نور ظہیر کے افسانوں کے مجموعہ”ریت پر خون“کی ان پیج فائل ،جو مجھے نور نے بھیجی تھی،میرے پاس ہے۔اس مجموعہ میں بیس افسانے شامل ہیں۔میں نے ان افسانوں کو نور ظہیر کے فکری پس منظر کو ذہن میں رکھ کر پڑھنا شروع کیا۔جن باتوں کا مجھے اندازہ تھا کہ انہیں کسی نہ کسی رنگ میں بیان کیا جائے گا،وہ باتیں بھی ان کے افسانوں میں ملیں،لیکن اس کے باوجود نور ظہیر کے افسانے روایتی ترقی پسندوں کی بلند بانگ نعرہ زنی سے کافی الگ نکلے۔سطحی نوعیت کے ترقی پسندوں کے بر عکس ان کے افسانوں میں وہ سوجھ بوجھ زیادہ دکھائی دی جو ان کے والدِ گرامی سجاد ظہیر کے افکار و خیالات میں موجود رہی ہے۔پھر بات صرف والد گرامی کے نقشِ قدم پر چلنے کی نہیں رہی،ابتدائی رہنمائی کے بعدنور ظہیر نے آزادانہ ادبی سفر شروع کیا اور اس سلسلہ میں اپنے رستے خود منتخب کیے ہیں۔ترقی پسندی کے نام پر انہوں نے صرف مادی ضروریات تک خود کو محدود رکھنے کی بجائے روح کے معاملات اور ما بعد الطبیعات کی دنیا کو بھی جھانک کر دیکھا ہے اور اس تاکا جھانکی میں ہی بڑے کام کے افسانے نکال لائی ہیں۔
نور ظہیر کے ان بیس افسانوں کو پڑھتے ہوئے میں نے جیسا محسوس کیا،جی چاہا کہ اپنے قارئین کو بھی اس میں شریک کروں۔تو آئیے ان بیس افسانوں کو ایک نظرمل کر دیکھ لیں۔
پہلا افسانہ”ایک قبر کی فریاد“ہی ایسا چونکانے والا افسانہ تھا کہ جو بڑا گڑھ کے قبرستان سے مغلیہ دور میں لے گیا۔ایک خانقاہی ماحول سے گزارتے ہوئے محبت اور شوخیوں کی ایک داستان جوایک المیہ پر ختم ہوئی۔ کہانی مکمل ہوئی تویوں لگا جیسے بندہ عالمِ ارواح کی سیر کرکے لوٹا ہو۔اس افسانے کے دو مختصر اقتباس دیکھیں۔
٭” اگر نجات کا راستہ، گناہ سے ہوکر گزرتا ہے تو اے بندے، تو سوال کرنے والا کون ہوتا ہے۔ میرا نام لے اور منزل کی طرف بڑھ۔“
٭”مزار پر پہنچے تو زرینہ نے نظر بھر ٹھہرے ہوئے آسمان کو دیکھا۔ میں نے سوچا شاید وہ دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن اس نے خاموشی سے اپنی جوتیاں اتاریں اور مجھے تھمائیں۔“
افسانہ”گھر کا پتہ“میںیو پی کے دیہاتی ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے دیہاتی اپنائیت اور بڑے شہروں کی بیگانگیت کو ہلکا سا اجاگر کیا گیا ہے۔یوپی کی دیہاتی بولی کو نور ظہیر نے عمدگی سے اردو کا حصہ بنا دیا ہے۔
٭” ہمرے اُدھر تو کڑوا تیل کہتے ہیں، ہیاں جانے سروں کا تیل کا، مونگ پھلی کا، پھلانے کا، ڈھماکے کا۔ ارے آدمی اور تیل دو ہی ہوت ہیں۔ کڑوا اور میٹھا۔“
”سب سے بڑا گناہ“قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزایافتہ عورتوں میں سے ایک عورت کی کہانی ہے۔سرکاری طور پراعتراف گناہ کی صورت تھراپی کی گئی۔اس میں فرزانہ کی داستان زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔یہ صرف کسی ایک فرزانہ کی کہانی نہیں بلکہ حقیقتاََ ہندوستان میں عام مسلمان خواتین کی گھریلو حالتِ زار اور مظلومیت کی ہولناک داستان ہے۔ایک عورت جو برقعہ اورگھر کی چار دیواری میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی وہ گھر کی چار دیواری میں ہی برباد کر دی گئی۔ اس کا سسر اس کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کرتا ہے۔مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اس کا سسر اب اس کا شوہر ہو گیا ہے اور اس کا خاوند اب اس کا بیٹا ہے ۔اس افسانے کے چند اقتباس سے اس کے اندر موجود تلخ سچائی کی جھلکیاں بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔
٭” برقعہ پہنے بغیر آنگن کے باہر جھانک بھی لیتی تو ایسا لگتا جیسے ننگی باہر آگئی۔ یہ ڈر بھی دل میں بیٹھ گیا کہ اگر کہیں برقعے کے بنا نکلی تو نہ جانے کیا ہوجائے۔“
٭”امام صاحب نے میری بات تو کم سنی، ہاں اپنے سوال بہت پوچھے — پیچھے سے پکڑا تھا؟ کہاں سے، کمر سے یا چھاتی سے؟ چھاتیاں پکڑی تھیں یا مسلی تھیں؟ چوما تھا، کہاں کہاں؟ کپڑے کون سے پھاڑے؟ قمیض یا سلوار، پہلے اوپر والا یا نیچے والا، سلوار کے نیچے کچھ پہنے تھی یا نہیں؟ کچھا پہنے تھیں کیسی، گھٹنوں تک والی یا تکونی والی؟۔
اس کے بعد انھوں نے مجھے گھر جانے کو کہا اور محمود اور میرے سسر کو بلایا۔ تینوں میں کیا بات ہوئی وہ تو پتہ نہیں مگر اگلے دن میرے نام پر فتویٰ جاری ہوگیا۔ مجھے سسر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا اور اپنے شوہر کو بیٹا ماننا ہوگا۔“
٭ ”آپ میری بات بالکل نہیں سمجھیں۔ میں نے یقین کیا کہ گھر میں عورت محفوظ ہوتی ہے، یقین کیا کہ جو عورت برقعہ پہنتی ہے اسے سب عزت کی نظروں سے دیکھتے ہیں، زمانہ اس کا ساتھ دیتا ہے، خود اس کا نگہبان ہوتا ہے۔ اس جھوٹ پر بغیر سوچے سمجھے، بنا جانچے پرکھے یقین کیا، یہی میرا سب سے بڑا گناہ ہے۔“
”ایک بے وقوف عورت“ایک پڑھی لکھی خاتون تہمینہ کی کہانی ہے ۔۔جومائکرو بائیولوجی میں صرف پی ایچ ڈی نہیں، ڈی ایس سی لندن ہیں۔لیکن اپنے سے کم تعلیم یافتہ شوہرکی دل جوئی کی خاطر ہمیشہ شوہر کی تعریف کرتی رہتی ہیں۔کہانی کار رئیسہ نے تہمینہ کی داستان کو ایک ملاقات کے ذریعے عمدگی سے بیان کیا ہے۔
”ریت پر خون“ اس مجموعہ کا مرکزی افسانہ ہے۔مجموعہ کا نام اس افسانے کے نام پر رکھا گیا ہے۔اس کہانی میں ایک طرف آدی واسیوں کی تحریک کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے ہندوستانی پولیس کے کردار کا منفی رُخ نمایاں کیا گیا ہے،دوسری طرف ایک ایسے راجستھانی کی کہانی بیان کی گئی ہے،جس کی زمین گاؤں میں نہر جاری کرنے کے لیے لے لی گئی۔بدلے میں جو زمین دی گئی،اس کے لیے نہر کا پانی دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔احتجاج کرنے پر راجستھانی کسان کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔اوپر سے پنڈت نے کہہ دیا کہ اس مرنے والے کی مکتی چاہتے ہو تو گیا میں پنڈ دان کراؤ۔بیٹا باپ کی مکتی کی خاطر گیا کا سفر کرتا ہے اور رستے میں آدیواسیوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور اب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ پولیس والوں کو مارنے سے ہی اس کے باپ کی مکتی ہو گی۔پانی کی نہر کو کربلا کی نہرسے جوڑ کر نور ظہیر نے کہانی کو ایک علامتی پیرایہ دے دیا ہے۔
”شروعات“ ہندوستان میں طبقاتی اونچ نیچ کی کہانی جو اکیسویں صدی میں بھی ختم نہیں ہوئی۔اچھوتوں کو جانور سے بھی کم تر سمجھنے کا رویہ ابھی تک موجود ہے ۔
٭”پردھان جی، جانور اور شیڈیول کاسٹ برابر ہیں؟“
”نہیں۔“ وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے — ”جانوروں میں کئی ان سے اونچے ہیں۔ گائے اور اس کی بچھیا اوپر آسکتے ہیں۔“
اور آخر میں کہانی کامرکزی کردار ساحرا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ:
٭”جہاں پر ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو انسان ماننے سے ہی انکار کردے، انھیں جانوروں سے بھی نیچا سمجھے، ایسی جگہ میں انسان کو انسان کا درجہ دلانے کے لیے کون سی قدروں کا سہارا لیا جائے؟ لڑائی کی شروعات کہاں سے، کتنے نیچے سے کی جائے؟“
”خود کی پہچان“ گھر کا کام کرنے میں بیوی کا ہاتھ نہ بٹانے والے ایک شوہر کے ظلم و ستم کی کہانی ہے جس میں سماج پوری طرح شامل ہوتا ہے۔ ایک ایسی خاتون کی داستان جو ایک کہانی پڑھ کر اس کے مطابق عمل کرکے اپنے گھریلو مسائل کا حل نکالنے چلی تھی ۔جب نتیجہ کہانی کے برعکس ظاہر ہوا تواسے آخر میں یہ کہنا پڑا۔
٭”جب یہ مرد خود کو پہچانتے نہیں تو کہانی کیوں لکھتے ہیں؟“۔۔۔۔
ایک سماجی المیہ اپنی نفسی واردات کے ساتھ اس کہانی میں سامنے آتا ہے۔
٭”وہ سب کچھ سہہ کر اپنے من کے کیلنڈر میں ایک اور دن پر کراس لگا دیتی۔ “
٭”اس نے روزمیری کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھا اور اس کی راستہ ٹٹولنے والی چھڑی سیدھی کرکے دوسرے ہاتھ میں دی، پھر دھیرے دھیرے ہاسٹل کی طرف بڑھنے لگی۔ اسے اپنی راہ چاہے نہ ملی ہو، وہ دوسروں کو راہ ڈھونڈنے میں مدد تو کرہی سکتی تھی۔“
”پریم چند مرتے کیوں نہیں؟“اردو،ہندی افسانہ نگار پریم چندکے حوالے سے شروع ہونے والی کہانی ہے۔گٹر کی صفائی کرنے والا ایک لڑکا جو اپنے ساتھی کے لیے پانی کی بوتل بھرنے کے لیے نکلا ۔پانی مانگنے والا ایک غریب لڑکا اور بڑے شہروں کے امیرگھروں کے رویے۔۔۔نارائنی کے روپ میں نورظہیر نے ایک اداس کرنے والی کہانی لکھی ہے۔اختتام تک لگتا ہے کہ پریم چند کے زمانے سے اب تک کچھ نہیں بدلا،جیسے سارے سماجی فرق اور ظلم ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
”اڑان“بچوںکی پرورش ،انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھانے سے لے کر ان کی خوداعتمادی تک کے دور کی کہانی ہے۔ بچے جو ماں باپ سے سیکھتے ہیں،ایک دن انگلی پکڑے بغیر چلنا سیکھ لیتے ہیں۔۔۔ایسے ہی جذبوں کی متضاد کیفیات کی حامل ایک ماں بیٹی کی کہانی۔
٭ ”یہیں تک کی ڈور تھی۔ اب تتلی کو اپنی اڑان اڑنی ہے۔“
”اور تم! تمہارا کیا ہوگا؟“ دل نے پوچھا۔
”میں یہ سوچ کر خوش ہو لوں گی کہ آج اُڑان اس کی اپنی سہی، اڑنا تو میں نے ہی اسے سکھایا ہے!“
”سوبھاوِک تھا“بائیں بازو کے ایک فراڈ دانشور کی کہانی ہے۔وہ سرے سے دانشور تھا ہی نہیں۔۔جو دوسروں کے اگلے ہوئے جملوں پر اپنی دانش کی بنیاد رکھے ہوئے تھااور بالآخر ایک دن سب پر ظاہر ہو گیاکہ وہ صرف اور صرف ایک فراڈ ہے۔
٭”ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایسے لوگ بڑے اسکالر نہیں ہوتے، بڑے اسکالر ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔ اس ناٹک کو وہ کامیابی سے کھیل پاتے ہیں، یہی ان کی قابلیت ہے اور ہم لوگوں کا نکاراپن۔ دوش صرف آپ کا نہیں، ہم سب کا ہے کہ ہم ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔“
”بے نام“ایک پارسی خاندان کی قائم کردہ لائبریری کو نئے سرے سے مستحکم کرنے والی ایک خاتون کی کہانی جسے ایک اور خاتون مفید مشورے دے کر لائبریری کے استحکام کا موجب بنتی ہے لیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ وہ مدد کرنے والی خاتون تو ایک روح تھی۔محبت کے دکھ اٹھا کر مرجانے والی خاتون۔”ایک قبر کی فریاد “کی طرح یہ کہانی بھی محبت کرنے والی ایک روح کی کہانی ہے۔
”دفن“دو ہندو دوست لڑکیوں کی کہانی ہے۔ہوری ایم ایس سی زواو جی کرکے بے روزگار تھی۔اسے مسلم گرلس جونیئر کالج میں جاب ملتی ہے تو ساتھ شرط لگا دی جاتی ہے کہ طالبات اور ٹیچرز کے لیے ڈریس کوڈ کی پابندی لازم ہے۔اور برقعہ ڈریس کوڈ میں شامل ہوتا ہے۔ہندو ہوتے ہوئے جاب کی خاطر ہوری کو برقعہ خریدنا پڑگیا۔
٭ ”وہ ہمیشہ کہتی — ”عورت کو عورت ہونے پر ہی اگر شرم آنے لگے تو بھلا اور کیا بات کی جائے۔ تب تو وہ مردوں کے سماج کو ظلم کرنے کی چھوٹ دے رہی ہے۔“
ہوری سے اس کی دوستی کی کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی شاید یہی تھی کہ نہ وہ، نہ ہی اس کی ماں اور بھابھیاں پردہ کرتی تھیں۔“
٭ایک بار دامنی نے کہا تھا، ”کیسا لگتا ہوگا اپنے چاروں طرف اندھیرا لپیٹے ہوئے چلنا۔ جیسے اپنی قبر ساتھ لیے چل رہے ہوں۔ بِل لے کر ہوری نے دکاندار کو پیسے پکڑائے۔ پیکٹ لیتے ہوئے اسے لگا جیسے اپنے کسی بہت قریبی کے لیے کفن خریدا ہو۔
’ ’پردہ فاش“پکی عمر میں جا کرٹین ایج کی محبت کے ذکرسے بھری ہوئی کہانی ہے۔۔سگندھا اور جیا کی دوستی میں سب کچھ ایک دوسرے پر ظاہر تھا بس ٹین ایج کی پہلی محبت پر پردہ پڑا ہو اتھا۔مدت کے بعدملنے پر سگندھا اپنی پہلی محبت جیو کا ذکر کرتی ہے تو جیا اس کے بارے میں اَن جان بن جاتی ہے۔یاد دلانے پر بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔لیکن آخر میں پردہ فاش ہوتا ہے کہ جیا کو جیو سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنے خاوند کو پیار سے پکارنے کے لیے جیو نام دے رکھا ہے۔
٭”جب صحافت چھوڑی اور ادب کی ڈگر پکڑی تب یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ صرف دوسرے کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے سے کام نہیں بنتا ہے۔ اپنے سچ کا سامنا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے“
”اکیچ بات ہے“محنت کرکے کمانے والی لورا کی دکھ بھری کہانی ہے۔لورا کا پہلا شوہر جوزف بھی نشہ کرتا تھا اور نشہ بازوں والی ہر قسم کی خرابی اس میں تھی،اس کی موت کے بعد لورایک اچھے انسان ایڈورڈ سے شادی کرتی ہے ۔لیکن جو بندہ شادی سے پہلے اچھا خاصا بھلا مانس تھا،وہ بھی جوزف جیسا ہی ہو گیا۔
”پرگتی“آدی واسیوں کے مسائل کو ہلکے سے اشارے سے واضح کرتی ہوئی کہانی ہے۔اس میں استحصالی طبقوں کا طریقِ استحصال بھی کسی حد تک سامنے آتا ہے۔
”ان کا کیا مقابلہ“پختہ عمر کی ایک لیڈی دیپیکا کی پکی عمر کی ایک لنگورنی کے ساتھ ہونے والی دوستی کی انوکھی کہانی ہے۔اس افسانے میں بڑی عمر کی عورت اوربڑی عمر کی لنگورنی دونوں کی نفسیات کو بڑے ہی انوکھے انداز سے اجاگر کیا گیا ہے بلکہ ان میں انوکھی ہم آہنگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔ہندوستانی معاشرہ جہاں عام طور پر بیٹی ہونے والی ہو تو حمل ضائع کرادیا جاتا ہے اور لنگوروں کا رواج کہ اگر لنگور پیدا ہو تواس کا باپ اسے مار ڈالتا ہے۔انسان ہوں یا لنگور دونوں جگہ موت کا فیصلہ کرنے کا حق مردکو ہی حاصل ہے۔یہ مختلف کیفیات سے گزرتی ہوئی آخر میں اداس کر دینے والی کہانی ہے۔
”ڈھکا چہرہ“علی گڑھ یونیورسٹی کے ماحول سے جنم لینے والی کہانی ہے۔،نوجوان لڑکے طالب علمی کے دور میں یونیورسٹی کی برقعہ پوش طالبات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔طالب علمی کے اسی ماحول میں ایک نوجوان کسی طالبہ کا بوسہ لینے کی شرط لگا کر مہم پر نکلتا ہے۔اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم اس کی بہن اپنی دوسہیلیوں کے ساتھ جا رہی ہوتی ہے،وہ درختوں کے جھنڈ میں بہن کا برقعہ پہچان کر ایک سہیلی کو دبوچ لیتا ہے،لیکن وہی لڑکی اس کی بہن نکلتی ہے۔جو بعد میں خود کشی کر لیتی ہے۔تب سے وہ بندہ برقعہ کے خلاف ہو جاتا ہے۔یہ اپنے ڈھب کی الگ سی کہانی ہے۔
”ٹرانجٹ کی زندگی“ایک ایسی لیڈی کی کہانی ہے جو مسلمان ہو کر ہندو آبادی والے علاقہ میں رہنا چاہتی ہے۔جس نے مذہبی امتیاز کے بغیر کشمیری پنڈتوں کے حق میں بھی بہت کچھ لکھا ہے،لیکن اکثریتی آبادی میں اسے نفرت انگیز ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی ہندو سہیلی بھی ایک حد سے زیادہ اس کا ساتھ نہ دے سکی۔بنیاد ی طور پریہ ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کی حالتِ زار کی کہانی ہے لیکن در حقیقت ہر مذہبی اکثریت کے نفرت انگیز رویوں کی کہانی ہے۔
”کڑوی مصری“ایک تنگ نظر مسلمان گھرانے کی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔نیلوفر کو اپنے خاندانی ماحول میں سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا،شادی کے بعد اس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے رستے نکالے،کامیابی حاصل کی،ایک مصنفہ بن گئی۔لیکن ایک خاص قیمت ادا کرکے اسے یہ کامیابیاں مل سکیں۔ادبی دنیا کی بعض تلخ سچائیاں اس کہانی میں ظاہر ہوتی ہیں۔
٭ ”نو دن بعد اس کا نکاح کردیا گیا تھا۔ یہاں، جہاں عورتوں کو قرآن شریف اور دوسری مذہبی کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں، جہاں مرد اور عورتیں، الگ الگ کمروں میں، الگ الگ دسترخوانوں پر بیٹھتے اور کھاتے تھے۔ جہاں عورتوں کو ہنسنا، بات کرنا بھی گلا دباکر کرنا پڑتا تھا، کیونکہ اس گھر میں آواز کا بھی پردہ تھا۔ “
لیکن نیلوفر نے ایک دن سارے پردے چاک کر دئیے۔
”زخم“ہندوستان کے اندرکی ایک ایسی کہانی ہے جو ہمارے لیے تصویر کا دوسرا رُخ بھی کہی جا سکتی ہے۔بھارتی کشمیر میں ہندوؤں کواپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا،دربدرہونا پڑا۔ایسے ہی ایک خاندان سے دہلی میں مسلمان خاتون کی ملاقات ہوتی ہے۔یہ خاتون ہندو خاندان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھاگ دوڑ کرتی ہے۔اس کہانی میں دہشت گردی کے خلاف کسی سیاسی حوالے کے بغیر ایک انسانی مسئلہ کوپیش کیا ہے۔اور اسے اپنے سینے کے زخم کی علامت کے ساتھ عمدگی سے بیان کیا ہے۔
یہ نور ظہیر کی بیس کہانیوں کی ہلکی سی جھلک تھی۔ان کہانیوں میں نور ظہیر کہیں دیہاتوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے توکہیں آدی واسیوں کو اوپر اُٹھانے کے لیے،کہیں نکسلیوں پر ہونے والے مظالم دکھانے کے لیے اور کہیںکسی اور رنگ میں تعلیم کو عام کرنے کی لگن لیے ادھر سے اُدھر پھر رہی ہیں۔ٹیچر کے کردار کے علاوہ سماج کی اصلاح کا پہلو بھی ان کے مدِ نظر ہے۔یہاں خاص طور پر عورت کے مسائل کی طرف انہوں نے توجہ کی ہے۔پردہ سے لے کر شادی اور طلاق کے مسائل تک مروج طریقِ کار کو انہوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور جس تناظر میں انہوں ان معاملات کو اُٹھایا ہے اس میں بڑی حد تک وہ حق بجانب ہیں۔اکثریت اور اقلیت کے مسائل کا انہیں نہ صرف ادراک ہے بلکہ وہ خود ان مسائل کا سامنا کر رہی ہیں لیکن وہ مایوس نہیں ہیں۔انہیں یقین ہے کہ اچھے اور برے لوگ ہر طبقے میں ہوتے ہیں اور وہ اچھائی کے برائی پر غالب آجانے کا خواب دیکھ بھی رہی ہیں،اور اپنے قارئین کو یہ خواب دکھابھی رہی ہیں۔ اور اس نتیجہ،اس تعبیر کے حصول کے لیے اپنا کردار بھی بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ایک ٹیچر کے روپ میں،ایک صحافی کے رنگ میں ،ایک ادیبہ کے کردار میں،ایک سوشل ورکرکے طور پر،وہ اپنی جس کہانی میں بھی جلوہ گر ہوتی ہیں ،مزید اچھے کے لیے جدو جہد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
مجھے ”ریت پر خون“کے افسانے پڑھ کر دلی خوشی ہوئی اور میں خوشی کی اسی کیفیت کے ساتھ نور ظہیر کے اس مجموعے کا استقبال کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔