ترنم ریاض(دہلی)
یاسمیع الدعا
(۱)
خالقِ دو جہاں
میں ہوں واحد وہ تخلیق تیری
جہاں کے بہشت بریں پر
جو مخلوق اشرف کے پھلنے کا مو ُجب بنی
یاعلیم السمیع!
جس کی پسلی سے کی تھی مری ساخت
اُس کی رفاقت کی خاطر
کہ تنہا نہ ہو
زیست کی راہ نو پرکہ میں نے بھی تو
دیکھ بن کر زمیں
بخش ڈالا اسے آسمانوں کا رتبہ
اور اپنی مطیع قوتِ صبر پر
یا عظیم القوی
اس کے ہی زورِ بازو کو ترجیح دی
کرکے ہر نرم جذبے میں اپنے اسے حصہ دار
اس کی ہی چاہ کو خود پہ حاوی کیا
یا حفیظ الغنی
رنگ اس کے رنگی
زندگی اس کی جی
قادر المقتدر، مالکِ بحروبر
آج تک ا سکا گھر
گھر اسی کا رہا
درد میں نے سہے
نام اس کا ہوا
(۲)
یانصیر الوفی!
میں نے بچپن سے ہی
گود میں کھیل کر
شفقتِ پدرانہ کی تشفی کی
اس کی خدمت، اطاعت
صبح و شام کرکے
سنبھالا سنوارا جو گھر میں نے تھا
وہ میرا گھر بھی میرا نہیں اور میں
دوسروں کی امانت پکاری گئی
یا متین البدیع!
خواہرانہ محبت سے مغلوب ہوکر
میں اس پر ہر اک شے لٹاتی گئی
گر تھا چھوٹا تو ما ں کی طرح خواہشیں
اس پہ قربان کرکے مناتی خوشی
پھر بھی دل میں جگہ مجھ کو اس نے دی
یا مُمیت المُحیی!
جنم جس کو دیا کتنے ارمان سے
خود کو ٹکڑے کیا بُوجھ کر جان کے
مجھ کو ان رت جگوں کا ملے کچھ صلہ
ٹوٹ جائے نہ الفت کا یہ سلسلہ
ہے یہی ایک جذبہ کسی طرح قائم
اسی ایک رشتے پہ ہے کچھ یقیں
یاتواب الولی!
تیرا تبدیل ہوتا ہوا یہ جہاں
یوں نہ ہوجائے اس کو بدل دے کہیں
خوں نہ ہوجائے جذبات کادیکھنا
آس تیرے کرم کی میں کھودوں؟نہیں!
یارب العالمیں یارب العالمیں
یا سمیع الدعا یا سمیع الدعا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامحرم
اُس کے ہر مُو سے لپٹا ہوگا اک سانپ
دل کش آنکھیں اس کی، داغی جائیں گی
انگاروں پر ہوگا اس کا نرم بدن
ایسے جرم کے بعد․․․
رحم کی کیا ہوگی امید اُسے!
حالانکہ ہر دل کا مالک اللہ ہے
اس کے جان اور جسم کاہے مختار
کوئی محرم اس کا․․․
اُس کو اک نامحرم اچھا لگتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔
چپکے چپکے رویا جائے
شام بجھی سی
پنچھی چپ
سینے کے اندرسناٹا
اور، روح میں نغمے پھیکے سے
ان دل کے زخموں کو
اشکوں سے دھویاجائے
اب کچھ دیر کو
چپکے چپکے رویاجائے
۔۔۔
پلکوں میں
تیری ہاکی، کمپیوٹر
خاموش ہیں تیرے کمرے میں
بستر پر اک سلوٹ بھی نہیں
پڑھنے کی میزہے سجی ہوئی
اک کونے میں
دونوں چپلیں، چپ چاپ سی ہیں
تیرے مستقبل کی خاطر
رکھ کر اس سینے پر پتھر
اپنے سے تجھ کو دور کیا!
زخمی نظریں،یہ تنہا دل
اُس دن سے بچھا ہے رستے میں
کمرے کی ہر اک شے پھیلادے
یا زور سے سُن موسیقی تو
آگھر میں مگر موجود تو رہ!
پلکوں میں چھپاکر رکھوں گی
اب اک بھی بار نہ ڈانٹوں گی!
۔۔۔۔۔۔
کاروبار
وہ آتا ہے، تو ویرانی پہ اپنی
اوڑھ لیتی ہوں میں اک مسکان
دل دہشت سے لگتاہے دھڑکنے
پھر کہیں، یونہی گرج کروہ
سکوں گھرکا نہ لُوٹے․․․
بانہہ پکڑے تو سراپاہی خوشی بن جاؤں
جیسے اِک اسی پل کی تھی ہستی منتظرمیری!
مجھے اس کی وجہ سے اپنا گھر بازار لگتا ہے
میں لٹتی جاؤں جس میں ایسا کاروبار لگتا ہے
۔۔۔۔۔