت کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا اور وہ یہ جملہ سننے کا عادی ہوچکا تھا کہ اب اگر سکندر ہر بار فون بند کرنے سے پہلے اس سے یہ جملہ نہ کہتے تو اسے حیرت ہوتی۔
سکندر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون کرکے اپنی سیٹ کینسل کروادی۔ فون کا ریسیور رکھنے کے بعد صوفے پر چت لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ یونیورسٹی بند ہونے کے بعد کے کچھ ہفتوں کی مصروفیات کے بارے میں سوچتا رہا۔
“مجھے چند دن سکینگ کے لئے کہیں جانا چاہیے یا پھر کسی دوسری اسٹیٹ کو وزٹ کرنا چاہیے۔” وہ منصوبہ بنانے لگا۔”ٹھیک ہے میں کل یونیورسٹی سے آکے کسی آپریٹر سے ملوں گا۔ باقی کا پرواگرام وہیں طے کروں گا۔” اس نے فیصلہ کا۔
اگلے دن اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر سکینگ کے لئے جانے کا پروگرام طے کرلیا۔ اس نے سکندر اور اپنے بڑے بھائی کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتادیا۔
چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے اس نے ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا وہ کھانا کھانے کے بعد بھی کافی دیر وہاں بیٹھا رہا پھر وہ ایک قریبی پب میں چلا گیا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے دوران اس نے وہاں کچھ پیگ پئے۔
رات دس بجے کے قریب ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے اچانک متلی ہونے لگی۔ گاڑی روک کر وہ کچھ دیر کے لئے سڑک کے گرد پھیلے ہوئے سبزے پر چلنے لگا سرد ہوا اور خنکی نے کچھ دیر کے لیے اسے نارمل کردیا مگر چند منٹوں کے بعد ایک بار پھر اسے متلی ہونے لگی۔ اسے اب اپنے سینے اور پیٹ میں ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔
یہ کھانے کا اثر تھا یا پیگ کا۔ فوری طور پر اسے کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ اب اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ یک دم جھکتے ہوئے اس نے بے اختیارقے کی اور پھر چند منٹ اسی طرح جھکا رہا۔ معدہ خالی ہوجانے کے بعد بھی اس کو اپنی حالت بہتر محسوس نہیں ہوئی۔ سیدھا کھڑے رہنےکی کوشش میں اس کے پیر لڑکھڑا گئے۔ اس نے مڑ کر کر اپنی گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کی مگر اس کا سر اب پہلے سے زیادہ چکرا رہا تھا۔ چند گز دور کھڑی گاڑی کو دیکھنے میں بھی اسے دقت ہورہی تھی۔ اس نے بمشکل چند قدم اٹھائے مگر گاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا ۔مکمل طور پر ہوش کھونے سے پہلے اس نے کسی کو اپنے آپ کو جھنجھوڑتے محسوس کیا۔ کوئی بلند آواز میں اس کے قریب کچھ کہہ رہا تھا۔ آوازیں ایک سے زیادہ تھیں۔
سالار نے اپنے سر کو جھٹکنے کی کوشش کی ۔ وہ پورے سر کو حرکت نہیں دے سکا۔ اس کی آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ وہ اب مکمل طور پر تاریکی میں جاچکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے دو دن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی سے اُٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ فوڈ پوائزن کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باجود وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کر رہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا ۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹرز کی ہدایت پر سالار نے وہ رات بھی وہیں گزاردی۔ اتوار کو سہ پہر وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹور آپریٹر کے ساتھ طے پایا جانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا۔اسے پیر کی صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کو یا بلکہ کسی بھی دوست کو کال کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔
ایک ہلکے سینڈوچ کے ساتھ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد اس نے سکون آور دوا لی اور سونے کے لئے چلا گیا۔
اگلے دن جب اس کی آنکھ کھلی اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ سالار کو نیند سے بیدار ہوتے ہی سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے اپنا ماتھا اور جسم چھوا ، اس کا ماتھا بہت زیادہ گرم تھا۔
“کم آن! “وہ بیزاری سے بڑبڑایا۔ پچھلے دو دن کی بیماری کے بعد وہ اگلے دو دن پستر پر پڑے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا تھا اور اس وقت اسے اس کے آثار نظر آرہے تھے۔
جوں توں بیڈ سے نکل کر وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ایک بار پھر کچن میں آگیا کافی بننے کے لئے رکھ کر وہ آکر answerphone پر ریکارڈ کالز سننے لگا۔ چند کالز سعد کی تھیں جس نے واپس پاکستان جانے سے پہلے اس سے ملنے کے لئے بار بار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جا چکے ہوں گے البتہ وہ سکندر اور کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھر پر موجود چند میڈیسنز لیں اور پھردوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طور نہیں تو کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا ۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے پھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر درد بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹےہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اُٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔
تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں گزر رہا تھا ۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طور پر خود کو اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بار پھر درد محسوس ہونے لگا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی ۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیا ز نہیں تھا مگر وہ مکمل طور پر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے مکمل طور بے نیاز ہوچکا تھا۔ غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔
غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں البتہ اسے یہ ضرور یا د تھا اس کی کیفیت کے دو ران اسے ایک بار یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مر رہاہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے نہیں اتر سکا ۔ شدید بخار نے اسے مکمل طور مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالاآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔
کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چندھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے تمام پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب ارد گرد کی چیزوں پر غور کرتا رہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا اور کمبل اور بیڈ شیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔
ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اسکی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
“چوبیس گھنٹوں میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟” اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔” اتنی بری شکل تو میری فوڈ پوائزنگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔”
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ٹب میں پانی بھر کر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی اس نے فوری طور اسی وقت اپنے کپڑے کیوں نہیں بدل لئے وہ کیوں وہیں پڑا رہا۔
باتھ روم سے نکلنے کے بعد بیڈ روم میں رہنے کے بجائے وہ کچن میں چلا گیا۔ اسے بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے نوڈلز بنائے اور انہیں کھانے لگا۔” مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا تفصیلی چیک اپ کروانا چاہیئے۔ اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے سوچا۔ تھکن ایک بار پھر اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ نہانے کے بعد اسے اگرچہ اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا مگر اس کی نقاہت ختم نہیں ہوئی تھی۔
نوڈلز کھانے کے دوران اس نے ٹی وی آن کردیا اور چینل سرچ کرنے لگا۔ ایک چینل پر آنے والا ٹاک شو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ رکھ دیا اور پھر نوڈلز کے پیالے پر جھک گیا۔ اس نے ابھی نوڈلز کا دوسرا چمچہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رک گیا۔ الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شو کو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
“یہ کیا ہے؟” وہ بڑ بڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقیناً منگل کی رات تھی مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔
اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکا دیا تھا۔
“کیا مطلب ہے ، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش و حواس سے بے خبر رہا ہوں ؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” وہ بڑا بڑارہا تھا۔
“پانچ دن ، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے۔۔۔۔۔ میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔”
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سے answer phone کی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
“پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ سعد سب کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔”
اسے جیسے کوئی پیغام نہ پا کر شاک لگا تھا۔ وہ بہت دیر تک بالکل ساکت فون کے پاس بیٹھا رہا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا کو میرا خیال ہی نہ رہا ہو، یا کسی اور فرینڈ کو۔۔۔۔۔ یا پھر کسی اور کو۔۔۔۔۔اس طرح مجھے کیسے چھوڑ دیا انہوں نے۔ اور اس وقت اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر کپکپا رہے تھے۔ وہ نقاہت یا کمزوری نہیں تھی پھر وہ کیا تھا جو اسے کانپنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کر واپس صوفے کی طرف چلا آیا۔
نوڈلز کے پیالے کو ہاتھ میں لے کر وہ ایک بار پھر انہیں کھانے لگا اس بار نوڈلز میں چند منٹ پہلے کا ذائقہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسے لگا وہ بے ذائقہ ربڑ کے چند نرم ٹکڑوں کو چبا رہا ہے۔چند چمچے لینے کے بعد اس نے پیالہ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسے کھا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اب بھی عجیب سی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑا رہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ نہانے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیو کے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولیے سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا۔ جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احسا س ہوا تو اس نے چہرے کو تولیے سے تھپتھپانا بند کر دیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
“What is next to estacy?”
“Pain”
سرد اور مدھم آواز آئی ۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہو گیا۔
“What is next to pain?”
“Nothingness”
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا
“Nothingness”
وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
“And what comes next to nothingness”
“Hell”
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہو گیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آ گئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
“ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔”
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
“زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ ، کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔”
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
“اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔”
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد ئی تھی۔
اس نے پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارنے شروع کر دئیے۔ چہرے کو ایک بار پھر پونچھنے لگا۔ آفٹر شیو کی بوتل کھول کر اس نے گالوں پر موجود ان زخموں پر لگانا شروع کر دیا جہاں اب اسے پہلی بار تکلیف ہو رہی تھی۔
واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں۔
“مجھے ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئیے۔” وہ اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔” مجھے مدد کی ضرورت ہے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔”
وہ نہیں جانتا تھا اسے یک دم وہاں وحشت کیوں ہونے لگی تھی۔ اسے اپنا سانس وہاں بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے کوئی اس کی گردن پر پاؤں رکھے آہستہ آہستہ دباؤ ڈال رہا تھا۔
“کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ مجھے اس طرح بھول جائیں۔ اس طرح۔۔۔۔۔”
اس نے اپنی وارڈروب سے نئے کپڑے نکال کر ایک بار پھر کچھ دیر پہلے کا پہنا ہوا لباس بدلنا شروع کر دیا۔ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا اسے اپنے اپارٹنمٹ سے یک دم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
اس رات گھر آ کر وہ تقریباً ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ اسے اس طرح بھلا دیا گیا ہے۔ وہ ماں باپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہمیشہ حاصل کرتا رہا تھا۔ کچھ اس کی حرکتوں کی وجہ سے بھی سکندر عثمان اور طیبہ کو اس کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے بارے میں فکر مند رہے تھے، مگر اب یک دم چند دنوں کے لئے وہ جیسے سب کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ دوستوں کی، بہن بھائیوں کی، ماں باپ کی۔وہ اگر اس بیماری کے دوران وہاں اس اپارٹمنٹ میں مر جاتا توکسی کو پتا تک نہیں چلتا شاید تب تک جب تک اس کی لاش گلنے سڑنے نہ لگتی اور اس موسم میں ایسا ہونے میں کتنے دن لگتے۔
وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنے answer phone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسی کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
“کیا یہ سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟”
وہ وحشت زدہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ ا نہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا ، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی بار یوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے اسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، کتنا انجوائے کر رہے تھے۔ وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
“تم انجوائے کر رہے ہو اپنی چھٹیاں؟”
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
“میں؟ہاں، بہت۔۔۔۔۔” وہ صرف تین لفظٖ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جنتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، کیا بتانا چاہئیے۔”
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طور پر صرف زپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہو جاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہو گئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہو گئی تو کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دنیا میں کیا تبدیلی آئے گی؟ میرا خاندان کیا محسوس کرے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ چند دنوں کے دکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور دنیا میں تو شاید چند لمحوں کے لئے بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
سالار سکندر اگر غائب ہو جائے تو واقعی کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چاہے اس کا آئی کیو لیول +150 ہو۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا مگر ایسی مایوسی اور اس طرح کی ذہنی حالت۔۔۔۔۔ آخر مجھے ہو کیا گیا ہے اگر سب لوگ کچھ دنوں کے لئے مجھے بھول بھی گئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے میں بھی تو بہت بار بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتا۔ پھر اگر میرے ساتھ ایسا ہو گیا تو۔
مگر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اور اگر واقعی میں، میں اس بے ہوشی سے واپس نہ آتا تو۔۔۔۔۔اگر میرا بخار کم نہ ہواتا اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کےدوران ہوا تھا۔”شاید میں کچھ زایدہ حساس ہوتا جا رہا ہوں۔” وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر سر پر کیوں سورا کر رہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
“کم از کم اب تو ٹھیک ہو چکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہو چکا ہوں۔ خود کشی کی کوشش کر چکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔”
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
“اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کوما کی طرح ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں”۔ وہ مسکرانے کی کوشش کرتا۔
“کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہو۔ کیا بیماری؟ یا پھر یہ بات کہ کسی کو میری ضرورت نہیں پڑی۔ کسی کو میری یاد نہیں آئی۔ خیال تک نہیں، میرے اپنے لوگوں کو بھی، میرے فیملی ممبرز کو، دوستوں کو۔۔۔۔۔”
“مائی گاڈ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے سالار؟”یونیورسٹی کھلتے ہی پہلے ہی دن سینڈرا نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
“مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“تم بیمار رہے ہو؟” اسے تشویش ہوئی۔
“ہاں تھوڑا بہت۔”
“مگر مجھے تو نہیں لگتے کہ تم تھوڑے بہت بیمار رہے ہو۔ تمہارا وزن کم ہو گیا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا بیماری تھی تمہیں؟”
“کچھ نہیں۔ تھوڑا سا بخار اور فوڈ پوائزننگ۔۔۔۔۔” وہ پھر مسکرایا۔
“تم پاکستان گئے ہوئے تھے؟”
“نہیں ، یہیں تھا۔”
“مگر میں نے تو تمہیں نیو یارک جانے سے پہلے کئی بار رنگ کیا۔ ہمیشہ answer phone ہی ملا۔ تم یہ ریکارڈ کروا دیتے کہ تم پاکستان جا رہے ہو۔”
“جسٹ سٹاپ اٹ!” وہ بے اختیار جھنجھلایا۔”سوال پر سوال کرتی جا رہی ہوتم۔”
سینڈرا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔”تم میری بیوی تو نہیں ہو کہ اس طرح بات کر رہی ہو مجھ سے؟”
“سالار کیا ہوا؟”
“کچھ نہیں ہوا، بس تم ختم کرو یہ ساری بات۔ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہاں رہے؟ کیوں رہے، ربش۔”
سینڈرا چند لمحے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
سینڈرا اس دن اس سے یہ سارے سوال پوچھنے والی اکیلی نہیں تھی۔ اس کے تمام دوستوں اور جاننے والوں نے اسے دیکھتے ہی کچھ اس طرح کے سوال، تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور کسی حد تک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے بار بار یادہانی کروا رہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو چکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈ پر، چلو گے؟” دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
“ہاں چلوں گا۔” سالار تیار ہو گیا۔
“پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کر لوں گا۔” دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سینما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدیش قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭