پوری کلاس میں یکدم خاموشی چھا گٸ۔ سب کی نظریں آنے والے پے تھیں۔
دعا کی نظریں بھی اسطرف ایسی اٹھیں کہ پلک جھپکنا بھول گٸ۔
اسے یقین نہ آیا کہ پروفیسر شاہ اور کوٸی نہیں۔۔ اسکا اپنا ہسبینڈزیان شاہ ہے۔
ساری کلاس ایک ساتھ کھڑی ہوٸی۔
وہ چشمہ لگاٸے فاٸل ہاتھ میں تھامے بلیک تھری پیس میں ڈاٸس پے موجود تھا۔
ایک طاٸرانہ نظر سب پے ڈالی۔ جس میں اسکی بیوی دعا زیان شاہ بھی تھی۔ اور سلا م دعا کے بعد فوراً ہی دعا کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔
وہ جو ابھی تک گم صم بیٹھی تھی۔ اسے سمجھ ہی نہ آیا کیا کرے۔۔۔۔؟؟
اے۔۔ یو۔۔۔!!
Stand up….
سر نے تمہیں۔۔ کھڑے ہونے کا کہا۔۔۔
ساتھ بیٹھی لڑکی نے کہنی ماری اور دھیمے لہجے میں کہا۔ تو دعا اسے دیکھتی کھڑی ہوٸی۔
yes… tell me… whats ur name…?
زیان شاہ نے بہت سنجیدگی سے پوچھا۔
کیا یہ۔۔۔ کوٸی۔۔۔ مذاق ہے۔۔۔؟
دعا کے منہ سے نکلے الفاظ پےسب نے گردن موڑ کے اسے دیکھا۔
کیا۔۔۔۔؟؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟آپ سب۔۔۔؟؟
دعا نے سوالیہ انداز میں کلاس سے پوچھا اور اپنا رخ زیان شاہ کی طرف موڑا۔
آپ میرا۔۔۔ نام نہیں۔۔۔ جانتے۔۔۔؟؟ تیکھے تیور سے پوچھا۔
miss who ever you are…!! sit down…
زیان نے دانت پیستے غصے سے کہا۔
غصہ کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔ سسسسررررر!!
دعا نے بھی اسی انداز میں بولا۔
پورا نام جاننا چاہیں گے۔۔۔؟؟ یا۔۔۔ سر نیم کے بنا ہی بتا دوں۔۔۔؟؟ دھمکی دینے والے انداز میں پوچھا۔
پوری کلاس انکی نوک جھوک انجواۓ کر رہی تھی۔
Sit down… !!
زیان کے ماتھے پے تیوری پڑی اور غصہ ضبط کرتے بولا۔
دعا منہ بناتی چپ کرکے بیٹھ گٸ۔
زیان اپنا لیکچر شروع کرچکا تھا۔
جبکہ دعا کی نظریں زیان کے اوپر سے ایک منٹ کے لیے نہ ہٹیں۔ زیان کو ایک لمحے کو گمان ہوا۔ اس نے پلک بھی نہیں جھپکی۔
اپنا لیکچر finsih کرتے وہ اللہ حافظ کہتا کلاس سے باہر نکلا۔
سب نے سکون کا سانس لیا۔
اففففف۔ شکر۔۔۔ ان کا پریڈ ختم ہوا۔
ساتھ بیٹھی لڑکی نے کہا۔ اور پھر خاموش بیٹھی دعا کا۔سر سے پاٶں تک جاٸزہ لیا۔
لیکن۔۔۔ کمال ہی کر دیا یار۔۔ آج ۔تم۔۔ نے۔۔۔!! کیا سنا دی سر۔۔۔کو۔۔۔!!
اس نے داد دی۔
دعا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔
ویسے یار۔۔۔ کیا ہی اٹیٹیوڈ ہے تمہارا بھی۔۔۔ جواب نہیں۔۔۔
وہ پھر سے تعریف کرتے بولی۔
یہ کمپلیمنٹ تھا یا طنز۔۔۔؟؟
دعا نے گردن موڑ کے اس کی طرف دیکھتے پوچھا۔
ارے۔۔ یار۔۔۔ تعریف ہے یہ۔۔۔۔!!
by the way.. i m esha.. from gk.. and u??
عشا نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جسے تھوڑی دیر دا نے دیکھا پھر تھام لیا۔
i m dua..
دعا نے مکمل تعارف کروانا مناسب نہ سمجھا۔
بہت اچھا لگا تم سے مل کے۔۔۔۔!!
دعا نے مسکرا کے اپنی کتابیں اٹھاٸیں اور باہر کی جانب بڑھی۔
ایک ہمارے یہ پروفیسر ہیں۔۔ قسم سے پوری یونی کی لڑکیوں کا کرش ہے یہ بندہ۔۔۔ اور سر فہرست۔۔۔ وہ میڈم پروین ہیں۔
عشا کی بات پے ایک لمحے کو دعا کے چلتے قدم تھمے۔
کون۔۔۔ میڈم۔۔ پروین۔۔۔؟؟ کان کھڑے ہوٸے۔
ہاٸے۔۔۔۔ تم نہیں۔۔۔ جانتی۔۔۔ !!
اوہ۔۔۔ ہاں۔۔ تم تو نیو ہو۔ناں۔۔ کیسے پتہ ہو گا۔۔؟؟
چلو آٶ۔۔۔ تمہیں ملواٶں۔۔۔
پروفیسر شاہ کی دیوانی سے۔
وہ دعا کا ہاتھ تھامے اسے کینٹین لے گٸ۔
*********************************
وہ خط کھولے بیٹھا تھا۔ اس کا ایک ایک لفظ اسے ازبر ہوچکا تھا۔
لیکن۔۔ ناجانے کیوں اسکا دل ہی نہیں مان رہا تھا۔ کہ عفان ایک گناہ والی موت کو گلے لگا سکتا ہے۔
اسکابھاٸی اتنا بزدل نہیں تھا۔
اور اس خط کی کیا حقیقت تھی۔ وہ اب نور العین سے ہی پتہ چلنی تھی۔
I swear noor ..
اگر تم۔۔ اس سب کی قصور وار ہوٸی۔۔
then i will kill you.
غصے سے کہتے اس نے خط کو واپس ڈاٸری میں رکھا۔
جو حالات چل رہے تھے۔ اس میں اسکا یقین ڈگمگا گیا تھا۔
نور یا تو واقعی بہت معصو م تھی۔۔ یا بننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
اور ان سب میں۔۔ یہ ابرار شاہ۔۔۔
وہ کب سے دیوانہ ہونے لگا۔۔۔ نور کا۔۔۔؟؟
یہی بات فارس کو کھٹک رہی تھی۔
وہ گیلری میں جا کھڑا ہوا۔
نظر بے اختیار نور کے روم کی طرف اٹھی۔ آج وہ وہاں نہیں تھی۔
فارس کا دل اداس ہوا۔
لیکن ۔۔ پھر واپس اندر آگیا۔ جانتاتھا اسے چوٹ آٸی ہے پاٶں پر۔۔ ورنہ وہ گیلری میں ضرور آتی ہے۔۔۔
دروازے پے ناک ہوٸی۔ نجمہ کھانےکا پیغام۔لے کے آٸی تھی۔
آتاہوں۔
سنجیدگی سےکہتا وہ لاکر بند کرنے لگا۔
ایک نہ ایک دن یہ راز بھی ضرورکھل جاٸے گا۔
فارس لاکر۔لاکڈ کرتا نیچے کی جانب بڑھا۔ کہ اس کے نکلتے ہی ایک ہیولہ اندر داخل ہوا۔
اور بہت احتیاط سے فارس کےلاکر کی طرف بڑھا۔
لیکن لاکر لاکڈ تھا۔
اسکی key….. آنے والا سوچ میں پڑ گیا۔
درازوں میں چیک کیا لیکن نہ ملی۔لب بھینچے وہ ہیولااسی خاموشی سے باہر نکل گیا۔
**********************************
وہ دیکھو۔۔۔۔!! میک اپ کٹ۔۔۔!! عشا نے اسے میم پروین کا دیدار کرایا۔
تتلی کی طرح پروفیسر شاہ کے گرد منڈلاتی رہتیں ہیں۔٠لیکن مجال ہے۔۔ مسٹر ایٹیٹیوڈ ایک نظر بھی اس پر ڈالیں۔
ہممممممم!!۔ دعا نظر پھیر باہر نکلی۔
تم کہاں۔۔ چلی۔۔؟؟ شا نے روکا۔
کچھ کام ہے لاٸیبریری تک جا رہی ہوں۔
ارے رکو۔۔۔ کچھ کھا لیتے ہیں پھر ایک ساتھ چلتے ہیں۔
عشا نے روکنا چاہا۔
نو۔نو۔۔ مجھے بھوک نہیں۔۔
you carry on…
دعا سہولت۔سے انکار کرتی وہاں سے لاٸبریری کی جانب بڑھی۔
جبکہ دماغ میں صرف اور صرف زیان شاہ تھا۔
اپنے خیالوں میں گم وہ چلی جا رہی تھی۔ کہ کسی نے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اور وہ توازن بر قرار نہ رھ پاٸی اور کھینچی چلی گٸ۔
ایک بڑے درخت کے پیچھے وہ اسے لیے تقریباً چھپ سا گیا تھا۔
سامنے دشمنِ جاں پے نظر پڑی تو غصہ عود کر آیا۔
اور منہ پھیر لیا۔۔ جو اسکی ناراضگی کاکھلا اظہار تھا۔
منہ کیوں بنایا ہوا ہے۔۔۔؟؟ زیان نے بہت پیار سے پوچھا۔
آپ سے مطلب۔۔۔؟؟ مسٹر شاہ۔۔۔ اوہہ نونو۔۔۔۔ پروفیسر شاہ۔۔۔۔!! دعا نے طنز کیا تو زیان شاہ کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
میری۔ دنیا۔۔ خفا ہوگٸ۔۔۔؟؟
زیان نے پیار بھری نظر ڈالتے کہا۔ تو اس نے مزید منہ بنا لیا۔
آپ۔۔ بہت بڑے جھوٹے ہیں۔مسٹر شاہ۔!!
دعا ناراضگی میں اسے مسٹر شاہ کہہ کے ہی مخاطب کیا کرتی تھی۔
بالکل نہیں۔۔۔ چھپا رستم ہوں۔۔۔ !! اسے خود سے قریب کرتے ایک آنکھ ونک کرتے بولا۔
دعا کے دل کی دھڑکن تیز ہوٸی۔ اور اپنا ہاتھ چھڑایا۔
مجھے آپ سے کوٸی بات نہیں کرنی۔ شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی وہ منہ موڑ گٸ۔
شام کو آٶں گا لینے۔۔ پھر سب کچھ بتاٶں گا ڈیٹیل میں۔۔ !! امیدکرتا ہوں۔۔۔ یہ راز راز ہی رہے گا۔۔۔!! کان میں سر گوشی کی۔
کونسا راز۔۔۔؟؟ انجان بنتے پوچھا۔
وہ بھی۔۔ شام کو آ کے بتاٶں گا۔
مزید کان کے قریب ہوتے دھیمے سے کہتے وہ دعا کے کان پے اپنا لمس چھوڑ گیا۔ دعا تو اندر تک کانپ گٸ۔ وہ جا چکا تھا۔
مسٹر زیان۔۔۔۔۔شاہ۔۔۔ زیرِ لب اس نے نروٹھے پن سے نام۔لیا۔
*********************************
سبھی ڈاٸیننگ ٹیبل پر خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف۔تھے۔
عین وہاں ان میں نہیں تھی۔ پاٶں کے چوٹ کی وجہ سے وہ اپنے روم میں ہیتھی۔
ماریہ شاہ نے اسکاکھانااس کے روم۔میں ہی پہنچا دیا تھا۔
فارس کی نظر ابرار شاہ پے پڑی۔ جو منہ نیچے کیے کھانا کھانے میں مصعوف تھا
فارس کے ماتے پے تیوری چڑھی۔ لیکن لب بھینچے خاموشی سے ڈاٸیننگ ٹیبل پے بیٹھا۔
مجھے۔۔ آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔
کھانے کے اختتام پر دلاورشاہ نے سب کومخاطب کیا۔ تو سبھی ان کی طرف متوجہ ہوٸے۔
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جمعہ کو نو ر العین کی رخصتی کر دی جاۓ۔
یہ بات تو ابرار شاہ پے پہاڑ بن کے ٹوٹی ۔ ہ کچھ کہنے لگا کہ ساتھ بیٹھے باپ کبیرشاہ نے روکا۔
امید کرتا ہوں۔۔ سب ساتھ دیں گے۔ کیونکہسب نے ملکے ہی کرنا ہے۔۔ سب کچھ۔۔ !!
دلاور شاہنے باورکرایا۔
جی بھاٸی صاحب اللہ نور العین کے ۔۔۔نصیب اچھے کرے۔
کبیر شاہ نے سوچتے اٹکتے ہوٸے کہا۔
فارس کی تیز نظروں سے وہ دونوں باپ بیٹا زیادہ دیرچھپ نہیں سکتےتھے۔
ابرار جھٹکے سے اٹھا۔گہرے لمبےسانس لیے۔ایک شکوہ کناں نظر باپ پے ڈالی اور وہاں سے واک آٶٹ کر گیا۔
دلاور شاہ نے آگے بڑھ کے بیٹے کو گلے لگایا۔
اب تو خوش ہے ناں ہمارا بیٹا۔۔۔۔؟؟
پیار سے پوچھا۔ تو فارس زیرِ لب مسکرایا۔
وہ بہت ہی کم مسکراتا تھا۔
اسکی مسکراہٹ بہت الگ سی تھی۔ دلاور شاہ اسے مسکراتا دیکھ پھر سے گلے لگا گٸے۔
کہیں دماغ کے کونے میں عفان آج بھی زندہ تھا۔ اور وہ عفان کو فارس میں ہی تلاش کرتے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو عفان نے کیا۔۔۔ اپنے آپ کے ساتھ۔۔۔ ایسا قدم۔کوٸی اور اولاد اٹھاٸے۔
اس لیے بروقت فیصلہ لے کے انہوں نے فارس کو مطمیٸن کیا تھا۔
الماس بیگم اور ماریہ شاہ نے بھی دعاٸیں دیں۔
جبکہدردانہ شاہ بھی نامحسوس انداز میں وہاں سے اٹھ گٸیں۔
مبارک ہو۔۔۔۔ فارس۔۔۔!! امید کرتا ہوں۔۔ اللہ سے اب سب خیر خیریت سے ہو۔۔ کبیر شاہ مبارک باد دیتا ساتھ طنز بھی کر گیا۔
سب نے ایک نظر انہیں دیکھا۔
ارادے جن کے پختہ ہوں۔
نظر جن کی خدا پر ہو۔
تلاطم خیز موجوں سے
وہ گھبرایا نہیں کرتے۔۔۔
فارس نے بڑی ہی کوٸی انداز میں شعر پڑھا تو کبیر شاہ اسے دیکھتے ہی رہ گٸے۔ جبکہ فارس بھی انکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ ایک پل کو نظر نہ جھپکی۔
وہ خاموشی سے وہاں سے نکل گٸے۔
فارس سر جھٹک کے ماں کی طرف بڑھا۔
*********************************
ابرار اپنے روم میں آتےکمرے کی ہر چیز تہس نہیس کررہا تھا۔
نہیں۔۔۔ نہیں ہو سکتی۔۔۔ وہ کسی اور کی۔۔۔۔
وہ صرف میری ہے۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی وہ سب کچھ الٹ پلٹ کررکھ دیا۔
دردانہ بیگم اند ر داخل ہوٸیں۔
اور آگے بڑھ کےبیٹے کوسنبھالنا چاہا۔ جو آپے سے باہر ہو رہا تھا۔
میرے۔۔ بچے۔۔۔ کیا حالت بنا لی ہے تم نے۔۔۔ اس لڑکی کی خاطر۔۔۔؟ منہ دیکھو اپنا ۔۔۔ کتنا۔۔۔ بگاڑ لیا ہے۔۔۔!!
دردانہ بیگم کو اسکے چہرے کا بگڑا نقشہ دیکھ صبح سے غصہ آیا ہوا تھا۔
انہیں سچ نہیں پتہ تھا۔ انہیں لگا وہ باہر مار پیٹ کر کے آیا ہے۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔!! پہلے خود کو چھڑایا۔ پھر واپس ماں کی جانب آیا۔اور ان کے ہاتھ تھام لیے۔
امی۔۔۔۔ مجھے۔۔ عین چاہیے۔۔۔۔!!
انکا جوان جہاں بیٹا ٹوٹ کر بکھ رہا تھا وہ خود بھی رو دیں۔
کہ کبیر شاہ اندر آٸے اور روم کو لاکڈ کیا۔
آپ۔۔ سارے کیے کراٸے پے پانی پھیردو گے۔۔۔کب عقل آٸے گی آپ کو۔۔۔؟؟
کبیر شاہ نے بیٹے کو ڈپٹا۔
بابا۔۔۔ وہ مجھے چاہیے۔۔۔ ورنہ۔۔۔ میں کچھ۔۔ بھی کر گذروں گا۔ وہ دیوانہ وار رویا تھا۔ بیٹے کا رونا دیکھ دردانہ شاہ بھی رو دیں۔
وہ آپ کی ہی ہے۔۔۔!! آپ کو ہی ملے گی۔۔۔ ! اپنے باپ پے بھروسہ کرو۔ کبیر شاہ نے سختی سے اس جھنجھوڑے باور کرایا۔ تو اس نے اپنےآنسو صاف کیے۔
ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔۔۔۔ فارس شاہ۔۔ خود کو بہت چالاک سمجھتا ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ سب چالاکی۔۔ اسکی دھری کی دھری رہ جاٸے گی۔
بس انتظار کرو۔۔۔۔!! جمعہ آنے میں ابھی دو دن ہیں۔۔۔ اتنی جلدی ہمت مت ہارو۔۔۔
کبیر شاہ نے شاطرانہ انداز میں کہا۔
کوٸی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیاپلاننگ کرر ہے ہیں۔۔
لیکن۔۔۔ان کے ارادے کافی خطر ناک تھے۔
#########################
شام کو زیان دعا کا فلیٹ پے لے آیا
سارے راستےدعا نے چہرہ پھیرے رکھا۔
زیان بھی سنجیدہ تھا۔گھر کے اندر آتے ہی دعا زیان سے دور ہوٸی۔ کہ زیان نے کھینچ کے اسے اپنے قریب کیا۔
یہ کیا ہے سب۔۔۔؟ کیوں ایسے بی ہیو کر رہی ہو۔۔۔؟؟ زیان کا انداز بت سنجیدہ تھا۔
یہ۔۔آپ پوچھ رہے ہیں۔۔؟؟ مسٹر شاہ۔۔۔؟؟ آنکھوں میں حیرانی تھی۔
میں نے کہا ہے۔۔ ناں۔۔ بتا تا ہوں۔۔ ساری بات۔۔۔ پھر کیا مٸسلہ ہے۔۔۔؟؟ زیان کو اسکے ناداز سے چڑ ہوٸی۔
مجھے نہیں۔۔ سننا کچھ بھی۔
نروٹھے پن سے کہا۔ زیان شاہ کا ریہ دعا کی آنکھیں نم کر گیا۔
تو ٹھیک ہے مت سنو۔۔۔!! ایک چاٸے کا کپ بنا کے دو مجھے۔۔۔۔!! سر میں درد ہے بہت۔۔!!
زیان نے سر پکڑتے دباتے کہا۔ تو ایک بھرپور غصے والی نظرزیان پے ڈالتی وہ کچن کی جانب بڑھی۔
اس فلیٹ میں وہ ایک دو بار پہلے بھی زیان کے ساتھ آچکی تھی۔
اسلیے جانتی تھی کہ کونسی چیز کہاں ہے۔
اسلامآبادمیں بھی اکی ایک حویلی تھی۔ جو چھوٹی حویلی کے نام سے جانی جاتی تھی۔
اکثر ساری فیملی مل کےاسلام آباد آتے اور اسی حویلی میں رہتے۔
لیکن زیان اکیلا تھا۔اس نے فلیٹ میں رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔
اور دعا نے ہاسٹل میں۔
کچھ ہی دیر میں دعا چاٸے بنا کے لے آٸی ۔
اس دوران زیان گھ رمیں بات کر رہا تھا۔
الامس بیگم نے اسے نور العین کی رخصتی کابتایا تھا۔اور تاکید کی تھی کہ وہ دونوں کل ہی آجاٸیں۔
جب کہ انہیں آٸے بمشکل دو دن ہی ہوٸے تھے۔
لیکن ماں کا حکم وہ۔ٹال نہیں سکتا تھا۔
تم نہیں پیو گی۔۔۔؟؟ چاٸے کاایک ہی کپ دیکھتے زیان نے سرسری سا پوچھا۔
دعا خاموش رہی۔ زیان بھی چاۓ پیتے موباٸیل یوز کرنے لگا۔
دعا کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
مجھے۔۔۔ واپس چھوڑ آٸیں۔
جب کافی دیر خاموشی رہی تو دعا نے لب بھینچتے ہوٸے کہا۔
زیان کواسکی بات پے سخت غصہ آیا۔لیکن ضبط کر گیا۔ اور خاموش رہا۔
آپ نے سنا نہیں۔۔۔ مسٹر شاہ۔۔۔؟؟ مجھے واپس چھوڑ کے آٸیں۔
اب کے لہجہ تیز تھا۔
آج۔۔رات یہیں۔۔ رہو گی۔۔۔ !! زیان نے چاٸے کاکپ ٹیبل پے رکھتے سرد لہجے میں کہا۔
دعا کے تو چودہ طبق روشن ہوگٸے۔
کیوں۔۔۔؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔ آپ۔۔۔مجھے۔۔ چھوڑ۔کے۔۔۔۔!!
شیییییییی!!
زیان نے کھینچ کے اسے خود کے قریب کیا۔
بہت فاٸدہ اٹھا رہی ہو میری نرمی کا۔۔۔!!
کچھ کہتا نہیں۔۔ تو اسکامطلب یہ نہیں۔۔کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔
لہجہ ابھی بھی سرد تھا۔
وہ کہاں اسکے اس رویے کی عادی تھی۔۔۔۔؟؟
اسکی اتنی سی بات پے نین کٹورہ آنکھیں آنسوٶں سے بھر گٸیں۔
زیان نے خود کومزید کچھ کہنے سے روکا۔
اور گاڑی کی چابیاں اٹھاٸیں۔
باہر آجاٶ۔۔ ویٹ کر رہا ہوں۔
بنا اسکی طرف دیکھے وہ باہر نکلا۔ جبکہ دعا اپنےآنسو صاف کرتے ایک روم۔میں چلی گٸ۔
اور جاتے ہی روم لاکڈکرتے رونے لگی۔
وہ زیان شاہ سے اسطرح کا رویہ ایکسپٹ نہیں کر پارہی تھی۔
زیان نے کافی دیر گاڑی میں بیٹھے اسکا ویٹ کیا۔ وہ نہ آٸی تو غصے سے اندر کیجانب بڑھا۔
*************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...