محلہ میں پہنچ کے مکان ڈھونڈھتے ہیں تو پتہ ہی نہیں۔ لوگوں سے پوچھا تو ایک عالی شان محل بتایا گیا۔ یقین کس کو یہ ہمارا جھوپڑا بگڑ کے محل ہو گیا۔ دروازہ پر ٹھہر گئے اور لوگوں پر خفا ہونے لگے کہ ہم سے دل لگی کرتے ہیں۔ اندر سے بیٹا نکل آیا اور سعادت مندی کے ساتھ قدم بوس ہوا، مگر شیخ صاحب نے غصہ میں مکان پوچھا۔ اس نے بیان کیا کہ آپ نے جو روپیہ بھیجا اُس کا مکان تیار ہوا۔ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ والدہ صاحبہ نے چند روز ہوئے انتقال کیا۔ اس کا صدمہ ایسا ہوا کہ شیخ کے حواس جاتے رہے۔ مکان کی تبدیل ہیئت کا اعتبار ہی نہ تھا کیونکہ خود تو روپیہ بھیجا نہ تھا۔ اس پر بیوی کا واقعہ سُن لیا، چُپ سُن ہو کے رہ گئے۔ اور بیٹے سے الگ ہٹ کھڑے ہوئے۔ اُس نے ہر چند سمجھایا، محلہ والوں نے لاکھ سر مارا مگر ایک نہ مانی اور بستی سے باہر ایک جھوپڑی اپنے اُسی روپیہ سے بنوا لی جو ساتھ تھا اور پاؤں توڑ کے بیٹھ رہے۔ سِن بھی اب زیادہ ہو گیا تھا اور دنیا کی بے اعتباریوں سے گھبرا گئے تھے، سب سے کنارہ ہی مناسب معلوم ہوا۔ بیوی کی وفات سے اور بھی دل سرد ہو گیا تھا اور ایسی ہم خیال اور غم خوار بیوی ملتی کہاں ہے۔ غرض کہ یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے ایسا بے نظیر شخص دنیا کو فائدہ پہنچانے سے ہاتھ کھینچ کے بیٹھ گیا۔
سات برس تک مسلسل اُسی جگہ گذار دی اور ۹؍رجب ۱۰۱۲ھ کو اکسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور حسب وصیت اُسی جھوپڑی میں دفن کیے گئے۔ یزار و یتبرک ؏
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...