جدید اردو فکشن میں جوگندر پال کااتنا بڑا حصہ ہے کہ انہیں بلا خوف و تردد اردو فکشن کا ممتاز و معتبرترین تخلیق کار کہا جا سکتا ہے۔افسانچہ،افسانہ،ناولٹ،ناول تک ان کی تخلیقی خدمات کا وسیع تر سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ اردو اکادمی دہلی نے جوگندر پال کے افسانوں کا ایک انتخاب” پچیس “کے نام سے شائع کیا ہے۔اس انتخاب میں جوگندر پال کی ۳۲کہانیاں،”نہیں رحمن بابو“ سلسلہ کے چند افسانچے اور” پرندے“ سلسلہ کے چندافسانچے شامل کیے گئے ہیں۔بے گور،گرین ہاؤس،ہیر رانجھا،کرن کرن،اٹھارہ ادھیائے،پناہ گاہ،سانس سمندر،جیتے جی، مقامات، جاگیردار ،مہاجر،مارکیٹ اکانومی،بھوک پریت،سٹرپ ٹیز،باشندے،بیک لین، پادشاہ، ہرامبے، معجزہ،نازائیدہ،بجھتے سورج کا سمے،مہا بھارت اور تمنا کا دوسرا قدم جیسے افسانے بلا شبہ جوگندر پال کے نمائندہ افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
مرغوب حیدر سید نے ”حرفِ آغاز“اور ڈاکٹر قمر رئیس نے ”جوگندر پال کا فنّی اسلوب“کے زیر عنوان اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔انتخاب کے آخر میں جوگندر پال کا تحریر کردہ”خود وفاتیہ“ شامل ہے۔جوگندر پال کے اب تک جتنے افسانوی انتخاب شائع ہو چکے ہیں،ہر ایک کی اہمیت ہے۔یہ انتخاب بعض جہات سے پہلے انتخاب شدہ مجموعوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
(جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔