داستان اور ناول کے مابین ایک اہم فرق یہ ہوتا ہے کہ داستان کی کہانی میں مافوق الفطرت کردار (Supernatural Characters) جگہ جگہ نظرآتے ہیں جبکہ ناول میں حقیقی زندگی کی فنی عکاسی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔جیسا کہ مذکورہ قول میں ناول کو زندگی کی کتابی صورت قرار دیا گیا ہے۔ناول میں کس طرح زندگی کو پیش کیا جاتا ہے اور پھر اس میں پیش کئی گئی زندگی کے فنی و تخلیقی اسالیب کیا ہوتے ہیں اور ان کی تفہیم کس طرح کی جاسکتی ہے‘اس کے لئے فکشن یا ناول کی شعریات کا سمجھنا لازمی ہوتاہے۔تو…ناول کی شعریات کے مباحث کو سمجھنے کے لئے معروف ناقد پروفیسر علی احمد فاطمی کی کتاب ’’ناول کی شعریات‘‘ کا مطالعہ فیض بخش نظرآتا ہے‘جوکہ درجہ ذیل مقالات پر مشتمل ہے۔:
ناول کی شعریات…چندمباحث‘ ناول کے سماجی محرکات‘ ناول کے سماجی اور تہذیبی سروکار‘ معاصر اردو ناول کے دلت سروکار‘ معاصر اردوناول چند اشارے…چند حقائق‘ نئی خواتین کے نئے ناول…چند مباحث‘ ایک قاری کا مطالعہ‘ ناول اور عوام…تبصرہ وتجزیہ‘ انیسویں صدی کے ناولوں میں طنز و مزاج کی صورتیں‘ انیسویں صدی کے مسائل اور تاریخی ناول‘ تاریخی ناول…فن اور اصول کے آئینے میں۔
کسی بھی معیاری ناول کاپڑھنا‘پڑھ کر سمجھنا اور سمجھ کر اس پر لکھناکوئی آسان کام نہیں ہوتاہے کیونکہ ناول کا تخلیقی و فنی اور موضوعاتی کینوس کسی شعر یا غزل‘نظم یا افسانے سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔صرف ناول یا افسانے کی کہانی یا موضوع کو دہرانا تنقید نہیں کہلاتا ہے۔اس لئے ناول کو زیر بحث لانے کے دوران ناول کی شعریات کا اطلاق اہم ہوتا ہے۔جس میں ناول کے فنی‘تکنیکی و موضوعاتی اور تخیلی و تصوراتی وغیرہ سبھی مباحث آتے ہیں۔مضمون’’ناول کی شعریات‘‘ میں اردو ناول کے تنقیدی منظرنامے‘فنی و تکنیکی مباحث اور موضوعاتی پیش کش کے تعلق سے عمدہ بحث کا آغاز نظر آتا ہے۔ اردو میں فکشن تنقید کے ضمن میں کہا گیا ہے:’’اردو فکشن کی تنقید میں یہ کمیاں اور غلطیاں رہی ہیں کہ ہم نے اکثر شاعری کی شعریات کے پیمانے سے فکشن کی تنقید کی اورغلط نتیجے نکالتے رہے۔شعریات کا فرق تو غزل اور نظم کے درمیان ہے‘نہ کہ فکشن جو شاعری کے مذاق و مزاج سے بہت مختلف رہا ہے اور آج تو اور بھی مختلف ہے۔آج تو ناول کی صنف ہی ناولوں کی الگ الگ فضا اور پیش کش ہے‘اس سے بھی شعریات کے پیمانے الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ جس طرح اردو کی مزاحمتی واحتجاجی شاعری کو عشقیہ شاعری کے پیمانوں سے نہیں پرکھا جاسکتا‘اسی طرح رومانی ناول کے پیمانے پر خالص سماجی ناول کو نہیں پرکھا جاسکتا۔‘‘ (ص: ۱۳)
ویسے پچھلے چند برسوں (چونکہ یہ مضمون قریباََ ایک دہائی پرانا ہے۔) میں ناول کے تعلق سے پاک و ہند سے کئی ایسی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں اردو ناول کوبڑی سنجیدگی سے تنقید ی نقطہ نگاہ سے موضوع بنایا گیا ہے۔ان میں ’’فکشن کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘‘(ڈاکٹر فرخ ندیم)‘’’جدید لسانیاتی اور اسلوبیاتی تصورات۔۔۔قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری پر صوتی‘ صرفی‘ نحوی‘معنیاتی اطلاق‘‘(ڈاکٹر عامر سہیل)‘’’نیا ناول نیاتناظر‘‘(مرتب:پروفیسر کوثرمظہر…ڈاکٹر امتیاز علیمی)‘’’تنقید اور بیانیہ‘‘(ڈاکٹر صلاح الدین درویش)وغیرہ کتابیں شامل ہیں۔
ایک معیاری ناول سماجی منظر نامے کا فنی اظہار ہوتا ہے اورجو ناول کسی سماج کی آئینہ داری کرتا ہے وہ اپنا نقش مستحکم کرتا ہے۔امراؤ جان ادا‘ گؤ داں‘ اداس نسلیں یا آخری کلام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان کی مقامیت‘ان کی دائمی شہرت کا باعث بنی۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جو کچھ دیکھے وہی تخلیق میں پیش کرے بلکہ بقول مصنف:’’فن اور تخلیق کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ جو ہورہا ہے وہ سب جیوں کا تیوں دکھایا جائے بلکہ اس دکھائے جانے کے منظر میں جو لامنظر ہوتے ہیں جو تصور وتخیل ہوتا ہے وہ ایک نئی حقیقت کی طرف نشاندہی کرتا چلتا ہے کہ تخلیق صرف جامد تصویر کشی کا نام نہیں بلکہ تخیل کے ذریعہ اس مقام تک پہنچنے کا عمل ہے جہاں تک عام قاری کی نظریا ذہن نہیں جا تا۔‘‘(مضمون: ناول کے سماجی اور تہذیبی سروکار۔ص: ۴۲۔۴۳)
اس مضمون میں ناول اور سماجی و تہذیبی سروکار پرمعروضی انداز کی مفصل گفتگو ہوئی ہے اور ناول کے سماجی و معاشی رشتوں کے مابین ارتباط سے متعلق کہا گیا ہے: ’’ناول محض قصہ نہیں‘اسلوب محض نہیں بلکہ عہد‘تہذیب عہد‘ مسائل حیات اور عرفان حیات کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ناول محض واقعہ نگاری‘ نہیں سماجی اور معاشی رشتوں کی تبدیلی کی داستان بھی اور فکروشعور کا سفر بھی ہے۔‘‘(مضمون: ناول کے سماجی اور تہذیبی سروکار۔ص: ۳۹)
مضمون’’معاصر اردو ناول کے دلت سروکار‘‘دلچسپ مطالعہ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ اس میں اردوناولوں میں دلت موضوعات سے قبل دلت ڈسکورس کی سیاسی وسماجی اور مذہبی و اقتصادی وجوہات پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان ناولوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یا تو جزوی طور پر دلت مسائل پیش ہوئے یا کلی طور پر اسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔جیسے پروفیسر غضنفر علی کے ناول’’دویہ بانی‘‘ کے ضمن میں لکھاگیا ہے:
’’ناولوں کی اس بھیڑ میں غضنفر کا ناول’دویہ بانی‘ ہی ایک ایسا ناول ہے جس کا تعلق براہ راست دلت سے ہے۔‘‘ (مضمون:معاصر اردو ناول کے دلت سروکار۔ص: ۷۲)
گزشتہ کئی برسوں میں دلت ڈسکورس پر چند اور بھی ناول سامنے آئے ہیں‘ جن میں ’تخم خوں (صغیررحمانی)‘ نیلیما (ڈاکٹر شفق سوپوری)‘چمرا سر(شموئل احمد)نوحہ گر (نسترن احسن فتیحی)نجات دہندہ(رینو بہل) اور ’ہجورآما (شبیراحمد)شامل ہیں۔
مضمون ’’معاصر اردو ناول چند اشارے چند حقائق‘‘ میں خصوصی طور پر چار ناولوں ’’دل من‘‘(یعقوب یاور)‘’’دویہ بانی‘‘(پروفیسر غضنفر)‘’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘(پروفیسرکوثر مظہری)اور ’’مہا ساگر‘‘ (عبدالصمد)کا جائزہ لیا گیا ہے۔اسی طرح مضمون ’’نئی خواتین کے نئے ناول…چند مباحث‘‘ میں ڈاکٹر ترنم ریاض کے ناول’’برف آشنا پرندے‘‘ڈاکٹر ثروت خان کے ناول ’’اندھیر پگ‘‘ اور ڈاکٹرصادقہ نواب سحرکے ناول’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ کو بھی زیر مطالعہ رکھا گیا ہے۔ تینوں ناولوں کی خوبیوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
’’…یہ تینوں ناول زندگی کی شناخت اور سماج کی پہچان کے مختلف راستوں سے گذرتے ہیں۔ ان تینوں ناولوں کا ایک دلچسپ اور رنگارنگ پہلو یہ ہے کہ ان میں تین طرح کی زندگی‘ ماحول اور تہذیب نظرآتی ہے۔برف آشنا پرندے میں کشمیر کے مسلم خاندان کی عکاسی کی گئی ہے۔اندھیرا پگ میں راجستھان کے ہندو ٹھاکر خاندان کی روایتی اور سفاک زندگی سامنے آتی ہے۔متاشا میں اڑیسہ کے عیسائی خاندان کا ذکر ملتا ہے۔تو ایک طرف کشمیرراجستھان کا کچھ کلچر اس خوبصورت و معنی خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ بالائی سطح پر یہی پیش کش دونوں ناولوں کی کشش اور پہلی قر?ت کے سامان مہیا کرتا ہے۔‘ ‘
(مضمون’’نئی خواتین کے نئے ناول‘‘ ص: ۱۱۹)
پیش نظر کتاب میں ایک مضمون بعنوان’’ناول اور عوام … تبصرہ و تجزیہ‘‘ بھی ہے۔ جو کہ رال فاکس کی مشہور تنقیدی کتاب ”The Novel And The People ‘’کے ترجمے’’ناول اور عوام‘‘(مترجم: ڈاکٹرسیدمحمود کاظمی)کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب خصوصی طور پر ناول کے فن اور موضوعات پر عمدہ مکالمہ باندھتی ہے۔اور مضمون میں ترجمے اور ناول سے متعلق مفید اظہار خیال کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر پیش نظر کتاب’’ناول کی شعریات‘‘ فکری و موضوعاتی مباحثہ کی سطح ہر معلومات افزاء مطالعہ کی عکاسی کرتی ہے۔کیونکہ اس میں ناول کے فنی و فکری سروکار اور موضوعاتی پیش کش پر گفتگو کرنے کے دوران فنِ ناول نگاری سے متعلق مغربی ناقدین و مفکرین اور اردو کے ناقدین کے خیالات بھی پیش ہوئے ہیں اور اردو کے کئی ناولوں کا مفصل جائزہ بھی لیاگیا ہے جو کہ اردو ناول کی عصری صورتحال کا فنی و موضوعاتی منظرنامہ سامنے لانے میں بڑا کارآمد نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...