“نور تمہیں کس نے اجازت دی تھی کہ احمد کو میرا پتہ دو”
“واٹ؟ پاگل تو نہیں ہو گئی تم ۔ آ کر بیٹھی بھی نہیں اور فضول باتیں شروع کر دیں۔ بے فکر رہو۔ میں تم سے پوچھے بغیر احمد کو تمہارا پتہ نہیں دوں گی”
“مطلب تم نے نہیں دیا؟ ”
مالا نے پوچھا تو نور نے اسکی آواز میں چھپی پریشانی کو محسوس کر لیا۔ وہ فورا مالا کے پاس چلی آئی
“کیا مطلب احمد تمہارے گھر آیا تھا؟ ”
جواباً مالا نے اسے پوری کہانی سنا ڈالی۔ مالا کی زبانی خان کا جواب سن کر اس نے کسی کو اندر نہیں بھیجا، نور بھی وقتی طور پر پریشان ہوگئی۔ مگر پھر فورا ہی بولی
“محبت بیٹا محبت۔۔۔یہ جو تمہیں ہواؤں میں بھی احمد دکھ رہا ہے نا۔ ہو نہ ہو۔ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے”
“پلیز نور۔ بکواس مت کرو۔ ایک تو تم کسی بات کو سیریس نہیں لیتی ۔ میں تمہیں پاگل لگتی ہوں کیا جو جھوٹ بولوں گی۔ احمد واقعی آیا تھا۔ ”
“ہاں لگتی تو پاگل ہی ہو۔اگر آیا تھا پھر گیا کہاں۔ تمہارا وہم ہے ڈارلنگ۔ اور کچھ نہیں ۔ سٹریس لے رہی ہو تم شاید۔ حالانکہ اس دن ریزورٹ میں بھی میں نے کافی کوشش کی کہ تمہارا موڈ خوشگوار ہو جائے۔ ”
نور مالا اور احمد کی آخری مالاقات کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اور مالا نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا۔ نور نے ہنس کر بات ٹال دی کہ مالا کا وہم ہوگا۔
“چلو مالا سیل لگی ہے زبردست۔ ذرا دیکھ کر تو آئیں۔ ”
نور حسب معمول مالا کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی۔
واپسی پر نور کی فرمائش پر وہ سڑک کنارے کون آئسکریم کھانے رک گئیں۔
تبھی ایک مانوس آواز مالا کے کانوں سے ٹکرائی “اسلام علیکم! ”
مالا اور نور نے مڑ کر دیکھا۔ حمزہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔
“جی آپ کا تعارف ” نور نے حیرت سے پوچھا تو حمزہ سے پہلے مالا بول اٹھی “نور یہ حمزہ ہیں”
نور نے ایک نظر حمزہ اور پھر مالا کو دیکھا۔ “ہاں ۔ انکا نام بھی حمزہ ہی ہے ۔ “پھر حمزہ کی طرف دیکھ کر بولی “وہ دراصل نور کے ہسبینڈ کا نام بھی حمزہ ہی ہے ”
“اوہ اچھا! “حمزہ مسکرا دیا
نور نے بیچ میں ٹوکا “وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ ہیں کون؟ کہاں سے ٹپکے۔ اور میں انہیں کیوں نہیں جانتی؟ ”
“ارے ارے اتنے سوال ایک ساتھ۔ ”
اس بار جواب حمزہ نے دیا۔
“آپ ذرا چپ کریں۔ میں اپنی دوست سے پوچھ رہی ہوں۔”
نور نے کہا تو حمزہ نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ “نور یہ میرے کمرے کی کھڑکی سے جو پارک نظر آتا ہے نا۔ وہاں ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔ اور دو تین دفعہ مل چکے ہیں مجھے ۔ بس یہاں وہاں نازل ہوتے رہتے ہیں” ” مالا نے تفصیلاً بتایاتو نور معنی خیز نظروں سے حمزہ کا جائزہ لینے لگی ۔
“آئسکریم لیں گے ۔ ”
نور نے پوچھا تو حمزہ نے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ وہ ضروری کام سے یہاں سے گزر رہا تھا۔بس مالا کو دیکھ کر سلام کرنے چلا آیا۔
“دیکھیں اگر آپکو لگتا ہے کہ میری یہ سڑیل دوست آپ سے آئسکریم کھانے کا پوچھے گی تو آپ کی غلط فہمی ہے۔ لہذامیری مانیے اور ایک کون کا ساتھ دے دیجیے۔ ”
نور نے حسبِ عادت کھلے ڈلے انداز میں کہا تو حمزہ چہکتے ہوئے بولا “یہ سڑیل والی بات تو آپ نے سو فیصد ٹھیک کہی ہے۔ اسی بات پر ہو جائے ایک کون۔ ”
حمزہ نے بھی کون لے لی۔ اور ان کے ساتھ ہی سڑک پر قریب لگے بینچ پر بیٹھ گیا۔
“ویسے آپ کا مزید تفصلی تعارف۔ کرتےکیا ہیں آپ؟
نور نے سوال کیا۔
“جی ویسے کچھ خاص نہیں بس ایک چھوٹا سا بزنس ہے میرا۔
“اور امید ہے اب آپ کا یہ چھوٹا سا بزنس کسی فلم کی طرح پانچ سو ارب والا نہیں نکلے گا اور نہ ہی آپ کسی بزنس ٹائیکون کے بیٹے نکلیں گے جو چلتے پھرتے میری دوست کا عاشق ہو گیا ہے”
“باقی نہیں مگر آخری بات کیا پتہ سچ ہو جائے”
نور اور حمزہ کی ہنسی مالا کے کانوں میں پڑی مگر مالا نے انکی بات نہیں سنی۔ اسکا دھیان سامنے پارکنگ میں موجود گاڑی کی طرف تھا۔ جہاں احمد ایک لڑکی کی ساتھ بیٹھا کوئی بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
کون تھی یہ لڑکی؟ شاید اسکی منگیتر جس کے بارے میں اسے احمد نے بتایا تھا۔ ان دونوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ان کے درمیان کافی گہری وابستگی ہے۔ انہیں دیکھ کر مالا کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔
مالا نے خود سے سوال کیا۔۔
کیا اسے احمد کو اس طرح کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر جلن ہو رہی تھی؟
اسکے دل نے جواب دیا “بالکل نہیں ”
تو پھر اسے احمد کو اس لڑکی کے ساتھ دیکھ کر برا کیوں لگ رہا تھا؟ اسے ایسے کیوں لگ رہا تھا جیسے اس کے جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ احمد نے اس سے جھوٹ بول کر ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی ہو۔ مگر احمد نے تو سب سچ سچ بتا دیا تھا۔ لیکن صحیح وقت پر سچ کو چھپانا بھی تو جھوٹ ہی ہوتا ہے نا۔ اگر احمد اسے پہلی ملاقات میں ہی اپنی منگنی کے بارے میں بتا دیتا تو کیا وہ احمد سے دوبارہ ملنے پر راضی ہوتی۔ ہرگز نہیں ۔ کبھی نہیں ۔
اس کی اپنے دل سے ایک تکرار سی جاری تھی جب نور نے اچانک کہا”اچھا آئسکریم تو ختم ہوئی۔ اب چلنا چاہیے ورنہ رات تک یہیں بیٹھے رہیں گے۔
مالا فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں نے حمزہ کو خداحافظ کہا اور پارکنگ کی جانب چل دیں۔ جہاں نور نے بھی گاڑی پارک کر رکھی تھی۔
“کیا ہوا مالا چپ کیوں ہو؟ ”
ہمم۔۔کچھ نہیں ” نور کے پوچھنے پر مالا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔
“ویسے حمزہ برا لڑکا نہیں ہے ”
“تو میں کیا کروں؟ ”
اس روکھے سے جواب پر نور نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے مڑ کر مالا کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔ مالا کے تاثرات بالکل سپاٹ تھے۔
“میرا مطلب ہے وہ ایک اچھا لڑکا ہے”
نور نے دوبارہ کہا تو مالا نے اسے گھور کر دیکھا۔
“تم احمد کو اس لڑکی کے ساتھ دیکھ کر اپ سیٹ ہو نا”
نور نے کہا تو مالا نے چونک کر دیکھا۔ یعنی نور نے بھی احمد کو دیکھ لیا تھا۔ مگر اس وقت کچھ کہا نہیں۔ “وہ سبیکا ہے۔ احمد کی منگیتر”
مالا نے نور کو حیرانی سے دیکھا تو نور نے کہا “مجھے معلوم تھا مالا۔ مگر میں نے جان بوجھ کر تمہیں نہیں بتایا۔ مصلحتا خاموش رہی کہ شاید اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔ اب تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد سے ملنے اور تم سے ملوانے کے پیچھے میرا ایسا ویسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میرا مطلب تم اور وہ۔۔۔میں صرف تمہاری خوشی چاہتی تھی”
نور اپنی دھن میں صفائی دیے جا رہی تھی ۔ مالا نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ اس نے نور کو نہیں بتایا کہ وہ احمد کی منگیتر کے بارے میں جانتی ہے۔سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ خزاں کی تنہائی چپکے سے جاڑے کی خاموشی میں تبدیل ہو گئی۔مالا کمبل میں لیٹی سوچ رہی تھی کہ ان چند ماہ میں اس کی زندگی میں کیا سے کیا ہو گیا۔۔
حیدر کے چلے جانے کے بعد اس زندگی میں ایک سرد سا انتظار اور تنہائی ہی بچے تھے۔ پھر اچانک کہیں سے احمد چلا آیا۔ اتنے سالوں کے بعد اگر وہ نہ بھی آتا تو کیا ہوتا۔ مالا کی زندگی بہت الگ ہوتی۔مگر وہ تو اس کے آنے کے بعد بھی ویسی ہی ہے جیسی اس کے آنے سے پہلے تھی۔ بے رنگ اور پھیکی ۔۔۔
اسکا دھیان حمزہ کی طرف چلا گیا۔ نور اسکی تعریف کر رہی تھی۔ مالا نے کبھی اس آدمی سے تفصیلی بات نہیں کی تھی۔ اور کرتی بھی کیوں۔
نور تو پاگل ہے۔ اس کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ عورت کی زندگی میں ہر وقت ایک مرد کا ہونا لازمی ہے۔ لیکن اسکی زندگی میں حیدر ہے تو سہی۔کیا نور کو بھی سب کی طرح یہی لگتا ہے کہ حیدر اس دنیا میں نہیں ۔ ۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ حیدر زندہ ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ حیدر بھی کہیں نہ کہیں مجھ سے ملنے کا انتظار کر رہا ہے۔ حیدر نے میری جھولی میں میری زندگی کے سب سے حسین سال ڈالے ہیں۔ وہ کم از کم احمد کی طرح مصلحتاً کہیں چھپ نہیں سکتا۔
پھر اسے خود ہی اپنی سوچ پر غصہ آنے لگا۔ وہ حیدر جیسے عظیم انسان کو احمد جیسے خودغرض آدمی کے ساتھ کیوں ملا رہی تھی؟
اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور اسکے کمبل میں جذب ہو گئے۔ اس نے دل سے دعا کی کہ اسے حیدر کی کوئی خبر مل جائے۔
آج اتوار کا دن تھا۔ نور حسب معمول پھر آن دھمکی تھی۔
“آج کیا پلان بنا کر آئی ہو ”
مالا نے پوچھا تو نور نے جواب دیا “آج ہم فلم دیکھنے جا رہے ہیں”
“توبہ ہے لڑکی تم سے۔۔۔ ہر وقت تمہارے دماغ میں کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔ حمزہ پتہ نہیں کیسے برداشت کرتا ہے تمہیں۔”
مالا کے کہنے پر نور ہنس پڑی
“اسے اپنی فائلوں سے فرصت ملتی ہو تو مجھ پر ریسرچ کا وقت ملے نا”
“بھئی اتنی فرصت ہے تو کوئی خوشخبری سنا دو ہمیں خالہ بننے کی”
“کہاں۔ تمہں تو پتہ ہے کہ حمزہ کو فی الحال کوئی انٹرسٹ نہیں بچے پیدا کرنے میں۔تین چار سال تک سوچیں گے.”
“سوچتی ہی رہنا۔ اور یہاں میں بوڑھی ہو جاؤں گی تمہارے بچے گود کھلانے کی آس میں۔ ”
مالا نے کہا تو نور مسکراہٹ دبا کر بولی “ویسے اگر تم کہو تو تمہیں بھی ایک حمزہ لا دیتی ہوں۔ پھر تم بھی دو چار گل کھلا لینا”
“شٹ اپ نور۔ کچھ بھی بولتی ہو۔۔”
نور کو ایک دم احساس ہوا کہ مذاق میں وہ مالا کے جذبات کو ٹھیس پہنچا گئی ہے۔ مالا اور حیدر شادی کے ابتدائی سالوں میں بچے کو کھونے کا غم دیکھ چکے تھے۔ مالا تین ماہ کی امید سے تھی جب اچانک اسکا پاؤں پھسل گیا۔ اور تب سے لے کر حیدر کی گمشدگی تک انکی شادی کو نو سال ہو گئے مگر انکی گود ہری نہ ہوئی تھی۔ حیدر کی محبت نے کبھی مالا کو سونی کوکھ کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں اتنے خوش تھے کہ کسی تیسرے کی کمی محسوس ہی نہ ہوئی۔ اگر کبھی مالا ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر جذباتی ہو بھی جاتی تو حیدر کی محبت پھاہا بن کر انکی زندگی پر لگے اس زخم کے کھرنڈ کو رسنے سے بچا لیتی ۔مالا کا موڈ آف ہو گیا۔ نور نے فلم دیکھنے کا پلان کینسل کر دیا اور وہیں صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی آن کر دیا۔
“انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے۔۔۔سربراہ جماعتِ مسلمین پاک ”
” کوئٹہ مین بازار میں دھماکہ۔۔۔پندرہ آدمی شہید”
“طالبان سے مذاکرات کیے جائیں گے تاکہ امن کی کوئی راہ نکالی جا سکے”
“دہشت گردوں کے علاقوں پر فائرنگ ۔۔۔ چار دہشت گرد ہلاک”
یہ تھا آج کا بلیٹن ۔۔۔دنیا بھر سے دلچسپ نیوز دیکھیے صرف چینل خاص پر”
مالا نے ریموٹ کھینچ کر ٹی وی بند کر دیا۔۔۔ “یہ سب بھیانک اور موت کی خبریں ہیں۔ جانے کیسے یہ چینل والوں کو دلچسپ لگتی ہیں۔ تمہیں کوئی اور چینل نہیں ملتا لگانے کو”
“افوہ لگایا ہی ہے کہ کھینچ رہی ہو۔ فلم دیکھنے کیلیے بھی منہ بنا لیا ہے۔ اچھا چلو واک پر ہی چلتے ہیں”
“نور کیا میں تمہیں بہت تنگ کرتی ہوں؟ ”
واک کرتے ہوئے مالا نے سوال کیا۔
“ہاں۔۔۔اور میرا جی چاہتا ہے کہ تمہارا گلا دبا دوں۔ ”
“سچی؟ ”
مالا نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔
“مچی” نور نے اسی کے انداز میں جواب دیا تو مالا اداس سی ہو گئی۔
“اوہو بابا ایک تو تم ہر بات دل سے لگا لیتی ہو۔ اتنا سیریس مت ہوا کرو۔ بس تمہیں تنگ کر رہی تھی تھوڑا سا۔ ورنہ تم تو میری سب سے پیاری دوست ہو”
نور نے مالا کے گال پر پیار سے چٹکی کاٹی۔
“تھوڑی سی محبت ادھر بھی نچھاور کر دیں۔ ہم بھی کھڑے ہیں راہوں میں”
مالا اور نور نے چونک کر دیکھا ۔ سامنے ہی حمزہ کھڑا تھا۔
“میں تو آپ کو اچھا خاصا شریف آدمی سمجھ رہی تھی”
“کیوں شریف آدمی واک نہیں کرتے کیا؟ ”
نور نے کہا تو حمزہ نے بھی فورا ہی جواب دیا۔
“واک تو کرتے ہیں مگر یوں لڑکیوں کا پیچھا نہیں کرتے”
نور بھی کہاں ہات ماننے والی تھی۔
“پہلی بات یہاں لڑکی تو ہے نہیں کوئی۔۔ بس دو خوش فہم خواتین کھڑی ہیں۔۔۔ دوسری بات کہ بندہ ناچیز کا گھر بھی یہیں ہے لہذا پیچھا کرنے کا الزام نہیں لگا سکتیں آپ”
“اچھا۔۔۔زیادہ چالاک مت بنیے۔۔۔سچ سچ بتائیے آپ میرا اور مالا کا پیچھا کر رہے ہیں نا”
نور نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا۔
“پیچھا اور آپ کا۔۔۔نہ بھئی نہ۔۔۔ہاں یہ ایک راؤنڈ سے آپکا پیچھا کر رہا ہوں۔ آپکو دیکھ لیا تو جلدی جلدی واک کرتے آپ تک آ گیا۔ تاکہ بات کر سکوں”
حمزہ جلدی چلنے کی وجہ سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ہانپ رہا تھا۔ نور نے اسکا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔ سچ کہہ رہا ہوں۔ بس اتفاق ہی سمجھیے”
“جی۔۔۔کچھ زیادہ حسین اتفاق نہیں ہو رہے ۔ مجھے سب پتہ ہے۔۔ مالا کے آس پاس آنے کے بہانے ہیں آپکے”
نور نے دانت چبا کر کہا۔
“اوہو تو آپ خود کو مالا جی سے کم سمجھتی ہیں کیا۔ آج تو آپ کو دیکھ کر ہی آ گیا ہوں۔ “حمزہ نے شرارت سے کہا تو نور اسکا مذاق سمجھ کر ہنس پڑی۔
“ویسے اسی بہانے وہاں سے چلتے ہوئے یہاں تک آپ ساتھ آگئے ہمارے”
نور نے فاصلہ بتانے کیلئے اشارہ کیا۔
“ویسے آپ کی دوست مجھے گونگی لگتی ہیں کبھی کبھی۔ کچھ بولتی نہیں ہیں زیادہ”
“ایسی بات نہیں ۔۔بس ریزرو نیچر ہے مالا کی”
نور نے صفائی بھرے انداز میں کہا۔ “اور یہ بھی آپکو ہی کہنا پڑ رہا ہے”
حمزہ نے لقمہ دیا۔
“جی فرمائیے کیا کہوں۔ بہت زیادہ زبان چلتی ہے آپ کی ۔ ”
مالا نے بیچ میں ٹوکا تو حمزہ بے اختیار بولا
“ارے واہ۔۔۔یہ کوئل سی نازک۔۔ مٹھائی سی میٹھی ۔۔۔اور گھنٹیوں کی طرح سریلی سی آواز تو کانوں میں رس گھول گئی۔ کچھ بھی کہہ دیں ۔۔۔بس کہتی ہی رہیں۔۔۔۔ ہم سنتے جائیں گے”
“آپ کچھ زیادہ ہی فلرٹ نہیں کر رہے میری دوست سے”
نور سے رہا نہ گیا۔“آپکو کوئی اعتراض ہے کیا؟ ”
“نہیں بالکل نہیں ۔۔۔”
نور نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
مالا نے جواباً گھور کر دونوں کو دیکھا۔ اور نور کو تو باقاعدہ دھمکی آمیز گھورا۔۔۔جیسے آنکھوں سے کہہ رہی ہو “آج زرا گھر چلو نور ”
مگر نور بھی کہاں سننے ماننے والی تھی۔
واک کا بقیہ وقت حمزہ اور نور نے باتیں کرتے ہوئے گزارا۔ دونوں نے کافی تفصیل سے ایک دوسرے کے بارے میں پوچھا اور بتایا۔مالا کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ مگر مالا نے زیادہ تر سننے کو ہی ترجیح دی۔ چند جملوں سے زیادہ کچھ نہ کہا۔
واپس جانے لگے تو حمزہ نے مالا کیطرف چہرہ کر کے کہا “آپ کے ہسبیںنڈ کا سن کر دکھ ہوا۔ اللہ انہیں جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ میرا مشورہ دینا شاید آپ کو برا لگے۔ مگر میرے خیال سے آپ کو زندگی میں آگے بڑھ جانا چاہیے”
مالا کو جیسے ایک دم کرنٹ لگ گیا “کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ میرے ہسبینڈ ابھی زندہ ہیں۔ اور آپ کچھ بھی بکواس کیے جا رہے ہیں۔ انکی کوئی خبر نہیں تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ کیسے بدتمیز آدمی ہیں آپ۔ آپ کو بات کرنے کی ذرا بھی تمیز نہیں ہے۔ ”
مالا نے تقریبا چیختے ہوئے کہا تو حمزہ اور نور ساکت سے ہو گئے۔ نور تو مالا کے رویوں کے اس اتار چڑھاو سے واقف تھی۔ مگر حمزہ شرمندہ ہو گیا۔
مالا مڑی اور گھر کی طرف چل دی۔ نور نے حمزہ سے معذرت کی اور مالا کی طرف بھاگی
*** **** ****
گھر پہنچ کر مالا کو تیز بخار چڑھ گیا۔ نور نے اپنے گھر فون کیا اور آج مالا کے پاس ہی رک گئی۔
رات کسی پہر کھٹکے سے نور کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً اٹھ بیٹھی ۔ مالا پاس ہی سو رہی تھی۔ اس نے مالا کا بخار چیک کیا۔ ابھی تک زیادہ تھا۔
کھٹکا دوبارہ ہوا۔ نور بستر سے اتر کر کمرے سے باہر نکلی۔ اسے ایسے لگا جیسے باہر لاؤنج میں کوئی ہے۔ نور دبے پاؤں لاؤنج کی طرف چلنے لگی ۔ اچانک اسے کمرے کا دروازہ بجنے کی آواز آئی۔ نور تیز قدموں سے دوڑتی ہوئی واپس گئی۔ مالا کو دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ” مالا نے پوچھا
“پہلے تم بتاؤ۔۔ابھی تو تمہیں چھوڑ کر گئی ہوں سوتا ہوا”
نور نے پوچھا تو مالا نے بتایا کہ وہ باتھ روم میں جانے کیلیے اٹھی تھی ۔ اور دروازہ کھلا دیکھ کر بند کرنے آ گئی۔
“مجھے لگا لاؤنج میں کوئی ہے ۔ ”
نور نے اپنے باہر آنے کی وجہ بتائی۔ مالا کے چہرے پر گھبراہٹ صاف نظر آنے لگی۔
“کیا مطلب کوئی ہے۔ گھر میں ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے”
مالا اور نور ہاتھ پکڑ کر ڈرتے ڈرتے لاؤنج میں پہنچیں ۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اچھی طرح چاروں اطراف دیکھ کر مالا کی جان میں جان آئی۔”تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا نور۔ میں نے کہا تھا نا کوئی نہیں ہے”
چلو واپس چلیں۔ مڑتے ہی مالا کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا خوبصورت مجسمہ تھا۔ جو سامنے ہی کانس پر پڑا تھا۔ مگر وہ وہاں کیسے آیا؟ ”
مالا کا چہرہ زرد پڑنے لگا۔ نور سمجھی کہ اسے چوٹ لگ گئی ہے۔ مالا نے بھی بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ نور کو ڈرانا نہیں چاہتی تھی۔اب سے تھوڑی دیر پہلے تک گھر میں ان کے علاوہ کوئی تیسرا بھی موجود تو تھا۔
مگر کون ہو سکتا ہے؟؟؟؟ اور ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی بھی گھر میں ہی موجود ہو۔
مالا اور نور واپس کمرے میں پہنچیں تو مالا نے فوراً دروازہ بند کر کے اچھی طرح اندر سے لاک کر لیا اور موبائل اٹھا کر نمبر گھمانے لگی۔