سفید براق کپڑے، ستواں ناک پر پسینے کے قطرے، نرس نسرین افضل دردِزہ میں مبتلا زچہ کا ایک ہاتھ تھامے دوسرا اُس کے پیٹ پر رکھے ہوئے تھی۔ دھیمی آواز میں ہدایت بھی دے رہی تھی ’’لمبے سانس لیں‘‘۔ درد کا بہاؤ تیز ہوتا تو سخت گرفت میں نسرین کو اپنے ہاتھ کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوتیں۔ رت کی ڈیوٹی ادا کرنے کا معاوضہ تو زیادہ ملتا لیکن رات جگے کے ساتھ کام کا بار بھی زیادہ ہوتا تھا۔ نو مولود دن کی روشنی میں ماں کے پیٹ کی پناہ گاہ سے باہر نکلنے سے کتراتے۔ زیادہ بچوں کی پیدائش رات ہی میں ہوتی۔ آج بھی نسرین نے دو گل تھوتھنے گلابی فراک پہنا کر چادر میں لپیٹ کر پھیلے ہوئے ہاتھوں پر رکھے تھے۔ نسرین نے جھجکتے ہوئے کسی موہوم امید پر مبارک کہا تو جواب میں جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ مری ہوئی آواز میں خیر مبارک سنائی دیا۔
نہ پرس کھلا نہ نوٹ نکلے۔ سواگت کو آنے والے تسلی کے حروف پھاہے کی طرح ایک دوسرے کے نہ نظر آنے والے زخم پر رکھتے رہے۔ ’’ خدا کی رحمت ہے’’ بیٹی والوں کا گھر جنت میں کنفرم کیا جاتا ہے۔ پھر ایک ٹھنڈی لمبی سانس آہ کی صورت نکلتی اور تیر کی طرح ماں باپ کے سینے میں پیوست ہو جاتی۔ ’’رب نصیب اچھے کر‘‘۔
درد سپھل ہوا۔ نسرین نے بچہ باپ کی بانہوں میں دیا۔ بیٹے کی آمد کی خوشی میں باپ نے سارے سٹاف میں لال نوٹ بانٹے۔ نسرین نے ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑے اس سے پہلے کہ ہاتھ میں دوسروں سے زیادہ آئے ہوئے نوٹوں کو جانچ لیا جائے۔ پھرتی سے نوٹ رول کر کے چھوٹے پرس کی اندرونی جیب میں رکھ کر زپ بند کر دی۔ ان نوٹوں نے نسرین کے بدن کی ڈِم ہوئی توانائی کو دوبارہ چارج کر دیا۔ اجلی رنگت سرو قامت نسرین نے لپک چھپک مریضوں کے چارٹ ڈے ڈیوٹی پر آنے والے سٹاف کو سونپے۔ نرسنگ روم جا کر الماری سے اپنی سیاہ چادر نکالی۔ ایک جھٹکے سے کہ جس نے سارے تن کو ایک ہلورا سا دیا۔ تہ کھول کر چادر اوڑھ لی۔ چادر کے پلو کو سر اور گردن کے گرد گھما کر ایسا منڈا سا لگا یا کہ سوائے آنکھوں کے چہرے کا کوئی حصہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
بیگ کندھے سے لٹکا کر تیز قدموں سے ہسپتال سے باہر کی راہ لی۔ قدموں کی گنتی تو بھول جاتی۔ لیکن ہمیشہ پچاس منٹ بعد اپنے گھر کے سامنے ہوتی تھی۔ سارے راستے خود ہی سے ہمکلام رہتی۔ نسرین کا تو اپنا آپ بھی اس کی نہیں سنتا تھا۔ لیکن پھر بھی بولتی رہتی۔ لمحہ موجود، گزرے دنوں کا حساب، اور آنے والے دنوں کی پیمائش کے بیچ پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا۔ قدم بڑھتے گئے۔ ’’ آج رکشہ پر گھر چلی جاتی ہوں‘‘۔ نسرین نے سوچا۔ لیکن پاس سے گزرتے رکشوں کا پھٹا پھٹ ان سنی کیے آگے بڑھتی گئی۔ ’’ بیٹیوں کے خدا نصیب اچھے کرے لیکن نصیب والوں کے گھر بیٹے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ کسی بانصیب کے عطا کردہ نوٹ نسرین کے پرس کی کوکھ میں کلبلا رہے تھے۔ ’’ آج بچوں کے لیے کچھ فروٹ لے جاؤں گی’’۔
شادی کے بعد اوپر تلے تین بچے پیدا کر لیے۔ سوچا کہ اکھٹے پل جائیں گے۔ ’’توجہ پیار تو امیروں کے چونچلے ہیں یہاں ضرورتیں ہی پوری ہو جائیں تو بڑی بات ہے‘‘۔ ساس، بن بیاہی نندیں بچے سنبھال لیتیں۔ چیت کا ماہ تھا۔ سورج کی چمکیلی دھوپ چھایا سمیٹ رہی تھی۔ ابھی ہوا میں دہکتی آگ سا سیک نہیں تھا۔ پھر بھی پسینہ گردن سے پھسلتا ریڑھ کی ہڈی پر سے سانپ کی طرح سرسراتا ہوا پمپ شوز میں پھنسے ہوئے پیروں کی ایڑیوں میں ٹپکتا۔
دھی رانی تیرے سِر داسائیں جیوے۔ رزق میں برکت ہوئے، سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر نے ہانک لگائی۔ رزق میں برکت کی امید نے نسرین کا پرس کھلوا دیا۔ بنا بولے ایک نوٹ نکال کر فقیر کے ہاتھ رکھا۔
’’میرے لیے جو رزق مانگتا ہے اپنے لیے مانگ، ہم جیسوں کے سامنے ہاتھ کس لیے پھیلاتا ہے‘‘ نسرین نے دانتوں سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے سوچا۔ فٹ پاتھ پر خوانچے والے سبزی پھل سجائے ان پر پانی کے چھڑ کاؤ میں مصروف تھے۔ ہر ایک نے بوہنڑی کی امید میں سر اٹھا کر نسرین کی طرف دیکھا۔
نسرین نے مختلف ریڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھاؤ تاؤ کیا۔ کہیں پھل پسند نہیں آیا تو کہیں قیمت۔ بچوں کی آوازیں کان میں گونج رہی تھیں۔ ’’ماما! مود کھاؤں گا، ماما! تیلا لے کر آنا‘‘۔ نسرین نے اپنے مچلتے دل کو سمجھایا ’’بچوں کا کیا ہے کھٹی مٹھی ٹافیوں ہی سے بہل جائیں گے۔ افضل کی تنخواہ سے تو کرایہ اور بل ہی پورے ہوتے ہیں۔ اتنا مہنگا پھل لینے کی کیا ضرورت ہے!‘‘جی کڑا کیے نسرین آگے بڑھ گئی۔ سڑک سے اتر کر اندر گلیوں کا سفر شروع ہوا۔
شہر کے وسط میں یہ پرانا محلہ پیٹ کی انتڑیوں کی طرح گنجلک اور گندگی سے بھرا تھا۔ چھوٹے بچے دروازوں کے سا منے سے گزرتی ہو گندے پانی کے نکاس کی نالی پر بیٹھے رفع حاجت میں مصروف تھے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، اڑتے شاپر، پھٹے ادھ کھُلے لفافوں سے جھانکتے سینٹری پیڈ۔ ناک سے چادر کھسکا کر، نسرین نے ذرا اطمینان کا سا نس لیا۔ سامنے سے آتا ہوا ایک چمڑخ سا مرد اپنا بائیاں ہاتھ قمیص کے دامن کے نیچے کیے زیر ناف کھجلائے جا رہا تھا۔ نسرین کو دیکھتے ہی دوسرے ہاتھ سے اپنی باریک ٹھوڑی تک لٹکی ہوئی مونچھ مروڑنے لگا۔ نسرین کو اس کی مونچھیں دیکھ کر خیال آیا کہ گھر میں چو ہوں کی بہتات ہو گئی ہے۔ کونوں کھدروں الماریوں میں ان کی لہراتی ہوئی دُمیں نظر آتی ہیں۔
گلی کے نکڑ پر ایک کھو کھا نما کریانے کی دوکان تھی۔ دوکان کی چو کھٹ پر کھڑے ہو کر نسرین نے پوچھا ’’بائی! چوہے مار گولیاں مل جائیں گی؟‘‘ پھر کچھ یاد آیا تو چکنی ملائم دودھیا جلد والی ماڈل کی تصویر والا صابن اور ٹوتھ پیسٹ بھی لیا۔ شاپر ہاتھ میں لٹکائے پشیمان سی بتدریج تنگ ہوتی ہوئی گلی میں سے گزرنے لگی۔ اب تو پرس میں ایک ہی نوٹ رہ گیا تھا۔ ’’افضل سچ ہی کہتا ہے کہ تیرے ہاتھوں میں سوراخ ہے پیسہ ٹکتا نہیں۔۔۔۔ اچھا کرتا ہے کہ تنخواہ ملتے ہی پرس سے نوٹ کیا سکے بھی چھان لیتا ہے‘‘۔ دوکان دار کی نظریں دیر تک نسرین کے چادر تلے نظر آتے بھاری سرینوں کے زیر و بم پر ہچکولے کھاتی رہیں۔
نسرین موڑ مڑ گئی۔ نیلگوں آسمان رنگین پتنگوں سے سجا تھا۔ بجلی کی تاریں گچھوں کی صورت دیواروں پر سے گزر کر چھتوں پر ڈھیر تھیں۔ آکاش پر کوئی پتنگ کٹ کر بے آسرا سی ہو کر کپکپاتی تو سوکھی ٹانگوں پر لمبے جانگیے چڑھائے ہوئے لڑکے ڈولتی پتنگوں کے پیچھے تاروں کو پھلانگتے آپس میں ملی ہوئی چھتوں کو جدا کرنے والی چھوٹی دیواریں پار کر کے دوسری چھت پر جا پہنچتے۔ بار یک گڈی کاغذ چھینا جھپٹی میں لیرو لیر ہو جاتا۔ ایک دم بو کاٹا کا شور اٹھا۔ سائیکل سوار کی نظریں آسمان پر پتنگوں کے تعاقب میں تھیں۔ سائیکل سا منے آتی گول گپوں کی ریڑھی سے جا ٹکرائی۔ مٹی کا آبخورہ ایک طرف کو چھلکا۔ کھٹا پانی چھپاکے سے باہر گرا۔ ریڑھی والے نے جلدی سے مٹکی کو سیدھا کیا۔ قے کی طرح منہ سے گالی نکلی۔ ’’اوہ تیری پین۔۔۔۔۔‘‘
سائیکل سوار کی ایک ٹا نگ سائیکل کے نیچے اور سر گندے پانی کی نالی میں تھا۔ سنبھل کر اٹھنے اور سائیکل کو ریڑھی کے نیچے سے نکالنے کے دوران نسرین پر نظر پڑتے ہی زیادہ دل جمعی سے ’’تری ماں تری پین‘‘ کی تکرار ہونے لگی۔ نسرین نے گڑبڑا کر اپنا چہرہ چادر کی اوٹ میں چھپایا۔ سرمئی آنکھیں شکاریوں کے چنگل میں آئی ہوئی ہرنی کی طرح ہراساں تھیں۔ نالی کے ابلتے گندے پانی سے اپنے جوتوں کو تو بچا لیا لیکن مٹکی سے اچھلے پانی نے سفید یونیفارم داغدار کر دیا تھا۔
نسرین گلیوں کے پیچ و خم میں پھرکی کی طرح گھومے جا رہی تھی۔ ’’بلو رانی کہو تو اپنی جان دے دوں‘‘۔ نسرین نے مکان کی دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے کندھے کو غفورے کے کندھے کی رگڑ سے بمشکل بچایا۔
کالی گھنیری مونچھوں، دراز قا مت گہری سانولی رنگت والا غفوراً کسی بس سروس میں ڈرائیور تھا۔ اس کا ڈیوٹی پر جانے کا وقت اور نسرین کا ڈیوٹی سے آنے کا سمے انہی گلیوں میں کسی تنگ موڑ پر آپس میں لمحہ بھر کو ٹکراتا تھا۔
باریک لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ لیے، میلے کچیلے مکان کے پھٹے پرانے دروازے کا ایک پٹ کھولے، نور محل گلی میں جھانک رہی تھی۔ ہلال نو جیسی بھنویں، تازہ ڈائی کیے ہوئے بال جن کی سیاہی ماتھے اور کانوں کے کناروں پر بھی نمایاں تھی۔
نور محل کی نگاہوں نے گلی کے موڑ پر ہوتا ہوا ٹکراؤ دیکھا تو طنزیہ ہنسی کے ساتھ ’’شاوشے‘‘ کی گونج سارے محلے کے کواڑوں پر دستک دینے لگی۔
نسرین کی چادر کندھوں سے ایسے ڈھلکی ہوئی تھی جیسے لمبی اڑان کے بعد پنچھی کے پنکھ ہوں۔ پاؤں بھنبیری بن گئے۔ کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی۔ وقت اور قدموں کی دوڑ میں پچاس منٹ کا سنگ میل کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن دھرتی پر اٹھتے رکھتے قدموں کی ان گنت گنتی باقی تھی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...