تار میں لکھا تھا، “گووندراؤ ٹیمبے، بابوراؤ پینڈھارکر، لیلابائی، وِنائک اور کچھ اور کلاکاروں اور ٹیکنیشینوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ پُونا آنے کے لیے تیار نہیں۔ آپ جلدی بھارت لوٹ آئیے۔” تار کے نیچے داملےجی کا نام تھا۔
کچھ لمحے تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں، کیا کر رہا ہوں۔ زیادہ تنخواہ دینا قبول کرنے کے بعد بھی آخر یہ سب لوگ استعفیٰ کیوں دے بیٹھے ہیں؟ خاص کر بابوراؤ پینڈھارکر اور میری بھکتی کرتے ہوئے مجھ سے محبت بھی کرنے والے ونائک جیسے لوگوں نے بھی میری غیرموجودگی میں، جب میں یہاں دور پردیس میں ہوں تب، استعفیٰ دے دیا؟
آخر کیوں؟
اُفا اور آگفا کمپنی کے بھیجے گئے موٹی موٹی رقموں کے بِل، باپو کی بیماری اور ایسے میں ہی کولہاپور کے اس تار نے تو مجھے حیران کر دیا۔ بےچین من سے میں کمرے میں ہی ایک کونے سے دوسرے کونے تک چکر کاٹتا رہا۔ تیزی سے ڈگ بھرتا رہا۔ میری دندناہٹ کے لیے وہ کمرہ چھوٹا پڑنے لگا۔ آخر میں باہر سڑک پر آ گیا اور فٹ پاتھ پر تیزی سے چہل قدمی کرنے لگا۔ چلتا ہی جا رہا تھا کہ راستے میں ایک سنیماگھر دکھائی دیا۔ وہاں ‘میڈم بٹرفلائی’ فلم لگی تھی۔ سوچا، کچھ تفریح ہو جائے گی۔
لیکن اس دن بدقسمتی ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑی تھی۔ اس فلم کی کہانی ایک جاپانی عورت کی کہانی پر مبنی تھی۔ وہ جاپان میں آئے ایک امریکی فوجی سے پیار کرنے لگتی ہے۔ دونوں شادی کر لیتے ہیں۔ تبھی اس امریکی فوجی کو دیس لوٹنے کا حکم ملتا ہے۔ جاتے وقت وہ فوجی اپنی جاپانی بیوی سے وعدہ کرتا ہے کہ ملک لوٹتے ہی امریکی سرکار سے اجازت حاصل کر میں تمہیں اُدھر بلا لوں گا۔ وہ انتظار کرتی رہتی ہے۔ کافی دن بیت جاتے ہیں۔ لیکن اس سپاہی کا کوئی خط نہیں آتا۔ آخر ہار کر وہ ایک نوکیلی تلوار اپنی چھاتی میں گھونپ کر ہاراکری (خودکشی) کر لیتی ہے، جاپانی رواجوں کے مطابق۔
میں اس لیے فلم دیکھنے گیا تھا کہ دل و دماغ کو کچھ شانتی ملے گی، لیکن وہاں ٹھیک برعکس ہو گیا اور میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ بےچین ہو کر لوٹ آیا۔ جاپان ایک مشرقی دیس ہے۔ وہاں کی وہ عورت میری بہن ہی تو ہوئی۔ ہیروئین کے ساتھ دھوکہ کیے جانے کی وجہ سے اسے ہاراکری کرنی پڑتی ہے۔۔۔ سر پھٹا جا رہا تھا۔
اس ساری گھبراہٹ سے آزادی پانےکا راستہ کیا ہے؟ کسی سے سُن رکھا تھا کہ ایسے درد کی دوا شراب ہے۔ درد بےقابو ہو گیا تو شراب کے نشے میں اسے بُھلایا جا سکتا ہے۔ میں ہمیشہ کے ہوٹل میں گیا۔ ویٹریس کھانے کا آرڈر لینے کے لیے میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے اس سے کہا، “پہلے میرے لیے شراب لے آؤ۔” وہ جانتی تھی کہ میں کبھی شراب نہیں پیتا، لہٰذا وہ منھ پھیلائے مجھے دیکھتی رہی۔ میں اس پر لگ بھگ چلّا اٹھا، “شراب لاؤ!”
میرا چہرہ دیکھ کر وہ ڈر گئی۔ چہرے پر زبردستی ہنسی لاتے ہوئے اس نے پوچھا،
“کون سی لاؤں؟ کس برانڈ کی؟”
شراب کے ایک بھی برانڈ کا مجھےعلم نہیں تھا۔ لیکن بڑا رعب گانٹھتے ہوئے میں نے فرمایا، “کوئی سی بھی! لیکن ہو اچھی سٹرانگ! تمہاری پسند کی ایسی کوئی بھی شراب لے آؤ، جس کا نشہ فوراً سوار ہو جائے۔” وہ جلدی جلدی چلی گئی۔
کھانے کا وہ ہال لگ بھگ ستر اسی فٹ لمبا تھا۔ وہ اس کے پرلے سرے پر ایک دروازے سے اندر چلی گئی۔ میں سوچنے لگا، اب وہ شراب لے کر آئے گی۔ دو چار پیگ چڑھا لینے کے بعد ضرور مجھ پر نشہ سوار ہو جائے گا۔ پھر شانتی محسوس ہو گی۔ بہت ہی اتاؤلے من سے میں ویٹریس کی راہ دیکھنے لگا۔
کھانے کے کمرے کا وہ جھولتا دروازہ ہلا۔ ایک ٹرے میں شراب کی بوتل اور ایک بَڑھیا باریک نکیلے کنارے والا شراب پینے کا گلاس رکھے وہ چلی آ رہی تھی۔ سر میں خیالات کا چکر گھومنے لگا۔
“اب اس بوتل میں رکھی شراب میں پیوں گا۔ نشہ چڑھے گا۔ نشے میں جھوم کر میں کہیں گر پڑوں گا۔ اس کے بعد سر میں اٹھ رہا وِچاروں کا طوفان شاید شانت ہو جائے گا۔۔۔ کم سے کم کچھ سمے کے لیے تو شانت ہو ہی جائے گا۔۔۔ لیکن آج میرے سامنے جو سوال منھ کھولے کھڑے ہیں، کیا وہ اس نشے میں حل ہو جائیں گے؟ کبھی نہیں! پھر تم کیا کرو گے؟ نشہ اتر گیا تو پھر شراب پیو گے۔۔۔ پھر نشہ۔۔۔ شراب اور پھر لگاتار شراب پی پی کر سُدھ بُدھ کھو کر آخر کسی گندی نالی میں نڈھال ہو کر پڑے رہو گے! کیا یہی کرتے رہو گے؟”
“نہیں! نہیں!” میں زور سے چلّایا۔ ویٹریس میری ٹیبل کے پاس شراب کی بوتل اور گلاس لیے کھڑی تھی۔ وہ حیران سی، تذبذب میں پڑی مجھے گھور رہی تھی۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے میں نےکہا، “اس بوتل کو واپس لے جاؤ۔ مجھے شراب نہیں چاہیے۔ یہ بوتل تمھیں انعام دیتا ہوں۔ اسے تم اپنے گھر لے جاؤ۔”
میں نے اس کی ٹرے میں شراب کی بوتل قیمت کے مارک رکھ دیے۔ اوپر ٹِپ کےطور پر اور دس مارک رکھے اور ہوٹل سے سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا۔ جسم پر پہنے سارے کپڑے اتار پھینکے اور بستر پر بےسُدھ جا دھمکا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اندر سے سارا جسم سائیں سائیں کرتا جل رہا ہے۔ جان تڑپ رہی تھی۔ لگاتار کروٹیں بدلتا میں بےچین ہو رہا تھا۔ کیا کروں، کیا نہ کروں۔ کیا ہو رہا تھا؟ پلنگ کے نیچے جیسے کسی نے سو سو چولہے جلا رکھے تھے اور ان کی آنچ میں روم روم جھلسا جا رہا تھا۔ جَل بِن مچھلی جیسی حالت ہو گئی تھی۔ دم گھٹتا جا رہا تھا۔ آخر میں پلنگ پر اٹھ بیٹھا اور منھ سے چیخ نکلی، “ہے بھگوان!”
آدھی اور طوفان بھری رات میں راہ بھولے مسافر کو اچانک بجلی کوندھتے ہی اس چکاچوندھ میں راستہ دکھائی دیتا ہے، بھگوان کو پکار دیتے ہی میری حالت ویسی ہی ہو گئی۔ میں ہر دن صبح نہانے کے بعد بھیگے بدن شری وشنو کی مورتی کو یاد کر یکسوئی سے ان کا دھیان کیا کرتا تھا۔ اسی کی مجھے یاد آئی۔ میں نے آنکھیں موند لیں اور عرض کرنے لگا، “ہے بھگوان، میرے من کو شانتی دو، میرا سُلگتا ماتھا شانت کرو!”
آنکھیں کھلیں تو سویرا ہو گیا تھا۔ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا۔ پتا نہیں کب سو گیا تھا۔ لیکن اب مجھے ایک دم تازگی محسوس ہو رہی تھی۔ تن من کی ساری تھکان غائب ہو گئی تھی۔ من کو دکھ دینے والی ہر مصیبت کا سامنا کرنے کی شکتی جاگ اٹھی تھی۔ بھگوان کی پرارتھنا میں میرا اعتماد سو گنا ہو گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی جیون کا ایک مہامنتر مجھے مل گیا تھا کہ “مصیبتیں چاہے جتنی آئیں، تھک ہار کر ہمت نہیں ہارنی چاہیے، بلکہ ایسے سمے زیادہ جوش اور امنگ کے ساتھ پورے جوش سے ان مصیبتوں کا سامنا کر آگے بڑھنا ہی سچی کوشش ہے!”
ہندوستان سے بھجوائے پیسے ہاتھ آتے ہی میں نے اُفا اور آگفا کے بِل بنا کوئی بھاؤتاؤ کیے چکا دیے۔ ‘پربھات’ کے غیرمعمولی لوگوں کے استعفیٰ دینے کے کارن پیدا ہوئی صورت حال سے راستہ نکالنے کا طریقہ من میں جاگ اٹھا اور سوچا کہ اس کٹھنائی سے پار ہونے کا حل ایک ہی ہے: ایک زبردست فلم بنانا۔ میں اسی نظریے سے سوچنے لگ گیا۔
بچپن میں بَھوانی کو بکرے کی بلی چڑھائی جاتے میں نے دیکھا تھا۔ دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے جانور بلی چڑھانے کا رواج آج بھی کافی جگہ پر جاری تھا۔ دیش کے کچھ حصوں میں تو نَربلی بھی دی جاتی تھی۔ یہ غیرانسانی رسم پرانے زمانے سے آج تک سارے ہندوستان کی مختلف دیوالیوں میں جاری تھی۔ سوچا کہ انہی قابلِ مذمت رواجوں پر چوٹ کرتے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنےکی کوشش کرنے والی کہانی اپنی آئندہ فلم کے لیے چنوں۔ اس کہانی کی تخلیق میں من ہی من کرنے لگا۔
غریب اندھا اعتماد کرنے والے لوگوں پر اپنی تیکھی اور چبھتی نظر سے دھاک جمائے بیٹھا دھرم گُرو اس کہانی کا مرکزی نقطہ تھا۔ جرمنی آنے پر دھرم گرو کی آنکھوں کا بڑا کلوزاپ لینے کے لیے ضروری ٹیلی فوٹو لینز کے بارے میں مَیں نے پوچھ تاچھ شروع کر دی تھی۔ پیٹرسن مجھے ایک لینز بنانے والی کمپنی میں لے گئے۔ ان کے پاس ایک لینز تو تیار تھا، لیکن اس سے وہ نتیجہ ممکن نہ ہوتا جو میں چاہتا تھا۔ لہٰذا اسی لینز میں کچھ ترمیم تبدیلی کر، تین سو ملی میٹر والا لینز پندرہ دنوں بعد مجھے دینے کے لیے کمپنی راضی ہو گئی۔ اسی کمپنی میں کارٹون فلم بنانے کے لیے ضروری مشینری بھی تھی۔ والٹ ڈزنی کی ‘مکی ماؤس’ اور دوسری کارٹون فلم سیریز سے میں بھی کافی متاثر ہو چکا تھا۔ چاہ تھی کہ بھارتی پس منظر پر اس طرح کے کچھ نئے تجربے کروں، اس لیے کارٹون شوٹنگ کے لیے ضروری کیمرے اور دوسرے ساز و سامان کا آرڈر بھی میں نے اس کمپنی کو وہیں دے دیا۔
اب اور پندرہ دن برلن میں رکنے کے سوا کوئی حل نہیں تھا۔ ‘پربھات’ کا ساتھ چھوڑ گئے کلاکاروں کی جگہ پر قابل کلاکاروں کو لینےکا وِچار من میں آیا اور اس کے مطابق مزید قابل ناموں کی کھوج میں بیٹھے بیٹھےکرنے لگا۔
مراٹھی فلم ‘شیام سندر’ میں ایک نوجوان لڑکی شانتا آپٹے نے رادھا کا کام کیا تھا۔ اس فلم میں اس کے گائے ہوئے گیت بھی بہت اچھے تھے۔ اس کی گائیکی بھی اچھی تھی۔ لیکن اس کی اداکاری میں کوئی جان نہیں تھی۔ پردے پر تو وہ ایسی لگتی جیسے چلتی پھرتی لاش ہو۔ اخباروں نے اپنے جائزوں میں اس کے بارے میں بہت ہی بُری رائے ظاہر کی تھی۔ اس شانتا آپٹے کو ‘شیام سندر’ میں وہ کام کرنے آنے سے پہلے میں نے ایک بار دیکھا تھا۔ اس کا گانا بھی سنا تھا۔ اس سمے مجھے ایسا تو ضرور لگا تھا کہ ہو نہ ہو، اس میں کچھ خاص بات ہے، پر اس کے باوجود ہیروئن کے کام کے لیے اس کے موزوں ہونے پر مجھے شُبہ تھا۔ ہیروئن کی کھوج کرتے کرتے مجھے نلِنی ترکھڈ کی یاد آئی۔ نلِنی کبھی ایک بار مجھ سے ملی تھیں۔ اچھی پڑھی لکھی تھیں اورکافی دلکش لگتی تھیں۔
میں نے فوراً ہی داملےجی کو تفصیلی خط لکھا: “آئندہ فلم کے لیے من میں ایک بہترین اور اثردار کہانی شکل لے رہی ہے۔ اس کے لیے اب ہمیں نئے کلاکاروں کو ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔ ‘شیام سندر’ میں رادھا کا کردار نبھانے والی شانتا آپٹے کو بلا کر اس کے ساتھ قرار کر لیجیے۔ اس کے علاوہ نلِنی ترکھڈ کا بمبئی کا پتا بابوراؤ پینڈھارکر سے معلوم کر لیجیے۔ بمبئی پہنچتے ہی میں خود ان سے بات کروں گا۔ ولن کے لیے اداکاری میں انتہائی قابل کلاکار کی ضرورت پڑے گی۔ میری کہانی میں ولن کا کردار ایک اہم کردار رہے گا، لیکن اس کے لیے فی الحال تو میری آنکھوں کے سامنے کوئی بھی لائق شخص نہیں ہے۔ ہیرو کے کام کے لیے کسی کسے ہوئے ڈیل ڈول کے نوجوان کی کھوج کرتے رہیے۔ اسے گانا ضرور آنا چاہیے۔ میوزک ڈائریکٹر کا انتخاب میرے پُونا لوٹنے کے بعد سب کی رائے سے کریں گے۔۔۔”
اب تو میں واپس وطن لوٹنے کے لیے مچلنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کب واپس جاتا ہوں اور اپنے نئے کام کو شروع کرتا ہوں۔ اسی جوش سے برلن میں اپنے خاص کاموں کو ایک ایک کر نبٹانے میں جُٹ گیا۔ ایک دن مجھے افیفا سے خط ملا کہ ‘سیرندھری’ کی بنِا استعمال کی ہوئی نگیٹو کے ڈبے وہیں پڑے ہیں، ان کا کیا کرنا ہے؟ مجھے افیفا میں ایک بار جانا تھا ہی۔
دوسرے دن سویرے میں افِفا پہنچا۔ جینی وہیں تھی، لیکن لگتا تھا وہ غصے میں ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے میں نے اس کا حال تک نہیں پوچھا تھا۔ وہ مجھ سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں دکھائی دی۔ نیگیٹو کی جانچ پڑتال میں سمے ضائع نہ ہو، اس وجہ سے جینی نے فرصت کے سمے میں وہ کام پہلے ہی پورا کر رکھا تھا۔ کام کرنے کی اس کی اس تیاری کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف اپنے طرز عمل کو میں کچھ اٹ پٹا سا محسوس کرنے لگا۔ میں اس کے پاس گیا۔ جیب سے ایک ہزار مارک کے نوٹ نکال کر اس کے سامنے کر دیے۔
اس نے پوچھا، “یہ کیا ہے؟”
میں نے کہا، “تم نے اتنے اپنے پیسے یہاں کا سارا کام کیا، اس کے لیے یہ انعام!”
اس نے غصے میں کہا، “تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دیس میں اپنےپن کو انعام دیا جاتا ہے؟” پھر کچھ رُک کر بولی، “یہ نوٹ اپنی جیب میں رکھ لو۔ اب سے تمہارا کوئی بھی کام مجھ سے نہیں ہو گا! تمہاری مدد کے لیے میں کسی اور لڑکی کو بھیج دیتی ہوں!” اتنا کہہ کر وہ دروازے کی طرف جانے لگی۔
میں نے اسے پکارا، “رکو، جینی، بات سنو!” اس کے پاس جا کر میں نے اسے اپنی تکلیفوں کی ساری کہانی سنائی۔ سن کر اس نے میرا ہاتھ جذباتیت سے کس کر تھاما اور مجھ سے معافی مانگی۔ پھر ہم دونوں نیگیٹو کے ٹکڑے جانچنے کے کام میں لگ گئے۔
شام کو ایڈیٹنگ روم کے دروازے پر کسی نے دستک دی اور اس ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ اندر آئی۔ میں نے اسے نیگیٹو کے سبھی ٹکڑوں کو جلا دینے کے لیے کہا اور افیفا کا اُس دن کا کرایہ چُکتا کر میں باہر آ گیا۔ جینی وہاں میرا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے پوچھا، “اب کیا پانسیوں جاؤ گے؟”
“نہیں۔ اب میں یہاں سے پاس ہی ایک ہوٹل میں رہتا ہوں۔”
باتیں کرتے کرتے ہم لوگ میری کار کے پاس آ گئے۔ اب جینی پہلے سے کافی اچھی انگریزی بولنے لگی تھی۔ میں نے یہ بات اسے بتائی۔ اس پر اس نے کہا، “تمہارے ساتھ اچھی طرح باتیں کر سکوں، اس لیے میں نے رات کی انگریزی کی کلاس ‘جوائن’ کی ہے۔”
میں نے کار کا دروازہ کھولا اور جینی سے اندر بیٹھنے کے لیے کہا، “آؤ، تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔” کار چل پڑی۔ جینی نے شوخ ادا سے پوچھا، “تمہارے ہوٹل میں کھانا تو ملتا ہے نا؟”
میں نے کہا، “جی ہاں، ملتا ہے۔”
“تو چلو، آج میں تمہیں دعوت دیتی ہوں۔ اور ہاں، تمہیں میرے ساتھ کھانا نہ کھانا ہو، تب تو مجھے میرے گھر پر چھوڑ دو!”
اب جا کر کہیں اس کی بات کا اشارہ میری سمجھ میں آیا۔
کھانے کے بعد جینی نے ہنستے ہنستے پوچھا، “تمہارا ہوٹل والا کمرہ دیکھنے کے لیے آؤں تو کیسا رہے گا؟”
“بہت اچھا، چلو،” میں نے کہا۔ ہم دونوں کمرے میں آئے۔ کمرے میں آتے ہی جینی نےمجھے کس کر گلے لگایا اور باربار، لگاتار مجھےچومتی رہی۔ “جینی،جینی” کہتے ہوئے میں نے اسے الگ کیا۔
جینی ہنس رہی تھی۔ مجھےخدشہ ہوا کہ کہیں اسے پاگل پن تو نہیں ہو گیا؟ اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر بھروسا نہیں ہو رہا تھا! وہ ایک دم برہنہ تھی! اتنی سفید سنگ مرمریں کایا میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ مدہوش نظارہ بکھیرتی وہ میرے ٹھیک سامنے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
ایک پل تو من میں خیال آ ہی گیا کہ میں بھی اپنے سارے کپڑے اتار کر پھینک دوں۔ اٹھوں اور جینی کی گوشت پوست کی کایا کو حصار میں باندھ لوں۔ لیکن نہیں، ایسا سوچنے سے کام نہیں چلےگا۔ مجھے اپنے من پر قابو پانا ہی ہو گا، یہ میرا راستہ نہیں۔ میرا راستہ ہے، میرا اپنا کام، میری اپنی کلا، میرا اپنا آدرش، میرا گرمایا خون دھیرے دھیرے شانت ہونے لگا۔ وہ اسی حالت میں سامنے کھڑی تھی، مدہوش نظارہ اور ہونٹوں پر ملائم مسکراہٹ لیے۔
میں نے ہڑبڑا کر پوچھا، “جینی، تمہارا ارادہ آخر کیا ہے؟”
“میں تمہیں بہت چاہتی ہوں، تم سےشادی کرنا چاہتی ہوں۔”
“لیکن جینی، یہ ناممکن ہے، نہایت ناممکن ہے!”
اب اس کی آنکھوں میں چنگاریاں چمکنےلگی تھیں۔ بولی، “تم ایک دم روکھے آدمی ہو۔ پتھر ہو۔ اپنا سب کچھ تمہیں قربان کرنے آئی لڑکی کو ٹھکرا کر تم نسائیت کی بےعزتی کر رہے ہو۔” اتنا کہہ کر وہ تلملاتی ٹائلٹ کی طرف چلی گئی۔
نسوانی کردار کا یہ نیا اظہار دیکھ کر میں بوکھلا گیا۔ میرا گلا سوکھ گیا۔ اٹھا، کمرے میں گھنٹی تھی، اسے دبایا۔ بوائے آیا۔ اس سے میں نے دو کولڈ ڈرنک لانے کے لیے کہا۔
کافی دیر تک انتظار کرتا رہا۔ آخر ٹائلٹ کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور اسے پکارا۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی۔ اس کی آنکھیں رو رو کر لال ہو گئی تھیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لا کر صوفے پر بٹھایا۔ بھنووں کے بیچ کی جگہ کو انگلیوں سے دباتے ہوئے بھاری آواز میں اس نےکہا، “مجھے پچھتاوا ہو رہا ہے، شانتارام! مجھ سے جو کچھ ہو گیا اور میں نےکٹھورتا سے تمہیں جو کچھ کہہ دیا، اس کے لیے مجھے معاف کرنا!”
میں نےاس کے ہاتھوں میں کولڈ ڈرنک کا گلاس تھما دیا۔ جرمن میں دانکے (شکر گزار ہوں) کہہ کر، وہ اسے ایک ہی سانس میں پی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ جانے کو کھڑی ہوئی۔ میں نے اسے رُکنے کے لیے کہا۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ ڈرائیور میری کار کو گیرج میں رکھ کر کبھی کا چلا گیا تھا۔ لہٰذا جینی کے لیے اب سُرنگی ریل سےجانا لازمی تھا۔ میں نے اوورکوٹ پہن لیا اور اسے سٹیشن تک چھوڑنے گیا۔
اس کے کچھ دن بعد ٹیلی فوٹو لینز بن کر تیار ہو گیا۔ میں نے اسے آزما کر دیکھا۔ لینز اچھا بنا تھا۔ آخر برلن سے میری رخصتی کا دن آیا۔ امیریکن ایکسپریس کمپنی نے میرا سارا بھاری سامان، ‘سیرندھری’ کے باقی پرنٹس اور میری موٹرکار سیدھے جہاز پر چڑھانے کا بندوبست کر دیا تھا۔ میں ریلوے سٹیشن پر آیا۔ میری ریزرو جگہ جس ڈبے میں تھی، جینی اس کے پاس پہلے سے ہی آ کر کھڑی تھی۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس کا چہرہ ایک دم گمبھیر تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ میرے منھ سے بھی لفظ نہیں نکل پا رہے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بِنا بولے تکتے ہی رہے۔
گارڈ نے سیٹی بجائی۔ میں ڈبےکی پٹری پر چڑھنے جا ہی رہا تھا کہ جینی نے مجھے کس کر بانہوں میں لپیٹ لیا۔ بہت زیادہ جذباتی ہیجان سے اس نے مجھے چوم لیا۔ پھر اس کی گھٹتی سی آواز سنائی دی، “مجھے معاف کرنا۔۔۔ آخری کِس، تمھاری یاد میں۔۔۔ لیکن تم مجھے بُھلا دینا۔ تمہاری پتنی کو میری نیک تمنائیں!”
اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتا، گاڑی چل پڑی۔ میں ڈبے میں چڑھ گیا۔ جینی کی آنکھیں ساون بھادوں برسا رہی تھیں۔ ہاتھ سے رومال ہلاتے ہوئے گلے سے اس نے جرمن میں کہا، “آف ویدر زہن، ایٹ لیسٹ اِن دی نیکسٹ لائف!” (پھر ملیں گے، کم سے کم اگلے جنم میں!)
وداعی کے یہ لفظ سن کر میرا بھی جی بھر آیا۔ آنکھیں چھلک گئیں۔۔۔ اس کی محبت بھری اور جذباتی وداعی سے مغلوب ہو کر میں نے بھی کہا، ” آف ویدر زہن!” اور جیب سے رومال نکال کر ہاتھ اٹھا کر میں اسے ہلانے لگا۔
گاڑی نے تیز رفتار پکڑ لی۔ جینی لگاتار رومال ہلاتی جا رہی تھی اور اس سے آنکھیں بھی پونچھ رہی تھی۔ دس پندرہ سیکنڈ میں وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی، لیکن اس کےالفاظ کانوں میں برابر گونجتے رہے :” آف ویدر زہن! ایٹ لیسٹ اِن دی نیکسٹ لائف!” (پھر ملیں گے، کم سے کم اگلے جنم میں!)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...