جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ۱۹۷۹ء کے آخری شمارہ کے ذریعے میری ”اوراق“ میںانٹری ہوئی تھی۔ میری غزل ”اوراق“ میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ غزل کا مطلع تھا:
اک یاد کا منظر سا خلاﺅں پہ لکھا تھا
جب ٹوٹتے تاروں سے کوئی جھانک رہا تھا
پھر میرے نام سے میرا پہلا افسانہ ”مامتا‘، ”اوراق“ کے ۱۹۸۰ءکے پہلے شمارہ میں شائع ہوا۔ یوں یہ میرا پہلا افسانہ ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے میں افسانہ ”اندھی روشنی“لکھ چکا تھا اور یہ افسانہ ”جدید ادب“ خان پور کے ۱۹۷۸ء کے کسی شمارہ میں اپنی بیوی (مبارکہ شوکت) کے نام سے چھاپ چکا تھا۔ تب رشید امجد اور بعض دیگر جدید افسانہ نگاروں نے چونکتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ مبارکہ شوکت کون ہیں؟۔۔تو مجھے اپنے افسانہ لکھنے پر اعتماد سا ہونے لگا۔ چنانچہ میںنے افسانہ ”مامتا“ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ ڈاکٹر انورسدید کو بھیجا۔ڈاکٹر انور سدیدکے ساتھ وہ افسانہ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی دیکھ لیا اور یوں وہ افسانہ، میرے نام سے چھپنے والا میرا پہلا افسانہ ”اوراق“ کے ۱۹۸۰ء کے پہلے شمارہ میں شائع ہو گیا۔
میں نے اوپر تلے دو انشائیے لکھے ”خاموشی“ اور ”نقاب“۔ یہ دونوں انشائیے ”اوراق“ کے انشائیہ نمبر میں شائع ہوئے۔میری خاکہ نگاری کی ابتدا ابا جی کے خاکے ”برگد کا پیڑ“ سے ہوئی تھی اوریہ خاکہ بھی ”اوراق“ میں شائع ہوا۔جہاں تک ادبی رسائل میں چھپنے کا تعلق ہے ”اوراق“سے پہلے میری تخلیقات ”نگار پاکستان“ ، ”سیپ“ اور ”نیا دور“ جیسے معیاری ادبی جرائد میں چھپ چکی تھیں۔ اختر انصاری اکبر الٰہ آبادی کے ماہنامہ”نئی قدریں“حیدر آباد میں تو مسلسل میری تخلیقات چھپتی رہی تھیں لیکن یہ کراچی اور حیدرآباد کے رسائل کے مدیران کی محبت تھی ۔پنجاب میں رہتے ہوئے میں ابھی پنجاب کے ادبی رسائل تک نہیں پہنچ پایا تھا۔”اوراق“پنجاب کا پہلا ادبی جریدہ تھا جس نے مجھے نہ صرف ادبی پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔ تعریف کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک گمراہ کرنے والی، دوسری حوصلہ بڑھانے والی۔ وزیر آغا نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کرنے والا انداز اختیار کیا۔ بعض تحریروں کے سلسلے میں مشورے بھی دئیے لیکن ان مشوروں کو مجھ پر تھوپا نہیں ۔ میں نے بیشتر مشوروں کو من و عن یا تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ قبول کیا لیکن بعض مشورے اچھے لگنے کے باوجود میں نے قبول نہیں کیے تو ڈاکٹر وزیرآغا نے تب بھی عموماًوہ تحریرجوں کی توں ”اوراق“ میں چھاپ دی۔ ”اوراق“ سے میرا تعلق مزید گہرا ہوا تو میں نے ”اوراق“ کے اداریوں کو مرتب کیا۔ بعد میں راغب شکیب بھی میرے شریک مرتب ہو گئے۔چنانچہ ”پہلا ورق“ کے نام سے یہ مجموعہ ہم دونوں مرتبین کے نام کے ساتھ کراچی سے راغب شکیب ہی نے شائع کیا۔
”اوراق“ سے تعلق کی نوعیت کے پیش نظر وزیرآغا نے مجھے کئی اہم مشورے دئیے ۔ انہیں نصائح میں شمار کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے وہ نصیحتیں آج تک پلے باندھ رکھی ہیں۔
۱۔کہیں کلام سنانا پڑجائے تو سنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن مشاعرہ بازی کا شکار نہیں ہونا۔
۲۔ادبی انعامات زیادہ تر شخصی اور ادبی سیاست کی ترجیحات کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیںلہٰذا ایسے انعامات کے حصول کی دوڑ میں شامل نہ ہونا۔
۳۔ادبی مجالس میں شرکت سے اپنی ادبی تربیت ہونے کا احساس ہو تو ایسی مجالس میں شریک ہوں بصورت دیگر روایتی ادبی مجالس میں شرکت سے پرہیز کریں۔
ڈاکٹر وزیرآغا کے یہ مشورے حقیقتاً ”ڈاکٹری پرہیز“ کے مشورے تھے۔ ان بد پرہیزیوں سے بچ کر میں بہت سی غیر ادبی بیماریوں سے محفوظ ہوں۔ میں پوری ایمان داری سے محسوس کرتا ہوں کہ اگر میں کسی ایک بد پرہیزی کا شکار بھی ہوجاتا تو مجھے یہ ادبی کام کرنے کی توفیق نہیں ملتی جو اَب مل رہی ہے۔
ثنویت ڈاکٹر وزیر آغا کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔”اوراق“کے مزاج میں بھی اس کے اثرات مختلف سطحوں پر موجود ہیں۔مثلاً ”اوراق“ مشرقی تصوف کی اہمیت کا احساس بھی دلاتا ہے اور جدید تر علوم سے بھی فیض یاب کرتا ہے۔ ادب میں اپنی جڑوں اور اپنی مقامیت پر بھی اصرار کرتا ہے اور ادب کی بین الاقوامیت (یاآفاقیت) کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وزیرآغا کے مزاج میں جمالی رنگ ہے جب کہ ڈاکٹر انور سدید کے مزاج میں جلالی رنگ ہے۔ مجھے تخلیقی سطح پر وزیر آغا کے مزاج سے فائدہ ہوا تو تنقیدی سطح پر ، خاص طور پر ماہیے کی بحث میں کج بحثی کرنے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید کے مزاج سے فائدہ ہوا۔
ماہیے سے یاد آیا کہ ”اوراق“ کے شمارہ اگست۱۹۹۰ء میں وہ خط شائع ہواجو آگے چل کر اردو ماہیے کی تحریک کا باعث بن گیا۔اگرچہ اس مسئلے پر ابتدائی مضامین دوسرے رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے اور درست وزن کے ماہیے بھی پہلے دوسرے جرائد نے شائع کیے تاہم یہ حقیقت ہے کہ ”اوراق“ کے شمارہ اگست ۰۹۹۱ءمیں چھپنے والا بظاہر ایک عام سا مختصر سا خط ہی اس تحریک کا نقطہ ءآغاز تھا۔ نیز جب ”اوراق“نے بھی درست وزن کے ماہیے شائع کرنا شروع کیے تب اس تحریک میں جان سی پڑگئی۔”اوراق“ نے ماہیے کے خدوخال واضح کرنے کے لیے ماہیے کی بحث کو مضامین کے ذریعے آگے بڑھایا۔یوں سچائی نکھر کر سامنے آتی گئی۔
میں اب تک متعدد ادبی جرائد میں چھپ چکا ہوں لیکن ”اوراق“ واحد ادبی جریدہ ہے کہ ۱۰۷۹ء سے لے کر آج تک میں اس میں باقاعدگی سے چھپ رہا ہوں۔تب سے اب تک کسی ایک شمارہ میں بھی میری غیر حاضری نہیں ہوئی۔”اوراق“ کے پس پردہ ایک خاموش طبع نوجوان بھی موجود ہے۔ یہ نوجوان افسانہ نگار اور انشائیہ نگار سلیم آغا قزلباش ہے۔ میں پاکستان میں بھی اس نوجوان کی نجی خاموشی کے ٹوٹنے کا منتظر تھا اور اب بھی منتظر ہوں کہ کب اس کی خاموشی ٹوٹتی ہے!
”اوراق“ اور میرے تعلق کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر ا س پر یک سوئی کے ساتھ لکھنے بیٹھوںتو پوری کتاب تیار ہو جائے گی۔ان مختصر سے تاثرات میں صرف چند سرسری اشارے ہی دے پایا ہوں۔ میری ادبی تربیت میں، حوصلہ افزائی میں ، صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ”اوراق“ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کفران نعمت گناہ ہے لیکن ”اوراق“ کے لیے محض شکر گزاری کے الفاظ نا کافی ہیں۔جس تعلق کی نوعیت محبت جیسی ہو جائے وہاں شکر گزاری کے الفاظ اچھے نہیں لگتے۔
حیدر نئے ادب میں تو گھائل انہیں کاہوں رشتہ بہت ہی گہرا ہے آغا وزیر سے
(مطبوعہ ”اوراق“ لاہور خاص نمبر، جنوری ۔ فروری 2000ء)