“کیسے رہا ٹھیک تھا نا ماحول مجھے تو دھڑکا لگا رہا تھا پتا نہیں کیسے لوگ ہوگئے لیکن تمھارے چہرے سے لگ رہا ہے سب ٹھیک تھا ۔”
گھر آئی تھی تو امی سورہی تھی وہ واش روم میں جاکر شاور لیتے خوب روئی اتنا کے کوئی حد نہیں جس کا انتظار کیا وہ خود انتظار نہ کرسکا اگر نہیں کرسکتا تھا تو لٹکایا کیوں آخر کیوں ؟ کیوں کہہ گیا وہ آئے گا وہ کیوں نہ آیا اور جب قسمت نے اس کی شکل دکھا دیں تھی تو کسی کا شوہر کسی کے باپ کے روپ میں ہیر شدت پسند تھی اس کا کہنا تھا جیسے وہ ہے ویسا ہی اس کا ہم سفر ہونا چاہیے تو جس سے محبت کی تھی تو وہ ایسا کیوں نہیں ہے جیسی وہ تھی ۔غازی ایسا پانچ سال پہلے تھا پر اب نہیں زینی نے بتایا تھا جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کی ماما کی ڈیتھ ہوگئی
ہیر کو دُکھ تو بہت ہوا تھا لیکن وہ اس بات کا اظہار نہیں کر پائی تھی کیونکہ غازی سر پہ کھڑا تھا وہ واش روم سے باہر نکلی کپڑے تبدیل کیے اور سردرد کی گولی کھا کر سو گئی تھوڑی ہی دیر وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی جب اس کسی کا شفقت بھرا ہاتھ اپنے چہرے پہ محسوس ہوا امی اس کے چہرے پہ کچھ پڑھ کر پھونک رہی تھی
“کیسا رہا میری جان ! ۔”
ہیر نے سر اثبات میں ہلایا اور مندی مندی آنکھوں کو مسلتے ہوئے اُٹھی
“ٹائیم کیا ہوا ۔”
“سات بج گئے ہے لیٹی رہو آج منزہ کھانا بنا کر چلی گئی یہ لو صبح سے پتا نہیں کچھ کھایا ہوگا کے نہیں ۔”
“سات بج گئے مجھے اُٹھا لیا ہوتا امی ۔”
ہیر نے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹا اور انھیں دیکھا جب وہ ٹرے سامنے رکھ کر پوچھنے لگی
وہ پھر تسلی دیں کر سب بتانے لگی
“چلو میری بچی کے شوق کا کچھ تو فائدہ ہوا اللّٰلہ تمھیں کامیاب کریں میری بچی اچھا پرسو تیار ہوجانا کچھ لوگ آرہے ہیں ۔”
“کون لوگ ! ”
وہ نوالہ لیتے ہوئے چونکی
“لڑکا بینک ۔”
“امی پلیز !!!”
وہ تیزی سے بولی اور پکڑا ہوا لقمہ واپس پٹھک کر رکھا
“میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہو میں اب کو اکیلے چھوڑ کر کہی نہیں جاو گی ۔”
“سب جاتے ہیں ہیر تم کوئی انھوکی نہیں ہو اور سب کی مائیں اکیلی رہ لیتی ہے ۔”
امی ناگواری سے بولی
“لیکن سب کی ماوں کو ٹیومر نہیں ہے امی میرے زبان میں کیوں نہیں چھالے پڑ جاتے جو ابھی یہ لفظ کہا کیوں مجھے مجبور کرتی ہے کے میں تکلیف دیں لفظ اپنے لبوں پہ لاو کیوں مجھے بولنے پے مجبور کرتی ہے امی میں کمزور نہیں ہونا چاہتی اس لیے پلیز کوئی بھی رشتہ آئے فورن انکار کردیں ورنہ اگر آپ اپنی ضد میں ڈٹی رہی میں اپنی کسی روڈ پہ جاں دیں دو گی ۔”
وہ رونے شروع ہوگئے اندر کا درد باہر آیا امی کو فرسٹ سٹیج کینسر تھا ان کو بھی پتا تھا لیکن انہوں نے ہیر کو نہیں بتایا ڈاکڑز کا کہنا تھا مسلسل دوائیوں سے وہ ٹھیک ہوجائے گی لیکن پھر بھی کینسر زدہ الفاظ سُن کر اچھے سے اچھا بندہ کانپ جاتا ہے اور اس کی کیا حالت ہوتی ہے جس پہ یہ سب گزرتی ہے ۔”
“ہیر !”
امی دھل کر اسے اپنے ساتھ لگایا وہ پھوٹ پھوٹ کررہی تھی
“بس میری بچی میں ٹھیک ہو مجھے کچھ نہیں ہوگا ابھی دیکھنا تمھاری شادی کرواوں گی پھر تمھاری ساتھ ححج کرنے جاو گی پھر تمھارے پچے اپنی گود میں کھیلاوں گی تم فکر مت کرو ۔”
وہ اپنا سارے درد بھلائے ہیر کو چُپ کروانے میں مصروف تھی اور ہیر کا رو رو کر بُرا حال ہورہا تھا زندگی نے پہلے اتنے زخم دیے تھے مزید زخم وہ برادشت نہیں کرسکتی تھی
※※※※※※※※※
وقت کے ساتھ ساتھ غازی اور ہیر کے دل میں محبت کئ
شدت بڑھتی جارہی تھی لیکن انہوں نے ایک دوسرے سے اظہار بالکل نہیں کیا تھا وہ جانتے تھے مناسب وقت میں وہ ایک دوسرے کے ہوجائے گی وجہ غازی کی ہیر کے گھر کی ساتھ کلوزنس اور دوسرا غازی اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور مسز علوی کو بھی بیٹے کی خواہش پتا تھی اور ہیر کی تصویر بھی انہوں نے دیکھی تھی اور غازی کو اوکے کردیا تھا لیکن غازی نے فل حال رشتے سے روکا کیونکہ ہیر ابھی چھوٹی تھی ابھی ابھی اس کا یونی ورسٹی میں داخلہ ہوا تھا غازی اس کو ڈسڑب نہیں کرنا چاہتا جب وہ اس کی ہوئی تو دُنیا کی کوئی طاقت اس کا ہونے سے نہیں روک سکتی تھی اسی طرح وقت سال میں بدل گیا جب ہیر بیٹھی اپنی آخری پیپر کی تیاری کررہی تھی اپنے ساتھ پڑے موبائل کی آواز پہ چونکی اس نے سر اُٹھایا
“ہائے اس وقت کون منہوس ہے ۔”
وہ خود سے بڑبڑائی
“ہلیو !”
“ہلیو نہیں سلام و علیکم مس رانجھی ۔”
غازی کی خوبصورت بھاری آواز پر ہیر کا ہاتھ سے فون گِرتے گِرتے بچا
“آا آپ ۔”
وہ ہلکلا کر بولی
“جج جی میں ۔”
وہ بھی اسی کی انداز میں بولا
“آپ کو میرا نمبر ۔۔”
“آنٹی نے دیا تبھی آپ سے بات کررہا ہوں ۔”
وہ پوچھنے لگی جب غازی نے جلدی سے جواب دیا کے اس کا منہ حیرت سے کھلا
“امی نے کیوں امی بھلا ایسے کیسے کرسکتی ہیں ۔”
“اچھا آپ اس باتوں کو چھوڑے اس وقت آپ لان کی طرف آئے جہاں پہ پلنگ پڑا ہوا ہے ۔”
“ہائے اللّٰلہ آپ وہاں ہے کیا !۔”
“ارے چیخے نہیں میرے معصوم پردے پھٹ جائے گے ۔”
“غازی پلیز چلے جائے اگر آپ وہاں ہے تو ۔”
غازی کے چہرے پہ بھر پور مسکُراہٹ آگئی
“نہیں آیا مس رانجھی بس وہاں آجائے ۔”
ہیر فون پکڑ کر باہر آئی اور دبے قدموں سے لان کے پچھلی سائڈ کی طرف گئی کیونکہ فرنٹ میں امی ابو کا کمرہ تھا وہ وہاں پہنچی اسے پتا نہیں کیوں لگ رہا تھا جیسے غازی جھوٹ بول رہا ہے ڈرتے ڈرتے وہ پلنگ کی طرف آئی سدا شُکر وہ وہاں نہیں تھا اس نے دیکھا وہاں ریڈ پیکٹ پڑا ہوا تھا وہ اس کی طرف بڑھی
“یہ پیکٹ آپ نے رکھا ہے ۔”
وہ فون پہ موجود غازی کو بولی
“نہیں میرے فرشتوں نے ۔”
“آپ ہمیشہ الٹی بات کیوں کرتے ہیں ۔”
“کیونکہ سیدھی باتیں آپ کو سمجھ نہیں آتی ۔”
“خیر بارہ بجنے میں دس سکینڈ رہ گئے جلدی سے کھولے میں آپ کو وِش کرو ۔”
“کس چیز کے لیے ؟”
“مس رانجھی آج میری پھوپھو کی انویرسری ہے اس کے لیے ۔”
وہ ہنستے ہوے بولا
“اُف ! ”
اس نے فون بند کردیا اور پلنگ پر بیٹھ کر گفٹ کی طرف بڑھی یہاں پہ سائڈ لائٹ آن تھی جس سے اس کا چہرہ واضع نظر آرہا تھا
اس نے گفٹ کا ریپیر کھولنا شروع کردیا یہ نہیں پتا تھا کوئی اس کی تصویر لیے چکا تھا
اس نے اپنے بال پیچھے کیے اور گفٹ کھولا اس نے دیکھا ایک ریڈ ولویٹ کا ڈبہ پڑا ہوا تھا اس ڈبے کو کھولا شیشے کا خوبصورت گلوب جس کو دیکھا کر اس کا منہ واو کی صورت میں نکلا کیونکہ اس گلوب کے اندر وہ وائٹ فیری وائٹ پیناو بجا رہی تھی اس سے نے ایک بٹن دیکھا لیکن کچھ سوچتے ہوہے وہ جلدی سے کمرے کی طرف بڑھی اور دروازہ بند کردیا کے اچانک میسج کی ٹیون بجی اس نے دیکھا
“ہپی برتھ ڈے رانجھی !”
ایک سمائیل ایموجی کے ساتھ غازی نے اس وِش کیا ہیر نے مسکراتے ہوئے میسج پڑھا اور پھر تھینک یو کا ٹیکسٹ سینڈ کر کے اسے دیکھنے لگی
※※※※※※※※※
“اس کو ایسے بجاو ہاں یہ اینڈ والی کیز کو چھوٹی والی فنگر رکھ اور اور یہ بیچ والی کیز کو مڈل فنگر سے ایک ساتھ دباو ۔”
آج اس کا تیسرا دن تھا اپنے کام میں غازی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسے بُری طرح اگنور کر کے یہ سخت نظروں سے دیکھ کر چُپ کراو دیتی سدا شُکر کے آج کے دن وہ آفس تھا
“آپی ایسے ۔”
وہ دو دفعہ ایسے کر کے ہیر سے پوچھنے لگی
“ہاں لیکن ٹیون کو منٹین کرنے کے لیے اپنے سیدھے ہاتھ سے ڈی میجر سکیل کو دبانا ہے ایسے ۔”
ہیر نے اس کی انگلی تھام کر اس کی کو دبوایا اس کی آواز کمرے میں گونجی
“واو کتنی مزے کی ٹیون بنی ۔”
“اب تو ماشااللّٰلہ اتنی انٹیلیجنٹ ہوں بہت جلد سیکھ جاو گی ۔”
ہیر نے زینب کے بال سہلائے
“آپی ویسے آپ بجائے نا کوئی مزے کی ساوئنڈ ۔”
زینب کا لیسن ختم ہونے والا تھا تب آخر میں وہ ہیر سے بولی
“میں !”
“جی آپ !”
غازی گھر پہ موجود نہیں تھا اس لیے وہ مان گئی اور اس گانے کی ٹیون بجانے لگی جو اس کا ال ٹائم فیورٹ تھا
“ہیر ہیر نہ اکھو آڈیو
میں تے سہیبان ہوئی
گھوڑی لے کے آوے لیے جائے
گھوڑی لے کے آوے لیے جائے
او مینو لیے جائے مرزا کوئی
لیے جائے مرزا کوئی
لیے جائے مرزا کوئی
ہیر ہیر نہ اکھو آڈیو
میں تے سہیبان ہوئی
گھوڑی لیے کے آوے لیے جائے ۔”
اس دُھن میں وہ ماضی میں چلی گئی جہاں سے اس کا پہلا امتہان شروع ہوا تھا
************
وہ یونی سے واپس آئی تو دیکھا بابا ایسے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے اور امی ساتھ بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی
“السلام و علیکم ۔”
“وعلیکم و سلام آج تم بہت جلدی آگئی ۔”
“جی بس کلاس ایک تھی ۔”
وہ بابا کے ساتھ بیٹھ گئی بابا نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کی پیشانی چوم لی
“پیپر کب سے ہے ۔”
“اللّٰلہ ابو ! پیپر کا نام ہی نہ لے ابھی سے خوف آنے لگ جاتا ہے ۔”
ابو ہنس پڑے
“اچھا بابا نہیں لیتا جاو پانی پی آو گرمی تھی باہر ۔”
وہ سر ہلاتے ہوئے اُٹھی اور کچن کی طرف بڑھی
اچانک فون آیا دیکھا تو غازی کا تھا غازی سے اس کی فون پہ بات چیت ہونے لگی تھی فضول تو نہیں لیکن دن کیسا رہا ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے امی ابو کا پوچھ کر فون بند کردیتے ۔ہیر مسکرائی
“تو آپ لندن سے واپس آگئے ۔”
وہ شربت کا گلاس لیکر کمرے کی طرف بڑھی تب اس نے کال کرتے ہوئے کہا
“بندہ پہلے سلام کر لیتا ہے ۔”
غازی ہنستے ہوئے بولا
“او سوری اسلام و علیکم !”
” ولیکم و سلام ہاں آج صبح آیا ہوں تم کیسی ہو ۔”
“اللّٰلہ کا شُکر ابھی یونی سے واپس آئی ہوں ۔”
وہ دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے کے اچانک غازی بول اُٹھا
“ہیر !”
“جی ؟”
“وہ میں امی کو ۔۔۔”
“علی !!”
امی کی چیخ پر ہیر اچھلی
“ہیر کیا ہوا !”
غازی نے بھی چیخ سُنی تھی
ہیر تیزی سے اُٹھ کر گئی تو اِدھر کا منظر بھی دیکھ کر اس کی چیخے نکل گئی تھی ابو کا ساکت وجود جس کو امی جنجھوڑ کر چیخ رہی تھی ابو ابھی تو ٹھیک تھے اچانک کیا ہوا
“ابو !!!”
*************
ہیر کے ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا معلوم نہیں کیا وجہ تھی ہیر اپنی امی کو سنبھال رہی تھی جو غم سے نڈھال بیمار ہوگئی تھی
غازی نے بیٹے کے سارے فرائض پورے کیے اور مسز علوی بھی ان کے گھر آتی رہی ان کے غم میں بھر پور شریک تھی اسی طرح علی صاحب کا چالیسواں بھی ہوگیا اور سب رشتے دار اپنے اپنے گھر کو چلے گئے اور آنا بھی بند کردیا کے مبدا ماں بیٹی کا خرچہ سنبھالنا نہ پڑ جائے ہیر کو کوئی پروا نہیں تھی کیونکہ اس کے پاس غازی تھا اور غازی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا
وہ بیٹھی امی کو سُلا کر باہر آئی جب دیکھا مسز علوی اور غازی بیٹھے باتوں میں مصروف تھے وہ ان کے پاس آئی غازی اس کو دیکھ کر ہولے سے مسکرایا
وہ جاکر مسز علوی کے پاس بیٹھی
“آپ کا بہت شکریہ آپ ہمارے گھر آتی رہی آنٹی میں آپ کی بہت احسان مند ہوں ۔”
مسز علوی گرے شلوار قمیض میں ملبوس بہت ہے باوقار اور خوبصورت عورت تھی ان کے دل میں غازی کی طرح امیروں والا غرور و تکبر شامل نہیں تھا کیونکہ شادی سے پہلے وہ بھی ہیر کے طبقے سے تعلق رکھتی تھی ان چھوٹی سی معصوم سی ہیر بہت اچھی لگی تھی
“ارے خبرادر احسان کی بات کی تم میری بیٹی جیسی ہو بلکہ بیٹی ہو مائیں احسان نہیں کرتی اپنے بچوں پر سمجھی !”
انہوں نے بے حد پیار سے اس کا ماتھا چھوا
غازی کے لیے یہ منظر بے حد دلچسپ تھا اور ہیر غازی کی نظریں پاتے ہی شرما اُٹھی
“میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں ۔”
“ارے نہیں بیٹا میں چلو گی صبح گیارہ بجے میری لندن کی فلائٹ ہے میری بہن وہاں رہتی اس کی حالت تھوڑی سیریس ہے غازی آتا رہے گا بالکل بے فکر ہوجاو اب تم ہماری امانت ہوں سمجھی ۔”
وہ ہیر کا چہرہ تھپک کر بولی اور ہیر کو لگا اب اس کے اچھے دن آنے والے وہ اپنے رب کا جتنا شُکر ادا کرتی کم تھا
**************
آج دو دن ہوگئے نہ غازی آیا نہ اس نے فون اُٹھایا حیرت کی بات ہے وہ پریشان سی ہوگئی تھی امی بھی اس کا پوچھنے لگی لیکن ہیر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
اس نے سر جھٹک کر سوچا ضرور اپنے کام میں بزی ہوگئے آج کل ویسے بھی پریشان بہت لگ رہے تھے منہ سے بولا تو کچھ نہیں تھا لیکن کچھ دن کے بانسبت بہت ٹینز لگے معمولی طور پہ نہ مسکرائے اور نہ زیادہ بولے
اسی طرح ہیر اپنے ٹیسٹ میں مصروف ہوگئی اور کہا آجائے گا اسی طرح ہفتہ سے زیادہ گزر گیا نہ فون نہ کال پہ وہ پریشان ہوگی آج بیٹھا کر اس نے ٹھان لی تھی کے وہ اس کال کر کے رہی گی آخر چکر کیا ہے
بارہ دفعہ کال ملانے پر بھی جب کال مصول نہ ہوئی تو اس نے جنجھلا کر فون بیڈ پہ پھینکا
“ایسے کوئی کرتا ہے اگر اتنے مصروف ہے بندہ اطلاع کردیں بندے کو کم سے کم تسلی تو ہوجائے ،یا اللّٰلہ انھیں کچھ تیرے منہ میں خاک ہیر یا اللّٰلہ غازی کو اپنے حفاظ و ایمان میں رکھنا ۔”
دن مہینے گزر گئے نہ غازی کی کال آئی نہ غازی آیا امی بھی اب باقئدہ پریشان ہوگئے ہیر نے سوچا اس کی امی کو کال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بند اس نے فیصلہ کیا وہ غازی کے گھر جائے گی اسے سے پوچھے گی محبت اور وعدے کر گئے تم کہاں چلے گئے ہو تم کہاں غائب ہوگئے ہو وہ یونی کو بہانہ کر کے اس کے گھر آئی پتا لگا وہ یہ گھر چھوڑ چکے ہیں اور وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا ہیر کے لیے ایسے کیسے وہ چھوڑ سکتا ہے اسے اپنا نام اس کے دل پہ نقش کر کے وہ کیسے منظر سے غائب ہوسکتا سُنسناں سڑک پہ چلتے اس کا دل تڑپ تھا جبکہ آنکھوں سے گرم سیال نکلنے کے بجائے بالکل خُشک تھی بڑی مشکلوں سے گھر پہنچی امی کھانا بنا رہی تھی کچن میں انھیں اگنور کے وہ کمرے میں آگئے اور بستر پہ گر کر تکیہ میں منہ دیے رونے لگی غازی اس کا غازی آخر کہاں چلا گیا ہے وہ اسے ایسے کیسے چھوڑ سکتا ہے نہیں وہ آئے گا ضرور آئے گا وہ اس کا انتظار کرے گی چاہیے کچھ بھی ہوجائے جب وہ اس کی امانت ہے تو وہ کسی کو بھی اس امانت میں خیانت نہیں کرنے دیں گی پھر اوپر سے دوسری مصیبت کرائے دار والوں نے گھر خالی کرنے کو کہہ دیا جس سے ہیر اور امی سُنتے ہی پریشان ہوگئے اور مسلے کا حل ڈھونڈنے لگے
حل یہ نکلا کے ہیر کی کا نانی گھر لاہور میں تھا جو بہت عرصے سے نانی کی وفات پہ بند تھا اور ہیر کے ماموں جو امی کے چچا زاد تھے باہر آسٹریلیا میں ہوتے تھے ماموں سے بات کی تو انہوں نے کہا وہ آرام سے وہاں جائے وہاں ان کے بہنوئی انھیں گھر کی چابی دیں دے گئے ہیر کو لگا وہ چلی جائے گی تو غازی اگر آی اور اسے نہ ملی لیکن اب کیا ہوسکتا اس نے کوئی ذریعہ چھوڑا تھا جو وہ چھوڑتی غازی کی یاد دل میں لیے وہ لاہور شفٹ ہوگئی اور اسی طرح چار سال بیت گئے جہاں اس کی اتنے سالوں انتظار کرنے کے بعد ملا بھی تو ایک بچی کے باپ کے روپ میں
*****************
وہ ٹیون ختم کرُچکی تھی جب اچانک کسی کی تالی کی آواز پہ اس نے موڑ کر دیکھا غازی بلیک سوٹ میں ملبوس مسکراتا ہوا تالی بجا رہا تھا
“پاپا آگئے !”
زینی بھاگتی ہوئی آئی اور غازی سے جاکر لپٹ گئی
غازی نے اسے اُٹھایا اور زینی کے گال چوم کر ہیر کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی
“آپ کے آپی تو بہت ذبردست پیانو بجاتی ہیں مانا پڑے گا کیوں نہ اس خوشی میں ہم لنچ کرنے چلے ۔”
“یس پاپا کیا آپی ہمارے ساتھ جاے گی ۔”
“نہیں نادر انکل چلے گئے افکورس آپی میں اور آپ چلے گئے آخر وہ اتنی اچھی چیز سیکھا رہی ہے آپ کو ۔”
“اپنی بیٹی کا استمعال مجھ پہ مت ہی کرو غازی تو بہتر ہے ۔”
وہ تیزی سے انگلش میں اسے بولی
“میں کب کررہا ہوں ویسے بھی لنچ کا ٹائیم ہوگیا ۔”
“میں لنچ اپنی امی کے ساتھ کرتئ ہوں زینی میں چلتی ہوں ماما انتظار کررہی ہوگی ۔”
“آپی پلیز اس بار ہمارے ساتھ کر لے ۔”
زینی نے پہلی بار کہا
“سوری چندا میری ماما بمیار ہے نا تو انھیں خود کھانا دینا ہوتا ہے ۔”
وہ اپنا پرس سنبھالتی ہوئی اُٹھی اور آگئے بڑھی آگئے فرش صفائی کے باعث سلپیری تھا جسے ہیر کا پیر پسھلتا اور وہ سیڑھیوں کے طرف گرتی لیکن دو مضبوط بازوں نے اس کو بچایا ہیر کا بیگ گر گیا غازی نے شُکر کا سانس لیا ہیر جس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا غازی کی خشبو محسوس کر کے وہ شرم کے مارے تیزی سے ہٹی اور اسے دھکا دیا
“مت ہاتھ لگاو مجھے ۔”
وہ تیزی سے بولی
“ہیر !”
“نہیں میں نے غلطی کی یہاں پر آکر مجھے آنا نہیں چاہیے تھا ۔”
وہ اپنا بیگ اُٹھانے لگی جب غازی نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی اور اس نے رکھ کر غازی کے منہ پہ تھپڑ مارا
“اپنی لمیٹس میں رہو غازی علوی ! ”
وہ غرائی
“آپی !”
زینی کی پرشانی زدہ آواز کو وہ اگنور کر کے بیگ اُٹھانے لگی جب سُرخ چہرہ لیے غازی نے اسے کھینچ کر اپنے بازو میں اُٹھایا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف لیکر گیا
“چھوڑو مجھے بدتمیز انسان چھوڑو ۔”
وہ اسے چھوڑ کر کمرے کی طرف لیکر گیا اور بیڈ پہ گرایا
اور مڑ کر کمرے کے دروازے کو لاک لگانے لگا وہ اُٹھتے ہوئے اس کے پیچھے آئی اور اس پر مکوں کی بارش کرنے لگی
“گھٹیا زلیل آدمی مجھے جانے دو تمھیں شرم نہیں آئی اپنی بیٹی کے سامنے مجھے اُٹھا کر لے گئے ۔”
وہ اسے ماررہی تھی اور رو بھی رہی تھی غازی نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے
“اور جو تم نے میری بیٹی کے سامنے مجھے تھپڑ مارا وہ کیا گری ہوئی حرکت نہیں تھی ۔”
وہ بھی اتنے ہی غصے سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہویے بولا
“جو تم نے میرے ساتھ کیا تم وہی ڈیزرو کرتے ہو ۔”
وہ نفرت سے ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہوتے ہوے پھنکاری
“ایسا کیا کیا ہے میں نے ہیر کیا آپ ڈیٹیل سے بتانا پسند فرمائے گی ۔”
“بولو ہیر ۔”
“تمھارا انتظار کرتی رہی تم منظر سے ایک دم غائب ہوگئے فون بند گھر بند اپنے سارے رابطے بند کر چکے تھے یہ تک نہیں سوچا کسی لڑکی کو محبت کے وعدے کرکے ایک دم غائب ہونا کہاں کا انصاف بولو غازی اس کے بعد خود شادی کر کے اپنی زندگی ہنسی خوشی گزارنے لگے یہ نہیں جانا کوئی تمھارے لیے صرف تمھارے لیے ہر ایک شخص کو ریجیکیٹ کرنے لگی کیونکہ وہ غازی کی امانت خود کو تصور کرنے لگی تھی لیکن پاگل تھی غازی تو کھبی میرا تھا ہی نہیں وہ تو کسی کا چھوا ہوا انسان ہوچکا ہے میری طرح ان چھوا نہیں رہا وہ کسی اور کا لباس ہوچکا ہے اس لیے غازی اب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے پلیز مجھے جانے دو اپنی بیٹی کے سامنے اپنا ایمیج مت خراب کرو ۔”
وہ بھرائی آواز میں کہتے کہتے ایک دم سختی سے بولی
جبک غازی کا غصہ بالکل ٹھنڈا ہوچکا تھا اور وہ اپنی مسکراہٹ دبائے ہیر کو دیکھ رہا تھا اچانک وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا
“توبہ کتنی فلمیں دیکھتی ہو اتنے ڈائیلوگز رانجھی ۔”
وہ غصے سے کچھ بولنے لگی جب ہاتھ اُٹھائے اور پھر ہنسنے لگا
چھوا ان چھوا لباس اُف ہیر اپنے نام کی ہو تم ۔”
“ہنسانا بند کر کے اور جانے دیں ۔”
“اچھا سنو نہ میں شادی شدہ ہوں نہ ہی بچی کا باپ زینی میری بہن صالحہ کی بیٹی ہے ۔”
“بہت اچھے مجھے حاصل کرنے کی چکر فضول سٹوری اپنا لے آپ کی کوئی بہن نہیں تھی ۔”
وہ تمسخرا ہنسی
” ہیر کوئی سٹوری نہیں یہ سچ ہے زینی واقی میری بہن کی بیٹی ہے ہاں یہ ہے ہم نے تمھیں اس کے بارے میں نہیں بتایا تھا کیونکہ اس نے کام ہی ایسا کیا تھا کے امی نہیں چاہتی تھی لوگوں کی زبانیں جن سے وہ بھاگ کر آئی تھی شروع ہوجائیں ۔”
“ہم سب لندن میں رہتے تھے صالحہ میرے سے دو سال بڑی تھی بہت ہی ضدی اور ڈیڈ کی لاڈلی ڈیڈ اس کی ہر خواہش پوری کرتے مجال ہے جو ڈانٹا ہو اسے مجھے بڑی جیلسی ہوتی کے بیٹا ہونے کے باوجود میری کوئی اہمیت نہیں تھی بہرحال اسی طرح ہم بڑے ہوگئے اور صالحہ کو کوئی پسند آگیا اور وہ لڑکا کرسچن تھا ڈیڈ ہر بات مان سکتے تھے لیکن صالحہ کی یہ بات نہیں ایک تو ہم سید فیملی سے بی لونگ کرتے تھے ہم سید فیملی سے باہر کرنے کا نہیں سوچ سکتے کچا کے مزہب سے باہر ڈیڈ اور صالحہ کی بعث ہونے لگی ایک دن ڈیڈی نے اسے تھپڑ مارا اور صالحہ اسی رات جیک کی ساتھ بھاگ گئی ڈیڈ سے صدمہ برداشت نہیں ہوا اور وہ اس دُنیا سے چلے گئے امی ڈیپریشن میں چلی گئی ہماری کمیونٹی کے لوگ باتیں کرنے لگے اس لیے میرے فیصلے پہ میں اور امی یہاں آگئے اور میں یہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بزنس کرنے لگا اتنی محنت کے بعد اللّٰلہ کے کرم سے ترقی اور کامیابی پانچ سال کے اندر ہوئی اور اس کے بعد تم مجھے ملی خیر پوائنٹ پہُ آتے ہیں یاد ہے امی لندن گئی تھی وہاں انھیں ہسپتال میں پتا چلا کے صالحہ نے بچی کو جنم دیا اور امی سے رہا نہیں گیا اور اس کے پاس چلی گئی بعد میں امی کو پتا چلا صالحہ کے ساتھ ڈومیسٹک وائیلنس ہوتا رہا اور جیک اسے ڈرگز دیتا تھا جس سے اس کی حالت مزید غیر ہوگئی بعد میں امی نے مجھے خبر دیں اور میں سب کچھ بھول کر وہاں گیا لیکن صالحہ کی ڈیتھ ہوگئی خیر جو بھی تھا جسیے بھی تھی میری بہن تھی اوپر سے اچانک امی کی بھی برداشت جواب دیں گئی اور زینی کو میرے پاس چھوڑ گئی میں صدمے سے اتنا نڈھال ہوگیا اتنا سٹریس میں چلا گیا کچھ یاد نہیں رہا اس کے بعد زینی کے خاطر مجھے لندن میں کیس لڑنا پڑا کیونکہ جیک اپنی بچی مانگ رہا تھا اور میں اس کو ہرگز زینی نہیں دینا چاہتا تھا اسی چکر میں سال بیت گئے اور مجھے لگا اب تو تم مجھے بھول گئی ہوگی لیکن ناجانے کیوں ایک اُمید سی تھی ہیر میرے انتظار میں ہوگی اور خش قسمتی سے ایسا ہی تھا بعد میں واپس آگیا تمھارے گھر گیا تو تم وہ جگہ چھوڑ چکی تھی اب کیا کرتا میں ٹوٹے دل کے ساتھ زینی کو لیکر لاہور شفٹ ہوگیا لیکن ہر رات نماز میں دعا کرتا کے ہیر کو میرے سامنے لادیں اور اللّٰلہ لیے بھی آیا لیکن وہ میری ہیر کے بجائے بدگمان سے لڑکی تھی خیر میں تم سے کچھ نہیں مانگو گا تم جاسکتی ہو ، لیکن پلیز زینی کو مت بتانا وہ برداشت نہیں کر پائی گی کے اس کا باپ کوئی اور ہے ۔”
وہ بولتے ہوئے ایک دم خاموش ہوگیا ہیر ایک دم خاموشی سے دروازے کی طرف بڑھی غازی کو لگا وہ ہار گیا وہ چلی جائے گی ہیر باہر نکل گئی دیکھا زینی پریشانی سے وہاں کھڑی تھی
وہ گھٹنے کے بل بیٹھی اور بازو پھیلائے
“زینی اپنی ماما کی پاس آئے گی کیا ؟”
زینی نے ناسمجھی سے دیکھا اتُنے ہی نا سمجھی سے غازی نے ہیر نے مڑ کر غازی کو دیکھا
“آپ گھوڑی لیکر آئے گے نا غازی ۔”
اس کی بات پر غازی کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آگئی اور پھر زینی کو بولا
“زینی میں آپ کی آپی سے شادی کرنے والے ہوں اور اب یہ آپ کو ہمیشہ پیانو سکھائے گی ۔”
“بٹ انھوں نے آپ کو مارا ۔”
وہ ناراضگی سے ہیر کو دیکھتے ہوئے بولی
“کب مارا ؟”
ہیر معصومیت سے بولی
“ابھی !”
“اچھا سوری میں آپ سے بھی کان پکڑ کر معافی مانگتی ہوں اور پاپا سے بھی اوکے ۔”
اس کی کہنے کی دیر تھی اور زینی بھاگتے ہوئے ہیر سے لپٹ گئی اور ہیر نے مڑ کر غازی کو دیکھا وہ مسکراتے ہویے دیکھ رہا تھا اس کا مرزا بلا آخر آگیا
ختم
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...