پانچ سال بعد
” سدیس! آجائو۔ نانو کو تنگ مت کرو۔ کھانا ختم کرلو جلدی سے اپنا۔ پھر بابا بھی آنے والے ہیں آپ کے۔ جلدی سے کھانا کھا لو پھر آپ کو ریڈی کر دوں گی میں پھپھو کی مہندی ہے آج۔ ”
زوہا اپنے چار سال کے بیٹے کو ڈانٹتی ہوئی بولی جو اظہار صاحب کی گود میں چڑھا انکے چشمے سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔
” ارے کیوں ڈانٹ رہی ہو میرے شیر کو تم۔ ”
اظہار صاحب نے مصنوعی غصے سے زوہا کو ڈانٹا۔
اتنے میں فائز کمرے میں داخل ہوا۔
سدیس اسے دیکھ کر دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔
” میری چاکلیٹ؟ ”
اس نے فائز کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔
” چاکلیٹ تب ملے گی جب سدیس سے مجھے کسی ملے گی۔ ”
سدیس نے چاکلیٹ کے لالچ میں جھٹ اس کے دونوں گال چومے۔
” آپ لوگوں نے کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھا لیا ہے اسے۔ ”
” ہاں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے۔ ”
” جائو سدیس یہ بہن کو دے آئو۔ ”
وہ اسے بول ہی رہا تھا کہ ساڑھے تین سالہ وفا دوڑتی ہوئی آئی اور فائز کی گود میں چڑھ گئی۔
” پاپا بھائی کو نہیں دیں ورنہ یہ خود کھا جائیں گے اور مجھے نہیں دیں گے۔ ”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
” چلو زوہا جا کر خود بھی تیار ہو جاو اور رمشا خو بھی کردو۔ تھوڑی دیر میں مہمان آنے شروع ہو جائیں گے تو وقت نہیں ملے گا۔ ”
عائلہ بیگم نیچے آتے ہوئے بولیں۔
” جی بس جاتی ہوں۔ سدیس آجاو آپ بھی تیار ہو جاو۔ ”
وہ سدیس کو لے کر اوپر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو فائنلی یہ تیاری والا کام تو ختم ہوا۔ ما شاء اللہ بہت روپ آیا ہے تم پر۔ ”
وہ رمشا کو دیکھتی ہوئی بولی جو ست رنگی شرارے اور پیلی کرتی میں پھولوں کے زیور پہنے گڑیا لگ رہی تھی۔ تو دوسری طرف زوہا خود بھی پیلے، نارنجی اور ہرے رنگ کے امتزاج کی فراک پہنے بہت حسین لگ رہی تھی۔
” کم تو تم بھی نہیں لگ رہی۔ ”
وہ زوہا سے بولی۔
” ہاں تو ہم کیوں کم لگیں ہم کسی سے کم ہیں کیا۔ ”
وہ شرارت سے مسکراتی ہوئی بولی۔
” زوہا! رمشا کو لے کر آجائو۔ ”
عائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولیں۔
” جی آپ چلیں رمشا بس تیار ہے میں اسے لا رہی ہوں۔ ”
زوہا رمشا کا گھونگھٹ نکالتی ہوئی بولی۔
” ٹھیک ہے۔ سدیس تم آجائو تمہارے بابا بلا رہے ہیں۔ ”
عائلہ بیگم کی بات سن کہ وہ بابا بابا کی گردان کرتا ہوا ان کے ساتھ چلا گیا۔
رمشا کو اسٹیج پر بٹھایا جا چکا تھا۔ سب بڑے رسم کرچکے تھے تو عائلہ بیگم نے زوہا کو اسٹیج پر آنے کا بولا تو وہ پورے وہ اپنے شوہر کو ڈھونڈنے لگی۔
تو اسے ایک جانب ایک جیسے سدیس کرتا شلوار اور ہرے رنگ کی جامہ وار کی واسکٹ پہنے داور اور سدیس نظر آئے تو اس کے ذہن میں پانچ سال پہلے والے مناظر گھوم گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور نے جب سے باہر جانے کا فیصلہ کیا تھا صفدر صاحب بہت پریشان تھے۔
وہ جانتے تھے اگر ایک بار داور چلا گیا تو وہ دوبارہ واپس نہیں آئے گا اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی صورت دیکھنے کے لئے ترس جائیں گے۔ انکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ داور کو واپس جانے سے کیسے روکیں۔
” صفدر صاحب روک لیں میرے بیٹے کو جانے سے۔ میں کیسے رہوں گی اس کی صورت دیکھے بغیر۔ آپکی تو وہ کوئی بات نہیں ٹالتا ناں۔ روک لیں آپ اسے۔ ”
” میرے بس میں ہوتا تو کب کا روک لیتا۔ میں تو وہ بدنصیب باپ ہوں جو اپنے بیٹے کی زندگی میں خوشیاں لانے کے چکر میں اسکا دامن کانٹوں سے بھر گیا۔ ”
انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
” یہ آپ کیا کہہ رہےہیں۔ ”
گلزار بیگم نے رونا بھول کر حیرت سے انکی جانب دیکھا۔
” ہاں میں ہی ہوں اسکی خوشیوں کا قاتل۔ ”
” آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کھل کر بتائیں۔ ورنہ میرا دل بند ہوجائے گا۔ ”
وہ پے در پے ملنے والوں جھٹکوں سے ہواس باختہ تھیں۔
پھر صفدر علی شاہ آہستہ آہستہ انہیں ساری بات سے آگاہ کرتے گئے۔ ساری بات سن کر گلزار بیگم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
” یہ کیا کردیا آپ نے۔ زوہا اگر اس کو ناں ملتی تو شاید جی بھی لیتا۔ پر اسے پانے کے بعد دوبارہ کھو کے کیسے جیئے گا وہ۔ ہم زوہا کو ساری حقیقت سے آگاہ کردیں مجھے یقین ہے وہ ضرور ہماری بات سنے گی۔ ”
گلزار بیگم لہجے میں آس لیے ہوئے بولی۔
” ہم نہیں بتا سکتے کسی کو کچھ۔ کیونکہ میرے پائوں میں داور کی دی ہوئی قسم کی بیڑیاں ہیں۔ ”
صفدر علی شاہ شکستہ لہجے میں گویا ہوئے۔
” پر کوئی قسم ہمارے بیٹے کی خوشیوں سے تو بڑھ کر نہیں ناں۔ قسم اس نے آپ کو دی ہے مجھے تو نہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ اس بڑھاپے میں میں اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کے لئے ترسوں۔ میں کل جاکر زوہا کو سب سچ بتا دونگی اور مجھے یقین ہے وہ میری بات ضرور سنے گی۔ ”
وہ فیصلہ کرتی ہوئی بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن گلزار بیگم اور صفدر علی شاہ شہر میں کسی رشتے دار سے ملنے کے بہانے زوہا کے پاس آگئے۔
” آپ لوگ کیوں آئے ہیں اب یہاں۔ ”
اظہار صاحب انہیں دیکھ کر برہمی سے گویا ہوئے۔
” بھائی صاحب ایک بار ہماری بات سن لیں۔ ”
گلزار بیگم نرم لہجے میں بولیں۔
” ہمیں آپکی کوئی بات نہیں سننی آپ جا سکتے ہیں یہاں سے۔ ”
اظہار صاحب باہر کی طرف اشارہ کرکے بولے۔
” ایک دفعہ سن تو لیں کیا کہنا چاہ رہے ہیں وہ۔ ”
نسرین بیگم بولیں۔
” ٹھیک ہے بولیں۔ ”
اظہار صاحب بولے۔
” زوہا کو بھی بلالیں۔ ”
گلزار بیگم نے کہا۔
اظہار صاحب نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ نسرین بیگم جلدی سے بولیں۔
” میں بلاتی ہوں۔ ”
یہ کہہ کر وہ زوہا کو بلانے چلی گئیں۔
زوہا کے آنے پر گلزار بیگم نے پوری بات ان کے گوش گزار دی۔
” یہ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے آپ لوگوں نے۔ پہلے پوری دنیا میں ہماری عزت اچھالتے ہیں۔ پھر اپ کا بیٹا آکر سارا الزام اپنے سر لے لیتا ہے۔ اب آپ آگئے ہیں اسے بے گناہ ثابت کرنے۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں۔ ”
اظہار صاحب غصے سے بولے۔
” میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میرا بیٹا بے گناہ ہے۔ تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اسے اسکی مسکان واپس لوٹا دو۔ اسے روک لو۔ ”
صفدر علی شاہ زوہا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔ آج وہ کہیں سے بھی ایک جاگیر دار نہیں لگ رہے تھے۔ بلکہ آج وہ ایک عام انسان تھے جو اپنے بیٹے کے لئے کسی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔ آج انکی انا کا بت پاش پاش ہو گیا تھا۔ کسی نے سچ ہی کیا کہ اولاد کی محبت انسان سے بھیک بھی منگوالیتی ہے۔
” انکل یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ پلیز ایسے مت کریں۔ ”
زوہا انکے بندھے ہاتھ دیکھ کر شرمندگی سے گویا ہوئی۔
” زوہا میں نے تو ہمیشہ تمہیں ایک بیٹی کی طرح پیار دیا ہے۔ آج ایک ماں اپنی بیٹی سے درخواست کررہی ہے اپنے بیٹے کے لیے۔ ”
” اماں سائیں مجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت چاہیئے۔ ”
وہ ان سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔
” وقت لے لو۔ پر اتنا نہیں کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے۔ ”
یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔
” زوہا پھر کیا سوچا کیا کرنا ہے تمہیں۔ ”
اظہار صاحب نے اس سے پوچھا۔
” پتا نہیں بابا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ”
وہ پریشان سی بولی۔
” بیٹا تم آرام سے سوچو۔ تمہارا ہر فیصلہ ہمیں منظور ہے۔ تمہیں کسی کے دبائو میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ”
یہ کہہ کر وہ اسکا سر تھپتھپاتے ہوئے چلے گئے۔
” زوہا ایک طلاق یافتہ لڑکی کا اس معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہوتا۔ شادی ناکام ہونے کا ذمہ دار لڑکی کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات میں نے داور کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت دیکھی ہے۔ آگے تم خود سمجھدار ہو۔ ”
وہ جاتے جاتے زوہا کے لیے سوچوں کے نئے در کھول گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا کے بہت سوچنے کے بعد آخر کار اسکے دل نے زوہا کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔
مشعل نے اسے میسج کرکے داور کی فلائٹ کا بتایا تھا اور کہا تھا کہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے چاہے تو تم ہمیں بھائی سے دور کردو یا ہمارے ساتھ رہنے دو۔
زوہا ایئرپورٹ کے ویٹنگ ایریا میں کھڑی داور کو ڈھونڈ رہی تھی۔ کہ وہ اسے ایک کرسی پر سر جھکائے بیٹھا ہوا نظر آیا۔
وہ آہستہ سے چلتی ہوئی اسکے برابر کرسی پر بیٹھ گئی۔
داور نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا پھر بغیر کوئی ردعمل دیئے بغیر دوبارہ چہرہ جھکا لیا۔
” جب میری زندگی سے چلی گئی ہو تو میری سوچوں سے کیوں نہیں چلی جاتی۔ ”
داور نے اسے اپنا خیال سمجھ کر پوچھا۔
” ناں خود جائونگی ناں ہی آپ کو جانے دونگی۔ ”
داور نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔
” بولئے کریں گے باقی زندگی کا سفر میرے ساتھ۔ ”
زوہا نے اسکے سامنے ہاتھ پھیلایا۔
داور ابھی بھی اسکی جانب دیکھے جارہا تھا۔
” ہاتھ لگا کر دیکھ لیں اصلی ہوں۔ ”
زوہا نے شرارت سے کہا۔
داور نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما۔
” یہ سچ ہے۔ تم اب تو نہیں جائو گی ناں مجھے چھوڑ کر۔ ”
اس نے تصدیق کرنی چاہی۔
” میں کہاں آپ ہی جارہے ہیں مجھے چھوڑ کر۔ ”
” تم روکو گی تو میں رک جائونگا۔ ”
” لیں تو اور کیسے روکوں۔ ایئرپورٹ آگئی وہ کافی نہیں ہے۔ ”
زوہا منہ بناتی ہوئی بولی۔
اسکی اس ادا پر داور نے اسے بانہوں کے حصار میں لینا چاہا کہ زوہا یہ بولتی ہوئی کھڑی ہوئی۔
” ایئرپورٹ پر ہیں ہم۔ چلیں گھر چلیں سب انتظار کررہے ہیں ہمارا۔ ”
” مماں مماں۔ ”
ابھی وہ ماضی میں ہی کھوئی ہوئی تھی کہ سدیس کی آواز سے ہوش میں آئی جو اسے بابا کے ساتھ اسٹیج پر چلنے کے لیے بول رہا تھا۔ تو وہ مسکراتی ہوئی ان کے ساتھ چلی گئی۔
ان پانچ سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ داور نے زوہا کا خواب پورا کرنے کے لئے اسکی ہر طرح سے مدد کی۔ آج وہ ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ دونوں ایک پیارے سے بیٹے کے ماں باپ بن چکے تھے۔
مشعل کی شادی ہو چکی تھی۔
فائز نے بھی سب کچھ بھلا کر شادی کرلی تھی وہ بھی ایک بیٹی وفا اور بیٹے سالار کا باپ بن چکا تھا۔ زوار اور اس کے درمیان ساری غلط فہمیاں دور ہو گئی تھی۔
وہ لاسٹ سیمسٹر کے پیپر ختم ہونے کے بعد اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ آج داور رمشا کی مہندی میں شریک ہونے کے لیے آیا تھا پر اپنے باپ کو دیکھ کر سدیس نے واپس جانے کی ضد کر لی ہے اسے گھر جانا ہے دادا دادی یاد آ رہے ہیں۔ داور تو ویسے بھی اس کی بات نہیں تالتا تھا اس لیے انہیں لے کر رات کے وقت ہی گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
پھر تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی داور کے ساتھ بیٹھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔ زوال کے بار بار بولنے کے باوجود بھی سدیس مسلسل جاگ کر ان پر سوالات کی بوچھاڑ کئے ہوئے تھا جن کے زیادہ تر جواب دور ہی دے رہا تھا۔ وہ داور کے ساتھ پر جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا۔ کیونکہ جتنی محبت داورنے اسے دی تھی اتنی محبت شاید ہی اسے کوئی دوسرا انسان دے پاتا۔ اس کے دل میں جاگیرداروں کو لے کر جو بھی غلط فہمی تھی وہ داور نے دور کردی تھی۔ داور نے جو سفر “م” سے شروع کیا تھا وہ اب “ع” تک پہنچ گیا ہے جس میں زوہا اب اس کے شانہ بشانہ ہے۔
اس کہانی سے میں نے ایک چھوٹا سا پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اکثر اوقات ہم کسی بھی واقعے کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کرکے اپنی زندگیاں برباد کرلیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ہمیں سیدھی راہ دکھانےوالا موجود ہو کبھی ہمیں اپنا راستہ خود بھی چننا پڑتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنے لئے کیا پسند کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...