ہائی اولیویا ۔۔۔۔۔ ماہی حیا کو ہوسٹل چھوڑ کے گھر آ گی تھی
ہائی پیاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ایم سوری میں آپ کو ٹائم نہیں دے پاتی ماہی بولتی ہوئی اولیویا کے پاس بیٹھ گی
ارے کوئی بات نا ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اولیویا ایک بات تو بتایں ۔۔۔ آپ لندن میں رہتی ہیں اپنے اردو کہاں سے سیکھی ماہی کو آج پھر اولیویا کی اردو پر ہسی آئی تھی مگر وہ دبا گی تھی
ہم کو ہم کو تھو حسان اور علی نے سکھائی تھی ، وہ اور علی یہاں ہی تو رہتا تھا
حسان ماہی کا دل روک گیا تھا اس نام پر
حسان نے وہ وہ یا ہاں۔ یہاں کب آے ماہی سے بولا نہیں جا رہا تھا
ارے تم کو نہیں پتا جس یونیورسٹی میں تم پڑھ رہا ہے حسان وہیں تو پڑھا ہے اور جس کمرے میں تم رہتا ہے وہ بھی حسان کا ہے
جب حسان اور علی یہاں پڑھنے آیا تھا تب ہی احمد صاحب نے یہ گھر خریدا تھا اور شاید یہ حسان کے ہی نام پر ہے
اولیویا ماہی کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بولی
اولیویا اور بھی پتا نہ کیا کیا کے رہی تھی ۔۔۔۔۔مگر اسکا دماغ بند ہوگیا تھا ۔۔
اولیویا میں روم میں جا رہی ہوں ٹھیک ہے بہت تھک گی ہوں
ٹھیک ہے میں جوس بھجتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
نہیں ابھی دل نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے تم آرام کرو ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی کہتے ساتھ ہی سیڑیاں چڑھتی کمرے میں گھسس گی تھی
†***************************†
آج اسنے پہلی بار اس کمرے کو غور سے دیکھا تھا
یہ سوچ ہی اسکے دل میں حل چل کر رہی تھی جس کمرے میں وہ پیچھلے ساڑے چار مہینو سے رہ رہی ہے وہ اسکے محرم کا ہے اُس اُس سیتمگر کا ہے اور وہ کب سے اس بات سے انجان تھی ******************
موم کو کال کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ ماہی موبائل اٹھا کر ہانیہ بیگم کو کال کرنا شروع ہو گی تھی
جو کے کوئی اٹھا ہی نہیں رہا تھا تھک کر ماہی بیڈ پر لیٹ گی تھی اسکے بعد وہ کب سوئی اسے پتا ہی نہ چلا
†***************************†
احمد ماہی پیچھلے تین دن سے 150 سے اوپر کال کر چکی ہے آپ کی طبیعت اب بہتر ہے اللّه کے کرم سے تو آپ بات کرلیں میں نے بھی نہیں کی ہے وہ پریشان ہوگی ہانیہ بیگم احمد شاہ سے بولیں حسان جو آفس سے گھر آیا تھا اپنی ماں کی بات سن لی تھی
اچھا آپ سکائپ پر کال کریں بات کر لیتے ہیں پریشان ہو رہی ہوگی گڑیا احمد شاہ حسان کو دیکھتے ہوئے بولے
جی اچھا ہانیہ بیگم کہتی ہوئی اٹھ گئی
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم سلام آج دیر کردی کافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ڈیڈ کچھ ڈیلر آے ہوئے تھے حسان احمد شاہ کو بتاتے ہوئے انکے پاس بیٹھ گیا تھا
شاہ بات کرلیں ماہی س سے ہانیہ بیگم حسان کو دیکھ کے پریشان ہوگی تھیں ۔۔۔
میں فریش ہونے جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ حسان کہتے ساتھ سیڑیاں چڑھ گیا تھا مگر روم میں جانے کے بجاۓ وہ پلر کے پیچھے ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ آپ کال لگیں کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔ احمد صاحب ہانیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔۔۔
جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
†*************************†
ماہی جو بیڈ پر کتابیں پھیلاے نوٹس بنا رہی تھی ۔ ہانیہ بیگم کی کال دیکھ کر ایک منٹ ذایعہ کیے بغیر
اٹھائی تھی
موم موم کہاں ہیں آپ اور ڈیڈ میں تین دن سے کال کر رہی ہوں آپ دونوں کو آپ دونوں ٹھیک ہننا ڈیڈ بھی میری کال نہیں اٹھا رہے ماہی ویڈیو کال پر نون اسٹاپ روتے ہوئے بولے جا رہی تھی
گڑیا ۔۔۔۔۔۔ بس بس میری جان ہم ٹھیک ہیں دیکھ لو تم خود ہی میرا موبائل گم ہو گیا تھا اور تمہارے ڈیڈ اوٹ اوف کنٹری تھے ہانیہ بیگم ماہی کو چپ کرواتے ہوئے بولی
پکا نہ ۔۔۔۔۔۔ماہی نے یقین دہانی چاہی
ہاں میری جان ۔۔۔۔۔ احمد صاحب پیار سے بولے
آپ کیسی ہو گڑیا ۔آپ کی اسٹڈی کیسی جا رہی ہے ، احمد صاحب ماہی کو دوسری باتوں میں لگا گے تھے
اچھی ڈیڈ ایک منتھ بعد پہلا سمسٹر سٹارٹ ہے اور میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی ایدھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گی تھی مگر اسکی آنکھیں بھٹک کر اس پاس دیکھنے میں لگی ہوئی تھیں جو احمد شاہ اور ہانیہ شاہ نے بھی نوٹ کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھیں ایک گھنٹہ ہوگیا تھا کال پر بات کرتے ہوئے
اوکے گڑیا اپنا خیال رکھنا کل بات ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے
جی ٹھیک ہے
بائے موم بائے ڈیڈ لوو یو اینڈ مس یو سو مچ
یو ٹو میری جان بائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کال ڈراپ ہوگی تھی اور ماہی کو سانس آئی تھی اپنے موم ڈیڈ سے بات کرکے اور جس شخص کی طرف اسکا ذہن جا رہا تھا وہ اسے ابھی سوچنا نہیں چاہتی تھی
آنکھیں بند کرکے اسنے لمبا سانس لیا تھا اور دوبارہ اپنے نوٹس بنانۓ لگ گی تھی
*****************اور دوسری طرف حسان جو اسکی آواز آنکھیں بند کرکے سن رہا تھا کال ڈراپ ہونے پر آنکھیں کھولی تھی ایک سانس بھر کے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے خوشنصیب ہیں وہ لوگ جن کو بھولنے کا ہنر آتا ہے۔
بڑی اذیت سے گزرتے ہیں جن کو ہر بات یاد رہتی ہے
†**************************†
رات کے تین بجنے کو تھے مگر نیند اسکی آنکھوں سے کوسو دور تھی جب آخر تھک گیا تو اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا تھا
بیس منٹ بعد اسنے گاڑی ایک گھر کے آگے روکی تھی
ڈور انلاک کرکے وہ جسیے اندر داخل ہوا اسکی نظر سامنے روم کے بند دروازے پر پڑھی تھی
پیچھے موڑ کر اسنے دروازہ بند کیا اور سامنے بنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ایک بڑی سی تصویر کے اگے کھڑا ہوگیا تھا
بینا پلک جهپکے تصویر میں اس شخصیت کو دیکھ رہا تھا
آ جاؤ نہ تم تو محبت کرتی ہو مجھے سے پھر آ کیوں نہیں جاتی ۔۔۔۔ تمھیں پتا ہے کبھی تم سے نفرت نہیں کی مگر ہمیشہ میری نفرت میری محبت کو دبا دیتی تھی
پتا نہیں میں کیسی محبت کرتا ہوں تم سے تکلیف بھی دیتا ہوں اور بعد میں کہتا ہوں مجھے محبت ہے تم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پتا نہیں اس تصویر سے کیا کیا باتیں کر رہا تھا ۔۔۔
اگر اس ہال نما کمرے پر غور کیا جاۓ تو یہاں پورے کمرے میں ہر جگہ پر ہر کونے میں صرف ایک ہی شخصیت کی ہزاروں تصویریں تھی اور وہ کسی اور کی نہیں بلکے ماہیں حسان شاہ کی تھی
تصویر کے پاس سے ہٹتے وہ کمرے میں رکھے ایک ہارٹ شیپ باکس کے پاس آیا تھا ۔۔۔۔اسے کھول کر اس میں سے دونوں چیزیں نکال کے دیکھنے لگا
ہارٹ شیپ لوکیٹ کھولا تو حسان نے اس میں لگی اپنی اور ماہی کی تصویر کو دیکھا تھا لوکیٹ کو چوم کر اسنے واپس رکھ دیا تھا جب کے ہاتھ میں پکڑی ڈائری پکڑ کے دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا تھا
ڈائری کو سینے سے لگا کے اسنے آنکھیں بند کر لیں تھی
آنکھیں بند کرتے ہی وہ ماضی میں چلا گیا تھا جب اسے یہ ڈائری ملی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساڑے چار ماہ قبل
جیسے ہی اسنے ٹیڈی بیر اٹھایا تھا ماہی کا لوکیٹ نیچے آ گیرا تھا آگے بڑھ کے جیسے ایسے اٹھانے کے لیے جھکا تھا ۔ کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے ہوا کا جھونکا تیزی
سے آیا تھا ماہی کی ڈائری جو بیڈ کے اُس طرف گیری ہوئی تھی ہوا کی وجہ سے اسکے پنیے کھول کر آواز کرنے لگے تھے ۔۔ حسان پنو کی آواز پر ٹھاٹکا تھا جلدی سے لوکیٹ کو اٹھایا اور موڑ کر ایدھر ادھر دیکھنے لگا آگے آیا تو سامنے اسے ایک ڈائری نظر آئی تھی
پنجو کے بل بیٹھ کے حسان نے وہ ڈائری اٹھائی تھی دونوں چیزیں اٹھا کر کھڑکی بند کرکے وہ باہر کی طرف بڑھ گیا تھا
حسان کمرے کا دروازہ بند کرکے اپنے روم میں آ گیا تھا
دونوں چیزیں لیکے وہ صوفے پر بیٹھ گیا تھا
حسان نے جیسے ہے لوکیٹ کھولا تو اس میں اپنی اور ماہی کی تصویر پائی تھی ۔۔۔۔ کافی دیر بعد لوکیٹ بند کرکے اسے ٹیبل پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائری اٹھا کر جیسے ہی اسنے کھولی سامنے ماہی کی تصویر لگی تھی اس نے سانس بھر کے آگلا صفہ کھولا تھا جہاں ایک شعر لکھا تھا
***کاش اُس آنا زادے کو مجھ سے محبت ہو ۔۔
اور میرے دل میں موجود محبت اُسکے لیے مر جاۓ
یہ شعر پڑھتے ہی حسان کو گھبراہٹ ہونے لگ گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگلا صفہ
تمہیں پتا ہے حسان کی آواز میں جادو ہے اگر وہ کبھی میرے ہوئے تو میں انسے اپنا پسّندیدہ گانا *تم کون پیا * ضرور سنوگی
ویسے گاتی میں بھی کم نہیں ہوں مگر حسان کی آواز کی بات اپنی ہے ہاہاہاہا
تمھیں پتا ہے مجھے محبت ہوگی ہے ہاہاہا یقین نہیں آ رہا مجھے ۔۔۔ مجھے مجھے حسان شاہ سے محبت ہوئی ہے
اور دیکھنا وہ ایک دن میرا ہوگا میری کوئی دعا رائگا نہیں جاۓ گی
تمھیں پتا ہے حسان کو دیکھتے ہی میرے چہرے پر مسکان آ جاتی ہے میں بلا وجہ ہسنے لگی ہوں بیٹھے
بیٹھے پتا نہیں کہاں کھو۔ جاتی ہوں شاید نئی نئی محبت کا عصر ہے ہاہاہا
۔۔ آگلا صفہ
“کوئی گُناہ نہیں ہے عِشق جو ہم چُھپائیں گے
“ہم نے چاہا ہے تُم کو تو پُوری دُنیا کو بتائیں گے
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار وں طرف
اور یہاں آپ لیے بیٹھےھیں________
:مجھ پر اپنا عشق یونہی برقرار رہنے دو.
بڑا حسین ہے یہ قرض مجھے قرضدار رہنے دو .
ترے بعد نظر نہیں آتی مجھے کوئی اور منزل …
کسی اور کا ہونا میرے____اب میرے بس کی بات نہیں …
.
:غلط نہیں زمانے میں لاجواب ہیں ہم
سمجھ سکے نہ کوئی وہ کتاب ہیں ہم
” ہم نے محبت کا بھرم سب سے جدا رکھا ہے
دیکھ زکر تیرا ہے مگر نام چھپا رکھا ہے ”
ہر طرف شاعری ہے شاعری لکھی ہوئی تھی
اور وہ ماہی کے زوق کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا تھا
مجھے اتنی فرصت ہی کہاں کہ موسم سہانہ دیکھوں
تیری یاد سے باہر نکلوں تو زمانہ دیکھوں۔۔۔۔
صفہ پلٹتا ہوا وہ ایک ایک شعر پڑھ رہا تھا
اگلا صفہ۔۔۔۔
وہ وہ میرا ہے مجھے مجھے یقین نہیں آ رہا کی دعائیں اسے بھی قبول ہوتی ہیں وہ میرا محرم ہے میرا شوہر ہے وہ ہمیشہ سے میرا تھا اف میں نماز پڑھ لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین ہی تو مسلے ہیں ہایے
تم سے عشق ،شاعری اور چاۓ
۔۔۔۔۔۔
تجھے سوچوں تو جینے
کا ارادہ رقص کرتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صفہ
تمھیں پتا ہے وہ مجھ سے شدید نفرت کرتا ہے ۔۔۔ہاہا میری محبت اسے اسے نہیں دیکھتی وہ ہر دفع مجھے نئی تکلیف سے دو چار کر جاتا ہے
کہتا ہے میں میں نفرت کے لائق ہوں ۔۔ہاہاہا مجھے وہ خود کے لائق نہیں سمجھتا
وہ سمجھتا ہے کی مینے اس سے موم ڈیڈ کی محبت چھینی ہے
اسے یہ کیوں سمجھ نہ آتی کے جس کے خود ماں باپ نہ ہو وہ وہ کیسے اسکے موم ڈیڈ چھین سکتی ہے
جو خود اسے شدید محبت کرتی ہے وہ کیسے اسکے اپنے چھین سکتی ہے
کیوں وہ میری اتنی تذلیل کرتا ہے اللّه جی کیوں
موم ڈیڈ نے کبھی مجھے میرے موم ڈیڈ کے یاد نہیں آنے دی مجھے اتنا چاہا
مگر کبھی تو مجھے میرے موم ڈیڈ یاد آتے ہونگے میں بھی چھپ چھپ کے روتی ہونگی یہ یہ کیوں نہیں سوچتا وہ اللّه جی
اپنی بےقدری کی حد کی تھی
ہم میسر تھے ایسے ویسوں کو
صفے جگہ جگہ سے کٹک ہوئے وے تھے جیسے آنسو گیرے ہوں شاید وہ روتی ہوئی لکھتی رہی ہوگی
صفہ
میں کل جا رہی ہوں اسے دور بہت دور مجھے نہیں پتا کی میں کیسے رہوں گی اسے دیکھے بغیر مگر شاید وہ مجھے سے سہی نفرت کرتا ہے شاید وہ کبھی چاہتا ہی نہ تھا کے اسکے موم ڈیڈ کبھی کسی کے ہوں
میں جب تک یہاں رہونگی حسان موم ڈیڈ کے قریب نہیں ہوگا اس لیے مجھے جانا ہوگا مجھے اپنی محبت سے زیادہ اسکی خوشی عزیز ہے
میری خوائش رہے گی کہ کبھی حسان میرا نام اپنے نام کے ساتھ ملا کر مجھے بلائیں
*ماہین حسان شاہ ۔۔۔ مگر مجھے یہ ایک خواب لگتا ہے
مجھے پتا ہے اُسے نفرت ہے مجھ سے
اُسے پتا ہے مجھے عشق ہوا ہے اُس سے
اور اسکے ساتھ ہی حسان نے ڈائری بند کردی تھی اور اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا
یہ کیا کر دیا مانے یا الله مجھے معاف کر دیں میں نے کتنا غلط کر دیا ماہی کے ساتھ وہ بچپن سے مجھے چاہتی آئی ہے اور اور میں نے کیا دیا اسے ہمیشہ تکلیف دی کیوں ہمیشہ میں نے اپنی نفرت کو فوقیت دی اپنی محبت پر
وہ میری محبت میں دور چلی گی ہے
آنسو حسان کی آنکھ سے نکل کے اسکی شرٹ میں جذب ہوا اسے پتا ہی نہیں چلا میں میں اسے لے آوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بتاو تم سے کہاں __ رابطہ کیا جائے
کبھی جو مجھ کو —- تمہاری ضرورت ہو
†*****************************†