او مہندی رنگ لائی رنگ لائی تیری یہ مہندی ۔۔۔
او مہندی رنگ لائی رنگ لائی تیری یہ مہندی ۔۔۔
تیرے ہتھاں تے سجدے نے رنگ برنگے بوٹے ۔۔۔۔
منگ دے یاں اسی ایہو دعائواں رنگ کدی نہ چھوٹے ۔۔
او مہندی رنگ لائی رنگ لائی تیری یہ مہندی ۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
شاہ مینشن میں مہندی کا فنکشن عروج پر تھا –
لڑکیاں گاؤ تکیے سجائے ڈھولک کے تال بکھیرنے میں مگن تھیں –
گیندے کے پھولوں کے مہک ہر سو بکھری ہوئی تھی –
آج کا فنکشن لان ہی میں منعقد کیا گیا تھا – سامنے گیندے سے سجے جھولے پر خازن اور حوریہ ایک ساتھ بیٹھے خوب جچ رہے تھے –
۔
ماشاءاللہ سے دونوں نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے –
مہندی کی رسم کی شروعات گھر کے بزرگوں سے شروع ہوئی –
غزلان اور منہل نے شرارتی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے رسم ادا کی – خازن نے بھی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اس کی دعائیں قبول کی –
خازن تو دولہا بن کر بھی اپنی شرارتوں سے بعض نہیں آ رہا تھا – جس پر وقفے وقفے سے ان کے کزنز کے قہقہے گونج رہے تھے –
خازن نے حوریہ کے کان میں سرگوشی کی – جس سے حوریہ کے چہرے پر لالی بکھر گئ –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
پورا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا – منہل ،، سب کے ساتھ مل کر سب مہمانوں کی آو بھگت میں مصروف تھی –
کبھی اوپر کبھی نیچے کے چکر لگا کر وہ خود بھی تھک چکی تھی مگر کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی –
تبھی غزلان،، منہل کو ڈھونڈتے ہوئے کچن کی جانب آیا
جہاں وہ ملازموں کو ٹھیک سے کام کرنے کی ہدایت دے رہی تھی –
شادی کی وجہ سے پورا گھر بکھرا پڑا تھا –
” مسز غزلان ،، بات سنیں !! ” غصے کو قابو رکھتے ہوئے اسے آواز دی –
منہل نے غزلان کی آواز پر پلٹ کر دیکھا اور غزلان منہل کا نرمی سے ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا –
ہاتھ تھام کر اسے سیڑھیاں چڑھنے میں مدد دی ۔
کمرے میں جا کر دوا وقت ہر نہ لینے پر پیار بھری جھڑپ سے نوازا –
منہل نے غزلان کو مسکے لگاتے ہوئے غزلان ہی کے کان پکڑ کر اس سے ” sorry ” کیا –
منہل کی اس حرکت پر نہ چاہتے ہوئے بھی غزلان کا چھت پھاڑ قہقہہ نکل گیا –
غزلان نے اسے کھینچ کر اسے سینے میں بھینچ لیا اور اس کے ماتھے پر پیار بھرا بوسہ دیا –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ہال کو بہت خوبصورت طریقے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا – ہال ڈیکوریٹ کرنے کی تمام تر زمہ داری غزلان کو سونپی گئی تھی –
جس کو اس نے بھرپور طریقے سے ادا کیا – ہال میں جابجا مہمان بکھرے ہوئے تھے –
اچانک ہال کی تمام لائٹس آف ہو گئیں –
ایک سپاٹ لائیٹ آن ہوئی –
جس نے حوریہ اور خازن کو اپنے فوکس میں لیے رکھا – خازن نے حوریہ کا کانپتا ہوا ہاتھ تھام رکھا تھا
– دونوں اطراف سے پھولوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی –
ایسے ہی وہ دونوں چلتے ہوئے پھولوں سے سجے سٹیج تک آئے – خازن نے حوریہ کا ہاتھ تھام کر ہی سٹیج کے زینوں پر چلنے میں مدد دی –
خازن اور حوریہ اس وقت کزنز کے گھیرے میں تھے –
منہل ،، باقی تمام کزنز کے ساتھ مل کر خازن کی دودھ پلائی کی رسم ادا کر رہی تھی –
غزلان،، نے خازن سے دودھ کا گلاس اچک لیا اور غناغٹ دودھ کے گھونٹ بھرنے لگا –
غزلان ،، کی اس کمینگی پر خازن نے کھا جانے والی نظروں سے غزلان کو دیکھا اور صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا –
خازن کی اس حرکت پر سب لطف اندوز ہو رہے تھے – البتہ کچھ کے تو اس حرکت پر قہقہے بھی گونج اٹھے –
” خازن بھیو… !!
لائیں دیں ہمارا نیگ … جلدی سے اپنی جیب ڈھیلی کریں اور دیجیے ہمیں پچاس ہزار ۔۔” 😍
منہل نے اپنی ہتھیلی خازن کے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا –
” پہلے یہ بتائیں آپ منہل آپی ،، پچاس ہزار میں کتنے صفر ہوتے ہیں ۔۔۔ ؟؟ ان میں سے کسی شوخ و چنچل کزن نے کہا – جس پر وہاں موجود لوگوں کا قہقہہ گونج اٹھا –
” خازن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !! ” منہل نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا – ”
” جی پیاری بجو ۔۔ !! ” خازن نے معصومیت سے جواب دیا –
” شرافت کا لبادہ اوڑھ لو اور ہمیں ہمارا نیگ دو ۔۔ ” منہل نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا –
” یہ لیں مسز غزلان شاہ ۔۔ ” غزلان نے اپنا والٹ منہل کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا –
جس پر وہاں موجود تمام لڑکے اور لڑکیوں نے ” اووہ ” کہہ کر شرارت سے منہل کو دیکھا –
منہل بھی آج سالی صاحبہ ہونے کا بھرپور فرض ادا کر رہی تھی –
غزلان منہل کو اس قدر خوش دیکھ کر صدقے واری جا رہا تھا –
خازن نے کھلے دل سے پانچ پانچ ہزار کے کئ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ منہل کے ہاتھ پر رکھ دیے –
اسی طرح ہنستے مسکراتے آج کا فنکشن اپنے اختتام کو پہنچا-
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
پورا کمرہ گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا –
زمین پر قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں تھی کیونکہ ہر طرف کمرے میں گلاب کی پتیاں ہی پتیاں بکھری ہوئی تھیں –
بیڈ پر شرم و حیا سے سمٹی ہوئی حوریہ ،، لہنگا پھیلائے خازن کے بارے میں سوچ رہی تھی –
کیونکہ ماضی میں اس کے خازن کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے تھے –
دوسری طرف خازن کمرے میں پہنچنے کیلئے بیتاب تھا – کیونکہ اس کے کزنز شہد کی مکھی کی طرح اسے چپک ہی گئے تھے –
جس میں ” غزلان شاہ” سر فہرست تھا – خازن کی لٹکی ہوئی شکل دیکھ کر غزلان کو اس کی حالت پر رحم آ گیا –
غزلان نے ہی اس کو کزنز کے چنگل سے باہر نکالا اور کمرے تک چھوڑ کر آیا – کمرے کے باہر رک کر اس نے خازن کو تاکید کرتے ہوئے کہا
” buddy ”
مجھے یقین ہے کہ تم حوریہ کو ہمیشہ خوش رکھو گے – کیونکہ میں نے تمہاری آنکھوں میں حوریہ کیلئے ٹمٹماتے جگنو دیکھے ہیں اللّٰہ پاک تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھیں –
” Best of luck for your new journey with your soulmate … ”
فرطِ جذبات سے غزلان نے خازن کو گلے لگاتے ہوئے دعا دی –
خازن نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ جس پر حوریہ کے دل کی ایک بیٹ مس ہوئی –
خازن نے والہانہ نگاہوں سے اس کا سجا سنورا دل موہ لینے والا روپ دیکھا –
روپ تو مانو اسے ٹوٹ کر آ یا تھا –
خازن نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھاما اور پورے استحاق سے حوریہ کیلئے لایا ہوا منہ دکھائی کا تحفہ ” Diamond ring ” کی صورت میں س کے ہاتھ میں تھمایا اور اس کی مخروطی انگلی میں پہنانے کی اجازت مانگی –
حوریہ نے پلکوں کو جنبش دے کر اسے رنگ پہنانے کی اجازت دی –
خازن نے رنگ اسے پہنائی اور اپنی محبت کی پہلی مہر حوریہ کے دودھیا ہاتھ پر ثبت کی – جس سے وہ خود میں مزید سمٹ گئی –
اس نے خازن کا یہ روپ پہلے دیکھا ہی کب تھا – ہمیشہ لڑتے جھگڑتے ہی تو دونوں کا بچپن گزرا تھا –
” مسز خازن آفریدی ! آج آپ اس قدر خوبصورت لگ رہی ہیں کہ میرا ضبط آزما رہی ہیں – میرا خود پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے – ” خازن نے خمار آلود لہجے میں اس سے کہا –
جس پر حوریہ کا چہرہ شرم سے سرخ پڑ گیا – خازن جب خود پر مزید قابو نہ رکھ سکا تو حوریہ کو اپنے سینے میں بھینچ لیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
” تم ،، میری اس وقت کی محبت ہو – جب میں محبت لفظ سے ناآشنا تھا – جیسے جیسے وقت پروان چڑھتا گیا ویسے ہی میری محبت بھی مزید بڑھتی گئی – تم ہی میری ” یار _ دلدار ” ہو – ” 💖
اس کے ماتھے پر استحاق سے مہر محبت ثبت کی – حوریہ کو اس انکشاف پر خوشگوار حیرت ہوئی –
اس نے بھی پر سکون ہو کر خازن کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا –
حوریہ کیلئے خازن کی محبت کے یہ لمحے بہت انمول تھے – جن پر وہ اللّٰہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا –
اس نے اپنی رضامندی کے ساتھ اپنے ” شریکِ حیات ” کو اپنا آپ سونپ دیا –
کھڑکی کے اس پار چاند نے یہ منظر خوشی سے دیکھا اور اللّٰہ پاک سے ان کے خوش رہنے کی دعا کی –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
کھڑکی کے اس پار سورج کی کرنیں کمرے میں داخل ہو رہی تھیں – اس ہی وجہ سے حوریہ کی آنکھ کھل گئی – ساتھ لیٹے خازن پر نگاہ پڑتے ہی اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو گیا – خازن سویا ہوا کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا – اس شخص کی جانب دیکھا جو ایک ہی رات میں اسے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہو گیا تھا – وہ خوش تھی ،، بے تحاشا خوش تھی – حوریہ نے اس کے ماتھے پر بکھرے سلکی بال ہٹائے اور جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا – اسے اٹھانے کی ناکام کوشش کی – ان لارڈ صاحب کے اٹھنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے – حوریہ نے اسے جگانے کا ارادہ ترک کر کے واشروم کی طرف شاور لینے کے لیے بڑھ گئی –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
شام میں خازن ،، حوریہ کو سالون سے پک کر کے لے آیا تھا –
حوریہ گرے کلر کی میکسی پر زنک کلر کا دوپٹہ اوڑھے ،، خازن کو کسی ڈول سے کم نہیں لگ رہی تھی –
خازن بھی رائل کلر کے تھری پیس میں حوریہ ،، کو نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا –
ہر نظر اس پرفیکٹ کپل کو دیکھ سراہ رہی تھی –
منہل اور غزلان بھی اس وقت سٹیج پر موجود تھے –
ان دونوں جوڑوں کو دیکھ کر ہر ایک کے آنکھ میں ستائش نمایاں تھی –
خازن کی کسی شرارت پر چاروں کھلکھلا کر ہنس رہے تھے – فوٹوگرافر نے یہ منظر کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا –
سب نے مل کر ایک فیملی فوٹو کھینچوائی اور ولیمہ کا فنکشن خوشگوار طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچا –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
تین سال بعد :
بتاؤ ،، بتاؤ ۔۔۔ بلے پاپا بلے پاپا ۔۔۔ عیسیٰ سے بتاؤ ۔۔ عیسیٰ میری چاکلیٹ لے کر بھاد دیا .. ”
( بچاؤ ،، بچاؤ ۔۔۔ بڑے پاپا بڑے پاپا ۔۔۔ عیسیٰ سے بچاؤ ۔۔ عیسیٰ میری چاکلیٹ لے کر بھاگ گیا ۔۔۔ )
دو سال کی مشعل نے آفس سے آتے ہوئے غزلان کو اپنے جڑواں بھائی کی شکایت لگائی –
غزلان نے اسے گود میں اٹھا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا –
” افففف ۔۔۔ توبہ ہے عیسیٰ پورے کارٹون لگ ہو – چاکلیٹ سے چہرے کے ساتھ ساتھ کپڑے بھی بھر لیے ہیں –
”
حوریہ نے اپنے دو سالہ بیٹے کے ہاتھ سے زبردستی چاکلیٹ کھینچتے ہوئے کہا –
عیسیٰ بالکل اپنے بابا کا پرتو تھا – دونوں جڑواں بچوں نے حوریہ کی ناک میں دم کر کے رکھا تھا –
اللّٰہ پاک نے انہیں جڑواں بچوں سے نوازا تھا – ایک بیٹی اور ایک بیٹا – مشعل اور عیسیٰ آفریدی –
“آہستہ ،،، دیہان سے ام رومان !! بیٹا لگ جائے گی آپ کو ۔۔۔ ” منہل نے اپنی ایک سالہ بیٹی کو پیار سے ٹوکتے ہوئے کہا – جو خازن کو دیکھ کر اس کی طرف لپکنے کی کوشش کر رہی تھی –
آیان سائیڈ پر بیٹھے اپنی نوٹ بک پر سکیچنگ میں مصروف تھا – آیان بالکل غزلان پر گیا تھا –
ہمارا پڑھاکو بچا ۔۔۔ منہل اور غزلان کو اللّٰہ پاک نے ایک بیٹا آیان اور ایک بیٹی ام رومان سے نوازا تھا –
آیان کی عمر تین سال تھی جبکہ ام رومان ایک سال کی تھی –
لان میں کرسیاں بکھیرے شاہ مینشن کے تمام افراد چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے –
ان بچوں کی وجہ سے شاہ مینشن میں اب ہر وقت رونق کا سماں ہوتا تھا –
سب خوش و مطمئن تھے –
زندگی کبھی بھی ایک مدار پر نہیں رکتی بلکہ یہ تو مسلسل رواں دواں رہنے کا نام ہے –
” ختم شد “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...