حمزہ نے قائنیش سے ٹھیک ہی کہا تھا کہ خوب پیٹ بھر کر لڑنے کا موقع جلدی آنے والا ہے۔ ارمچی میں روسیوں نے اپنا جماؤ ابھی پورا سا بھی نہیں کیا تھا کہ چینی اشتراکیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ان حصوں کے علاوہ جن پر سوویت یا منگولی قبضہ کر چکے تھے ان کے جوڑ توڑ چونکہ کامیاب ہو چکے تھے اس لیے قازقوں کی آبادیوں کے سوا باقی صوبہ بھی بغیر کسی لڑائی کے ان کے قبضہ میں آ گیا۔ جہاں جہاں لڑائی کی ضرورت پیش آئی یہ بات جلدی واضح ہو گئی کہ لال ڈاڑھی والوں کی طرح ہشت راہ لشکر بھی پہاڑوں میں ناکام ثابت ہو رہا تھا۔ لہذا ہوائی اڈے پر اشتراکیوں کی آمد کی طرح اشتراکیوں کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کرنی پڑی، وہ اس طرح کہ ہشت راہ لشکر نے فصیل دار شہروں پر تاخت کی اور روسیوں نے خلدزا کے قازقوں سے جو فوجیں مرتب کی تھیں، انھوں نے کھلی بستیوں اور پہاڑی آبادیوں پر حملے کرنے شروع کیے۔ علی بیگ اور حمزہ کو معلوم نہیں تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوجوں کے ذمے کیا کام ڈالا گیا تھا اور ڈالا بھی گیا تھا یا نہیں۔ لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو سکھا پڑھا کر لشکر میں شامل کر لیا گیا تھا اور ان میں جو لوگ مشتبہ نظر آئے انھیں ختم کر دیا گیا تھا۔
جو عینی شاہد اس وقت ارمچی میں موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ شہر بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو گئے۔ صرف قازقوں ہی نے جم کر مقابلہ کیا۔ روسیوں کی مرتب کی ہوئی قازق فوجوں ہی سے آزاد قازقوں کو دبانے کا کام لیا جا رہا تھا۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہشت راہ لشکر اشتراکی تعلیمات کو عام کرنے میں مصروف تھا۔ اس سے قازقوں کی جنگی قابلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ چینیوں کو اس کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا کہ پہاڑی لڑائیوں میں وہ چھلاوہ بنے ہوئے قازقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے وطن کی پہاڑی لڑائیوں میں بوکو بطور، یونس حجی، عثمان بطور چینی باقاعدہ فوجوں پر ہمیشہ فتح یاب ہوتے رہے تھے۔ صرف کھلے میدان میں نکل آنے پر یا مجبوراً نکال لائے جانے پر ہی قازقوں کو شکست ہوتی تھی۔
اشتراکی اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ انھیں کسی محاذ پر پسپائی ہو۔ اس سے ان کے سیاسی اقتدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا تھا۔ یہ بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا کہ آزاد قازقوں کو فی الحال ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے کہ جلد از جلد قازقوں سے الجھ کر ان کا قصہ پاک کر دیں اور اس اثنا میں ہشت راہ لشکر اپنی سیاسی جد و جہد جاری رکھے۔ لہذا روسیوں نے آزاد قازقوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں ان قازق فوجوں کو جھونک دیا جنھیں علی ہن طور کی مدد سے انھوں نے بھرتی کیا تھا اور جب علی ہن طور سے وہ کام لے چکے تو روسیوں نے اسے ہٹا کر خود ان فوجیوں کو اپنے اختیار میں لے لیا تھا۔ ان فوجوں کے قازق کچھ تو سوویت قازقستان سے آئے تھے اور باقی سنکیانگ کے خلدزا اور تار باغتائی صوبوں سے۔ ان فوجوں میں دس پندرہ ہزار اعلیٰ تربیت یافتہ عمدہ ہتھیار بند قازق تھے جو پہاڑی لڑائیوں میں مشاق تھے اور جدید اسلحۂ جنگ سے لیس۔ ان کے پاس بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک اور پہاڑی توپیں تھیں اور روسی ہوائی جہازوں کی خاصی تعداد بھی ان کی مدد کو موجود تھی۔
کیو کلوک کے قریب علی بیگ کی فوجوں پر ابتدائی حملے اکتوبر ١٩٤٩ء کے آغاز میں شروع ہوئے۔ ارمچی میں ناگہانی انقلاب کے کوئی ایک مہینے بعد یہ سلسلے وار حملے چنیدہ فوجی دستے اس لیے کر رہے تھے کہ آزاد قازق کسی طرح پہاڑوں میں سے نکل کر کھلے علاقے میں آ جائیں۔ یہ لڑائیاں ستر دن تک مسلسل چلتی رہیں۔ حملے اور جوابی حملے بعجلت ہوتے رہے اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ آزاد قازقوں کو نہ تو اس کی توقع تھی اور نہ وہ اس صورتِ حال کے لیے کوئی تیاری ہی کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان کا سامانِ جنگ بہت کم رہ گیا۔ دشمن کی رسد پر حسب دستور چھاپے مار کر وہ کچھ اسلحہ لوٹ لاتے۔ ان چھاپوں میں وہ اکثر کامیاب ہوتے لیکن یہ کام اب اتنا آسان نہیں رہا تھا جتنا کہ شنگ کے زمانہ میں تھا۔
اس قسم کے چھاپوں کے علاوہ تمام لڑائیاں پہاڑوں ہی میں ہو رہی تھیں۔ یہاں بھی چھاپہ ماری ہی ہو رہی تھی لیکن دونوں جانب سے آمنے سامنے کی لڑائی سے بچنے کی کوشش کی جاتی تھی اور دونوں اس کوشش میں لگے رہتے کہ پہاڑوں پر ہم زیادہ اونچائی پر زیادہ تیزی سے چڑھ جائیں تاکہ اوپر سے دشمن پر گولیاں برسا سکیں یا اگر گولیاں ختم ہو جائیں تو بڑے بڑے پتھر حریف پر لڑھکانے لگیں۔ لہذا دن پہ دن یہی ہوتا رہا کہ جانبین کے ہانپتے ہوئے گروہ دیوانہ وار پہاڑی بلندیوں کی جانب بھاگتے کہ موقع کی جگہ پہلے ان کے ہاتھ آ جائے یا پہاڑی کی چوٹی پر پہلے پہنچنے کے لیے گھوم کر دوسری طرف سے جلدی چڑھنا شروع کرتے تاکہ حریف کو علم نہ ہونے پائے اور یہ قلۂ کوہ پر اس سے پہلے جا پہنچیں۔
بعض دفعہ کوہ پیمائی کی یہ ہنر مندیاں بیکار ثابت ہوتیں اور دونوں حریف ایک گولی بھی چلائے بغیر نیچے اتر آتے۔ تئین شان کی زبردست چوٹیاں ان کے پیچھے کھڑی آسمان سے باتیں کرتی رہتیں۔ بعض دفعہ آزاد قازق اتنے اونچے چڑھ جاتے کہ سوویت ہوائی جہاز جو انھیں نیچے وادیوں میں تلاش کرنے کی غرض سے اڑتے آتے تو قازق اوپر سے ان پر گولیاں چلاتے۔ ایک دن ایسی شبھ گھڑی آئی کہ انھوں نے رائفل کی گولیاں چلا کر دو ہوائی جہاز مار گرائے۔ انھیں جو جہاز نظر آتے ان میں سے بیشتر دیکھ بھال کرنے والے جہاز ہوتے اور کچھ دنوں بعد آزاد قازق انھیں حقارت سے دیکھنے لگے اور جیسا کہ دشمن کی توپوں کے بارے میں کبھی ایک کماندار نے کہا تھا، قازق بھی کہنے لگے تھے کہ ان سے گھوڑے اور دوسرے جانور ڈرائے جاتے ہیں۔
دونوں طرف سے چالیں تو ایک ہی طرح کی چلی جاتی تھیں لیکن ان کی لشکر کشی کا مقتضا مختلف تھا۔ اشتراکی چاہتے تھے کہ آزاد قازقوں کو پہاڑوں میں سے نکال باہر کریں اور قازق ان میں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر علی بیگ کا حکم یہ تھا کہ گولی اس طرح چلاؤ کہ دشمن ہلاک ہو جائے اور دشمن سوار ہو تو اس کا خیال رکھو کہ سوار مارا جائے گھوڑا نہیں۔ ہم چلتے پھرتے رہتے ہیں قیدیوں کا وبال ہم کہاں کہاں لیے پھریں گے لیکن دشمن کے ہتھیار، اس کا ساز و سامان اور اس کا گھوڑا یہ سب چیزیں کام کی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس انھی تین چیزوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس اشتراکی ہلاک کرنے کے لیے گولی نہیں چلاتے تھے کیونکہ انھیں قیدیوں کی ضرورت تھی۔ خصوصیت کے ساتھ وہ آزاد قازقوں کے سرداروں کو گرفتار کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بے سرداروں کے لوگ بے چرواہے کی بھیڑوں کی طرح ہوں گے۔ پھر یا تو انھیں اطاعت قبول کرنی پڑے گی یا پھر اپنے پرانے مسکنوں کو لوٹ جائیں گے اور پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگیں گے اور یہ بھول جائیں گے کہ کبھی ان میں کوئی تبدیلی آئی بھی تھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کے لیے زندہ سردار کو قید میں رکھنا اس سے زیادہ مفید تھا کہ اسے میدانِ جنگ میں ہلاک کر دیا جائے۔ اس کی انھیں امید ہمیشہ رہتی تھی، اگرچہ اس سے انھیں حاصل وصول کبھی نہیں ہوا کہ گرفتار کیے ہوئے سردار کو بہلا پھسلا کر، ترغیب دے کر یا جبر کر کے اشتراکیوں میں شامل کیا جا سکے گا۔ اگر وہ اس پر رضا مند نہ بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے بیانات دیے جاتے تھے کہ اس نے اشتراکیت کو قبول کر لیا ہے اور اس کی جانب سے اس کے ساتھیوں اور دوستوں کو مشورہ دیا جا سکتا تھا کہ وہ بھی اشتراکی بن جائیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ قیدی چاہے مرد ہو یا عورت، نہ صرف امکانی اطلاعات کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یرغمال بھی کہ اس کے دباؤ میں اس کے رشتہ داروں کو اطاعت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب اشتراکی کسی کو قیدی بناتے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔ کھانے کو اچھا دیتے اور رہنے کو اچھی جگہ دیتے۔ قیدی کی افادیت جیسے جیسے کم ہوتی جاتی اس کے آرام میں کمی آتی جاتی اگر قیدی عورت ہو یا مرد، رضامند نہ ہوتا تو ایسے سیاسی مخالفین سے جس قسم کا مقررہ سلوک کیا جاتا وہی سلوک اشتراکی بھی اس کے ساتھ کرتے اور آخر میں جب اشتراکی اس نتیجے پر پہنچتے کہ سیاسی لحاظ سے قیدی ان کے لیے بے کار ہے تو فیصلہ کرتے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا اسے قید بامشقت دی جائے اور نرمی اور بھلائی کے وہ تمام وعدے جو اس سے اس عرصے میں کیے جاتے سب فراموش کر دیے جاتے۔
قید ہو جانا یقیناً جنگ کے خطرات میں سے ایک خطرہ ہے اور قازق بھی اسے خطرہ ہی سمجھتے تھے لیکن انھیں یرغمال بنانے کی اشتراکی پالیسی اور قیدیوں کو یرغمال بطور استعمال کرنے پر قازق چراغ پا ہو گئے۔ بے شمار بار آزاد قازقوں کو تحریری پیغامات پہنچے یا انھوں نے دور سے آتی ہوئی آوازوں کو کہتے سنا کہ فلاں شخص کے بال بچے اشتراکیوں کے قبضے میں ہیں اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ وقتِ مقررہ پر نہیں کیا تو پہلے اس کی بیوی کو قتل کر دیا جائے گا پھر ایک ایک ہفتہ کے وقفہ سے اس کے بچوں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا جائے گا۔ لہذا آواز یا تحریری پیغام بتاتا “اگر وہ شخص ان کی جان بچانا چاہتا ہے اور اپنے پیاروں کو موت سے بچانا چاہتا ہے تو اسے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔”
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ابتدا میں یہ دھمکی کچھ کارگر ثابت ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے میں آزاد قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ اپنے عزیزوں کو بچانے کے لیے جو شخص اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے کر دیتا اس کے ساتھ شروع میں تو جنگی قیدیوں کا سا سلوک کیا جاتا لیکن جب اشتراکی اس سے اپنی مرضی کے مطابق معلومات حاصل کر لیتے یا کر چکتے تو اسے بھی مار ڈالتے اور اس کے عزیزوں کو بھی۔ اس انکشاف کے بعد قازقوں نے کسی کو امان نہیں دی اور “ہلاک کرنے کے لیے گولی چلاؤ” کا حکم ایک بھیانک حقیقت بن گیا۔ اس کے بعد کسی قازق نے از خود اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے نہیں کیا۔
اس پر بھی اشتراکیوں نے یرغمال کا سلسلہ جاری رکھا اور لڑائی شروع ہونے کے تھوڑے دنوں بعد ہی قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کے دشمن ان کے لڑنے والے آدمیوں پر حملے نہیں کر رہے بلکہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ انھیں ان کے بیوی بچوں اور ان کے ریوڑوں سے کسی طرح الگ کر دیں۔ اگر اشتراکی اس چال میں کامیاب ہو جاتے تو لڑنے والے آدمیوں کو تو نظر انداز کر دیتے اور ان کے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ انھیں بطور یرغمال اپنے ساتھ پکڑ لے جاتے اور ان لڑنے والوں کے ریوڑ (جو ان کی خوراک کے کام بھی آتے تھے) ہانک لے جاتے۔ اس کی وجہ سے لڑائی کی صورت بدلنے لگی۔ اب بجائے اس کے کہ دو جنگجو گروہ آپس میں گتھ جاتے یا ایک دوسرے پر زیادہ بلندی سے حملہ کرتے، سوویت ہوائی جہاز ان خانہ بدوشوں کے پڑاؤ تلاش کر لیتے اور آزاد قازقوں کو ان کے مسکنوں سے بھگا دیتے۔ اس فوجی چال میں اشتراکیوں کو پوری کامیابی نہیں ہوئی مگر قازق صرف بچاؤ کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے وہ اپنی جگہ پر جمے رہتے ورنہ شنگ کے زمانے میں وہ دشمن کو اپنے پیچھے لگا لاتے اور پھر اسے گھیر کر اس کا صفایا کر دیتے۔ اشتراکیوں کی زمینی فوجیں اب قازقوں کو ہوائی جہازوں کی آنکھوں سے دیکھ لیتی تھیں اور ان کی پرانی چالوں میں نہیں آتی تھیں لیکن قازق عورتیں بھی گولیاں چلانی جانتی تھیں اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں بھی۔ اس لیے یہ اپنا بچاؤ خود کر لیتے تھے۔
نئی وضع کی لڑائی کا ایک بزدلانہ رخ یہ تھا کہ تمام پانی کے سرمایوں میں اشتراکی زہر ڈال دیتے تھے۔ اس مہم کے شروع کرتے ہی یا شاید اس کی تکمیل سے پہلے ہی اشتراکیوں نے تمام جانے پہچانے کنوؤں، چشموں اور تالابوں کی ایک فہرست بنائی اور پھر ایک ایک کر کے سب پر پہرے بٹھا دیے۔ جب اس کام کے لیے ان کے پاس آدمی نہیں رہے تو انھوں نے پانی میں زہر ڈالنا شروع کر دیا تاکہ خانہ بدوشوں اور ان کے جانوروں کو پانی نہ ملے۔
قازقوں کے نزدیک پانی میں زہر ڈالنا خدا کا بھی گناہ ہے اور انسان اور جانور کا بھی۔ قازق جب کنویں پر سیر ہو کر پانی پی لیتا ہے تو ایک ڈول پانی کھینچ کر اور رکھ دیتا ہے تاکہ جو بھی اس کے بعد کنوئیں پر آئے، چاہے دشمن ہو چاہے دوست اس کے کام یہ پانی آ جائے۔ وہ پانی کو عطیۂ خداوندی سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ جو شخص کسی پیاسے کو خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو، پیاس بجھانے سے باز رکھتا ہے، وہ خدا کو ناراض کرتا ہے۔ اشتراکیوں نے پانی میں زہر ڈال کر دوست دشمن، انسان حیوان سب کو پانی سے محروم کر دیا۔ ان کی اس بے رحمی نے آزاد قازقوں میں آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بڑھا دی۔ اب انھیں اس میں بالکل شبہ نہیں رہا تھا کہ دشمن ذریات شیطان میں سے ہے اور اہلِ ایمان کے آگے شیطان زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتا۔
سخت لڑائیوں کو جھیلنے اور پہاڑوں سے اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے علی بیگ کی فوجیں کیو کلوک کے قرب و جوار میں ڈھائی مہینے تک خاصی بڑی جھڑپوں کے باوجود بڑی تباہ کار لڑائی سے بچتی رہیں لیکن اب دسمبر ١٩٤٩ء آ پہنچا تھا اور دشمن سے بھی زیادہ شدید موسم سرما آ پہنچا تھا۔ اس نے قازقوں کو سطح مرتفع سے نکال باہر کیا جس پر گہری برف پڑی چکی تھی۔ نچلے ڈھلانوں پر قازق غیر محفوظ تھے، ان کے خلاف بکتر بند گاڑیاں استعمال کی جا سکتی تھیں۔ اور اشتراکیوں نے کل آبی ذرائع یا تو روک رکھے تھے یا ان میں زہر ڈال دیا تھا۔ اپنے جانوروں کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے قازق اب مجبور تھے کہ ان آبی مقامات پر حملہ کریں جن پر پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے چند پر قبضہ کرنے میں قازق کامیاب ہو گئے لیکن ان معرکوں میں ان کا اتنا سامان حرب ختم ہو گیا اور اتنے آدمی مارے گئے کہ وہ اس نقصان کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ دراصل اب وہ وقت آ پہنچا تھا کہ قازق یا تو شکست قبول کر لیں یا تئین شان کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
شکست قبول کرنے کا خیال انھیں کبھی آیا ہی نہیں تھا لیکن انھوں نے دوسری صورت پر سنجیدگی سے غور کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انھوں نے اس پر غور کیا کہ اس پر عمل کب کیا جائے۔ کیونکہ آپ کو یاد ہوگا کہ جب کارا شہر کے وانگ کو وہ اپنا حلیف بنانے پر گفت و شنید کر رہے تھے تو انھوں نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر انھیں یہاں سے جانا پڑا تو کہاں جائیں گے۔ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ حسب قرارداد وانگ کو ان کے ساتھ اشتراکیوں سے لڑنے میں شریک ہو جانا چاہیے تھا لیکن کارا شہر پر اس وقت ہشت راہ لشکر پنجے جمائے بیٹھا تھا اور وانگ اپنا وعدہ پورا کرنے سے قاصر تھا۔
اس لیے با دل نخواستہ جانبِ جنوب غزکل جانے کی تیاریاں شروع کیں۔ وہ نہ تو مناس جا سکتے تھے اور نہ اپنے دل پسند مقام قزل ازون، کیونکہ برف نے راستہ بند کر رکھا تھا اور اگر وہاں جانا بھی چاہتے تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جس راہ سے وہ غزکل جانا چاہتے تھے وہ کارا شہر اور طرفان کی درمیانی شاہراہ پر سے ہو کر جاتی تھی اور یہ دونوں بستیاں اس وقت ہشت راہ لشکر کے قبضے میں تھیں۔
آخر میں یہ ہوا کہ قازق چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے اور جس راستے سے ان کے سرداروں نے مناسب سمجھا اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس میں یہ مصلحت تھی کہ مختصر ہونے کی وجہ سے ان پر کسی کی نظر نہیں پڑے گی اور یہ ٹولیاں بے روک ٹوک نکل جائیں گی۔ یہ بتانا کہ ان میں سے کتنی ٹولیاں کامیاب ہوئیں اور کتنی ناکام رہیں محض قیاس پر مبنی ہوگا۔ بس صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بعض ٹولیاں بالکل صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچ گئیں۔ بعض بالکل ہی نہیں نکل سکیں۔ بعض نے بہت نقصانات اٹھے لیکن ہمت کر کے پہنچ ہی گئے۔
علی بیگ کے ساتھ کوئی چار سو آدمی تھے۔ اتنی بڑی تعداد چونکہ کسی جانی پہچانی راہ سے نظروں پر چڑھے بغیر نہیں گزر سکتی تھی اس لیے بوکو بطور کی پیروی کرتے ہوئے علی بیگ نے کوہ تشنہ کے بھیانک راستے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان پہاڑوں میں اوسطاً سالانہ بارش صرف ٢ انچ ہوتی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے نہ تو کھانا ہوتا ہے اور نہ پانی۔ اطلاع یہ تھی کہ کوہ تشنہ تک راستہ صاف ہے اور کوہ تشنہ کی راہ کی ناکہ بندی دشمن نے نہیں کر رکھی تھی۔ غالباً اشتراکیوں نے اسے ایک مسلمہ حقیقت سمجھ لیا تھا کہ جو کوئی اس راہ کو عبور کرنے کی کوشش کرے گا وہ زندہ نہیں نکل سکے گا۔ لیکن علی بیگ یہ جانتا تھا کہ اشتراکی خاص طور پر اس کی تاک میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے اسے یقین تھا کہ سب سے خطرناک دکھائے دینے والا راستہ ہی اس کے لیے سب سے محفوظ راستہ ہو سکتا ہے۔ باقی اور بھی اپنی مرضی سے اس کے ساتھ ہو لیے۔
انھوں نے ٢١ دسمبر ١٩٤٩ء کو اپنا سفر شروع کیا۔ اللہ کا بڑا کرم تھا کہ جاڑے کا زمانہ تھا اور سورج اپنی پوری قوت سے نہیں چمک رہا تھا۔ لیکن جنوب مشرق کی طرف جیسے جیسے وہ بڑھتے گئے دن بہ دن مردوں، عورتوں اور بالخصوص بچوں کی پیاس بڑھتی گئی اور جانور بھی پیاس سے بے تاب ہوتے گئے کیونکہ چھ دن سے انھیں پانی نہیں ملا تھا اور ان کے پیروں کے نیچے نمک ہی نمک بچھا ہوا تھا۔ نمک نے گھوڑوں کے سموں کو گلا دیا اور ان کے نعل نکل گئے اور اونٹوں کے پاؤں اس بری طرح زخمی ہو گئے کہ ان میں سے خون ٹپکنے لگا۔ قازقوں نے گھوڑے کی کھال کی گدیاں بنا کر ان کے پیروں پر سی دیں۔ نمک کی چمک اور سرد نمکین ہوا سے مردوں اور عورتوں کو آشوب چشم ہو گیا۔ بچوں کی آنکھیں سرخ ہو کر سوج گئیں اور جانوروں کی آنکھیں بھی دکھنے آ گئیں۔ انھوں نے منہ پر کپڑے لپیٹ رکھے تھے لیکن پھر بھی ہونٹ پھٹ گئے اور خون دینے لگے۔ اور پھر چاروں طرف کہر ہی کہر پھیل گئی اور انھیں راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا۔ مرنے والوں میں علی بیگ کا سب سے بڑا بھائی عطّل بیگ ملّا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کیسے بچھڑ گیا۔ انھوں نے اسے بہت تلاش کیا اور اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔
قازق اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کبھی تفصیل سے نہیں کرتے۔ اس لیے جو کھکھیڑ انھوں نے اس موقع پر اٹھائی اس کا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے انگریزی میں لکھا ہوا قائنیش کا ایک خط ہے۔ ہم نے اس سے کوہِ تشنہ کے سفر کی پوری تفصیلات لکھنے کی فرمائش کی تھی، جواب میں وہ لکھتا ہے:
“اس سفر میں ہمیں سب سے زیادہ تکلیف بے آبی سے پہنچی۔ ہم نے پانی کے بدلے مردوں اور عورتوں کا پیشاب استعمال کیا۔ جانوروں کا خون پیا۔ بے آبی کے باعث ہمارے جانور بہت مرے، صرف اونٹ اسے جھیل گئے۔”
اتنا لکھ کر اس نے موضوع بدل دیا۔
کوہِ تشنہ کو عبور کر لینے کے بعد یہ قافلہ کچھ عرصے بعد نیگ پان یعنی خالی شہر پہنچا۔ یہاں انھوں نے کچھ دم لیا۔ اس شہر کو ١٧٣٦ء میں چینی شہنشاہ چی این لنگ نے فوجی ناکہ بطور آباد کیا تھا۔ اس کے بسانے کے کچھ ہی عرصے بعد سنکیانگ کا نیا صوبہ چینی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن علی بیگ یہاں پہنچا تو وہ مدت سے ویران پڑا تھا، شاید سو سال سے۔ لیکن اس کے مٹی کے گھر ویسی ہی اچھی حالت میں تھے جیسے دو سو سال پہلے بننے کے وقت تھے۔ نیگ پان کے قریب ایک دریا بہتا ہے، اس کی وجہ سے یہ اجاڑ جگہ ان تھکے ماندے لوگوں کے لیے بڑے آرام کی جگہ بن گئی تھی جو لڑ بھڑ کر اور کوہِ تشنہ کی صعوبتیں جھیل کر یہاں پہنچے تھے۔ اور چونکہ یہ شہر آباد شہروں سے میلوں دور ہے اس لیے کسی اچانک حملے کا بھی اندیشہ نہیں تھا۔
علی بیگ اور اس کے ساتھی نیگ پان میں اپنی تھکن اتار رہے تھے اور آگے سفر کرنے کے لیے قوت مہیا کر رہے تھے کہ پہرہ داروں نے آ کر اطلاع دی کہ ایک قازق بنام امین طہٰ ملّا آیا ہے اور علی بیگ سے تنہائی میں گفتگو کرنی چاہتا ہے۔ امین طہٰ ملّا علی بیگ سے بڑی گرم جوشی سے ملا۔ اور جب چائے اور نمکین نان کی تواضع سے فارغ ہو لیا تو اس نے تفصیل سے بتایا کہ اشتراکیوں نے اسے بھیجا ہے، اس پیشکش کے ساتھ کہ اگر علی بیگ ان سے آ ملے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور اسے کوئی معزز عہدہ دیا جائے گا۔
اور آخر میں امین طہٰ ملّا نے کہا: “اور یقیناً یہ پیش کش ایسی نہیں ہے کہ اسے رد کر دیا جائے۔ کیا موت سے زندگی بہتر نہیں؟”
ہم نہیں جانتے کہ علی بیگ کو وہ جواب یاد تھا یا نہیں جو قائن سری نے ڈیڑھ سو سال پہلے روسیوں کے اس قاصد کو دیا تھا جو اطاعت قبول کر لینے کا پیغام لے کر اس کے پاس آیا تھا: “برے مقصد کے لیے جو شخص جال لگاتا ہے وہ اپنی مردانگی کو جال میں چھوڑ جاتا ہے”۔ لیکن علی بیگ نے امین طہٰ ملّا کو اس قسم کی کوئی تہدید نہیں کی، بلکہ شنگ کے زمانے میں اشتراکیوں نے قازقوں پر جو مظالم کیے تھے، ایک ایک کر کے اسے یاد دلائے۔ اشتراکی آقاؤں یعنی روسیوں نے علی ہن طور کے ساتھ جو فریب کیا، ارمچی میں ہشت راہ لشکر کے ہراول نے پہنچ کر بے گناہ لوگوں پر جو ظلم توڑے، ان کے جنگ کرنے کے نفرت انگیز ڈھنگ اور کنوؤں میں زہر ڈال کر خدا اور انسان اور جانوروں کے ساتھ بدی کرنا۔
آخر علی بیگ نے کہا:
“اگر کوئی کافر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی قسم کھائے تو کیا اس پر اعتبار کر لیا جائے۔ جب تک میں موجود ہوں اور میرا خدا موجود ہے، ذاتی اعزاز کے لیے قاتلوں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ اپنی روح ہرگز نہیں بیچوں گا۔ تم واپس جا کر ان سے اپنی جان بچانے کے لیے جو چاہو کہو۔ ہم اگرچہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، خانہ بدوش ہیں، اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ہیں اور ان بے آب و گیاہ پہاڑوں میں سے کسی نہ کسی طرح اپنی جانیں بچا لائے ہیں، لیکن جب تک میری جان میں جان ہے، میں شکست ہرگز قبول نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں ان کے آگے کوئی سر جھکائے گا۔”
امین طہٰ ملّا بیٹھا آہستہ آہستہ اپنا سر ہلاتا رہا۔ منہ سے کچھ نہ بولا اور جب خاصی دیر تک خاموشی رہی تو علی بیگ نے کہا:
“اگر تم قبول کرو تو آج کی رات ہمارے ہاں مہمان رہو اور کل یہاں سے ہنسی خوشی رخصت ہونا۔”
امین طہٰ بولا:
“عزت اور آزادی خدا کی رحمت سے حاصل ہوتی ہے۔ جہاں بھی تم کل جاؤ گے میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گا۔ میں ان اشتراکیوں کی طرف ہو کر کس لیے خدا سے لڑوں۔ اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ میرے ناکام واپس جانے پر وہ مجھے قتل ہی کر ڈالیں۔”
اسی رات کو ایک گوئندے نے خبر دی کہ اشتراکیوں کا ایک دستہ علی بیگ کے قافلے کی راہ روکنے کے لیے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اگلے دن علی الصباح علی بیگ اور اس کے ساتھی اور امین طہٰ ملا دوبارہ جنوب کی جانب روانہ ہو گئے۔ حالانکہ انسان اور باقی ماندہ حیوان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ جانوروں کو یہاں پانی تو مل گیا تھا لیکن چارہ یہاں بھی نہیں ملا تھا، اس لیے وہ اس قدر بے دم ہو گئے تھے کہ ان میں بار برداری کی سکت نہیں رہی تھی۔ ذرا بھی کسی جانور پر زیادہ بوجھ رکھ دیا جاتا تو وہ گر پڑتا۔ سب سے بری حالت گھوڑوں کی تھی جنھوں نے مجبوراً نمک زدہ پتے کھا لیے تھے۔ ان کی زبانیں سوج کر کالی پڑ گئیں اور بہت سے مر گئے، باقی گھوڑوں کو اس طرح بچا لیا گیا کہ ان کی زبانوں میں سوئیاں چبھوئی گئیں۔ اس عمل سے کالا کالا خون نکل جاتا اور دم توڑتا گھوڑا فوراً ہی سانوٹا ہو جاتا اور بوجھ لاد کر چلنے کے قابل ہو جاتا لیکن سوار کا بوجھ وہ اب بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لہذا سوار کو گھوڑے کے ساتھ ساتھ خود بوجھ اٹھا کر گھسٹنا پڑتا۔ عورتیں بچوں کو بھی گود پیٹھ پر لیتیں اور سامان بھی اٹھاتیں۔ تاکہ جو کچھ اثاثہ باقی رہ گیا تھا وہ یہاں ضائع نہ ہونے پائے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کہر اب بھی چھائی ہوئی تھی اور راستہ سوجھتا نہ تھا۔ علی بیگ کا قافلہ اسی طرح بھٹکتا چلا جا رہا تھا، آخر مجبور ہو کر انھیں دریائے طارم کو عبور کرنا پڑا تاکہ سیدھے راستے پر پھر پڑ جائیں۔
جب علی بیگ اس پر سے گزرا تو دریا پر برف کی تہ جمی ہوئی تھی لیکن یہ تہ موٹی نہیں تھی اور قافلہ دریا کی دو نہروں کے درمیان ایک جزیرے پر پہنچا تو انھیں معلوم ہوا کہ جزیرے اور کنارے کے درمیان خاصا لمبا فاصلہ سطح آب کا تھا۔ جزیرے پر درخت کوئی نہیں تھا صرف لمبی لمبی گھاس تھی۔
علی بیگ نے اپنے ساتھیوں سے گھاس کے گٹھے جمع کرنے کو کہا تاکہ اسے بٹ کر اور باندھ کر ایک مضبوط رسا تیار کریں۔ گھاس کو زمین پر پھیلا کر بٹ لینے کے بعد اسے باندھنے کا کام نہایت احتیاط سے کرنے کا تھا کیونکہ اسی رسے کو پکڑ کر سب کو اس پار پہنچنا تھا۔ اگر رسا کمزور رہا اور بیچ میں وزن نہ سہار سکا تو عبور کرنے والوں کے ڈوب جانے کا اندیشہ تھا۔ رسا بڑی تیزی سے لمبا ہوتا گیا اور اتنا لمبا تیار ہو گیا کہ کنارے تک پہنچ جائے۔
رسا بٹنے والوں سے علی بیگ نے پوچھا: “کیا خیال ہے تمھارا رسا اس پار پہنچ جائے گا؟”
انھوں نے کہا: “رسا تو ادھر پہنچ جائے گا مگر وہ تیراک کہاں ہے جو اس کے ایک سرے کو وہاں تک پہنچا دے؟ فاصلہ اگرچہ زیادہ نہیں ہے لیکن پانی بالکل یخ ہے۔”
ان میں سے ایک نے جواب دیا: “ہو سکتا ہے کہ کنارے تک پہنچنے سے پہلے زمین پر پاؤں ٹک جائیں۔ پھر تیرنا نہیں پڑے گا۔ چل کر ادھر پہنچ جائے گا۔”
علی بیگ نے کہا: “یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے لیکن لمبے اور مضبوط رسے کا مہیا کرنا ہمارے ذمے تھا۔ یہ مشکل ہم آسان کر چکے ہیں اب فوراً ایک تیراک تلاش کرو جو دن کی روشنی ہی میں اس مہم کو سر کر لے۔”
کنارے پر جہاں پانی اتھلا ہو گیا تھا نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بھاری پتھر تھا جس سے تیراک رسے کا سرا باندھ دیتا۔ اس لیے جب وہ کنارے پر پہنچ لیا تو اس نے اپنے جسم سے رسے کو خوب لپیٹ لیا اور رسے کو کھینچ کر اور پیچھے کو جھٹک کر تان دیا تاکہ دوسرا آدمی رسے کو پکڑ کر پانی میں ڈوبتا ابھرتا چلا آئے۔ اب دونوں سرے دو دو قوی آدمیوں نے پکڑ رکھے تھے اور علی بیگ نے اندازہ کر لیا کہ باقی لوگ اسی کے سہارے دوسری طرف پہنچ سکتے ہیں۔ چاہے کسی کو تیرنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ ایک ایک کر کے کل مرد عورتوں اور ذرا بڑے بچوں نے اپنے کپڑے اتار ڈالے اور ان کے پلندے اپنی کمر سے باندھ لیے، پھر تنے ہوئے رسے کے سہارے پانی میں اترنے شروع ہو گئے۔ لیکن کھینچے رہنے پر بھی پانی کے بیچ میں رسا جھول کر پانی میں ڈوب رہا تھا۔ جب عبور کرنے والے یہاں پہنچتے تو جن کے سینوں سے بچے اور کمر سے پلندے بندھے تھے، خاصی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے۔ انھیں اپنا سر اور بچوں کو پانی سے اونچا رکھنا پڑتا تھا تاکہ سانس لے سکیں۔ تاہم آہستہ آہستہ ہانپتے کانپتے اللہ کی مہربانی سے سب کے سب بخیریت پار اتر گئے۔
اس کے بعد جانوروں کو پار کرانے کی مہم تھی۔ کوہ تشنہ میں بہت کچھ ضائع ہو جانے پر بھی بھیڑوں، بکریوں، اونٹوں، مویشیوں اور گھوڑوں کی خاصی تعداد باقی تھی۔ اب علی بیگ ہی کی زبانی اس کہانی کا بقیہ حصہ سنیے:
“ہم نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جس کا گھوڑا بہت جاندار تھا۔ اپنے کپڑے اتار کر وہ اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور اپنے پیچھے ایک اور گھوڑا لے کر پانی میں اتر گیا۔ دوسرے جانوروں نے کوتل گھوڑے کو بغیر کسی سوار کے پانی میں جاتے دیکھا تو بے ہنکارے آپ ہی آپ اس کے پیچھے ہو لیے۔ جب یہ جانور پانی میں پہنچ گئے تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تیر بھی سکیں گے یا نہیں۔ لیکن یہ سب خوب تیرے اور اس عبوری میں ایک جانور بھی ضائع نہیں ہوا اور جو سامان ان جانوروں پر لدا ہوا تھا وہ بھی پورا صحیح سلامت آ گیا۔ جن جانوروں پر بوجھ کچھ زیادہ تھا ان پر ہم نے بھیڑوں کے مثانوں کے پھکنے بنا کر باندھ دیے تھے تاکہ یہ انھیں پانی میں ابھارے رہیں۔”
یوں علی بیگ کی وہ بڑی سی دیگ بھی پار ہو گئی جو کئی من کی تھی اور بعد میں علی بیگ اور ان کے خاندان کے کام آتی رہی۔
علی بیگ کا کہنا ہے کہ اس نے طارم کو جہاں سے عبور کیا وہ مقام لاوانگ سے دور نہیں تھا جو تکلا مکان کے اور بہت سے ویران شہروں کی طرح ویران پڑا ہے۔ لاوانگ خالی شہر ینگ پان کے ویرانے کی طرح نہیں ہے جہاں کوہ تشنہ سے نکل آنے کے بعد علی بیگ کا قافلہ اترا تھا۔ لاوانگ میں ڈہی ہوئی دیواروں اور حسرت ناک مٹی کے ڈھیروں کے سوا اسے اور کچھ نہیں دکھائی دیا۔ لیکن پرانے درختوں کے موٹے موٹے تنے آسمان کی طرف اپنی ننگی ڈالیاں اٹھائے کھڑے تھے۔ اس سے یہ سن کر تعجب ہوا کہ لاوانگ کبھی اس وجہ سے خالی کرنا پڑا تھا کہ ایک دفعہ طارم میں اس زور کی طغیانی آئی کہ یہ شہر اس میں ڈوب گیا۔ اس کے بعد دریا نے اپنا راستہ بدل دیا اور شہر بے آب ہو گیا۔ تکلا مکان میں جتنے بھی ویران شہر اب تک دریافت ہوئے ہیں سب کے سب بے آبی کی وجہ سے ویران ہوئے۔
اپنے دوران سفر میں ایک دفعہ وہ لوپ بستی کے نزدیک سے گزرے۔ یہ وہی بستی تھی جس کے نام پر جھیل لوپ نور کا نام رکھا گیا اور جس کے بارے میں سالہا سال پہلے سیون ہیڈن نے کہا ہے کہ یہ “گشتی” جھیل ہے کیونکہ چند صدیوں بعد اس جھیل کا مقام بدل جاتا ہے۔ طارم کا پانی اس میں آتا ہے اور طارم اپنی پرانی رہ گزر سے اکتا جاتا ہے تو اس جھیل کو اپنی تہ کی ریت سے بھر دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق زمین کاٹ کر ایک اور نئی جھیل بنا لیتا ہے۔ لہذا پرانی رہ گزر کے کنارے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں اور جو کھیتی باڑی ہوتی ہے وہ سب بے آبی کی وجہ سے فنا ہو جاتی ہے۔ قازق لوپ کی بستی سے جلدی سے کاوا کاٹ کر آگے نکل گئے کیونکہ پیش بینوں نے آ کر خبر دی تھی اشتراکی اس پر قابض ہو چکے ہیں۔ جھیل سے بچنا بھی ضروری تھا کہ اس کا پانی اتنا کھاری تھا کہ پیا نہیں جا سکتا تھا اور اس کے کنارے اس قدر دلدلی ہیں کہ انسان یا حیوان ادھر چلا جائے تو آدھا اس میں دھنس جائے اور کسی اور ہی کے کھینچے اس میں سے باہر نکل سکتا ہے۔
لوپ سے آگے بڑھنے کے بعد زمین رفتہ رفتہ اونچی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ الطائی پہاڑوں کے قریب پہنچ گئے۔ یہ پہاڑ تبت کے کیون لون پہاڑوں کا شمالی بازو ہیں لیکن انھوں نے خوشی خوشی ان پہاڑوں پر چڑھنا شروع کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صحرائے تکلا مکان کا سفر ختم پر آ رہا ہے اور ہم حسین تجی کے گھر جلدی ہی پہنچنے والے ہیں۔ حسین تجی اپنے ریوڑوں کو غزکل کے قریب چرایا کرتا تھا۔ وہی جھیل جو لمبی سیدھی اور تنگ ہے اور سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلندی پر ہے۔
حسین تجی نے ان کا نہایت پرتپاک خیر مقدم کیا اور قازقوں کے دستور کے مطابق زبان ہی سے نہیں دل سے بھی کہا کہ میں تمھارا میزبان ہوں اور تم سب میرے مہمان ہو۔ اس لیے میری کل ملکیت، میرے اونٹ، مویشی، گھوڑے اور بھیڑیں سب تمھارے لیے حاضر ہیں، جس طرح چاہو اپنی ضروریات پوری کرو۔ کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ اپنا خیمہ کسی رئیس کے خیمے کے قریب لگا لے اور وہ دولت مند شخص مثال کے طور پر چالیس بھیڑیں اس کے حوالے کر دے گا اور سال کے ختم ہونے پر جب ان چالیس کے ہاں بچے ہو چکیں گے تو غریب آدمی اپنے محسن کو اسّی بھیڑیں لوٹا دے گا اور جو باقی رہ جائیں گی انھیں اپنے پاس رکھ لے گا۔ علی بیگ اپنے اونٹوں پر دیگ بھی لاد کر لایا تھا اور اپنا روپیہ پیسہ بھی۔ اس لیے حسین تجی اور اس کے دوست سلطان شریف سے اس نے بھیڑیں خرید لیں۔ اسی طرح حمزہ، قائنیش اور امین طہٰ ملا نے دام دے کر جانور خرید لیے۔ لیکن جن کے پاس نقدی نہیں تھی انھیں بغیر کچھ لیے جانور دے دیے گئے۔ جاڑا ختم پر تھا اور موسم بہار شروع ہونے والا تھا اور یہ سہانا موسم اپنے ساتھ جانوروں کے بچوں کا اعجاز بھی لا رہا تھا۔ دو مہینے یا شاید تین مہینے میں کیو کلوک کی لڑائی سے جو لوگ کوڑی کوڑی کو محتاج آئے تھے ان کے پاس اب اپنے جانور ہو گئے تھے اور حسین تجی بھی پہلے سے کچھ کم امیر نہیں رہا تھا۔ لیکن اگر یہ لوگ نہ آ جاتے تو شاید وہ زیادہ امیر ہوتا لیکن مرضی مولیٰ تو یوں ہی تھی!
لیکن جب بہار کے دن قریب آنے لگے تو علی بیگ اور دوسرے نو وارد کچھ بے چین ہونے لگے۔ انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ عرصۂ دراز تک ایک امن کی دنیا میں رہتے رہتے اور قازقوں کے طرز زندگی کے خلاف اشتراکیوں کے تظلّم سے ناواقفیت کی بنا پر حسین تجی ان خطرات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا جو انھیں گھیرے ہوئے تھے۔ ان کے اندیشوں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب تنگ ہوانگ سے واپس آنے پر حسین تجی کے دو آدمیوں نے وہاں کی روئیداد سنائی۔ تنگ ہوا میں منڈی تھی اور اسی شہر کے قریب ہزار بدھوں کے مشہور بت گلتی ہوئی سیدھی چٹان کے غاروں میں آہستہ آہستہ برباد ہو رہے تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے بتایا کہ اشتراکی تنگ ہوانگ میں ابھی ابھی آئے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ غزکل کے دو قازق شہر میں آئے ہوئے ہیں تو انھوں نے ہمیں بلا بھیجا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئی حکومت سے قازقوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں کھلانے پلانے کے بعد انھوں نے ہمیں اپنے خیموں میں واپس بھیج دیا اور ہمیں ایک دعوت نامہ دے کر کہا کہ یہ اپنے سردار کو دے دینا اور ان سے کہنا کہ اپنے نمائندے بھیجیں، جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی اچھا تاکہ کنسو کے دار الحکومت لانچاؤ میں “عوامی نمائندوں” کے اجتماع میں شریک ہوں۔ اس اجتماع میں شمال مغربی چین کے سب حصوں سے نمائندے آ رہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے کہا: اشتراکیوں نے ہم سے کہا ہے کہ تنگ ہوانگ میں تمام قازق بالکل محفوظ رہیں گے بشرطیکہ وہ امتیازی نشان لگائے رہیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے وہ امتیازی نشان دکھائے جو اشتراکیوں نے ان دونوں کو دیے تھے اور ان کے دوستوں کے لیے بھی دیے تھے۔
علی بیگ نے ان امتیازی نشانوں کو دیکھا، ان پر اشتراکی لیڈر ماوزی تنگ کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ فوراً حسین تجی کے پاس گیا اور اسے آگاہ کیا کہ امتیازی نشانوں میں کوئی فریب ہے۔ اگر عوامی نمائندوں کے اجتماع میں کوئی لانچاؤ گیا تو وہ کبھی واپس نہ آئے گا۔ یا اگر واپس آئے گا تو اپنے ساتھ اشتراکی فوجیں بھی لائے گا جو قازقوں کے کل جانور ضبط کر کے لے جائیں گی۔ اس نے حسین تجی کو ان تین ہزار نمائندوں کی کیفیت سنائی جنھیں شنگ کے زمانے میں ارمچی بلایا گیا تھا اور پھر انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے اپنے آدمیوں کو چٹھیاں لکھو کہ اپنے کل ہتھیار حکومت کے حوالے کر دیں اور جب ہتھیار نہیں آئے تو نمائندوں میں سے اٹھارہ لیڈروں کو جن میں یونس حجی بھی تھا گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔
حسین تجی کو دس سال سے سیاسیات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ علی بیگ کی باتیں سن کر اسے پوری طرح یقین نہیں آیا لیکن اس پر رضامند ہو گیا کہ اپنے بڑے بوڑھوں کو جمع کر کے ان امور پر سوچ بچار کرے۔ ان میں سے بعض بزرگوں نے حسین تجی کی طرفداری کی اور بعض نے علی بیگ کی، اور آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے چالیس گھڑ سواروں کو تنگ ہوانگ بھیجا جائے اور واپس آ کر وہ مفصل روداد پیش کریں۔
ان چالیس سواروں کے روانہ ہونے کے بعد علی بیگ نے حمزہ اور قائنیش سے کہا کہ غزکل اور تنگ ہوانگ کے درمیانی پہاڑی راستوں پر خفیہ پہرے بٹھا دیں اور بے اجازت کسی کو دروں میں سے آنے جانے نہ دیں۔ چند روز بعد ایک قاصد چوکیوں پر پہنچا اور بولا میں تنگ ہوانگ سے آیا ہوں۔ چالیس سواروں کے سردار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین تجی سے کہہ دوں، اس کے آدمیوں کا خیر مقدم اچھا کیا گیا اور اشتراکیوں کے سردار نے یہ کہہ کر ان کی تعریف کی ہے کہ قازقوں نے اب انقلاب کو کچھ کچھ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد قاصد نے کہا: ان چالیس کو لاریاں دی گئی ہیں تاکہ انھیں اور دوسرے نمائندوں کو عوامی نمائندوں کے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے لانچاؤ لے جائیں۔ فاصلہ چونکہ کوئی پانسو میل کا ہے اس لیے اتنا لمبا سفر گھوڑوں پر سوار ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ میں غزکل کے آس پاس کے قازقوں کو آگاہ کر دوں کہ تنگ ہوانگ میں کسی کو اس وقت تک داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ماوزی تنگ کی تصویر والا نشان اس کے نہ لگا ہوا ہو اور ہتھیار لے کر کوئی اس وقت تک داخل نہیں ہو سکے گا جب تک اس کے پاس اشتراکی کماندار کا اجازت نامۂ خاص نہ ہو۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔ آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب میں غزکل کی طرف آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تنگ ہوانگ کے قریب جو درے ہیں ان پر اشتراکی فوجوں کی نگرانی ہے۔
جب قاصد کہہ چکا تو حمزہ نے قائنیش سے کہا: “تو پہلے وہ ہمارے ہتھیار ہم سے لے لیں گے اور بعد میں ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے یا قتل کر ڈالیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے شنگ نے میرے بھائی کو قتل کرتے وقت کیا۔ اس وقت کے بعد سے چاہے کوئی ہو جب تک وہ اپنا مقصد نہ بتائے کسی کو گزرنےنہ دیا جائے۔”
قائنیش نے قاصد کی طرف اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر کہا: “اور اسے جانے دیا جائے یا روک لیا جائے۔”
حمزہ نے کہا: “اسے جانے دو کیونکہ اس نے سچ بولا ہے۔ اگرچہ سمجھا کچھ بھی نہیں اور اس میں اشتراکیوں کا سا چھل فریب بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب حسین تجی یہ سنے کہ ہتھیار لے کر کوئی نہیں جا سکے گا تو سمجھ جائے کہ کیا چال چلی جا رہی ہے۔”
اس کے بعد جس قاصد نے داخلہ کی کوشش کی وہ چالیس سواروں کے سردار کے پاس سے نہیں آیا تھا اور نہ اس کے بعد آنے والا قاصد اس سے کوئی پیغام لایا تھا۔ حالانکہ دونوں کہتے یہی تھے کہ ہم اس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ حمزہ اور قائنیش نے جب ان سے پے در پے سوال کیے اور وہ جواب نہ دے سکے یا ادھر ادھر کی ہانکنے لگے تو یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ وہ اس دشمن کے پٹھو ہیں جس سے حمزہ اور قائنیش بر سرِ پیکار تھے لیکن حسین تجی کو ابھی ان سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ دونوں قاصدوں نے یہی کہا کہ ہمیں چالیس سواروں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ غزکل کے قازق ہتھیار ڈال دیں۔ کیونکہ سارے چین میں اب امن ہو چکا ہے۔ پہلے قاصد نے ہتھیاروں کے بارے میں جو کہا تھا اس سے حمزہ اور قائنیش کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں آدمی جھوٹے ہیں لہذا ان دونوں کو جاسوس قرار دے کر گولی سے اڑا دیا گیا۔
جب دن گزرتے چلے گئے اور ان چالیس کی کوئی خیر خبر نہیں ملی تو حسین تجی کے قازقوں میں پریشانی پھیلی۔ ان لاپتہ آدمیوں کے بیوی بچوں اور اقربا نے حسین تجی کے خیمے کے باہر شور مچانا شروع کیا کہ تنگ ہوانگ جاسوس بھیجے جائیں تاکہ ان چالیس کا خفیہ طور پر پتہ لگائیں۔ حسین تجی کو اس کا علم نہیں تھا کہ پہاڑی راستوں کی ناکہ بندی اشتراکیوں نے کر رکھی ہے۔ اس نے علی بیگ سے مشورہ کیا۔ یہ طے ہوا کہ نہایت احتیاط سے دو آدمی چن کر آس پاس کے علاقے اور تنگ ہوانگ کا جائزہ لینے بھیجے جائیں۔ ان دو قازق جاسوسوں کو خودکار ہتھیاروں سے لیس کیا گیا اور ان کے ماوزی تنگ کے تصویری نشان لگا دیے گئے تاکہ اشتراکی جاسوس ان پر شبہ نہ کریں۔
ان کے روانہ ہونے سے پہلے علی بیگ نے بڑی احتیاط سے انھیں ہدایات دیں کہ وہ کس طرح پہاڑوں میں اشتراکیوں کی ناکہ بندی سے بچ نکلیں۔ ادھر حمزہ اور قائنیش کو بھی ہدایت کی کہ انھیں بے روک ٹوک جانے دیا جائے۔ اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ دونوں ٹھیک اس وقت تنگ ہوانگ میں داخل ہوئے جب یہ چالیس آدمی لاریوں میں بھر کے شہر کے دروازوں سے باہر لے جائے جا رہے تھے۔ ان کے ہتھیار ان سے لے لیے گئے تھے اور اگرچہ وہ طوق و زنجیر میں اسیر نہیں تھے پھر بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ یہ لوگ اپنے مقتل کی جانب جا رہے ہیں۔ لاریاں ابھی روانہ نہیں ہوئی تھیں اور یہ دونوں جاسوس ان کے قریب جا پہنچے اور قازق زبان میں انھیں آواز دینے لگے۔ انھیں معلوم تھا کہ مسلح محافظ چینی ہیں، اس لیے ان کی زبان نہیں سمجھ سکیں گے۔ چالیس آدمیوں کے سردار نے انھیں جواب دیا:
“انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ غزکل قاصد بھیجیں جو ہمارے بھائیوں سے اور حسین تجی سے جا کر کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار حوالہ کر دیں اور تنگ ہوانگ آ کر نئی ریاست کی اطاعت کا حلف اٹھائیں۔ اور جب ہم نے اس سے انکار کر دیا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ قاصد ہماری طرف سے بھیجے جائیں گے اور اگر وہ ہتھیار حوالے کرنے کی رضامندی لے کر نہ لوٹے تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ ہم نے قسم کھائی تھی ہتھیار حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن ہم نے تو ایک لفظ کی بھی قسم نہیں کھائی تھی۔ البتہ اشتراکیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ قاصدوں کو یہی کہنے کی تاکید کی گئی تھی۔”
دونوں آدمیوں نے ان سے پوچھا: “کیا تمھاری جان بچانے کے لیے ہم کچھ کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس خود کار ہتھیار ہیں حالانکہ تنگ ہوانگ کی فصیل کے اندر ان کا چلانا حماقت ہے۔”
چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا: “نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ہمیں اس جرم کے لیے مار ڈالیں جس کا الزام ہم پر لگایا گیا ہے۔ جرم تو انھوں نے خود کیا ہے، ہم نے نہیں کیا۔ ہمارا قتل ہونا نہ ہونا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ تم ہمارے ساتھ مارے نہ جاؤ بلکہ جا کر ہماری بیویوں اور ساتھیوں کو بتاؤ کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔”
جب لاریاں روانہ ہوئیں تو ان دونوں نے کہا: “بسلامت روی و باز آئی۔ رہے ہم تو جو کچھ تم نے کہا ہے ہم وہی کریں گے۔”
ان چالیس آدمیوں کا کیا حشر ہوا آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ ان میں سے ایک بھی غزکل واپس نہیں آیا اور نہ ان کی کوئی خبر ہی آئی۔ اس لیے امکان اسی کا ہے کہ اشتراکیوں نے انھیں قتل کرنے کی دھمکی پوری کر دکھائی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں قیدیوں کے اس گروہ کے ساتھ کام کرنے کی سزا دی گئی ہو جو سڑکیں اور پل اور کارخانے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ اشتراکیوں کا مقصود و معیار ترقی یہی چیزیں ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قازق زندگی کے دلدادہ ہوں یہ سزا موت سے بدتر ہے۔
غزکل واپس پہنچنے میں ان دونوں آدمیوں نے کسی قسم کی تاخیر نہیں کی۔ جب انھوں نے جو کچھ دیکھا تھا اور جو کچھ چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا تھا بتایا تو لاپتہ آدمیوں کی بیویوں نے اپنے ناخنوں سے اپنے منہ نوچ ڈالے اور خون بہتے چہرے لیے حسین تجی کے ڈیرے پر جا پہنچیں اور انتقام کے لیے چیخنے لگیں۔ ان کے ہمدردوں نے انھیں دلاسہ دینے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا بجھایا۔ اس دن کے بعد سے حسین تجی کے آدمی بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہے اور وہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے کہ جس طرح دوسرے قازق الطائی، تئین شان، کیو کلوک اور کیو چنگ میں لڑے تھے، انھیں بھی اسی طرح لڑنا ہوگا۔ لہذا گشتی دستے اور پہاڑوں کی چوکیاں بڑھا دی گئیں اور کچھ دنوں بعد اشتراکی گشتی دستوں سے کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن ابھی کوئی خطرناک صورت پیدا نہیں ہوئی تھی۔
١٥ مارچ ١٩٥٠ء کو ایک غیر متوقع شخص غزکل کے علاقے میں آیا۔ یہ ڈگلس میکیرنن تھا۔ امریکی نائب قونصل جو ارمچی سے ٹھیک اس دن پر اسرار طور پر غائب ہو گیا تھا جس دن ہشت راہ لشکر کا ہراول اس میں داخل ہوا یعنی ١١ ستمبر ١٩٤٩ء کو۔ ارمچی غزکل سے گھوڑے یا تیز رفتار اونٹ پر چودہ دن کے فاصلہ پر ہے۔ ان ہی پر میکیرنن اب سفر کر رہا تھا۔ لیکن وہ ساڑھے پانچ مہینے سے سفر کر رہا تھا۔ اس نے یہ درمیانی ساڑھے پانچ مہینے کہاں اور کیسے گزارے، یہ علی بیگ کو معلوم نہیں۔ یا شاید اسے معلوم ہو لیکن اس نے ہم سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا یہ اصول ہے کہ دوسروں کے معاملات کا وہ تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک امریکی جس کا نام فرینک بسّاک تھا میکیرنن کے ساتھ تھا۔ اس نے “لائف” میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انھوں نے جاڑا ایک پڑاؤ میں گزارا تھا لیکن اس نے تفصیلات بیان نہیں کی تھیں۔
میکیرنن علی بیگ کو جانتا تھا۔ اس نے کہا مجھے اپنے سامان کے لیے کچھ جانور خریدنے ہیں۔ اس نے رہنماؤں کے لیے بھی کہا جو اسے تبت کی سرحدوں تک پہنچا دیں۔ یہ سرحد کوئی دو سو میل جانب جنوب تھی، شاہین کی پرواز کے لحاظ سے۔ لیکن الطائن پہاڑوں کے راستے سے اس سے کہیں زیادہ دور تھی۔ علی بیگ نے جانور اور رہنما دونوں مہیا کر دینے کا وعدہ کر لیا اور اس کے بعد اس نے میکیرنن کو کیو کلوک کے اطراف کی لڑائیوں اور کوہِ تشنہ میں اپنے سفر کے حالات سنائے۔ اس نے قازقوں کے مستقبل پر بھی گفتگو کی۔ اس نے غالباً امریکیوں سے یہ بھی دریافت کیا کہ ہمالیہ کے اس پار سے کچھ مدد پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس نے باور کرایا کہ قازق اس لڑائی میں اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔
رخصت ہونے سے پہلے میکیرنن نے پانچ ڈالر کا ایک نوٹ پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے اور دونوں پر اپنے اپنے انگوٹھوں کا نشان لگا کر ایک ٹکڑا اس نے علی بیگ کو دے دیا اور ایک اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں امریکی اپنے ساتھ تازہ دم پندرہ اونٹ، ایک گھوڑا اور قازقوں کے مہیا کیے ہوئے دو رہنما لے کر روانہ ہو گئے۔ رہنما ایک ہفتے بعد واپس آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم امریکیوں کے ساتھ تین دن تک چلتے رہے اور چار دن ہمارے واپس آنے میں لگے کیونکہ واپسی میں ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی۔ ہم تبت کی سرحد آنے سے پہلے ہی واپس چل پڑے کیونکہ میکیرنن نے ہم سے کہا کہ اب ہمیں تمھاری ضرورت نہیں ہے۔
اگر ان کا بیان صحیح ہے تو میکیرنن کا یہ فیصلہ کہ وہ سرحد کے آنے سے پہلے ہی لوٹ جائیں ایک تباہ کار واقعہ تھا۔ علی بیگ نے ان دونوں رہنماؤں کو حکم دیا تھا کہ امریکنوں کو تبت میں اس راستے سے لے جائیں جس پر تبت کے سرحدی محافظ نہیں تھے۔ جس راستے سے امریکی گئے اس پر تبتی محافظین متعین تھے۔ بہت دنوں بعد علی بیگ کو معلوم ہوا کہ انھوں نے میکیرنن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ دلائی لامہ کے کوئی ایسے احکام انھیں نہیں پہنچے تھے کہ اسے آنے دیا جائے۔ فرینک بسّاک کو انھوں نے نہیں مارا۔
میں نے علی بیگ سے پوچھا کیا خیال ہے تمھارا؟ میکیرنن کی موت اتفاقی تھی یا اشتراکی سازشوں کا نتیجہ کہ سرحدی ناکے پر احکام نہیں پہنچے حالانکہ لاسہ کے سرکاری بیان کے مطابق جتنے بھی قرب و جوار کے ناکے تھے سب پر احکام پہنچ چکے تھے، مگر اسی ناکے پر نہیں پہنچے جہاں میکیرنن مارا گیا۔ علی بیگ تو اسی وقت بہت متعجب ہوا تھا جب قازق رہنما اپنا کام پورا کیے بغیر واپس آ گئے تھے۔ کیونکہ اس کے اور میکیرنن کے درمیان یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ رہنما امریکیوں کو سرحد پار کرائیں گے۔ اس لیے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میکیرنن اور بسّاک کے ساتھیوں میں کہیں اشتراکی تو شامل نہیں تھے جنھوں نے کوئی چال چل کر رہنماؤں کو پہلے ہی چلتا کرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود تبت میں اشتراکی پٹھو موجود تھے۔ لیکن اس وقت تک پورے تبت پر اشتراکیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن اشتراکی پٹھوؤں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ ایک سرحد پر دلائی لامہ کا وہ حکم نامہ نہ پہنچنے دیں جس میں میکیرنن کو تبت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر میکیرنن کے بارے میں چوکی پر کسی قسم کے احکام نہیں پہنچے تھے تو دو امریکنوں میں سے صرف ایک کے گولی ماری گئی۔ دونوں کو ہلاک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کی توضیح صرف یہ ہو سکتی ہے کہ سرحدی چوکی کو بساک کے آنے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اسے حکم مل چکا تھا کہ میکیرنن کو ہلاک کر دیا جائے کیونکہ اسے سنکیانگ کے معاملات کا ضرورت سے زیادہ علم تھا اور وہ خوب جانتا تھا کہ اس صوبے پر اشتراکیوں نے کس طرح قبضہ کیا ہے۔
رخصت ہونے سے پہلے میکیرنن نے علی بیگ سے اپنے پانچ ڈالر کے نوٹ کو حفاظت سے رکھنے کو کہا تھا اور تاکید کی تھی کہ یہ آدھا نوٹ دلی میں مقیم ایک امریکی افسر کو دکھائے، علی بیگ نے جو مدد میکیرنن کی کی تھی اس کا مناسب معاوضہ دلی کا ایک امریکی افسر پیش کر دے گا۔ لیکن جب علی بیگ نے سنا کہ میکیرنن مارا گیا تو اسے آدھا نوٹ پیش کرنے کی کوئی خواہش نہیں رہی اور اس نے میکیرنن کی یادگار بطور اسے اپنے پاس رہنے دیا۔ یہ آدھا نوٹ اس کے پاس اب بھی ہے، حالانکہ اس کے پاس اپنی پہلے کی چیزوں میں سے اب صرف ایک رسمی لباس ہی رہ گیا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ علی بیگ کو یہ آدھا نوٹ دلی میں پیش کرنا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اپریل ١٩٥٠ء میں علی بیگ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر بیرونی مدد نہ پہنچی تو قازقوں کو وسطی ایشیا سے لڑتے بھڑتے باہر نکل جانا تھا۔
اب ہمیں بارکل واپس چلنا چاہیے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں مئی ١٩٤٩ء میں کارا شہر جانے سے تاؤ کی مصالحتی فوجوں نے جب عثمان بطور کو روکا تھا تو وہ یہاں سے چلا آیا تھا۔ کیو کلوک کی لڑائی کو ختم کرنے تک اشتراکیوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک فوج روانہ کر دی کہ جا کر عثمان بطور کے پڑاؤ کا محاصرہ کر لے۔ اسی پڑاؤ میں یول بارز ترکی تھا جس کے ساتھ ترکی اور چینی تھے اور جانم خاں بھی تھا جس کے ساتھ اس کے قازق اور سفید روسی تھے۔ اشتراکیوں نے کرایہ کے قازقوں سے قازق زبان میں آزاد قازقوں سے کہلوایا کہ ہتھیار ڈال دیں۔ انھوں نے نام لے لے کر ایک ایک آدمی سے اپیل کی۔ جس طرح اساطیر الاولین میں رب شکیہ نے گھرے ہوئے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھیں ایک اور سرزمین میں لے جاؤں گا جو تمھاری ہی سرزمین کی طرح ہے۔ غلے اور شراب کی سرزمین، روٹی اور تاکستانوں کی سرزمین، زیتون کے تیل اور شہد کی سرزمین، تاکہ تم زندہ رہو اور مرنے نہ پاؤ۔ اسی طرح اشتراکیوں نے عثمان بطور، یول بارز اور جانم خاں کے ساتھیوں سے وعدہ کیا کہ مارکسی معاشی منصوبے کے تحت ان کے لیے مادی مفادات مہیا کیے جائیں گے اور انھیں وعدوں کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اشتراکیوں کی پیش کش کو قبول نہ کیا گیا تو کس کس اذیت کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں اور ان کے متعلقین کو ہلاک کیا جائے گا۔
عثمان بطور اور اس کے آدمی اشتراکیوں کے فوجی اور نفسیاتی حملوں کا مقابلہ نو مہینے تک کرتے رہے اور دن بہ دن دبتے دبتے ایک ذرا سی جگہ میں گھر کر رہ گئے۔ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہشت راہ لشکر نے مقامی حاشیہ برداروں کی مدد سے یول بارز پر حملہ کیا۔ وہ بارکل کے جنوب مغرب میں پہاڑی درے تاشی تُو کو روکے ہوئے تھا۔ یہ درہ ان دو راستوں کو ملاتا ہے جو شمالی سڑک اور جنوبی سڑک کہلاتے ہیں اور یہ سڑکیں مشرقی ترکستان کو چین سے ملاتی ہیں اور صحرائے گوبی میں گزرنے سے پہلے حامی میں مل جاتی ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس مشینی دستے تھے اس لیے انھوں نے ذرا سی دیر میں یول بارز کو وہاں سے اکھاڑ دیا۔ لیکن جب یہاں سے ہٹ کر یول بارز بارکل کے میدان میں عثمان بطور سے جا ملا تو ان دونوں نے مل کر اشتراکیوں کو تین مرتبہ پسپا کیا اور ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ اس ہزیمت پر اشتراکیوں نے تھکے ہوئے ہشت راہ لشکر کو وہاں سے ہٹا لیا اور روسیوں کی سرکردگی میں قازقوں کا لشکر آگے بڑھا دیا اور ان کی مدد روسی ہوائی جہازوں سے کی۔ روسی جہاز رانوں نے جتنے بھی قازقوں کے پڑاؤ انھیں نظر آئے سب پر بمباری کی۔
اس کے بعد اشتراکیوں نے بارکل کے علاقے سے نکاسی کے تمام راستے بند کر دیے اور مسلح محافظوں کے ساتھ “وضاحتی دستے” ان تمام قازق پڑاوؤں تک بھیجے جن تک پہنچنے میں عثمان بطور کے جنگجو حائل نہیں تھے۔ وضاحتی دستوں نے تمام بستیوں کے بے ضرر بسنے والوں کو مع ان کے بال بچوں اور جانوروں کے کیوچنگ کے اجتماعی کمپوں میں پہنچا دیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو ہر پڑاؤ نے وضاحتی دستوں کی مخالفت کی۔ جس نے بھی مخالفت کی اس کا صفایا کر دیا گیا اور دشمنوں پر اس فتح کو اشتراکی اخباروں میں محب وطن فوجوں کی شاندار کامیابی کا نام دے کر خوب اچھالا گیا۔
اس قسم کی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد اشتراکیوں نے عثمان بطور کے لڑنے والے دستوں کو ختم کرنے کے ارادے سے بارکل کے میدان پر ایک زبردست حملہ کیا۔ اس میں انھیں پھر ناکامی ہوئی اور انھوں نے سوویت حکومت سے تربیت یافتہ روسی فوجیں اور ٹینک اور بھاری توپیں منگائیں۔ اس پر بھی آزاد قازق دو مہینے تک جمے رہے۔ آخر میں ان میں سے بعض قازق صحرائے گوبی میں نکل گئے اور نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوا۔ لیکن باقی ماندہ قازق عثمان بطور کے ساتھ لگے رہے۔ عثمان بطور نے حیرت ناک طور پر اشتراکی گھیرے کو توڑ لیا اور اپنے آدمیوں جانم خاں اور یول بارز کے آدمیوں، ان کے بال بچوں اور خیموں اور ان کے ریوڑوں اور گلوں کو اپنے ساتھ لے کے پہلے پہاڑوں کو عبور کیا پھر پانسو میل کا کھلا علاقہ طے کیا اور کئی ایسے فصیل دار شہروں کے قریب سے گزرا جن میں اشتراکی فوجی دستے مقیم تھے۔ ان سب کو پار کر کے وہ خان امبل کے پہاڑوں میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ ستمبر ١٩٥٠ء کے اوائل میں پہنچ گئے تھے۔ ترکی میں جو قازق موجود تھے ان میں سے اس حیرت ناک فوجی مہم میں کوئی شریک نہیں تھا۔ اس لیے ایشیا کے اس حصے کے متعلق معلومات حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ عثمان بطور اپنے سارے ساتھیوں کو نکال لے گیا۔
خان امبل کے پہاڑوں میں ان کے پہنچ جانے سے کچھ ہی پہلے غزکل کے علاقے میں اشتراکی زیادہ سرگرمی دکھانے لگے اور کوہ صادم میں ایک بڑی خطرناک لڑائی ہوئی جس میں جانبین کے بہت آدمی مارے گئے۔ علی بیگ کا بھائی زین الحمید بھی اسی میں کام آیا لیکن اشتراکیوں کا نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ انھوں نے پانچ مہینے تک کوئی دوسرا حملہ نہیں کیا۔
جب یول بارز غزکل پہنچا تو اس نے کہا: “میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب ہمیں ترکستان چھوڑ کر چیانگ کائی شیک سے جا ملنا چاہیے جو فارموسا جا پہنچا ہے۔ اس صورت میں کہ پورے چین کے خاص علاقے اشتراکیوں کے قبضے میں جا چکے ہیں ہمارا شمال مغربی چین میں رہنا حماقت ہے۔ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ غزکل میں قازق لڑنے والوں کی مجموعی تعداد چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے”۔ علی بیگ اس کی رائے سے اتفاق کرنا چاہتا تھا لیکن عثمان بطور اور قازقوں کی اکثریت مشرقی ترکستان ہی میں ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتی تھی کیونکہ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ شمال مغربی چین کے دوسرے آباد حصوں سے اب ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ اشتراکی اب ہم سے نہیں الجھیں گے۔
علی بیگ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یول بارز چلے جانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ستر برس کا بڈھا تھا اس لیے اس کے چلے جانے سے کوئی خاص کمی نہیں واقع ہوتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یول بارز کے چینی ساتھی قازق طرزِ جنگ سے ناواقف ہیں اس لیے اگر وہ بھی اس کے ساتھ چلے جائیں گے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ سعالی نے بھی جس کے زیادہ آدمی سفید روسی تھے۔ یول بارز کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ مالدار قازق تاجر عادل، عبدالکریم مورخ اور امین طہٰ ملّا جو علی بیگ کو اطاعت قبول کرنے کے لیے مشورہ دینے گیا تھا اور پھر علی بیگ کے کہنے سننے سے خود بھی باغی ہو گیا تھا، ان سب نے بھی چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ ان تینوں کے ساتھ ان کے بال بچے ہی تھے۔ لڑنے والے آدمی نہیں تھے۔
عثمان بطور کی بارکل سے واپسی پر جب سب لوگ رخصت ہوئے تو علی بیگ نے انھیں خدا حافظ کہا اور جنرل اسیمو چیانگ کائی شیک کو یول بارز کے ہاتھ چٹھیاں بھیجیں اور جنرل آئزن ہاور کو بھی، جن میں اس نے لکھا: “اگر ہمیں کوئی مدد نہیں پہنچے گی تو ہم ایک سال تک اور یہیں اپنا بچاؤ کرتے رہیں گے۔ پھر بھی اگر مدد نہ ملی تو ہم لڑ کر یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ بنا لیں گے۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...