کورا کیب سے اتری اور اپنے گھر کے گیٹ کی طرف بڑھی ، اور اس نے ڈور بیل کا بٹن دبا دیا۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ کھل گیا۔۔۔دروازے پر اس کا بھائی سعد تھا ۔
” آپی ۔۔۔۔” سعد نے اسے پکارا ۔ اس کا چہرہ حیرت و استعجاب کے تاثرات میں ڈوبا تھا۔
” کیا ہوا ۔۔۔؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو مجھے کہ جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ؟” کورا نے دروازے کے اندر قدم رکھتے کہا ۔
” ممی ۔۔۔ دیکھیں تو کون آیا ہے۔” سعد نے کورا کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر اسے لاؤنج کی طرف گویا گھسیٹتے ہوئے کہا ۔
لاونج میں داخل ہوتے ہی کورا کی امی سے اس کا سامنا ہوا جو شاید سعد کی پکار سن کر اپنے کمرے سے نکلی تھیں ۔۔۔۔ کورا کو دیکھ کر ایک لمحے کو جیسے ان پر بھی سکتہ طاری ہوگیا ۔
پھر وہ بےاختیار آگے بڑھیں اور انہوں نے بھینچ کر کورا کو گلے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں ۔۔۔۔
” نجانے سب کو ہو کیا گیا ہے۔۔۔” کورا نے سوچا ۔
” اتنے میں کورا کے بابا بھی ادھر پہنچ گئے اور کورا کو دیکھ کر ان کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔
” سعد ، بھئی سب کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔ دو دن میں غائب کیا رہی آپ سب تو ایسے ری ایکٹ کررہے جیسے میں موت کے منہ سے نکل کر آئی ہوں ۔۔۔” ملنے ملانے کے بعد کورا نے سعد سے کہا ۔
” کیا مطلب ۔۔۔؟ اتنے بھیانک حادثے کے بعد بھی تم موت کے منہ سے نہیں نکل کے آئی ؟ خیر تو ہے ناں آپی ۔۔۔؟” سعد نے کہا ۔
” ہاں بھئی راستے میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی مگر میں اس وقت خطرے کی حد سے باہر تھی ۔۔۔” کورا نے کہا ۔
” لینڈ سلائیڈنگ ؟ وہ بھی بیچ سمندر کے ۔۔۔؟ تو گویا بوٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ۔۔۔” سعد نے کچھ کہنا چاہا مگر امی نے اس کی بات کاٹ دی ۔
” ارے بھئی اتنی مصیبتوں سے نکل کر آئی کے میری بیٹی ، یہ کیا انکوائری شروع کر دی تم نے ۔۔۔ چلو بیٹا تم فریش ہو جاؤ ، میں اچھا سا کھانا بناتی ہوں تمہارے لیے ۔۔ تب تک تم ریسٹ کرو ۔” امی نے کہا ۔
” ہاں بیٹا ، یقیناََ تم اس وقت شدید تھکاوٹ کا شکار ہوگی ۔۔۔ ابھی آرام کرو ۔ بعد میں مل بیٹھ کر بات کریں گے سب۔” بابا نے کہا ۔
” واقعی ۔۔۔ شدید تھکاوٹ محسوس کررہی ہوں میں ۔ اور کافی ڈسٹرب ہوں۔ مجھے سکون کی ضرورت ہے فی الوقت ۔” کورا نے کہا اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
” دیکھو اس بات کو غور سے سنو اور ذہن میں بٹھا لو ، کورا ایک بہت بھیانک حادثے سے گزری ہے ۔۔۔ اور اس طرح کے حادثات سے انسان کے دل و دماغ کو شدید دھچکہ لگتا ہے ۔۔۔ اور اسی لیے وہ بار بار حادثے کا ذکر آنے پر اس بات کو یکسر نظر انداز کررہی تھی ۔۔۔ ہمیں اب اس بات کو یقینی بنانا کے کہ اس تباہ کن سانحے کا ذکر کورا کے سامنے کسی صورت نہ کریں اور اسے بالکل نارمل انداز میں ٹریٹ کریں ۔۔ تاکہ وہ جلد از جلد نارمل زندگی کی طرف واپس لوٹ آئے ۔ اگر ہم نے اس کے سامنے اس کی زندگی کے دردناک ترین واقعہ کو دہرانا شروع کردیا تو وہ مزید سے مزید تر تناؤ اور ڈیپریشن کا شکار ہوتی چلی جائے گی ۔۔۔” کورا کے جانے کے بعد اس کے بابا نے کہا۔
” ہاں بالکل۔۔۔ بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔” سعد نے کہا۔
” میری بچی مجھے واپس مل گئی ہے ۔ مجھے اور کیا چاہیے ۔۔۔ میں بھی اس بات کا تذکرہ دوبارہ نہیں کروں گی اس کے سامنے۔” کورا کی امی نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اگلے روز )
ٹیکسی لمبے روٹ پر ملبری ٹاؤن کی طرف محوِ سفر تھی ۔ بیک سیٹ پر کورا اور ستی دونوں موجود تھیں ۔
” آج میں سخت مصروف تھی ، تاہم تمہیں گھر پہنچانے کے لیے وقت نکال ہی لیا ۔۔۔ ہاں وقت کی شدید قلت کے باعث میں فی الوقت تمہارے گھر آنے سے قاصر ہوں ، تمہیں ڈراپ کرکے میں اسی کیب پر واپس ہاسپٹل روانہ ہو جاؤں گی۔” ستی نے کورا سے کہا جو شیشے سے باہر کی سمت دیکھ رہی تھی ۔
” یعنی ۔۔۔ تم کچھ دیر بھی نہیں ٹھہرو گی ؟؟” کورا نے کہا۔
” مجبوری ہے ، کام کی زیاتی کی وجہ سے میں فی الوقت نہیں رک سکتی ۔۔۔ ہاں ممکن ہوا تو کوشش کروں گی کہ شام کو، چھٹی کے بعد تمہاری طرف چکر لگا لوں۔” ستی نے کہا۔
” ضرور ۔۔۔ ممکن ہو تو ڈنر ہمارے ہاں کرنا ۔ رات بھی ٹھہر جانا۔ صبح جلدی نکل جانا ہاسپٹل کے لیے۔” کورا نے کہا۔
” شیور۔۔۔ پوری کوشش کروں گی ۔” ستی نے کہا۔
کیب مختلف راستوں اور سڑکوں سے ہوتی ہوئی ملبری ٹاؤن میں داخل ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں کار کورا کے گھر کے نزدیک پہنچ کے رک چکی تھی ۔
” ٹھیک ہے کورا ، گڈ بائے ۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا۔” کار رکنے کے بعد ستی نے کورا کو الوداع کرتے کہا ۔
” گڈ بائے ۔۔۔ ڈنر پے تمہارا انتظار رہے گا۔” کورا نے کہا ، دروازہ کھولا اور اپنے گھر کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی ۔
اور کیب پھر سے حرکت میں آ گئی۔۔۔۔
کورا گیٹ تک پہنچی اور اس نے کال بیل کا بٹن دبایا ۔
چند لمحے میں ہی دروازہ کھل گیا۔۔۔ دروازے پر اس کی امی تھیں ۔
” ماما ۔۔۔ ” اس نے محبت آمیز لہجے میں انہیں پکارا اور والہانہ انداز میں ان کی طرف بڑھی ۔
” بیٹا تم باہر کس وقت گئی ۔۔۔؟ ” امی نے کہا اور کورا کے قدم وہیں کے وہیں ساکت ہوگئے۔
” میں باہر کب گئی۔۔۔ ؟ آپ کو نہیں پتا ؟؟” کورا نے جیسے لرزتے لہجے میں کہا۔
” یہ کیا ہوگیا ہے ماما کو ، میں 4 دن بعد گھر لوٹ رہی ہوں ، 2 دن میں نے ہاسپٹل میں گزارے لیکن ماما کا ردعمل تو ایسا ہے گویا انہیں میرے ٹور کے لیے نکلنے کا بھی علم نہ ہو۔۔۔اور اس قدر جذبات سے عاری استقبال۔ خدایا ، یہ سب ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ ۔” کورا نے بری طرح سے کنفیوز ہوتے سوچا۔
” میں کہہ رہی ہوں کہ تھوڑی دیر قبل تو تم یہ کہہ کے اپنے بیڈروم میں گئی تھی کہ میں سونا چاہتی ہوں ۔۔۔ پھر باہر کب گئی ؟ ” امی نے کہا ۔ اور کورا کے دماغ میں جیسے کوئی آتش فشاں پھٹ گیا۔
” اچھا چھوڑو ، چلو اندر میں چائے بنا رہی تھی ابھی پہنچاتی ہوں تمہارے کمرے میں ۔۔۔ اور باہر جانے کا میں اس لیے پوچھ رہی کہ تمہیں چند دن مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔۔ فی الوقت مکمل آرام کرو کہیں آنے جانے کے بجائے۔” امی نے کہا ۔۔۔ اور کورا چار و ناچار بغیر کوئی جواب دیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔ اس کا دماغ ابھی تک اس گفتگو کے ایک حرف کو بھی ہضم نہیں کر پارہا تھا ۔
اپنے کمرے تک پہنچ کر اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا ، لیکن دروازہ لاک تھا ۔۔۔ وہ پھر سے چونک اٹھی ۔
” میرے کمرے میں اس وقت کون ہے ؟
کہیں سعد تو پاپا کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے میرے کمرے میں نہیں چھپا بیٹھا ۔۔۔” کورا نے سوچا اور دروازے پر دستک دی ۔
دوسری مرتبہ دستک دینے کے کچھ دیر بعد اسے لاک کھلنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔دروازے کا ہینڈل آہستگی سے گھوما ۔۔۔دروازہ کھلا ۔۔۔ اور ۔۔۔ کورا کو ایسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے دل و دماغ پر ایٹم بم پھاڑ دیا ہو ۔
اس کے ٹھیک سامنے ۔۔۔۔ وہ خود ہی کھڑی تھی ۔
جیسے اس کے سامنے کسی نے ایک قدِ آدم آئینہ کھڑا کر دیا ہو ۔
اس نے اپنا سر جھٹکا ، اپنی آنکھوں کو مسلا ۔۔۔ لیکن وہ منظر تبدیل نہ ہوا ۔
سامنے کھڑی کورا کی بھی یہی کیفیت تھی ۔
” کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔؟ لیکن میری تو ابھی آنکھ بھی نہیں لگی تھی ۔” دروازے میں کھڑی کورا اول نے بے اختیار کہا ۔
” لگتا ہے میرا دماغی توازن بگڑ چکا ہے اور میں فریبِ نظر کا شکار ہورہی ہوں ۔۔۔” کورا ثانی نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور کمرے میں داخل ہوئی لیکن سامنے کھڑی کورا سے اس کا زوردار تصادم ہوگیا اور ان دونوں کی چیخ ہی نکل گئی۔۔۔۔
” تو یہ میرا تخیل نہیں۔۔۔تم سچ میں یہاں ہو۔۔۔ لیکن تم ہو کون ؟؟” کورا نے اپنے لہجے میں پورے جہان کی حیرت سموئے کہا۔
” میں کورا ہوں ۔۔۔ لیکن تم کون ہو ؟؟ اور میرے ساتھ اس قدر مشابہہ کیسے ہو ؟؟” کورا نے کہا۔
” کورا میں ہوں ۔۔۔تم نہیں ۔ کون ہو تم اور میرے بیڈروم میں کیا کررہی ہو ؟” کورا نے کہا ۔
” اپنے بیڈروم میں آرام کرنے کے لیے کیا مجھے کسی کے اپروول کی ضرورت ہے۔۔۔؟ کورا نے کہا ۔
” ایک منٹ ، ایک منٹ ، ایک منٹ ۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم میری جڑواں اور ہم شکل بہن ہو اور ہمارے والدین نے کسی مسئلے یا مصلحت کی وجہ سے شروع سے ہمیں الگ رکھا ہو ، ایک دوسرے کے وجود سے بےخبر رکھتے ہوئے۔” کورا نے دروازہ بند کرتے کہا ۔
” اوہ۔۔۔ بات تو لاجیکل ہے ۔ تو تم اتنا عرصہ کہاں تھی ؟ مطلب کدھر رہائش پذیر تھی تم ؟” کورا نے پوچھا ۔
” میں ہمیشہ سے اسی گھر میں رہتی آئی ہوں ۔۔۔ بس تین دن گھر سے باہر تھی اور ابھی ستی نے مجھے واپس ڈراپ کیا ہے .” کورا نے کہا۔
اسی وقت گیلری میں قدموں کی آواز سنائی دی ۔۔۔
” ماما سے چائے لے لینا۔۔۔” کورا نے تیز لہجے میں کہا ، بیڈ پر چھلانگ لگائی اور تیزی سے کروٹ بدلتے ہوئے بیڈ کی دوسری سمت قالین پے گر گئی۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور کورا کی امی ایک چھوٹی ٹرے میں چائے کا کپ کے کر اندر داخل ہوئیں ۔۔۔۔
” کیا ہوا اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو چندا ۔۔۔؟ امی نے کورا کے چہرے پر نظر جمائے ہوئے پیار سے کہا ۔
” نہیں ماما بس سردرد ۔۔۔” کورا بمشکل چند لفظ بول پائی۔
” اوہ اچھا۔ چلو چائے پی لو ۔ دور ہو جائے گا سردرد ۔۔۔” انہوں نے ٹرے کو ٹیبل پر رکھتے کہا۔
اور پھر باہر نکل گئیں۔
ان کے نکلتے ہی کورا نے دروازے کو لاک کیا ۔۔۔
” نکل آؤ اب ۔۔۔” کورا نے بیڈ کی سمت دیکھتے ہوئے آواز لگائی تو چند لمحے بعد کورا بیڈ کے نیچے سے نکل آئی۔
” تم نے کہا تم ستی کے ساتھ آئی۔۔۔ ستی کے ساتھ ہی کل میں بھی آرہی تھی کہ مجبوراََ ہمیں راستے میں جدا ہونا پڑا اور گھر کا تک کا باقی فاصلہ میں خود ہی آئی کیب پر ۔۔۔” کورا نے کہا۔
جس پر کورا نے ایک طویل سانس لیا۔۔۔۔۔
” یہاں آنے سے قبل تم کہاں تھی ؟؟” چند لمحے کے توقف کے بعد اس نے پوچھا ۔
” ستی کے ہاسپٹل میں ۔۔۔” کورا نے کہا۔
” ارے۔۔۔ میں بھی تو ستی کے ہاسپٹل میں ہی تھی ۔۔۔ کونسے روم میں تھی تم ؟؟” کورا نے پوچھا
” روم نمبر 12 میں۔۔۔” اس نے کہا۔
” میں بھی روم نمبر 12۔۔۔۔” کورا نے اپنے ماتھے پے ہاتھ رکھتے کہا۔
” جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کا تعلق ستی اور اس کے ہاسپٹل سے ضرور ہے۔۔۔ ستی کہاں ہوگی ؟ اسے بلاؤ فوراً۔” کورا نے کہا۔
” ستی نے ابھی کچھ دیر پہلے مجھے ڈراپ کیا ۔۔۔ زیادہ دور تک نہیں گئی ہوگی ۔۔۔ اپنا موبائل دو مجھے۔۔ میرا موبائل کھو گیا ہے۔” کورا نے تیز لہجے میں کہا۔
” میرا موبائل بھی کھو گیا ہے۔۔۔” اس نے پریشان لہجے میں کہا ۔
” کم آن ۔۔۔ کچھ تو کرو۔ میرا دماغ نہیں کام کررہا بالکل۔” کورا نے زچ لہجے میں کہا ۔
” یہیں رکو ۔۔۔ میں سعد کے موبائل سے ستی کو کال کرتی ہوں۔” کورا کے کہا ۔ دروازے کا لاک کھولا۔ اور باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستی، کورا کو اس کے گھر ڈراپ کرنے کے بعد اسی کیب پر واپس اپنے ہاسپٹل کی طرف محوِ سفر تھی کہ اسی وقت اس کا موبائل بج اٹھا ۔
نمبر اس کے لیے انجان تھا ۔۔۔۔ اس نے کال ریسیو کی ۔
” ہیلو ستی ؟ میں کورا بول رہی ہوں ۔۔۔ کہاں ہو اس وقت ؟” رابطہ ہوتے ہی اسے کورا کی آواز سنائی دی۔
” کورا ؟ یہ نمبر کس کا ہے ۔۔؟ سب خیریت ؟” اس نے کورا کے لہجے میں عجلت کا تاثر محسوس کرتے ہوئے کہا۔
” خیریت ہی تو نہیں ہے ۔۔۔ تم جہاں بھی ہو ابھی اسی وقت واپس میرے گھر پہنچو ۔ اٹس ارجنٹ۔” کورا نے کہا۔
” میں راستے میں ہوں ۔۔۔ ہوا کیا ہے ؟ میرا ہاسپٹل پہنچنا بہت ضروری ہے کورا۔۔” ستی نے کہا۔
” ایک دن تم نے ہاسپٹل سے چھٹی کر لی تو دنیا میں شرحِ اموات دگنی نہیں ہوجائے گی۔۔۔ پلیز جلدی پہنچو ۔ ہم اس وقت ایک بڑی پریشانی میں ڈوبے ہیں۔۔” کورا نے تیز لہجے میں کہا۔
” ہم؟ ۔۔۔ ہم سے کیا مراد ہے تمہاری ؟” ستی نے کہا لیکن رابطہ منقطع ہوگیا ۔
” نجانے اب کیا افتاد آن پڑی ۔۔۔ مجھے واپس جانا ہی ہوگا ۔” ستی نے سوچا اور ڈرائیور سے گاڑی موڑنے کا کہا۔
ڈرائیور نے اس کی ہدایات کو سنا اور گاڑی واپس ملبری ٹاؤن کی طرف موڑ لی۔
نصف گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد کیب پھر سے کورا کے گھر کے پاس پہنچ چکی تھی ۔
گاڑی رکنے کے بعد ستی کے فیئر میٹر دیکھ کر ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی ۔
بیل بجانے پر سعد نے دروازہ کھولا ، ستی اندر داخل ہوئی ، گھر پے سب سے رسمی سلام دعا کے بعد اسے نے کورا سے متعلق استفسار کیا ۔۔۔
” کورا اپنے کمرے میں ہے بیٹا ، اس کی طبعیت بھی کچھ ناساز تھی ۔ کہہ رہی تھی کہ سردرد ہے۔۔۔” کورا کی امی نے کہا۔
” اوہ اچھا۔۔۔ ڈونٹ وری میں اس کا جائزہ لیتی ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو میڈیسن بھی لکھ دوں گی۔” ستی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور ستی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
وہاں پہنچ کر اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو کمرہ لاک تھا ۔۔۔ اس نے دروازے پے دستک دی ۔
چند لمحوں میں ہی دروازہ کھل گیا۔۔۔حسبِ توقع دروازے پر کورا ہی تھی ۔
ستی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔
” جی حکم سرکار ؟ ” ستی نے اندر پہنچتے ہی کورا سے کہا ، وہ واپس ہسپتال نہ پہنچ پانے کی وجہ سے زچ تھی۔
” پہلے تو یہ بتاؤ ۔۔۔ تم کل لینڈ سلائیڈنگ کے بعد کہاں غائب ہوگئی تھی ؟ میں کافی دیر ریسکیو سینٹر میں انتظار کرتی رہی کہ شاید تم بھی وہاں پہنچ جاؤ ریسکیو ٹیم کی کسی گاڑی میں، لیکن جب تم وہاں نہیں پہنچی تو مجبوراً مجھے اکیلے ہی واپس آنا پڑا ۔۔۔” کورا نے کہا اور ستی کو یوں لگا کہ جیسے اس کے دل و دماغ پر آسمانی بجلی گرا دی گئی ہو۔۔۔ اس نے اپنی آنکھوں سے لینڈ سلائیڈنگ کے دوران ایک چٹان کو کار سے ٹکراتے اور کار کو سینکڑوں فٹ بلندی سے دریا میں گرتے دیکھا تھا ۔۔۔ اور اسی وجہ سے اس نے کورا کو دوسری مرتبہ کلون کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
” کورا صاحبہ ۔۔۔ آپ بھی تشریف لے آئیں۔” کورا نے ستی کو خاموش اور مبہوت دیکھ کر کہا اور آگے بڑھ کے کمرہ لاک کردیا ۔
” آرہی ہوں۔۔۔” بیڈ کے نیچے سے آواز آئی اور اگلے ہی لمحے دو عدد کورا ، ستی کے سامنے تھیں۔
ایک ساتھ دو کورا کو سامنے دیکھ کر ستی پر تو جیسے حیرتوں کا کوہ ہمالیہ ٹوٹ پڑا۔
” پیاری کزن ، اب بتاؤ کہ ماجرا کیا ہے ۔۔۔ ہم دونوں کا تو اب تک دماغ بھی پگھل کے بہہ چکا ہے۔” کورا نے بیڈ سے ، ان دونوں کی جانب بڑھتے کہا۔
” بتاتی ہوں ۔۔۔ سب بتاتی ہوں ۔ اب چھپانے کو کچھ نہیں رہا ۔ بیٹھو آپ دونوں۔” ستی نے کرسی کھینچ کر بیڈ کے نزدیک کرتے کہا ۔ جبکہ دونوں کورا بیڈ پر ہی بیٹھ گئیں۔
جس کے بعد ستی نے اول تا آخری ساری بات ان کے گوش گزار کرنا شروع کردی ۔۔۔۔ پندرہ منٹ مسلسل بولنے کے بعد جب وہ رکی تو کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی ۔
” اس کا مطلب ہے ۔۔۔ میں مر چکی ہوں۔” کورا نے ڈوبتے لہجے میں کہا۔
” نہیں۔۔۔ خدا نہ کرے ۔ مریں تمہارے دشمن۔” ستی نے کہا۔
” ٹھیک کہہ رہی ہے وہ ۔۔۔ اصل کورا تو اس حادثے میں چل بسی تھی ناں۔ ہم تو محض اس کا عکس ہیں۔” کورا نے، کورا کی بات کی تصدیق کرتے کہا۔
” نہیں، ایسا مت سوچو ۔ تم دونوں کورا کی کلونز ہو یعنی تمہارا جنم کورا کے خون سے ہوا ہے۔۔۔ اب آپ دونوں کو ہی کورا کی زندگی جینی ہے۔” ستی نے کہا۔
” لیکن کیسے ۔۔۔۔ ؟ ہم دونوں نہ تو ایک گھر میں رہ سکتی ہیں، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور رہائش یا وسائل ہیں ۔۔۔ بلکہ ہماری تو یادیں بھی دھندلی اور ادھوری ہیں ۔۔۔ ہم مکمل نہیں ٹکڑوں میں بٹا وجود ہیں ستی۔” کورا نے کہا۔
” دیکھو ڈئیر سسٹرز۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی ‘مکمل’ نہیں پیدا ہوتا ۔ ہمیں اپنے نامکمل ٹکڑوں کو خود کمانا پڑتا ہے۔۔۔ تین چار سال کی عمر میں ایک کمزور، نرم و نازک، تعلیم و ہنر سے عاری وجود سے لے کر پچیس ، تیس کی عمر میں تعلیم و ہنر یا تجربے سے آراستہ ، خودمختار اور Independent انسان بننے تک ہمیں اپنی شخصیت کی تکمیل خود ہی کرنی ہوتی ہے ۔۔۔ جس میں معاشرہ اور خاندان ہمارا معاون تو ضرور ہوتا ہے لیکن ہمارے معمار ہم خود ہیں۔۔۔۔۔تم دونوں میرے لیے ‘کورا جیسی’ نہیں ہو ۔ بلکہ تم دونوں میرے لیے ‘کورا ہی’ ہو۔۔۔۔
اب رہی بات کہ ہم معاشرے کے چیلنجز کا سامنا کیسے کریں گے ؟
تو ڈونٹ وری ، اس کا بھی کوئی حل میں ضرور نکال لوں گی ، ہاں مجھے کچھ وقت درکار ہوگا ۔۔۔ 2 سے 3 دن ۔ تب تک آپ دونوں کو اسی گھر میں رہنا ہوگا ۔ لیکن دھیان رہے کہ اس بات کا راز کسی صورت نہ کھلنے پائے کہ تم دو ہو ، ایک نہیں۔۔۔” ستی نے تفصیلاً بولتے ہوئے کہا۔
” ہمممم ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔ اتنا تو ہم کر ہی لیں گی۔” کورا نے کہا ۔
” ایگزیکٹلی ۔۔۔ بائی دا وے، یہ سب تو بالکل ایک ایڈونچر کی طرح لگ رہا ہے اب مجھے ۔” کورا نے کہا ۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔ تو سب سے پہلے ۔۔۔ کورا، کیونکہ پہلے تمہیں کلون کیا گیا تھا اس لیے تمہارا نام ‘کورا اول’ ہوگا ۔۔۔ اور کورا ، کیونکہ تمہیں کورا اول کے بعد کلون کیا گیا ہے ۔ اس لیے تمہارا نام اب سے ‘کورا ثانی’ ہوگا ۔۔۔ let’s the adventure begin”. ستی نے خوشگوار لہجے میں کہا ۔
” اوکے باس ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” ڈن۔۔۔” کورا ثانی نے کہا ۔
” تو اب سنو۔۔۔۔ سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔۔۔ اور اگر کوئی بھی پوچھے کہ تم اس بحری حادثے سے کیسے بچ نکلی چاہے گھر میں کوئی پوچھے ، کوئی رشتے دار ، میڈیا یا کوئی سرکاری اہلکار ، یاد رکھنا کہ تمہیں وہی کہانی دہرانی ہے کہ تم فیری میں بیٹھی بھی نہ تھی بلکہ طبعیت کی خرابی کی وجہ سے سفر سے رہ گئی تھی ۔۔۔ اوکے ؟” ستی نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کی پرسکون تاریکی میں ایک کار سینڈزبرگ سے ملبری ٹاؤن کی طرف ، ایک ہائی وے پر اوسط رفتار سے محوِ سفر تھی ۔
کار کو ایک ادھیڑ عمر ڈرائیور ڈرائیو کررہا تھا ، کار کی فرنٹ سیٹ خالی تھی جبکہ بیک سیٹ پر ایک ہی سواری موجود تھی۔۔۔ اور یہ تھی کورا۔
کار کے کھلے شیشے سے آرہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو محسوس کرتے ہوئے وہ گزشتہ چند دن میں اس کے ساتھ بیت چکے واقعات کو سوچ رہی تھی ، جو کسی فلم کی طرح اس کے دماغ میں مسلسل چل رہے تھے ۔
آرچڈ آئی لینڈ کی طرف سفر معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ جب انجن روم کی طرف سے ایک دھماکے کی آواز آئی اور فیری میں آگ بھڑک اٹھی ۔ اس آگ نے آن کی آن میں سپلائیز کیبن کو بھی گھیر لیا جہاں لائف جیکٹس ، ربڑ کے رافٹس اور دیگر ایمرجنسی سامان موجود تھا ۔۔۔ آگ اس قدر تیزی سے پھیلی کہ چند لمحوں میں فیری پر شدید بھگدڑ کا سماں پیدا ہو گیا ۔۔۔ انجن روم تباہ ہوجانے کی وجہ سے اب وائرلیس کے زریعے مدد کی اپیل بھیجنا ممکن نہ تھا ، اور بدقسمتی سے سمندر کے اس حصے پر موبائل سگنلز نہ ہونے کے برابر تھے ، گویا کہیں بھی اس حادثے کی اطلاع کر پانا ممکن نہ تھا ۔
جس رفتار سے آگ پھیل رہی تھی چند منٹ میں ہی فیری کسی تندور کا منظر پیش کرنے لگی ، جہاں جہاں آگ ابھی تک نہ پہنچی تھی فیری کے وہ حصے بھی دھویں سے بھر چکے تھے اور کسی بھٹی کی طرح تپتے جارہے تھے۔۔۔ ایسے میں سبھی مسافروں کے پاس سوائے سمندر میں چھلانگ لگا دینے کہ اور کوئی چارہ نہ تھا ۔۔۔ گویا ان کے پاس دو ہی آپشن تھے کہ یا تو وہ جل کے مریں ، یا پھر ڈوب کر ۔
کورا سب سے پہلے فیری سے چھلانگ لگا دینے والوں میں سے تھی۔ کیونکہ وہ تیراکی جانتی تھی اور اب اس کا ہدف جلتے ہوئے دھاتی سانچے سے جلد از جلد دور ہوجانا تھا اس سے قبل کہ وہ دھماکے سے پھٹ جاتا اور اپنے اندر اور نزدیک موجود سبھی لوگوں کو راکھ میں بدل دیتا۔۔۔
کورا جتنی تیز تیر سکتی تھی تیر رہی تھی ، اسے پوری امید تھی کہ کوئی ریسکیو بوٹ ، کوسٹ گارڈ یا نیوی کی بوٹ یا پھر ہیلی کاپٹر جلد وہاں پہنچ جائیں گے اور اس کے بچ نکلنے کا کوئی وسیلہ بن جائے گا ۔۔۔ کورا مسلسل ایک گھنٹے تک تیرتی رہی ، یہاں تک کہ اسے اپنا جسم تھکاوٹ کے باعث شل ہوتا محسوس ہوا۔۔۔ وہ جلتی فیری سے کافی دور نکل گئی تھی ، اور اب رات کا اندھیرا سمندر کو اپنی آغوش میں لینے لگا تھا ۔۔۔ رات ہونے کا مطلب تھا کہ اسے کسی بوٹ یا ہیلی کاپٹر سے دیکھ لیے جانے کے امکانات بہت محدود تھے۔
وہ بری طرح سے تھک چکی تھی اور اسے اب شدید پیاس محسوس ہورہی تھی ۔
اب وہ مزید نہیں تیر سکتی تھی ۔۔۔ چنانچہ اس نے سمندر میں پیر چلاتے ہوئے خود کو بس سطح پے قائم رکھنے کا کام شروع کردیا ۔۔۔ لیکن اس حالت میں بھی وہ محفوظ نہ تھی ۔۔۔ سمندر لاتعداد خونخوار مخلوقات جیسے شارک ، سکیوئیڈ, زہریلی جیلی فش اور آبی سانپوں سے بھرا ہوا تھا ۔
اسی وقت اسے کچھ فاصلے پر سمندر کی سطح پر کوئی چیز تیرتی نظر آئی اور وہ تیزی سے تیر کر اس جانب بڑھی ، نزدیک پہنچنے پر وہ چیز ، کسی تباہ شدہ بوٹ کا پرانا ٹکڑا ثابت ہوئی ۔۔۔ کورا نے اس ٹکڑے جو بھی اس وقت غنیمت جانا اور اس پر سوار ہوگئی ۔۔ اس کا سائز اتنا نہ تھا کہ وہ اس پر لیٹ پاتی ، تاہم اتنا ضرور تھا کہ وہ اس پر بیٹھ پاتی ۔۔۔اس نے تیز لہروں کے دوران اس آہنی ٹکڑے سے گر جانے کے خدشے کے باعث اس کے کناروں کو مضبوطی سے تھام لیا ۔۔۔ رات بھر وہ آہنی ٹکڑا لہروں کے رخ پر بہتا رہا ، شدید تھکاوٹ اور ایگزاسچن کے باوجود بھی کورا کے لیے سوجانا ممکن نہ تھا ۔۔۔ کیونکہ وہاں اتنی جگہ ہی کہ تھی کہ وہ لیٹ پاتی یا نیم دراز ہو پاتی ۔۔۔ اور بیٹھے بیٹھے بھی آنکھ لگنے کا مطلب تیز لہروں سے اس آہنی ٹکڑے کا اس کے ہاتھوں سے چھوٹ جانا تھا ، جو کہ وہ کسی صورت نہ چاہتی تھی ۔
رات کے پچھلے پہر اسے دور کہیں سے ہیلی کاپٹروں کی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی ، تاہم ایک تو وہ کافی فاصلے پر تھے اور دوسرا کورا کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی کہ جس کی مدد سے وہ روشنی کرکے انہیں سگنل دے پاتی ۔
اگلے چوبیس گھنٹے کورا کے لیے زندگی کا بدترین وقت ثابت ہونے کو تھے ۔۔۔۔۔ شدید پیاس ، بھوک اور نقاہٹ سے برا حال ، تپتی دھوپ جہاں بال برابر بھی سایہ نہ تھا ، اس کا پورا جسم کسی پھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا اور مسلسل کئی گھنٹے سمندر میں گزارنے کے بعد اب وہ Sea Sickness کا بھی شکار ہوتی جارہی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ اگلی رات اور پھر اگلی صبح آنے تک اس کی ہمت اور جسم مکمل طور پر جواب دے چکا تھا۔
اس نے خود کو تختے پر اس طرح لٹا دیا کہ اس کا سر اور سینہ تختے پر جبکہ باقی جسم پانی میں تھا کچھ ہی دیر میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی تھی ۔